پاکستان اسلام، اسلامی معاشرے اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے تھا اور اسی لیے لاکھوں مرد و خواتین ، بچوں بوڑھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ قیامِ پاکستان دراصل سیکولر لابی کی شکست تھی۔ اسی لابی نے آج تک پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا۔ یہ لابی پاکستان کی جڑیں کھودنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ بیرونی اشاروں پر اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا سے فنڈ ز کے حصول کے لیے یہ لابی وقتاً فوقتاً مختلف ایشوز کھڑے کرتی رہتی ہے، اور اس کی آڑ میں اپنا شکار جاری رکھتی ہے۔ یہ نام کے مسلمان پاکستان میں مادر پدر آزادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھ میں تین ہندو لڑکیوں نے اسلام کیا قبول کیا کہ اس لابی نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ ان لڑکیوں کے قبولِ اسلام کا یہ واقعہ کوئی نیا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل بھی قبولِ اسلام کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ مذہب یا عقیدہ تبدیل کرنا کوئی نئی بات بھی نہیں، دنیا بھر میں لوگ اپنے نظریات و عقائد تبدیل کرتے ہیں لیکن اتنا واویلا کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ گذشتہ سال ٹونی بلیئر کی سالی نے اسلام قبول کیا لیکن اتنا واویلا نہیں ہوا۔
اس سارے معاملے میں گھوٹکی کے علاقے بھرچونڈ کا تذکرہ ہوتا رہا۔ جو درگاہ بھرچونڈہ کی وجہ سے معروف ہے جس کے سجادہ نشین میاں عبدالخالق عرف میاں مٹھو ہیں۔ اس درگاہ کا امتیاز ہے کہ اس میں ہندو کمیونٹی کے افراد آکر اسلام قبول کرتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ محمد بن قاسم کی آمد سے جاری ہے۔ ہوا یوں کہ ہندو کمیونٹی کی ایک لڑکی رنکل کمار(فریال بی بی) نے اسلام قبول کیا اور نویدشاہ سے شادی کرلی۔ بس پھر کیا تھا طوفان برپا ہوگیا۔ سیکولر لابی کے ہاتھ پروپیگنڈے کے لیے ایک واقعہ ہاتھ آگیا۔ میڈیا اور اس لابی نے مل کر جمہوریت، آزادی کے نام پر اس معاملہ کو اُچھالا۔
اسلام زور زبردستی اور جبر کا دین نہیں۔ قرآن میں ہے: لا اکراہ فی الدین (دین میں جبر نہیں)۔ اسلام قبول کرنے والے اپنی آزاد مرضی سے اسلام قبول کرتے ہیں۔ یہ تاریخِ اسلام کا روشن اور انمٹ باب ہے کہ مسلمانوں نے کبھی غیرمسلموں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ہو، یا ڈنڈے کے زور پر کلمہ پڑھایا ہو۔ موجودہ دور بجاطور پر کمپیوٹر کا زمانہ ہے۔ میڈیا نے بے پناہ ترقی کرلی ہے۔ اس میں جو اسلام کے دامنِ رحمت میں آتا ہے وہ کسی زبردستی اور جبر کے ساتھ نہیں۔ اسلام تو دلوں کو فتح کرتا ہے۔ یہ کوئی نئی مثال بھی نہیں ، دنیا بھر میں ہرروز بے شمار لوگ اسلام قبول کرتے ہیں اور اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ لیتے ہیں۔ امریکا سے لے کر برطانیہ تک اسلام کی تعلیمات لوگوں کے دلوں میں گھر کر رہی ہیں۔ پاکستان میں اگر کسی نے اسلام قبول کیا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔
تبدیلیِ مذہب کے ضمن میں سیکولر لابی کی جانب سے چند سوالات و اعتراضات کیے جاتے ہیں :
۱۔ہندو لڑکیوں کو ہی کیوں اغوا کر کے جبراً مسلمان کیا جاتا ہے اور مسلمان ان کے ساتھ شادی کیوں کرتے ہیں۔
۲۔تبدیلی مذہب اگر ہرکسی کا بنیادی حق ہے تو پھر مسلمانوں کو بھی تبدیلیِ مذہب کا حق کیوں نہیں دیا جاتا۔ پاکستان میں اقلیتیں غیرمحفوظ ہیں۔ یہ اور اس طرح کے اعتراضات سیکولر لابی کی جانب سے اُٹھائے جاتے ہیں۔
ہندو کمیونٹی مسلمانوں کا خصوصی ہدف کبھی نہیں رہی، یہ سراسر بہتان ہے۔ اسلام قبول کرنے والا خود اپنی آزاد مرضی سے فیصلہ کرتا ہے اور اسلام قبول کرتا ہے۔ ہندو مذہب میں چونکہ ذات پات کا بہت گہرا عمل دخل ہے اور ہندو مذہب میں کزن میرج کی جاتی ہے اور نہ دوسری شادی (بیوہ ہوجانے والی خواتین کے لیے دوسری شادی کی ممانعت ہے) ہندوؤں میں شادی بیاہ کے بھی بہت پیچیدہ مسائل ہوتے ہیں۔ ہندو لڑکیوں کے والدین کو شادی کے حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلاشبہہ ہندو لڑکیوں کے گھروں سے نکلنے اور قبولِ اسلام کے باعث بھی یہ رجحان فروغ پذیر ہے۔ علاوہ ازیں رشتہ ڈھونڈنے اور انتظام کرنے، پھر جہیز جیسے مسائل آڑے آتے ہیں۔ لیکن یہ واقعات اِکا دُکا ہوتے ہیں۔ ۲۰۱۱ء میں لاڑکانہ میں ۲۶۸ خواتین اغوا ہوئیں، ۲۰۱۲ء میں ۳۰۰ خواتین اغواہوئیں، مگر دو خواتین کے قبولِ اسلام کو اغوا کا نام دیا گیا۔ واویلا کیا گیا کہ جبرن مسلمان کیا گیا۔ اس طرح کے الزامات اور پروپیگنڈے کے ذریعے بعض نام نہاد این جی اوز اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کے پیش نظر صرف یہ ہے کہ اس طرح اسلام قبول کرنے والوں کا راستہ روکا جائے۔ بہت سی ہندو لڑکیاں جو اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں دراصل یہ ان کا راستہ روکنے کا ذریعہ ہے۔ لیکن یہ عناصر یہ بھول جاتے ہیں کہ سندھ کا معاشرہ جاگیردار اور وڈیرہ شاہی کا معاشرہ ہے جہاں جاگیردار اور وڈیرے کی مرضی کے بغیر کم ہی کچھ ہوتا ہے۔ جاگیرداروں کی نجی جیلیں ہیں جن پر غریب ہاری، مزدوری اور اغوا براے تاوان کے مجرم رکھے جاتے ہیں لیکن ان سیکولر عناصر کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا۔ اس غلامی اور جبر کے خلاف بھی صرف دینی طبقے نے ہی آواز بلند کی۔
دستور پاکستان ۱۹۷۳ء کی رُو سے اقلیتوں کو تمام بنیادی حقوق حاصل ہوں گے اور مذہبی آزادی (آرٹیکل ۲۰) بھی۔ اس کے تحت ان کو تمام مذہبی آزادیاں حاصل ہیں۔ پاکستان میں تمام اقلیتیں آئینی، سماجی، قانونی تحفظ رکھتی ہیں جو خود بھارت میں مسلمانوں کو حاصل نہیں۔ سیکولر اکثریت ملک ہونے کے باوجود مسلمانوں کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں اور نہ گھر، تہذیب و تمدن کے خطرات اپنی جگہ ہیں۔پاکستان واحد ملک ہے جہاں جداگانہ انتخابات قیامِ پاکستان کے مقاصد کا حصہ تھے۔ پرویزمشرف کے ’روشن خیال‘ دور میں جداگانہ انتخابات کا خاتمہ کر کے مخلوط انتخابات کا ڈول ڈالا گیا اور اقلیتوں کو ۔۔۔ ووٹ کا حق دیا گیا جو دنیا کی کسی جمہوریت میں نہیں ہوتا۔ اب سینیٹ میں بھی اقلیتوں کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے براہِ راست نمایندگی کا حق دیا گیا۔ پاکستان دستوری طور پر اسلامی ریاست ہے اور قرارداد مقاصد اس کا مستقل حصہ ہے۔ ایک نظریاتی اور اصولی مملکت کا ضابطہ اور طریقہ کار واضح ہے۔ اقلیتوں کو زبردستی اکثریت پر مسلط کی سازش ہے جو فساد کا ذریعہ بنے گی۔
سپریم کورٹ نے ان کا فیصلہ سناتے ہوئے انھیں اپنے شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی اور کہا کہ یہ بالغ ہیں جہاں جانا چاہیں جاسکتی ہیں، انھیں روکا نہیں جاسکتا۔ اس طرح اس کا ڈراپ سین ہوا۔ اس فیصلے پر لڑکیوں کے عزیز رشتہ دار، این جی اوز کے چند ارکان دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ ان بچیوں کے والدین کا جذباتی ہونا ایک قدرتی معاملہ ہے لیکن ای جی اوز اور میڈیا کی جانب سے اس واقعے کو اُچھالنا اور ہندو برادری پر مظالم کا رونا رونا عجیب ہے۔ اس سے دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص بُری طرح مجروح ہوا۔ ضرورت تھی کہ اس طرح کے معاملات کو آپس میں مل جل کر سلجھالیا جائے۔ مناسب ہوتا کہ این جی اوز اور سیکولر لابی ان معاملات کو اُچھالنے سے پہلے تحقیقات کرلیتے۔
ہندو کمیونٹی اور سیکولر لابی واویلے، چیخ و پکار اور نومسلم لڑکیوں کے ارتداد کے راستے میں جماعت اسلامی نے بھی نہایت حکمت کے ساتھ بند باندھا۔ کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں سیمی نارز منعقد کیے گئے۔ جن سے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، اسداللہ بھٹو، سجادہ نشین درگاہ بھرچونڈہ میاں عبدالحق میاں مٹھو نے اس مسئلے کے دینی، قانونی اور آئینی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جس سے عوام الناس کو اس مسئلے سے آگہی ہوئی۔
سیکولر عناصر اس ضمن میں قائداعظم محمد علی جناح کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کا بار بار حوالہ دیتے ہیں لیکن اس سے قبل کی گئی ان کی سیکڑوں تقاریر اور بیانات کو بھول جاتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے جس میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کو مذہبی آزادیاں بھی حاصل ہوں گی۔ دستورِ پاکستان ایک ایسی بنیاد فراہم کرتا ہے کہ جس میں اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کا رُوپ نہیں دھار سکا۔ وقتاً فوقتاً پاکستان میں برسرِاقتدار آنے والی مفاد پرست سیاسی قیادتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنی سیاسی ضروریات کے تحت ملک کی سمت کا تعین نہیں ہونے دیا۔ اور آج ہرطبقہ اپنی اپنی بولی بولتا نظر آتا ہے اور ملک میں بحرانوں کے سائے گہرے ہوتے جاتے ہیں۔ پاکستان کے بسنے والوں کے تمام مسائل، مشکلات اور پریشانیوں کا حل اسلامی فلاحی پاکستان میں ہے۔
معاشرے میں ایسے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں سیکولر عناصر اور میڈیا کے صاحبان بست وکشاد کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ایک طرف یہ عناصر سیکولرزم، روشن خیالی کا پرچار کرتے نہیں تھکتے۔ دوسری جانب ایسے واقعات کے نتائج پر واویلا کرتے نظر آتے ہیں، یہ کھلا تضاد ہے۔
معاشرے کو جس جانب میڈیا لے کر جارہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ٹی وی چینلوں پر ہالی وڈ اور اسٹارپلس کے ڈراموں، فلموں اور FM ریڈیو کے ذریعے جس محبت کا درس نوجوان نسل کو دیا جاتا ہے اس کا نتیجہ تو یہی نکلے گا۔ اس پر سیکولر عناصر کو واویلا کرنے کے بجاے خوشی کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔
سیکولر لابی چاہتی ہے کہ آیندہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی کے ذریعے مسلمان ہونے والوں کا راستہ روکا جائے اور مسلمان ہونے سے قبل مسلمان ہونے والے فرد کو مذہب کے مطالعہ کے لیے وقت دینا چاہیے۔ سندھ کے ۴۹ وزرا میں سے تین وزرا ہندو ہیں۔ سندھ اسمبلی میں سات رکن اور قومی اسمبلی میں سات، جب کہ سینیٹ میں تین ارکان مگر یہ لوگ اپنا کردار ادا کرتے نظر نہیں آتے۔ صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے سرگرداں و کوشاں محسوس ہوتے ہیں۔ ہندو کمیونٹی کو ان واقعات سے دُکھ پہنچنا فطری ہے لیکن اس میں مسلم کمیونٹی کا زور زبردستی اور جبر شامل نہیں۔ اسلام دین رحمت ہے، اس کی تعلیمات انسانوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔ اگر کوئی اسلام قبول کرتا ہے تو اس میں اغوا یا زبردستی کا عنصر شامل نہیں ہوتا۔ ایک فطری جذبہ محرک ہوتا ہے، جو دین فطرت کی جانب مائل کرتا ہے۔ باقی رہا سیکولر لابی کا معاملہ تو چونکہ اس واویلے کے ساتھ ان کے فنڈز اور پراجیکٹس اور عالمی ایجنڈے کو پورا کرنے کا کام وابستہ ہے۔ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے تمام مسائل حل بھی ہوجائیں تو ان کو سب ٹیڑھا ہی نظر آئے گا۔
سندھ میں تین ہندو لڑکیوں نے اسلام کیا قبول کیا کہ اس لابی نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ ان لڑکیوں کے قبولِ اسلام کا یہ واقعہ کوئی نیا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل بھی قبولِ اسلام کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ مذہب یا عقیدہ تبدیل کرنا کوئی نئی بات بھی نہیں، دنیا بھر میں لوگ اپنے نظریات و عقائد تبدیل کرتے ہیں لیکن اتنا واویلا کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ گذشتہ سال ٹونی بلیئر کی سالی نے اسلام قبول کیا لیکن اتنا واویلا نہیں ہوا۔
اس سارے معاملے میں گھوٹکی کے علاقے بھرچونڈ کا تذکرہ ہوتا رہا۔ جو درگاہ بھرچونڈہ کی وجہ سے معروف ہے جس کے سجادہ نشین میاں عبدالخالق عرف میاں مٹھو ہیں۔ اس درگاہ کا امتیاز ہے کہ اس میں ہندو کمیونٹی کے افراد آکر اسلام قبول کرتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ محمد بن قاسم کی آمد سے جاری ہے۔ ہوا یوں کہ ہندو کمیونٹی کی ایک لڑکی رنکل کمار(فریال بی بی) نے اسلام قبول کیا اور نویدشاہ سے شادی کرلی۔ بس پھر کیا تھا طوفان برپا ہوگیا۔ سیکولر لابی کے ہاتھ پروپیگنڈے کے لیے ایک واقعہ ہاتھ آگیا۔ میڈیا اور اس لابی نے مل کر جمہوریت، آزادی کے نام پر اس معاملہ کو اُچھالا۔
اسلام زور زبردستی اور جبر کا دین نہیں۔ قرآن میں ہے: لا اکراہ فی الدین (دین میں جبر نہیں)۔ اسلام قبول کرنے والے اپنی آزاد مرضی سے اسلام قبول کرتے ہیں۔ یہ تاریخِ اسلام کا روشن اور انمٹ باب ہے کہ مسلمانوں نے کبھی غیرمسلموں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ہو، یا ڈنڈے کے زور پر کلمہ پڑھایا ہو۔ موجودہ دور بجاطور پر کمپیوٹر کا زمانہ ہے۔ میڈیا نے بے پناہ ترقی کرلی ہے۔ اس میں جو اسلام کے دامنِ رحمت میں آتا ہے وہ کسی زبردستی اور جبر کے ساتھ نہیں۔ اسلام تو دلوں کو فتح کرتا ہے۔ یہ کوئی نئی مثال بھی نہیں ، دنیا بھر میں ہرروز بے شمار لوگ اسلام قبول کرتے ہیں اور اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ لیتے ہیں۔ امریکا سے لے کر برطانیہ تک اسلام کی تعلیمات لوگوں کے دلوں میں گھر کر رہی ہیں۔ پاکستان میں اگر کسی نے اسلام قبول کیا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔
تبدیلیِ مذہب کے ضمن میں سیکولر لابی کی جانب سے چند سوالات و اعتراضات کیے جاتے ہیں :
۱۔ہندو لڑکیوں کو ہی کیوں اغوا کر کے جبراً مسلمان کیا جاتا ہے اور مسلمان ان کے ساتھ شادی کیوں کرتے ہیں۔
۲۔تبدیلی مذہب اگر ہرکسی کا بنیادی حق ہے تو پھر مسلمانوں کو بھی تبدیلیِ مذہب کا حق کیوں نہیں دیا جاتا۔ پاکستان میں اقلیتیں غیرمحفوظ ہیں۔ یہ اور اس طرح کے اعتراضات سیکولر لابی کی جانب سے اُٹھائے جاتے ہیں۔
ہندو کمیونٹی مسلمانوں کا خصوصی ہدف کبھی نہیں رہی، یہ سراسر بہتان ہے۔ اسلام قبول کرنے والا خود اپنی آزاد مرضی سے فیصلہ کرتا ہے اور اسلام قبول کرتا ہے۔ ہندو مذہب میں چونکہ ذات پات کا بہت گہرا عمل دخل ہے اور ہندو مذہب میں کزن میرج کی جاتی ہے اور نہ دوسری شادی (بیوہ ہوجانے والی خواتین کے لیے دوسری شادی کی ممانعت ہے) ہندوؤں میں شادی بیاہ کے بھی بہت پیچیدہ مسائل ہوتے ہیں۔ ہندو لڑکیوں کے والدین کو شادی کے حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلاشبہہ ہندو لڑکیوں کے گھروں سے نکلنے اور قبولِ اسلام کے باعث بھی یہ رجحان فروغ پذیر ہے۔ علاوہ ازیں رشتہ ڈھونڈنے اور انتظام کرنے، پھر جہیز جیسے مسائل آڑے آتے ہیں۔ لیکن یہ واقعات اِکا دُکا ہوتے ہیں۔ ۲۰۱۱ء میں لاڑکانہ میں ۲۶۸ خواتین اغوا ہوئیں، ۲۰۱۲ء میں ۳۰۰ خواتین اغواہوئیں، مگر دو خواتین کے قبولِ اسلام کو اغوا کا نام دیا گیا۔ واویلا کیا گیا کہ جبرن مسلمان کیا گیا۔ اس طرح کے الزامات اور پروپیگنڈے کے ذریعے بعض نام نہاد این جی اوز اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کے پیش نظر صرف یہ ہے کہ اس طرح اسلام قبول کرنے والوں کا راستہ روکا جائے۔ بہت سی ہندو لڑکیاں جو اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں دراصل یہ ان کا راستہ روکنے کا ذریعہ ہے۔ لیکن یہ عناصر یہ بھول جاتے ہیں کہ سندھ کا معاشرہ جاگیردار اور وڈیرہ شاہی کا معاشرہ ہے جہاں جاگیردار اور وڈیرے کی مرضی کے بغیر کم ہی کچھ ہوتا ہے۔ جاگیرداروں کی نجی جیلیں ہیں جن پر غریب ہاری، مزدوری اور اغوا براے تاوان کے مجرم رکھے جاتے ہیں لیکن ان سیکولر عناصر کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا۔ اس غلامی اور جبر کے خلاف بھی صرف دینی طبقے نے ہی آواز بلند کی۔
دستور پاکستان ۱۹۷۳ء کی رُو سے اقلیتوں کو تمام بنیادی حقوق حاصل ہوں گے اور مذہبی آزادی (آرٹیکل ۲۰) بھی۔ اس کے تحت ان کو تمام مذہبی آزادیاں حاصل ہیں۔ پاکستان میں تمام اقلیتیں آئینی، سماجی، قانونی تحفظ رکھتی ہیں جو خود بھارت میں مسلمانوں کو حاصل نہیں۔ سیکولر اکثریت ملک ہونے کے باوجود مسلمانوں کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں اور نہ گھر، تہذیب و تمدن کے خطرات اپنی جگہ ہیں۔پاکستان واحد ملک ہے جہاں جداگانہ انتخابات قیامِ پاکستان کے مقاصد کا حصہ تھے۔ پرویزمشرف کے ’روشن خیال‘ دور میں جداگانہ انتخابات کا خاتمہ کر کے مخلوط انتخابات کا ڈول ڈالا گیا اور اقلیتوں کو ۔۔۔ ووٹ کا حق دیا گیا جو دنیا کی کسی جمہوریت میں نہیں ہوتا۔ اب سینیٹ میں بھی اقلیتوں کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے براہِ راست نمایندگی کا حق دیا گیا۔ پاکستان دستوری طور پر اسلامی ریاست ہے اور قرارداد مقاصد اس کا مستقل حصہ ہے۔ ایک نظریاتی اور اصولی مملکت کا ضابطہ اور طریقہ کار واضح ہے۔ اقلیتوں کو زبردستی اکثریت پر مسلط کی سازش ہے جو فساد کا ذریعہ بنے گی۔
سپریم کورٹ نے ان کا فیصلہ سناتے ہوئے انھیں اپنے شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی اور کہا کہ یہ بالغ ہیں جہاں جانا چاہیں جاسکتی ہیں، انھیں روکا نہیں جاسکتا۔ اس طرح اس کا ڈراپ سین ہوا۔ اس فیصلے پر لڑکیوں کے عزیز رشتہ دار، این جی اوز کے چند ارکان دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ ان بچیوں کے والدین کا جذباتی ہونا ایک قدرتی معاملہ ہے لیکن ای جی اوز اور میڈیا کی جانب سے اس واقعے کو اُچھالنا اور ہندو برادری پر مظالم کا رونا رونا عجیب ہے۔ اس سے دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص بُری طرح مجروح ہوا۔ ضرورت تھی کہ اس طرح کے معاملات کو آپس میں مل جل کر سلجھالیا جائے۔ مناسب ہوتا کہ این جی اوز اور سیکولر لابی ان معاملات کو اُچھالنے سے پہلے تحقیقات کرلیتے۔
ہندو کمیونٹی اور سیکولر لابی واویلے، چیخ و پکار اور نومسلم لڑکیوں کے ارتداد کے راستے میں جماعت اسلامی نے بھی نہایت حکمت کے ساتھ بند باندھا۔ کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں سیمی نارز منعقد کیے گئے۔ جن سے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، اسداللہ بھٹو، سجادہ نشین درگاہ بھرچونڈہ میاں عبدالحق میاں مٹھو نے اس مسئلے کے دینی، قانونی اور آئینی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جس سے عوام الناس کو اس مسئلے سے آگہی ہوئی۔
سیکولر عناصر اس ضمن میں قائداعظم محمد علی جناح کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کا بار بار حوالہ دیتے ہیں لیکن اس سے قبل کی گئی ان کی سیکڑوں تقاریر اور بیانات کو بھول جاتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے جس میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کو مذہبی آزادیاں بھی حاصل ہوں گی۔ دستورِ پاکستان ایک ایسی بنیاد فراہم کرتا ہے کہ جس میں اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کا رُوپ نہیں دھار سکا۔ وقتاً فوقتاً پاکستان میں برسرِاقتدار آنے والی مفاد پرست سیاسی قیادتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنی سیاسی ضروریات کے تحت ملک کی سمت کا تعین نہیں ہونے دیا۔ اور آج ہرطبقہ اپنی اپنی بولی بولتا نظر آتا ہے اور ملک میں بحرانوں کے سائے گہرے ہوتے جاتے ہیں۔ پاکستان کے بسنے والوں کے تمام مسائل، مشکلات اور پریشانیوں کا حل اسلامی فلاحی پاکستان میں ہے۔
معاشرے میں ایسے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں سیکولر عناصر اور میڈیا کے صاحبان بست وکشاد کو اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ایک طرف یہ عناصر سیکولرزم، روشن خیالی کا پرچار کرتے نہیں تھکتے۔ دوسری جانب ایسے واقعات کے نتائج پر واویلا کرتے نظر آتے ہیں، یہ کھلا تضاد ہے۔
معاشرے کو جس جانب میڈیا لے کر جارہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ٹی وی چینلوں پر ہالی وڈ اور اسٹارپلس کے ڈراموں، فلموں اور FM ریڈیو کے ذریعے جس محبت کا درس نوجوان نسل کو دیا جاتا ہے اس کا نتیجہ تو یہی نکلے گا۔ اس پر سیکولر عناصر کو واویلا کرنے کے بجاے خوشی کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔
سیکولر لابی چاہتی ہے کہ آیندہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی کے ذریعے مسلمان ہونے والوں کا راستہ روکا جائے اور مسلمان ہونے سے قبل مسلمان ہونے والے فرد کو مذہب کے مطالعہ کے لیے وقت دینا چاہیے۔ سندھ کے ۴۹ وزرا میں سے تین وزرا ہندو ہیں۔ سندھ اسمبلی میں سات رکن اور قومی اسمبلی میں سات، جب کہ سینیٹ میں تین ارکان مگر یہ لوگ اپنا کردار ادا کرتے نظر نہیں آتے۔ صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے سرگرداں و کوشاں محسوس ہوتے ہیں۔ ہندو کمیونٹی کو ان واقعات سے دُکھ پہنچنا فطری ہے لیکن اس میں مسلم کمیونٹی کا زور زبردستی اور جبر شامل نہیں۔ اسلام دین رحمت ہے، اس کی تعلیمات انسانوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔ اگر کوئی اسلام قبول کرتا ہے تو اس میں اغوا یا زبردستی کا عنصر شامل نہیں ہوتا۔ ایک فطری جذبہ محرک ہوتا ہے، جو دین فطرت کی جانب مائل کرتا ہے۔ باقی رہا سیکولر لابی کا معاملہ تو چونکہ اس واویلے کے ساتھ ان کے فنڈز اور پراجیکٹس اور عالمی ایجنڈے کو پورا کرنے کا کام وابستہ ہے۔ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے تمام مسائل حل بھی ہوجائیں تو ان کو سب ٹیڑھا ہی نظر آئے گا۔