Monday 2 September 2013

سید عطاء المحسن بخاری ۔چند یادیں ،چند تاثرات

| |

سید عطاء المحسن بخاری کا ذکر آئے یا ان کی یاد۔۔۔ یہ شعر ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا کی بے ثباتی اور ناپائداری کتنی اٹل حقیقت ہے جس کی طرف غالب نے اشارہ کیا ہے۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں 
خاک میں کیا صورتیں تھیں جو پنہاں ہو گئیں
سید عطاء المحسن بخاری مرحوم،سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دوسرے فرزند تھے اور ان کی فکر اور تحریک ’’مجلس احرار اسلام‘‘ کے روح رواں اور مسند دعوت و ارشاد کے وارث ،درویشی و سادگی ان کا طرہ امتیاز تھا، زبان کے صاف اور کھرے ،جو بات دل میں ہوتی، وہی زبانی پر ہوتی گویا ان کی زبان ان کے دل کی ر فیق تھی۔علمائے دین کے ساتھ تعلق اور خود عالم دین ہونے کے باوجود روایتی قسم کے ملاؤں سے سخت بیزار اور شدید ناقد ،مصلحت کوشی ،منافقت اور دو رنگی سے ناآشنا اور اس کے عوض جتنا چاہے نقصان اٹھانا پڑے مگر سچ کہنا ہمیشہ ان کا شعار رہا 
کہ آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
شاہ جی کے ساتھ میری شناسائی ان دنوں ہوئی، جب اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کی مجلس شوریٰ نے مجھے بطور ناظم ڈویژن ملتان بھیجا ۔مجھے چونکہ تاریخ سے دلچسپی ہے اور اسی نسبت سے تاریخی شخصیات سے خصوصی تعلق خاطر ہے سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا نام بطور خطیب اعظم کے سن رکھا تھا۔ملتان آنا ہوا تو ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔کسی نے بتایا کہ حضرت امیر شریعت، جلال باقری قبرستان میں مدفون ہیں۔بہرحال اس دوران دارِبنی ہاشم کے ساتھ تعلق استوار ہو چکا تھااور جمعہ کی ادائیگی کے لئے اکثر دارِ بنی ہاشم جانا ہوتا جہاں محسن شاہ جیؒ خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے اور کفیل شاہ جی نماز جمعہ پڑھاتے۔محسن شاہ جی ؒ سے ہاتھ ملانے کی سعادت بھی حاصل ہو جاتی مگر تعارف کی ابھی نوبت نہیں آئی تھی۔ستمبر ۱۹۹۶میں اسلامی جمعیت طلبہ ملتان کے زیر اہتمام ’’پاکستان کے پچاس سال،کیا کھویا،کیا پایا؟ ‘‘ کے عنوان سے جناح ہال گھنٹہ گھر میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیاتو اس میں محسن شاہ جیؒ کو بھی دعوت دی گئی۔جس میں وہ اپنی علالت کے باوجود تشریف لائے اور اپنے گراں قدر خیالات سے نوازا۔سیمینار میں پہلی گفتگو میری تھی جس میں مَیں نے یہ فقرہ بھی کہا کہ ’’پاکستان اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے‘‘ جب شاہ جیؒ خیالات کے اظہار کیلئے تشریف لائے تو انہوں نے بطور خاص میرے اس جملے کے ناقص ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’وہ میرے عزیزنوجوان نے کہاہے کہ’’ پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے حالانکہ اس وقت چوراہے پر ہے۔جس کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ کوئی قبلہ ،اور ملت پاکستان تاریکی میں ٹھوکریں کھا رہی ہے ‘‘ شاہ جیؒ کے یہ فصیح و بلیغ فقرے آج تک لوحِ دماغ پر کندہ ہیں۔
جس طرح سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور میں خطابت کے بے تاج بادشاہ تھے ،اسی طرح محسن شاہ جیؒ بھی دور قحط الرجال میں خطابت کی شان تھے۔نمازجمعہ کی ادائیگی کے لئے عبدالوہاب نیازی اور راقم 

دارِبنی ہاشم جاتے،گفتگو سنتے اور خاموشی سے واپس آ جاتے ۔شاہ جی ؒ کی تقریر میں وہ سب کچھ ہوتا جس کی ایک سامع آرزو کر سکتا ہے ۔غالب کے الفاظ میں ’’مَیں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔‘‘والی کیفیت ہوتی۔ ان کی گفتگو قرآن و حدیث ،تاریخی آثار و واقعات سے مزین ہوتی ،اشعار کا برجستہ اور برمحل استعمال، تلاوت کرتے تو سماں بندھ جاتا، لطائف کی طرف آتے تو مجمع لوٹ پوٹ ہو جاتا۔اردو زبان کی نزاکتوں سے پوری طرح آگاہ ،ہرہر لفظ مخرج سے ادا ہوتا، جس سے لطف دوبالا ہو جاتا۔بات اردو میں ہوتی مگر ساتھ ہی ساتھ عربی،پنجابی اور سرائیکی کا تڑکہ لگاتے جاتے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ ’’از دل خیزد بر دل ریزد‘‘والی کیفیت ہوتی۔ شاہ جیؒ کی گفتگو مختلف موضوعات کے گرد گھومتی ۔ان کا مطالعہ اور علم اس کا پورا پورا ساتھ دیتا۔کبھی تہذیبِ مغرب و باطل نظامہائے زندگی کی خبر لے رہے ہوتے اور کبھی اسلامی عقائد اور تہذیب اسلامی کے چہرے کو نکھارتے اور سنوارتے ،جمہوریت ،شیعیت، اور قادیانیت کے سخت ناقد تھے ، ہر گفتگو میں ان پر ضرور تنقید کرتے۔
شاہ جیؒ کے ساتھ آخری اور یادگار ملاقات ان دنوں میں ہوئی،جب راقم اور میرے عزیز دوست عبدالوہاب نیازی ،ان کی عیادت کے لئے دارِ بنی ہاشم گئے۔شاہ جی سخت تکلیف میں تھے۔مگر جیسے ہی انہیں ہمارے بارے میں معلوم ہوا ،وہ باوجود تکلیف کے خصوصی شفقت فرماتے ہوئے باہر تشریف لے آئے اور ملاقات سے نوازا۔ہم نے شاہ جیؒ کو ’’ترجمان القرآن ‘‘کا تازہ شمارہ پیش کیا۔بہت خوش ہوئے ۔خرم مراد مرحوم کے بارے میں فرمایا کہ ایک مرتبہ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ مختلف سوالات و جوابات کا سلسلہ چلا تو مَیں نے پوچھا کہ جس طرح سوشلزم اور کمیونزم کا تذکرہ کتابوں میں پڑھنے کو ملتا ہے اور جس تفصیل کے ساتھ ان پر لکھا گیا ہے ۔سیکولرازم پر اس طرح کم ہی مواد ملتا ہے ۔فرمایا ’’سیکولرازم دراصل عمل کا نام ہے، نہ کہ کسی نظریے یا نظام کا ،جبکہ اس کے برعکس سوشلزم اور کمیونزم نظریات اور نظامہائے زندگی تھے۔اس پر حسن عسکری نے لکھا ہے وہ خود مولانا کی کتاب ’’اسلام اور سائنس ‘‘ پڑھ کر مسلمان ہوئے ،سیکولرازم کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ آج کل اخبارات سیکولرازم کے پرچارک ہیں ،بسنت منانا ، ہندوانہ کلچر اپنانا ،یہ سارے سیکولرازم کے مظاہر ہیں ۔ان پر مسلمان اہل قلم کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔تبلیغی جماعت کا ذکر چھڑا تو فرمانے لگے کہ’’ان کے ساتھ فوج میں جتنے حاضر سروس لوگ ہیں اگر ہمارے پاس ہوں تو ہم سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیں۔ لیکن نظریہ نہ ہونے کے باعث ان کی یہ کیفیت ہے ،بہرحال جتنا کام کر رہے ہیں وہی غنیمت ہے ۔‘‘مزید فرمایا ’’میری تبلیغی جماعت کی شوریٰ سے بھی اس ضمن میں بات ہوئی تھی مگر ان کا کہنا ہے کہ اس نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کا وقت نہیں آیا ‘‘یہ شاہ جیؒ کے ساتھ ہماری آخری ملاقات تھی ۔مجھے شاہ جیؒ کا جنازہ پڑھنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ۔مَیں نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا جنازہ پہلی مرتبہ دیکھا۔شاہ جیؒ اپنے چاہنے والوں کے جلو میں آخری آرام گاہ کی طرف رواں دواں تھے انہیں جلال باقری قبرستان میں اپنے والد گرامی کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
میری اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ شاہ جی کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور ان کے مراتب و درجات بلند فرمائے۔ آمین۔ 

0 comments:

Post a Comment