Wednesday 6 March 2019

محمدﷺ ہمارے بڑی شان والے

| |
0 comments
Image result for ‫محمد‬‎
وہ منظر اور سماں کتنا دل کش جاذب نظر اور دل فریب ہوتا ہو گا جب نبی مہربانﷺ، آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین یکجا ہوتے ہوں گے ۔ مختلف ایشوز، دینی، عسکری و سیاسی مسائل پر بات چیت ہوتی ہو گی، ہنستے مسکراتے ہوں گے، ملائکہ اور جنات اس اکٹھ پر رشک کرتے ہوں گے۔ کروڑوں درود و سلام نبی مہربانﷺ پر جنھوں نے اُمت کے لیے دکھ اٹھائے، امت کے لیے پریشان ہوئے، راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر امت کی ہدایت اور جہنم سے نجات کے لیے دعائیں مانگیں۔ ماہر القادری نے اس کا کیا خوب صورت نقشہ کھینچا ہے:
سلام اس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
سلام اس پر جو اُمت کے لیے راتوں کو روتا تھا
سلام اس پر جو فرشِ خاک پر جاڑے میں سوتا تھا
سلام اس پر جو دنیاکے لیے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہے
نبی کریم ﷺ کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی پاکیزہ، صاف ستھری اور تقویٰ سے اور بھرپور آراستہ تھی کہ زندگی کے یہ مرحلے اللہ رب العزت کی براہِ راست نگرانی میں گزر رہے تھے اور نبوت کے بعد کی تیئس سالہ زندگی تو اور زیادہ خالص، پاکیزہ تھی کہ کارِ نبوت آپ کے سپرد ہو چکا تھا، کشمکش اور جدوجہد کا دور دورہ تھا۔ دعوتِ دین کے ابلاغ کی تڑپ تھی، جو آپؐ کو ہرلمحہ بے چین و بے قرار رکھتی تھی، ساری تگ و دو اسی کے لیے تھی کہ خلق خدا ہدایت پا جائے ۔ غزوات و سرایا تھے تو اس لیے کہ اللہ کا دین غالب ہو جائے۔ سیرت طیبہ تمام انسانیت کے لیے رہنما اصول دیتی ہے۔
حضورﷺ کی تمام زندگی بقول حضرت عائشہ صدیقہr قرآن کے اخلاق کا نمونہ پیش کرتی ہے۔آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ ایسے تھے جو ایک بار مل لیتا دوبارہ ملنے کی چاہت دل میں پال لیتا، آپ کی شخصیت میں ایسی کشش اور جاذبیت تھی کہ بار بار ملنے کو جی چاہتا۔ روئے تاباں ایسا منور اور روشن کہ بس دیکھتے رہیے اور دل نہ بھرے۔ لطف و کرم، جودوسخا، الطاف و عنائت ایسے تھے کہ جس نے ایک بار ہاتھ ملایا تو بار بار ملانے کی بے قراری رہی، معانقہ کیا تو بار بار معانقے کو جی چاہتا رہا، کسی کے شانے پر ہاتھ رکھا، کسی کو سینے سے لگایا، کسی کے سر پر ہاتھ پھیرا تو تمام زندگی وہ اس تصور محبت میں گم رہا کہ دوبارہ ایسا ہی موقع نصیب ہو جائے۔ دیہات سے بدو آتے یا دور درازسے وفود، حضورؐ سے ملتے تو شادشاد اور نہال جاتے۔
حضورﷺ کی زندگی سراپا روشنی، سراپا رہنمائی کہ خود قرآن میں ارشادِ رب العالمین ہے: ’’رسول اللہ کی زندگی میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘ آپ کی زندگی توازن اور اعتدال کا بہترین شاہکار ہے۔ حضورe ہمیشہ تبسم فرماتے،کبھی قہقہہ نہیں لگاتے تھے، آپؐ نے زیادہ ہنسنے سے منع فرمایا کہ اس سے دل مردہ ہو جاتے ہیں۔
نبی مہربان e نے مال کے حصول کی خواہش کو ناپسندیدہ نہیں قرار دیا، البتہ مال کے فتنہ ہونے کی جانب ضرور متوجہ کیا ہے۔
آپe کا ارشادِ گرامی ہے کہ میں تمھیں اس چیز کی خوش خبری سناتا ہوں جو تمھیں خوش کر دے۔ میں تم لوگوں پر فقر کا خوف نہیں رکھتا، دنیا کی وسعت کا خوف ہے نتیجتاً تم دنیا سے محبت کرنے لگو گے، جیسے تم سے پہلے لوگ کرتے تھے اور دنیا تم کو ہلاک کر دے گی جس طرح پہلے لو گوں کو ہلاک کر دیا۔
رسول اللہﷺ کے پاس ایک صاحب آئے ہیں اور اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔ آپ اسے لعنت ملامت کی بجائے گناہ سے پاک صاف ہونے کے بارے میں بتاتے ہیں وہ اپنی مجبوریوں کا ذکر کرتا ہے۔ آپﷺ غصہ میں آنے یا ناراض ہونے کی بجائے عفوو درگزر اور نرمی سے کام لیتے ہیں۔ لوگ نبیe کے پاس گناہوں کا بوجھ لے کر آتے اور اس بوجھ کو اتار کر پاکیزہ ہو کر جاتے۔ نبی مہربان کی اس وسیع النظری، اخلاقِ کریمانہ اور اس محبت و خیر خواہی کے کیاکہنے۔
ایک صاحب آئے اور آتے ہی آپؐ کے گلے میں چادر ڈال کر زور زور سے کھینچا کہ آپ کی گردن مبارک پر نشان ابھر آیا۔ آپe نے اس سے پوچھا: اے اللہ کے بندے یہ کیا ہے؟ اس نے کہا مجھے مال دیں جو اللہ نے آپؐ کو دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایامال ضرور دوں گا، لیکن تیرے ستانے کا بدلہ بھی لوں گا۔ وہ شخص کہنے لگا میں بدلہ نہیں دوں گا۔ آپؐ نے فرمایا کیوں؟ اس نے کہا اس لیے کہ آپؐ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے۔ یہ سن کر حضورe مسکرائے اور فرمایا کہ اس کو ایک اونٹ پر جَو اور ایک پر کھجوریں لاد دوجودوسخا، لطف و عطا، معاف کرنا اور دعائیں دینا تمام زندگی کا وظیفہ رہا۔ حتیٰ کہ گالیاں دینے والوں کو بھی آپؐ نے نوازا۔ اسی لطف و محبت کی کیا بات ہے جنھیں بکریاں چرانا نہیں آتی تھیں وہ دنیا کے امام اور قائد بن گئے۔مولانا ظفرعلی خان فرماتے ہیں:
کوئی صدیقؓ بن گیا کوئی فاروقؓ بن گیا
ملی ہے جس کو بھی قربت حضورؐ کی 
اور
جھکا دیں گردنیں فرط ادب سے کجکلا ہوں نے
زبان پر جب عرب کے سارباں زادوں کا نام آیا
متانت و شگفتگی آپ کے طبیعت و مزاج کا حصہ تھی۔ صحابہ کرام  اسی معاشرت کا حصہ تھے،صحابہ کرام اپنی مجالس میں ایک دوسرے کے ساتھ کبھی کبھی چھیڑ چھاڑ اور مذاق کرتے، حضورe اس طرزِ عمل پر خاموشی اختیار کرتے یا تبسم فرماتے اور کبھی شریک ہو جاتے۔ یہ فطرت کے تقاضوں میں سے ہے اور صحت مند معاشرہ کی نشانی۔ ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ آپؐ کا رویہ ایسا کہ جو دل کو بھائے۔ ازواجِ مطہرات (امت کی مائیں)، آپؐ کے گرد جمع ہیں ان کی آواز آپ کی آواز سے بلند ہے۔ اس دوران حضرت عمررضی اللہ عنہ تشریف لائے تو خواتین چھپ گئیں۔ آپؐ مسکرائے۔ حضرت عمرؓ نے کہا اللہ آپ کو ہمیشہ مسکراتا رکھے۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ آپؐ نے فرمایامجھے ان عورتوں پر تعجب ہے کہ میرے پاس تھیں تو ہنس رہی تھیں۔ تمھاری آواز سنی تو چلی گئیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا مجھ سے ڈرتی ہو اور حضورe سے نہیں ڈرتیں۔ انھوں نے کہا آپ حضورﷺ سے زیادہ سخت ہیں۔ حضور نے فرمایا اے عمر قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے شیطان اس راستے سے ہٹ جاتا ہے جس پر تُو چلتا ہے۔ (صحیح بخاری)
حضورﷺ کے اسوہ حسنہ پر چل کر معاشرے سے فتنہ و فساد ختم ہوتا ہے۔ رائے کااحترام اور اپنی رائے سے دست بردار ہونا ایک بڑی قربانی ہے۔ حضورﷺ صحابہؓ کی رائے کو اہمیت دیتے، ان پر اعتماد کا اظہار فرماتے۔ حضرت عمرt کہتے ہیں عبداللہ بن ابی، رئیس المنافقین فوت ہوا تو حضورﷺ سے نمازِ جنازہ پڑھوانے کی درخواست کی گئی۔ آپؐ تشریف لے گئے اور جنازہ پڑھانے کا ارادہ کیا تو میں اپنی جگہ سے حضورﷺ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور عرض کی کہ آپؐ اس دشمن خدا کی نمازِ جنازہ پڑھائیں گے؟ حضرت عمرکہتے ہیں (میں نے اس کی منافقت کے بہت سے واقعات دہرائے) حضورe نے سن کر تبسم فرمایا۔ حضورﷺ نے کہا عمر ہٹ جاؤ مجھے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ چاہوں تو اس کے لیے استغفار کروں اور چاہوں تو نہ کروں۔ میں نے استغفار کا انتخاب کیا ہے۔ کچھ دیر میں سورۂ توبہ کی آیات نازل ہوئیں اور آپؐ کو منافقین کی نمازِ جنازہ پڑھنے سے روک دیاگیا۔ 
بری شہرت، اور بدنام لوگوں کے ساتھ بھی اچھے طریقے اور خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ اس سے ملنے جلنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے کہ یہی سیرت رسول کا درس ہے۔ حضرت عائشہr روایت فرماتی ہیں کہ ایک شخص جس کا نام عینیہ بن حصین تھا۔ اس نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ نبیt نے فرمایا یہ بُرے قبیلے کا آدمی ہے۔ پھر اسے اندر آنے کی اجازت دی۔ تھوڑی دیر بھی نہ گزری کہ آپؐ اس کے ساتھ ہنسنے لگے۔ جب وہ شخص چلا گیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہe! آپ ؐنے اس کے بارے میں یہ کہا: پھر اس کے ساتھ ہنستے رہے۔ آپؐ نے فرمایا بدترین آدمی وہ ہے جس سے لوگ اس کے شر کی وجہ سے ملنا چھوڑ دیں۔
حضرت عائشہ صدیقہr نے اپنی خانگی زندگی کے واقعات بیان کرکے امت کے لیے اتنی بڑی قربانی دی جس کا تصور کرنا شاید آساں ہے مگر ایسا کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں، وہ حضورe کا اسوہ سامنے لائیں کہ امت کو رہنمائی حاصل ہو۔ اللہ انھیں اجر عظیم سے نوازے۔ ایک بار حضرت عائشہr کی باری تھی، نبی مہربانؐ حضرت عائشہرضی اللہ عنہا کے حجرہ میں تھے، اس دوران حضرت حفصہr نے کھانے کے لیے پیالے میں کچھ بھیجا۔ (حضورﷺ حضرت حفصہؓ کے ہاتھ کا کھانا بہت پسند فرماتے تھے)۔ حضرت عائشہr کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ انھوں نے غصے میں وہ پیالہ توڑ ڈالا۔ حضورﷺنے حضرت عائشہرضی اللہ عنہا کا یہ عمل دیکھا تو مسکرا دیے۔(بخاری) 
بھیڑ بکریاں چرانے والوں نے دنیا کا تمدن بدل ڈالا، لیکن یہ وہی لوگ ہیں جن کی سادگی مثالی اور زندگی بناوٹ اور تصنع سے پاک تھی۔ حضرت عبداللہ بن مغفلؓ فرماتے ہیں کہ غزوۂ خیبر میں مجھے چربی کی بھری ہوئی تھیلی ملی میں نے اسے اٹھا لیا اور کہا آج اس جیسی چیز میرے علاوہ کسی کو نہیں ملی۔ جب میں نے آپؐ کو دیکھا تو آپe متبسم تھے۔ (آپؐ نے میری سرگوشی سن لی)۔
آپﷺ کی مسکراہٹ کی دلآویزی کے کیا کہنے، مسکراتے تو کائنات مسکرا اٹھتی۔ حضرت علاء بن حضرمیؓ نے بحرین والوں سے جزیہ وصول کرکے خدمت اقدس میں بھیجا۔ مال کی کثرت تھی، اس کو صف میں پھلایا گیا اور حضورe نے اعلان کروایا کہ جس کو مال کی ضرورت ہے وہ آئے اور لے جائے۔ حضورe کے چچا عباسؓ تشریف لائے اور اپنی چادر میں بہت سا مال بھر لیا۔ اب جب اٹھاتے ہیں تووہ اٹھتا نہیں۔ حضورؐ قریب تھے، حضورe سے کہا اللہ کے رسولؐ! اس کو میرے سر پر رکھ دیجیے۔ حضورe مسکرائے اور فرمایا اس میں سے جتنا اٹھا سکتے ہو اتنا لے جاؤ۔ اسی طرح ایک بار ایک شخص حضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا مجھے سواری کی ضرورت ہے۔ مجھے اونٹ عطا فرما دیں۔ آپؐ نے فرمایا میں تجھے اونٹ کا بچہ دوں گا۔ اس نے پریشان ہو کر کہا حضورؐ میں اونٹ کے بچے کو کیا کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا بڑا اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔
حضورﷺ اپنی مجلس میں لوگوں کو نیکیوں پر ابھارتے، ان کی رغبت دلاتے اور سبقت لے جانے کا درس دیتے۔ حضرت ابی امامہؓ کہتے ہیں ایک بار رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا تم میں سے آج کس نے روزے کی حالت میں صبح کا آغاز کیا؟ لوگ چپ رہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا میں نے اے اللہ کے رسولؐ!آپؐ نے پوچھا آج کس نے صدقہ دیا۔ لوگ چپ رہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: میں نے اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے پوچھا: آج جنازہ کے ساتھ کون گیا؟ لوگ چپ رہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ میں نے۔ آپؐ نے پوچھا: آج مریض کی عیادت کس نے کی؟ لوگ چپ رہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ میں نے۔
یہ سن کر حضورﷺ نے تبسم فرمایا اور فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا، جس نے یہ اعمال سرانجام دیے وہ جنت میں جائے گا۔
حضور ﷺکی سیرت مبارکہ دل و دماغ کو معطر اور اعمال کو خوب صورتی فراہم کرتی ہے۔ اس سے ثواب اور برکت کے ساتھ ساتھ اپنی پوری زندگی کو معمور اور روشن کرنا چاہیے۔ امت مسلمہ اس اعتبار سے خوش نصیب ہے کہ آپe کی سیرتِ مطہرہ کا ہر ورق اور گوشہ محفوظ اور موجود ہے۔ صحابہ کرام اور محدثین عظام نے سیرت رسولؐ کو محفوظ کر دیا۔ آج ساڑھے چودہ صدیاں گزر گئیں نبی مہربان کی زندگی کا گوشہ گوشہ امت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے محفوظ ہے۔ آپؐ کی خوب صورت زندگی امت کے لیے ہر پہلو سے نمونہ ہے۔ آپؐ صحابہ کرام کو ہمت اور حوصلہ دلاتے، خوشی کا اظہار فرماتے۔ 
دنیا نے آپﷺ جیسی قیادت پہلے دیکھی اور نہ بعد میں۔ آپ کا قائدانہ کردار روشنی کا ذریعہ ہے اور رہے گا۔ آپؐ کی حوصلہ افزائی شاباش اور مسکراہٹ صحابہ کرام کے لیے بہت بڑا اعزاز اور قیمتی سرمایہ تھی۔ حضرت عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں کہ میں حضورﷺ کی خدمت اقدس میں آیا۔ آپؐ مسجد میں تشریف فرما تھے ۔ لوگوں نے مجھے پہچان کر کہا کہ یہ ’’عدی‘‘ ہے۔ جب مجھے آپؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ مجھے خبر تھی کہ حضورe نے فرمایا تھا کہ مجھے اُمید ہے کہ اللہ عدی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دے گا۔[ اس دوران ایک خاتون اپنی ضرورت کے لیے آئی۔ آپؐ اس کے ساتھ گئے اور اس کی ضرورت پوری کی]۔ عدیؓ کہتے ہیں حضورe واپس آئے اور مجھے اپنے گھر لے آئے اور سامنے بٹھایا۔ پھر پوچھا: عدی تم کو کون سی چیز اسلام سے روکتی ہے اور اس بات سے کہ کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کے سوا بھی کوئی معبود ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہود پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور نصاریٰ گمراہ ہیں۔ عدی نے کہا میں دین حنیف کا پیرو اور مطیع ہوتا ہوں۔ یہ سن کر حضور کا چہرہ مبارک خوشی سے معمور ہو گیا۔
نبی کریمﷺ کے ساتھ محبت و الفت ایمان کی نشانی ہے۔ اس محبت و الفت کا اظہار حضورﷺ کے اخلاقِ کریمانہ اور سیرت پر عمل پیرا ہو کر اور نبی ﷺ پر درود و سلام بھیج کر ہم اپنے نامہ اعمال کو نیکیوں سے لبریز اور گناہوں سے دور ہو سکتے ہیں۔ حضرت ابوطلحہ انصاری کہتے ہیں کہ ایک دن حضور ﷺتشریف لائے۔ آپ کے چہرۂ انور سے خوشی و مسرت کے آثار ہویدا تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! آج آپ بہت خوش معلوم ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میرے رب کی طرف سے وحی آئی ہے کہ جو شخص مجھ پر درود بھیجے گا اللہ اس کے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھے گا اور اس کے دس گناہ معاف فرمائے گا۔ اللّٰھُمَّ صَلِّی وَسَلِّمْ عَلٰی نَبِیِّنَا مُحَمَّد 
حضورﷺ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت تھے۔ ارشاد ربانی ہے کہ آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ مولانا حالی کے بقول:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی برلانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماوٰی
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
آپﷺ کی رحمت سے نہ صرف انسانوں بلکہ چرند پرند اور نباتات و جمادات بھی فیض یاب ہوئے۔ ایک بار آپ ایک باغ میں پہنچے وہاں ایک اونٹ صحن میں بندھا ہوا تھا جو بھوک اور پیاس سے بے حال تھا۔ نبیؐ کو آتے دیکھا تو بلبلایا، چلایا۔ آپ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، اس بے زبان نے آپؐ کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیا، پھر آپؐ نے اس کے مالک کو بلایا اور سمجھایا کہ بے زبان سے کام لیتے ہوئے اس کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔ مالک نے آیندہ حسن سلوک کا وعدہ فرمایا۔
رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی، آپؐ کی تعلیمات قرآنِ مجید، اور رسالت کے بارے میں مغرب کا رویہ دشمنی اور تعصب پر مبنی ہے۔ اسلام کے مقابلے کے لیے اہل مغرب نے حضورﷺ کے کردار و عمل اور قرآنِ مجید کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور تہذیب و ادب کی ہر حد کو توڑا۔ آج سیرت رسالت محمدﷺ مغرب کے حملوں کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ نتیجتاً جہاں موقع ملتا ہے حضورﷺکی ذاتِ گرامی قدر کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سلمان رشدی ہو یا تسلیمہ نسرین مغرب کی آنکھ کا تارا ہیں۔ مسلمان کے دل سے نبیﷺ کی محبت کو نکالنے کی سازشیں عروج پر ہیں، لیکن یہ سازش کرنے والے ناکام و نامراد رہیں گے۔ بقول اقبالؒ :
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
مغرب کا یہی طریقۂ واردات ہے امت کو مغرب کی اس واردات کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو سیرت مطہرہ سے وابستہ کرنا چاہیے۔ سیرت رسول سے وابستہ ہو کر اپنے دلدّر دور کرے، نبی مہربانe کی سیرتِ طیبہ میں ہر دکھ کا مداوا اور ہر مشکل کا حل موجود ہے۔ یہ زندگی کو روشن اوردل و دماغ کو معطر اور منور کرتی ہے۔ جتنی جتنی امت سیرت کے سانچے میں ڈھلتی جائے گی، اتنی اتنی امت سربلند اور عروج سے ہمکنار ہوتی جائے گی۔
مزید پڑھیں

Saturday 15 October 2016

پروفیسرمسلم سجاد بھی رخصت ہوئے!!

| |
0 comments

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی!
اقبال کا یہ شعر جماعت کے ان بزرگوں پر صادق آتا ہے جو اپنی نذر پوری کرکے اللہ کے حضور حاضر ہو رہے ہیں۔ اور اپنے اپنے مقام پر جن کی حیثیت، مرجع خلائق، اور سائبان کی تھی، ان بزرگوں کا خاصہ یہ تھا کہ دین کی تعلیمات کا درس انھوں نے سید مودودیؒ سے پایا اور صحیح معنوں میں دین کے داعی، جماعت کے بہی خواہ، اپنا ہر لمحہ اللہ کے دین کے لیے وقف رکھنے اور اسی کے لیے سرگرداں رہنے اور جماعت کے کام کو ذاتی کام پر ترجیح دینے والے تھے۔ ان بزرگوں میں سے کوئی رخصت ہوتا ہے تو ایک خلا کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ اس خالق کائنات کا ترتیب دیا ہوا کار خانہ اور منصوبہ ہے، جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے جلد یا بدیر واپس جانا ہے۔ اس سے مفر ممکن نہیں۔
ایک ہمہ جہت ، ہمہ گیر شخصیت، ایڈیٹر، دانشور، منتظم، تبصرہ نگار، ترجمہ نگار، ان کی شخصیت میں کتنی گوناں گوں خوبیاں جمع تھیں جن کو وہ کام میں لاتے اورجو جو ان کی شخصیت سے سے مَس ہوئے۔ وہ لکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے ہی بہرہ ور نہیں ہوئے، عمدہ تجزیے، عمدہ نکتہ زنی سے بھی شاد کام ہوتے، صرف تحریکی رسائل و جرائد اور کتب کا ہی مطالعہ نہیں کرتے تھے بلکہ وہ سائنس اور سائنسی مضامین بھی پڑھتے، علم دین بھی اور اس سے متعلقہ موضوعات، ادب و شعربھی پڑھتے۔ ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا۔
وہ مطالعہ صرف اردو زبان ہی میں نہیں، انگریزی میں بھی کرتے، صرف اردو رسائل و جرائد ہی نہیں دیکھتے اور پڑھتے تھے، بلکہ انگریزی اخبارات و رسائل بالخصوص اکانومسٹ، ٹائم میگزین ، نیوز ویک، ڈان کا سنڈے میگزین اور ’بک اینڈآتھر‘بھی ضرور دیکھتے، نشان لگاتے، دوسروں کو اس مطالعے میں شریک کرتے، فوٹو کاپی کراتے اور ان تک پہنچاتے جو اس کے قدر دان ہوتے، تحریکی جرائد کے لیے مفید سمجھتے تو انھیں بھیجتے۔
اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے، لکھتے پڑھتے اور دیکھتے جو تجاویز ذہن میں آتی وہ مرکز جماعت، اداروں، افراد کار، رسائل و جرائد کو بہتری کے لیے ان کو ارسال کرتے، اور خوب سے خوب کی تلاش میں خود بھی رہتے اور دوسروں کو بھی اس کا خوگر بناتے۔ میں نے ان کو داد تحسین کا عادی نہیں پایا، یعنی بقول غالب ع 
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ!
وہ کام کے خوگر تھے، کام کرتے، اور بس کام کام ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا،
وہ رابطہ رکھنے میں بھی یدطولیٰ رکھتے۔ خط لکھتے جب کہ آج کل تو ویسے ہی خط لکھنے کا رواج ختم ہو چلا، ٹیلی فون کرتے۔ البتہ انس بھائی کی انتہائی کوشش کے باوجود بھی وہ موبائل سے مناسب انداز میں استفادہ نہیں کرپاتے، فیس بک نہ واٹس اَپ، اور نہ ایس ایم ایس۔ لیکن ان کا تحرک اور فعالیت، زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہا، ماہ ستمبر۲۰۱۶ء کا عالمی ترجمان القرآن کا پرچہ تیار کروایا، ہر چیز خود دیکھی، اور جب پرچہ پریس چلا گیا تو اطمینان کا سانس لیا، لیکن اطمینان کہاں، اب اکتوبر کے پرچے کی تیاری کا مرحلہ درپیش تھا۔ پروفیسر سلیم منصور خالد اور امجد عباسی اس کام میں ان کے دست وبازو ہیں، وہ فوراً ہی اگلے پرچے کا پلان سامنے رکھ دیتے۔
مسلم صاحب نے میرے مطالعے کو نئی جہت دی، پہلے صرف اردو اخبارات و رسائل پر اکتفا کرتا تھا مگر وہ اچھے اچھے، عمدہ اور خوبصورت انگلش مضامین فوٹو کاپی کراکے بھیج دیتے، انھوں نے اکانومسٹ ، ٹائم میگزین، نیوز ویک اور انگریزی اخبارات دیکھنے کی عادت ڈالی، بلکہ ایک دو انگریزی مضامین کا ترجمہ بھی ترجمان القرآن کے لیے کروایا، اس طرح ہم ترجمہ نگار بھی ہو گئے۔
وہ خود بہت اچھے مترجم تھے انگریزی سے اردو ترجمہ میں انھیں خاص مہارت حاصل تھی۔ ان کا ترجمہ کرنے کا انداز بہت معیاری اور اعلیٰ تھا۔ میں نے خرم مرادؒ کی کتاب Way to Quran میں دیکھا، جس کا انھوں نے ایسا رواں شستہ ترجمہ کیا کہ اصل کا گمان ہوتا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ انگریزی کتاب کا ترجمہ ہے بلکہ اردو کتاب ’’قرآن کا راستہ‘‘ پڑھ کے ایسا لگتا ہے کہ یہ اردو کی کتاب ہے۔ 
وہ کراچی جاتے تو فون ضرور کرتے، حال احوال پوچھتے اور کبھی میں بھی فون کر لیتا۔ کراچی کے موسم سے لے کر حالات تک اور ملاقاتوں، نشستوں، کتب میلوں اور بدلتے کراچی اور معاشرت کے بارے میں تفصیلاً گفتگو کرتے، اور ساتھ میں اپنی تجاویز اور کام کی باتوں سے نوازتے جاتے۔ بعض باتوں پر افسوس بھی کرتے کہ کاش ہمارے ہاں بھی ایسا ہوتا۔
وہ تحریک اسلامی کے بے لوث کارکن تھے۔ وہ رکن جماعت نہیں بنے اگر وہ زندہ ہوتے تو ان سے ضرور پوچھتا کہ آپ جماعت کے رکن کیوں نہیں بنے۔حالانکہ وہ لوگوں کو تحریک کے ساتھ جوڑتے، کام کی طرف متوجہ کرتے، کتابیں تحفہ میں دیتے۔بالخصوص عیدین اور تہواروں کے موقع پر بھولے بسروں کو یاد کرتے، دعوتی سیٹ ارسال کرتے، منشورات کی نئی کتاب آتی تو وہ دیتے۔
مرکز جماعت، مرکزی ذمہ داران اور کارکنان سے بھی قریبی تعلق رکھتے اور جس جانب متوجہ کرنا ہوتا ضرور کرتے اور خط بھی لکھتے۔ قاضی حسین احمدمرحوم، سید منور حسن صاحب اور لیاقت بلوچ صاحب کے نام ان کے خطوط اور تجاویز کے نتیجے میں کئی تجاویز پر عمل ہوا۔ تاہم اس بارے میں ان کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ ہمیں اپنے ساتھیوں اور نظم کو متوجہ کرتے رہنا چاہیے، اس میں تساہل نہیں ہونا چاہیے۔ اور نہ پریشانی کہ کوئی کیا کہے گا۔
ان کی کتنی ہی تجاویز پر عمل ہوا اور اس کے کے نتیجے میں مرکزی دفاتر کے سامنے والے لان میں بزرگوں کے بیٹھنے کے لیے بنچ رکھے گئے جو دوران واک تھک جاتے تو ان پر بیٹھ کر سکون پاتے۔ اسی طرح جامع مسجد منصورہ کے دروازے پر ریلنگ اور وہیل چیئر مسجد لے جانے کے لیے راستہ بنایا گیا۔ ان کی تجاویز وطن عزیز کے حالات، سیاسی حالات، بناؤ بگاڑ، برادر تنظیمات، رسائل و جرائد، امیر جماعت، قیم جماعت، افراد کار بارے بھی ہوتیں وہ ہمیشہ جماعت کے اداروں کے فعال کردار کے آرزو مند رہے۔
کچھ ہی عرصہ قبل انھوں نے ایک قرار داد ’’ملک میں بڑھتے ہوئے حادثات‘‘کے حوالے سے تیار کرکے دی، جس کو محترم لیاقت بلوچ صاحب نے مختلف صوبائی و قومی اداروں اور ان کے ذمہ داروں کو ارسال کیا۔ جب تک یہ قرار داد چلی نہیں گئی وہ فالو اَپ کرتے رہے۔
کہیں کوئی نئی کتاب چھپتی اور وہ اس کی خبر پا لیتے، جب تک اسے حاصل نہ کر لیتے چین سے نہ بیٹھتے۔
خرم مراد مرحوم کراچی سے انھیں ترجمان القرآن میں لائے، اور کراچی سے آکر وہ لاہور کے ماحول میں ایڈجسٹ ہی نہیں ہوئے بلکہ لاہور کے ہی ہو رہے۔ کراچی سے آنے والوں کا ان کے ہاں مستقل ڈیرہ ہوتا، گفتگو ہوتی، چائے چلتی۔ ترجمان کے دفتر میں صبح سویرے آجاتے ، جہاں وہ پوری دنیا سے رابطے کرتے، مضامین دیکھتے، ان کی اصلاح کرتے، نئی کتب دیکھتے، تبصرہ لکھواتے، خود بھی لکھتے، رسائل و جرائد دیکھتے۔ وہ تیزی سے کام کرنے کے عادی تھے، اور کام کا تعاقب اس سے بھی زیادہ سرعت ساتھ کرتے۔
خرم مراد مرحوم نے ترجمان القرآن کو نیا آہنگ دیا اور مسلم سجاد نے ان کا خوب ساتھ نبھایا بلکہ پروفیسر خورشید احمد مدیر بنے تو ان کا زیادہ تر انحصار بھی مسلم سجاد پر ہی ہوتا اور انھوں نے بھی اپنے تعلق کو خوب نبھایا۔ دن رات کام کرتے، ترجمان القرآن کی اشاعت بڑھائی۔ اس طرف بھی وقتاً فوقتاً جماعت کے ذمہ داران کو بھی اشاعت بڑھانے بارے متوجہ کرتے۔
جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوتا تو اس میں لازمی شرکت کرتے۔ منشورات کی نئی کتب اراکین شوریٰ کو پیش کرتے۔ انھیں دفتر ترجمان لے جاتے، اور اس موقع پر مختلف تحریکی امور پر گفتگو بھی ہوتی۔ نماز کی ادایگی کے لیے ہمیشہ مسجد آتے، آخری عمر میں جب چلنے میں مشکل محسوس کرتے تھے تب بھی مسجد ضرور آتے، کبھی اپنے بیٹے زید کے ساتھ اور کبھی عدی کے ساتھ۔ مسجد کے ساتھ ان کا تعلق بہت مضبوط تھا۔ مسجد آتے،تو مختلف احباب سے ملاقات بھی کرتے۔ فجر کی نماز کے بعد مولانا عبدالمالک صاحب کے درس حدیث کو شوق سے سنتے اور پروموٹ کرتے۔
جمعیت کے زمانے میں ان کی ایک تحریر ’مخلوط تعلیم‘ احمد انس کے قلمی نام سے دیکھی۔ اس طرح کی چیز بعد میں کم ہی نظر آئی، ان کی یہ تحریر ایسی تھی کہ جب یہ پہلی بار چھپی تو سید مودودیؒ نے بھی اسے دیکھا تھا اور اس بارے معلومات بھی فراہم کیں اور یہ مشورہ بھی دیا کہ اس کا انگریزی ترجمہ ہونا چاہیے، لیکن نامعلوم کیوں یہ ترجمہ نہ ہو سکا۔ آج تو خیر صورت حال بہت بدل چکی ہے اور آج تو تمام تعلیمی ادارے، غیروں کے تو اپنی جگہ اپنوں کے بھی ’مخلوط تعلیم‘ جسے نئے رجحان سے بچ نہیں پائے۔
وہ لکھتے بھی خوب تھے، اور ڈکٹیٹ بھی خوب کراتے، روداد نویسی کے بھی خوب ماہر تھے۔ ایک بار کسی موضوع پر کوئی گفتگو سن لیتے تو اس کو احسن انداز میں لکھتے۔ کوئی یہ گمان نہ کر سکتا کہ یہ انھوں نے نوٹس لیے بغیر لکھی ہے۔ وہ ایڈیٹنگ کے بھی خوب ماہر تھے، بہت تیزی کے ساتھ ایڈیٹنگ کرتے۔ وہ جملہ بازی کے خوگر تھے، خوب جملہ بازی کرتے، لیکن ہر کسی سے نہیں جن سے بے تکلفی ہوتی، یہ معاملہ اسی سے کرتے۔ کہتے تھے کہ بندہ چلا جائے لیکن جملہ نہ جانے پائے!
ان کے پاس دفتر جانا ہوتا تو ہمیشہ خوش ہوتے، چائے پلاتے اور ساتھ اپنی ٹیبل کے کسی خانے میں رکھے ڈبے سے بسکٹ نکال کر پیش کرتے۔ مختلف ایشوز شیئر کرتے، تحائف سے نوازتے۔ جب کراچی سے آتے تو ہمیشہ کوئی نہ کوئی کتاب ضرور لاتے۔ پھر ذوق مطالعہ دو چند کرتے، کتاب کے مندرجات کا ذکر کرتے، اور ان کے بارے پوچھتے ادب، شاعری افسانے، ڈرامہ، ناول وغیرہ اس بار کوئی میں زیادہ وقت گزارا، صحت بھی ٹھیک نہیں تھی لیکن آئے تو ابن بطوطہ بارے کتاب لائے، اس بار عید الالضحیٰ پر تھرماس بھیجا، بلال کو خاص طور پر بھیجا کہ جاؤ دے کر آؤ۔
۴، ۵ سال قبل جب صحت اچھی تھی تو ہم اکھٹے نماز فجر کے بعد سیر کرتے۔ سانس کے مریض ہونے کے باعث وہ آہستہ آہستہ چلتے۔ اس زمانے میں سیرکے بعد ان کے دفتر میں باقاعدگی سے نشست ہوئی جس میں چائے کا دور چلتا۔ اس بیٹھک اور چائے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا۔ان کے گھر میں کئی بار کھانا کھانے کا موقع ملا۔ وہ دعوتیں کھاتے بھی تھے اورکھلاتے بھی تھے۔ مولانا سید جلال الدین عمری ، سید رضی الاسلام ندوی، اور کتنے ہی کراچی اور باہر کی دنیا کے لوگوں سے اس طرح تعارف ہوا۔ اللہ ان کی اہلیہ کو سلامت رکھے بہت مزے مزے کے کھانے بناتیں اور کھلاتیں۔ ان کے ہاتھوں کی بنائی بریانی کا کیا خوب ذائقہ ہوتا۔ 
دفتر میں باقاعدگی سے چائے کی مجلس ہوتی چائے کا دور چلتا، اس چائے کالطف ہی کچھ اورتھا۔
لاہور آنے کے بعد بالخصوص خرم مراد مرحوم کی وفات کے بعد انھوں نے منشورات پر خصوصی توجہ دی، منشورات کو کتب کی اشاعت کا مقبول ادارہ بنانے میں ان کا بہت اہم کردار رہا۔ گو اس دوران وہ مختلف بحرانوں سے بھی گزرا، لیکن ترقی کا یہ سفر جاری رہا۔ انھوں نے مولانا مودودی، خرم مراد اور پروفیسر خورشید احمد کے مختلف موضوعات پر کتابچے خوبصورت انداز میں طبع کیے اور کئی نئے لکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنے۔ طباعت و اشاعت کو ایک نیا آہنگ بخشا۔ انھوں نے منشورات کے تحت مختلف کتابیں بھی طبع کیں۔ ان کتابوں کے سرورق ہوں یا طباعت، نئے انداز اور نئے رجحانات متعارف کروائے۔ اس کا م میں پروفیسر سلیم منصور خالد، راشد الیاس وغیرہ ان کے ہم رکاب رہے۔
کبھی کبھار وہ ہمارے پاس مرکز جماعت کے استقبالیہ پر تشریف لاتے، اورچائے کی فرمایش کرتے، سبز چائے شوق سے پیتے۔ ہمارے دفتر آنے والے اخبارات جنگ اور نوائے وقت ساتھ لے جاتے لیکن اگلے ہی روز پڑھنے کے بعد شکریے کے ساتھ واپس بھیجو دیتے۔
زمانہ طالب علمی اسلامی جمعیت طلبہ سے کراچی میں وابستہ ہوئے۔ جمعیت کے معتمد عمومی رہے۔ جمعیت کی قیادت اور کارکن سے مل کر خوش ہوتے اور ان کو کام کے سلسلے میں مفید مشوروں سے نوازتے۔ ان کا جمعیت کا زمانہ جمعیت کا ابتدائی دور تھا۔ جمعیت سے فراغت کے بعد انھوں نے لیکچرر شپ اختیار کر لی اور طلبا کو زوالوجی (حیوانیات)پڑھاتے رہے، لیکن اس تمام عرصے میں وہ اپنے فرائض سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ طلبا و اساتذہ تک دعوت پہنچاتے۔ اور ان کو تحریک کے قریب لاتے رہے حقیقت میں وہ ایک بے چین اور مضطرب روح رکھتے تھے۔
وہ چراغِ راہ کے مشاورتی بورڈ میں احمد انس کے قلمی نام سے شامل رہے، کا تذکرہ کرتے اور بتاتے کہ خورشید صاحب نے میرے اوپر بہت محنت کی اور اس قابل بنایا۔ آج جو کچھ ہوں اس میں خورشید صاحب کی بے پایاں محبت، خلوص اور محنت کا بڑا ہاتھ ہے جمعیت سے فراغت کے بعد وہ تنظیم اساتذہ کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پروفیسر حافظ وحیداللہ خان تنظیم اساتذہ کے صدر اور صوبہ سندھ کے صدر پروفیسر عنایت علی خان تھے۔ تنظیم اساتذہ میں بھی اپنی صلاحیتوں کا خوب خوب لوہا منوایا اور انتھک انداز میں کام کیا۔
منصورہ آنے کے بعد پروفیسر مسلم سجاد صاحب کے دو کام بہت اہم نوعیت کے رہے بالخصوص ترجمان القرآن کی ۱۹۳۲ء سے لے کر دسمبر۲۰۱۴ء تک کی DVD کی تیاری اور دوم اسی طرح تفہیم القرآن کی آڈیو CD۔
منصورہ میں نمازِ ظہر کے بعد ان کی نمازہ جنازہ کا اعلان کیا گیا تھا۔ نماز ظہر کے بعد ان کے گھر سے جنازہ اٹھایا گیا تو آسمان پر ہلکے ہلکے بادل موجود تھے، نماز جنازہ حافظ محمد ادریس صاحب نے پڑھائی۔ نماز جنازہ کے بعد میت کو کریم بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں لے جایا گیا، جہاں جماعت کے کئی اکابرین مدفون ہیں۔ ابھی میت کو قبر میں رکھنے کا مرحلہ باقی تھا کہ پہلے ہلکی ہلکی پھر تیز بارش شروع ہو گئی۔ بارش ہی میں عبدالغفار عزیز صاحب نے قرآن مجید کی تلاوت اور دعا کی یوں پروفیسر مسلم سجاد سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ اور ہم لوگ تیز بارش میں انھیں تنہا قبر کے حوالے کرکے منصورہ واپس آگئے کہ یہی زمانے کہ دستور ہے، جانے والا چلا جاتا ہے اور اس کے عزیز و اقارب ہوں یا دوست احباب، سب رخصت کرکے اپنی اپنی راہ لیتے ہیں، اور سفر آخرت پر جانے والا اکیلا ہی اس سفر پر روانہ ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ بھی تن تنہا اس سفر پر روانہ ہوئے۔ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور انھیں اعلی علیین سے نوازے۔آمین
مزید پڑھیں

Sunday 25 September 2016

سیدمودودیؒ اورخلافت و ملوکیت

| |
0 comments
تحریک اسلامی کے مؤسس سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ (25ستمبر1903ء)کاآج یوم پیدائش ہے۔سیدمودودیؒ جو امت کے گل سرسبد ہیں۔امت کا روشن دماغ اور چمکتا دمکتا چہرہ ہیں۔ ان کی پھیلائی ہوئی روشنی سے امت کے دل و دماغ روشن ہورہے ہیں۔ مولانا مودودیؒ عصر حاضر کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے، جن کا عزت و احترام پورا عالم اسلام میں پایاجاتا ہے۔
مولانا مودودیؒ کا علم و فضل جذبہ و اخلاص، فہم و ذکا،بصیرت و بصارت تحریک و تحرک، عبقریت، بلند نگاہی ،دلنواز سخن، جاں پر سوزی، اور فریضہ اقامت دین کے لیے پایاجانے والااضطراب ان کی زندگی کے وہ خاص نمایاں اور ممتاز پہلو ہیں ۔
سید مودودیؒ نے تن تنہا اداروں جتنا کام کیا۔ اور ایسا وسیع کام جو ادارے بھی صدیوں میں سرانجام دیتے ہیں۔سید مودودیؒ ے جو لکھا خوب لکھا، جو مسائل اٹھائے سوچ سمجھ کر اور ان کاجائزہ لے کر مضبوط موقف کے ساتھ مدلل، اور مؤثر اندازمیں قرآن و سنت کی روشنی میں اٹھائے مولانا مودودی نے دنیا کے گوناگوں مسئلہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔
اسلام ، اسلامی تہذیب و معاشرت ،اسلامی شریعت ، اسلامی دعوت ، عقائد ، عبادات، اخلاق ، قانون، معیشت ، سیاست، تاریخ امت ، معاشرہ ، خاندان ، حکومت و ریاست اور بین الاقوامی تعلقات جیسے موضوع پر قلم اٹھایا اوراس کا حق ادا کردیا۔
سید مودودیؒ کی تحریر وتقریر کا یہ خاص امتیاز اور فخر ہے کہ وہ جسے حق سمجھتے ہیں اس بارے میں بلا تامل اوربلا خوف و خطر اظہارخیال کرتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں وہ کسی سے خوف نہیں کھاتے اور نہ کسی ڈکٹیٹر کی پرواہ کرتے ہیں۔ کوئی لادین ہویا اشتراکی، سرمایہ پرست ہویا مغرب کا مادیت زدہ، کوئی سیکولرازم کا پرچارک ہویا قدامت کا علمبردار، سید مودودیؒ کا قلم حق و سچ لکھتا ہے۔ اور وہ کبھی زہر ہلاہل کو قند نہیں کہتے۔ چاہے اس کی جتنی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔
ان کے افکار عالی شان سے صرف برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں ہی نے فیض نہیں پایا۔ بلکہ پورے عالم اسلام نے فیض پایا ہے۔ ان کے نظریہ و افکار نے امت کے لاکھوں انسانوں کی زندگی بدلی ، ان کوسوچنے سمجھنے کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ نسل نو کو تحرک اور فعالیت بخشی اور امت مسلمہ کو تحریک اسلامی کا تحفہ دیا اور اس کے ساتھ اسلامی جمعیت طلبہ، سیدمودودیؒ کا لٹریچر ہویا ان کی برپا کردہ تحریک ، دونوں کا فیض جاری ہے۔اور فیض پانے والے فیض پارہے ہیں۔ یہ لٹریچر اور تحریک ان کے لیے بمنزلہ صدقہ جاریہ ہے۔ اللہ ان کی قبرکو نور سے بھردے اور ان کو جنت الفردوس سے نوازے اور نبی مکرمﷺ کی معیت عطا فرمائے۔

خلافت و ملوکیت ، سید مودودیؒ کی شہرہ آفاق تصنیف ہے۔ جس میں سیدمودودیؒ نے نے خلافت کے ملوکیت میں بدل جانے کے عمل بارے تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔اس موضوع پر سید مودودیؒ کے شاگرد خاص اوروفاقی شرعی عدالت کے جج ،جسٹس ملک غلام علی نے ’’خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ ‘‘ کے عنوان سے بالخصوصدیوبندی مکتبہ فکر اور بالعموم دیگر مکاتب فکر  کے خلافت و ملوکیت پر اٹھائے گئےسوالات و اشکالات کے نہایت عمدہ اور مسکت جوابات دیئے ۔ جس پر دیوبندی مکتبہ فکر کے ایک سینئر عالم دین کا کہنا تھا کہ جسٹس ملک غلام علی نے خلافت و ملوکیت پرکئے جانے والے اعتراضات کا زبردست دلائل کے ساتھ دفاع کیا ہے۔ کچھ لوگ سید مودودیؒ کی کتاب خلافت و ملوکیت پر اعتراض کرکے اپنا قدبڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ 600سال کی تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو، اس موضوع پراس طرح کا عمدہ تجزیہ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
سیدمودودیؒ کی خلافت و ملوکیت ،اس اہم موضوع پر شاہکار(Master Piece)ہے۔سید کی فکر روشن چراغ ہے اور ان کے افکار عالی سے پھوٹنے والی روشنی سے مغرب اور سیکولرز خوف زدہ اور پریشان ہیں۔ سید مودودیؒ کے جلائے ہوئے چراغوں میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں

Sunday 4 September 2016

حجاب عورت کے تحفظ کا ضامن

| |
0 comments
4ستمبر کا دن (عالمی یوم حجاب )عالمی سطح پر عالمی اسلامی تحریکوں کی اپیل پر گزشتہ کئی سالوں سے منایا جارہا ہے ۔اس دن دنیا بھر میں تقریبات سمینارز و سموزیم منعقد کئے جاتے ہیں ۔اخبارات میں خصوصی ایڈیشنز شائع ہوتے ہیں۔ٹی و ی چینلز خصوصی نشریات ترتیب دیتے ہیں جس سے شعوروآگہی کا سفر جاری رہتا ہے ۔اللہ اور رسول کے احکامات بارے جاننے ،انہیں اپنانے اور ان پر عمل کرنے کا داعیہ فروغ پاتا ہے ۔
اسلام دین فطرت ہے اور رب کائنات نے انسان کی فطرت میں چیز ودیعت کی ہے اسلام اس کا بول بالا چاہتا ہے ۔اخلاقیات ،اچھائی،پاکیزگی ،نیکی ،حلال و حرام کی تمیز،اسلام کی تعلیمات کاحصہ ہیں ۔
حجاب اسلامی معاشرے کا ایک اہم وصف ہے جو خواتین کو عزت ،وقاراور افتخارسے نوازتا ہے ۔اسلامی تعلیمات میں زور و زبردستی نہیں لیکن مغرب اور مغرب سے متاثرہ افراد یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشروں میں بھی عورت مغرب کی طرح بے حجاب رہے ۔یہ عورت کا اپنے اللہ ،اس کے رسول اور اسلامی تعلیمات اور اقدار کے ساتھ معاملہ ہے کہ وہ کیا رویہ اختیار کرتی ہے ۔مغرب مسلمان عورت پر بے حجابی ،بے پردگی مسلط کرنا چاہتا ہے اسلئے مغربی معاشروں میں حجاب اور سکارف کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے ۔مغرب میں حجابی عورت کو تشدد،طعن و تشنیع برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن وہ حجاب پر عمل پیرا رہتی ہے اور ہر طرح کا ظلم و تشدد سہتی ہے ۔اس ضمن میں مغرب ،اہل مغرب اور مغربی معاشروں کا رویہ دوغلے پن اور تضاد کا شکار ہے ۔ایک طرف مغرب آزادیوں کا راگ الاپتا ہے اور دوسری جانب اگر کوئی اپنی آزادمرضی سے اپنی دینی تعلیمات پر عمل کرتا ہے تو اس کو مغرب کے متضاد رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
حجاب کیا ہے ؟حجاب اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے ۔قرآن مجید کے الفاظ میں عورت کے لئے سر اور سینہ ڈھانپا لازمی ہے ۔حجاب ایسا ہو کہ زینت کی جگہیں نمایاں نہ ہوں ۔ایسا حجاب جس سے حجاب کی جگہیں نمایاں ہوں اسے حجاب کہنا مذاق تو ہو سکتا ہے حجاب نہیں ۔حجاب حیا دار لباس ہے جس سے حیا کا کلچر فروغ پاتا ہے ۔برائی اور بے حیائی کا سدباب ہوتا ہے ۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حجاب آنکھ اور دل کے پردے کا نام ہے وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں جو جسمانی پردے سے انکار کرے وہ دل اورآنکھوں کا کیا پردے کرے گا۔یہ صرف خلط مبحث ہے ۔
اگر کوئی حجاب کے حق میں نہیں تو یہ اس کی ذاتی پسند ،ناپسند کا معاملہ ہو سکتا ہے لیکن اسلام اور اسلامی شریعت کا تقاضا تو یہی ہے اس کی پاپندی کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے ۔بے پردہ ہویا ،بے حجاب ہونا آزادی کا نام نہیں ،یہ مغرب کے معاشرے میں تو چل سکتا ہے لیکن ایک اسلامی معاشرے میں اس کا گزر ممکن نہیں ۔اگر کوئی اپنے آپ کو مسلمان بھی کہے اور مسلمانی کے تقاضے پورے نہ کرے تو وہ نام کا مسلمان تو ہو سکتا ہے کام کا اور صحیح مسلمان نہیں ہوسکتا۔ 
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حجاب کی ضرورت نہیں وہ دراصل اسلامی تعلیمات اور شریعت سے آشنا نہیں ہیں ۔دین اسلام سے یہ ناآشنائی انہیں یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ حجاب کی ضرورت نہیں اسلامی تعلیمات و احکامات میں حجاب کا اہم مقام ہے۔حجاب عورت کے تحفظ کا ضامن،عفت و پاکدامنی کا رکھوالا اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے ۔حجاب اسلامی روایات واقدار کا امین اور جسمانی و روحانی تہذیب کی تشکیل کاہم ذریعہ ہے اور یہ اس عالمی تہذیب ،حیاء اور کلچر کا حصہ ہے جو پوری مسلم دنیا کا شعار ہے ۔یہ اور بات ہے کہ اس پر کتنا عمل ہوجاتا ہے ۔اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والا فرد ہو یا معاشرہ وہ کبھی بے ثمر نہیں رہتا ۔اللہ کی برکات و فیوض ان معاشروں اور افراد کو اپنے 
دامن رحمت میں ڈھانپ لیتی ہے اور وہ اس سے فیضیاب پاتے ہیں۔
حجاب کے بارے بے ہودہ گفتگو ،تبصرے ،طعن و تشنع سے بھر پور حملے مغرب کے تعصب، گمراہی اور اسلامی تعلیمات سے ناآشنائی کی علامت ہیں ۔انسانی حقوق،آزادی یہ تمام مغرب کا چربہ ہیں ۔اسلام کا ان سے کوئی تعلق نہیں ،اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جوآزادی دی ہے وہ فطرت کے عین مطابق ہے اس سے زائد کچھ نہیں اسلامی معاشرہ،مغربی معاشرے کی پیروی نہیں کر سکتا اور نہ ہی کرنا چاہیے۔اس لئے کہ اسلام دین کامل ہے اور اس میں تمام امور زندگی کے بارے مکمل راہنمائی دی گئی ہے ۔جبکہ عیسائیت ،یہودیت ،جین مت،بدھ مت اور ہندومت اور دوسرے مذاہب اپنی اصل چھوڑ کر بھول بھلیوں میں گم ہو گئے ان کے لئے بھی اسلام آخروی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے اگر وہ اس کو اختیار کر لیں ۔دنیاوی کامیابیوں کو اخروی کامیابیوں سے کوئی نسبت نہیں ۔اخروی کامیابی اور نجات کا پیمانہ اورہے اور دنیاوی کامیابی اور نجات کا الگ ۔اب جس کا جو جی چاہے وہ اس کا انتخاب کر لے ۔
امریکہ ہو یا برطانیہ یا یورپ کا کوئی دوسرا ملک گرجا گھروں (چرچ)میں راہبائیں (Nuns)اپنا سینہ ڈھانپے کام کرتی ہیں یہ خدا کی شریعت کا حکم ہے اس میں یہ نہیں ہو سکتا جو پسند آئے اسے اختیار کر لو اور جوپسند نہ آئے چھوڑ دو۔غیر مسلم عورتوں کو کوئی حجاب لینے کو نہیں کہتا ۔یہ حکم صرف مسلمان عورت کے لئے کہ وہ اس پر عمل کریں ۔غیرمسلم معاشرہ اور خواتین یقیناًحجاب کے اثرات محسوس بھی کریں گی اور متاثر بھی ہو ں گی اور اسے اختیار بھی کریں گی ۔کیونکہ مغرب میں جن جن خواتین نے اسے اختیار کیا انہوں نے اسے بہتر پایا ،اپنے آپ کو محفوظ ،باوقار محسوس کیا اور اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اسلام کے دامن رحمت میں آگئیں ۔
مغرب میں بسنے والے خاندان بالخصوص خواتین مغرب کے دوہرے معیار ،متعصب رویوں کا سامنا کرتی ہیں ۔ان پر سرراہ آوازے کسے جاتے ہیں ،لباس کھینچا جاتا ہے ،حجاب نوچا جاتا ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے سب سے زیادہ آزادیوں کا پرچار کرنے والا فرانس ہو یا برطانیہ ،امریکہ ہو یا یورپ کا کوئی ملک پردے اور حجاب پر پابندی کے ضمن میں یک زبان ہیں ۔
مزید پڑھیں

Thursday 25 August 2016

جماعت اسلامی کایومِ تاسیس

| |
0 comments
جماعتِ اسلامی ایک علمی وفکری تحریک ہے، جس کے بانی گذشتہ صدی کے عظیم مفکراسلام سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں، انہوں نے۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء میں اسلامیہ پارک لاہور میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اس ابتدائی اجلاس میں برصغیرپاک وہند سے کل 75افراد نے شرکت کی، یہ افرد مولانا مودودیؒ کی ترجمان القرآن کی تحریروں کے ذریعے ان کی فکر سے متاثر ہوئے تھے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے بیت المال میں کل سرمایہ 74روپے 12آنے تھا۔ گویا افراداورسرمایہ ایک جیسا ہی تھا۔ ان کے پیش نظر برصغیر پاک وہند میں اللہ کے دین کا پرچم سربلند کرنا تھا۔ اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلا کر انہیں ایک اللہ کی بندگی میں دینا تھا۔ اسے فریضہ اقامتِ دین، اعلائے کلمۃ اللہ اور شہادت حق کے نام سے موسوم کیاگیا۔ یہ فریضہ تمام انبیاء کرام نے انجام دیا۔ اور آخری نبی حضورؐ اس فریضے کو بجا لائے۔ سیّد مودودیؒ کے پیش نظر وہی کام تھا، اسی طرح کے افراد کار کی تیاری اور معاشرہ تشکیل دینا تھا۔ سیّدنے تمام زندگی اپنے علم وعمل ، وعظ ونصیحت، تقریروتحریر کے ذریعے اس کام کو کیا۔ 
اس کام کے لیے لوگ آتے گئے اور قافلہ بنتاگیا، 75افراداور قلیل سرمائے سے شروع کیاجانے والایہ کام دن بدن آگے بڑھتا رہا، افرادی قوت فراہم ہوتی رہی، اور مولانا مودودیؒ کے وژن کے مطابق جماعت اسلامی کی جدوجہد آگے بڑھتی رہی، مولانا مودودیؒ نے اس قافلہ حریت کی قیادت ۱۹۷۹ء تک کی ۔ انہوں نے جماعت کی امارت سے معذرت کی روایت ڈالی۔ قیادت کے منصب سے معذرت کی توارکانِ جماعت نے قیادت کیلئے میاں طفیل محمد کومنتخب کیا، ناکہ مولانامودودیؒ کے حقیقی بیٹوں کو، اس طرح جماعت کی قیادت کاسفرآگے بڑھا۔ میاں طفیل محمدؒ ۱۹۸۷ء تک جماعت اسلامی کی امارت کے منصب پر فائز رہے، انھوں نے بھی مولانا مودودیؒ کی قائم کردہ اس روایت کو آگے بڑھایا اور جماعت کی قیادت KPKکے ضلع نوشہرہ کے گاؤں زیارت کاکاصاحبکے ایک پختون قاضی حسین احمد کے سپرد ہوئی جن کے والد گرامی فاضل دیوبندتھے۔ انہوں نے ۲۲سال تک جماعت کی قیادت کی اس کے بعدیہ امارت دلّی کے سیدخانوادے کے چشم وچراغ کراچی کے سیّدمنورحسن کے سپردکی، وہ اپنا عہدنبھا کررخصت ہوئے تو جماعت اسلامی کی قیادت دیرسے تعلق رکھنے والے، اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ اوردوبارصوبہ kpkمیں وزیرخزانہ رہنے والے سراج الحق کے کندھوں پر آئی۔ آج کل وہ جماعت اسلامی کی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ 
جماعت اسلامی دراصل امربالمعروف ونہی عن المنکر کی ایک تحریک ہے۔ جو معاشرے میں نیکی کے فروغ اور ابلاغ کیلئے سرگرم عمل ہے اور برائی کی ہرشکل کا قلع قمع کرنے کیلئے جدوجہد آزما ہے۔ نیکی کا حکم دینا اوربدی سے منع کرنا قرآنی حکم ہے، یہ انبیاء والا کام ہے، اس کے ذریعے معاشرے میں نیکی فروغ پاتی ہے اور اس کا چلن عام ہوتا ہے اور برائی، بے حیائی اورحرامکاری کے راستے بند ہوتے چلے جاتے ہیں، اس کے نتیجہ میں معاشرہ پاکیزہ سے پاکیزہ ترہوتاچلاجاتاہے۔
جماعت اسلامی فرشتوں کی جماعت نہیں انسانوں کی جماعت ہے اور انسان خطاؤں سے ماورا نہیں ہوتے، غلطی کا سرزد ہوجانا ان کی سرشت میں شامل ہے لیکن ایک اچھا، نیک اور پاکیزہ انسان فوری اپنے رب کے درکی طرف لپکتا ہے اور توبہ کا دروازہ کھٹکھٹاتاہے اور گناہوں پراپنی ندامت کا اظہار کرتاہے، جس پر اس کا رب اسے معاف کردیتاہے، یہی انسان کا بڑا پن اور عظمت ہے۔ جماعت اسلامی اپنے رب سے ڈرکر زندگی گزارنے والے انسانوں کی جماعت ہے۔
جماعت اسلامی نے دعوت و خدمت کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے، اس کے افراد بلدیات میں بھی منتخب ہوئے اور اسمبلیوں میں بھی۔ انہوں نے اپنے کرداروعمل سے اچھا اورعمدہ کردار پیش کیا۔ وہ چاہتے تو بہتی گنگا سے ہاتھ دھوسکتے تھے، مال بناسکتے تھے، پلاٹ اورپرمٹ لے سکتے تھے۔ لیکن خوف خدا سے سرشاراللہ کے ان بندوں نے کبھی کسی حکومت سے مراعات نہیں لیں، اپنے وقت اور مال سے ایثار کیا اور قوم کی خدمت کی۔ اپنا ، اپنے گھروالوں اور بچوں کا پیٹ کاٹا مشکل برداشت کی لیکن اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیا۔ 
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایسے اچھے اور سُچے کردار کے لوگ باربار منتخب کئے جاتے۔ اسمبلیوں میں آتے اور لوگوں کی خدمت بجالاتے، لیکن قوم ان کو ووٹ نہیں دیتی اور یہ منتخب نہیں ہوپاتے۔ اس میں ان کا قصورنہیں۔ ڈاکٹر نذیرشہیدہوں یا دوبارایم این اے اور کراچی جیسے شہرکے میئررہنے والے عبدالستارافغانی، پروفیسرعبدالغفوراحمدہوںیا چوہدری رحمت الٰہی، قاضی حسین احمد، لیاقت بلوچ ہوں یا نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ، حافظ سلمان بٹ ہوں یاڈاکٹرفریداحمد پراچہ، اسداللہ بھٹو ، پروفیسرخورشید احمد ہوں یا پروفیسر محمد ابراہیم اور اب امیرجماعت جناب سراج الحق ، ڈاکٹر سیّدوسیم اختر ہوں یا چوہدری محمد اصغرگجر یادوسرے لوگ انہوں نے اپنی امانت ودیانت ، اخلاص، صلاحیت واہلیت کھرے کردار کا لوہا منوایا۔ پارلیمنٹ میں ان کی کارکردگی کی مخالفین بھی تعریف کرتے ہیں۔
مسئلہ یہ نہیں کہ لوگ ووٹ نہیں دیتے ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ نظام انتخاب میں ایسے بہت سے نقائص اور خامیاں موجود ہیں جو کسی ایسی جماعت اورفردکو آگے نہیں بڑھنے دیتے۔ جو قوم اور ملک اور اداروں کو مضبوط بنانے کی جدوجہدکرے اور ذاتی وشخصی مفادات سے بالاترہوکر ملکی وملّی مفادات کیلئے کام کرے۔ عوام الناس اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی طرف دیکھتے ہیں اور جہاں سے ان کے یہ مفادات پورے ہوتے ہوں وہ اس کا دامن تھام لیتے ہیں۔ چاہے اس میں قوم وملک کتنا خسارہ برداشت کرے۔

ذکی کیفی نے بجافرمایا
راہ وفامیں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم
لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم
مزید پڑھیں

Saturday 13 August 2016

70 واں یوم آزادی اور آج کا پاکستان

| |
0 comments

70واں یوم آزادی قوم آج ایسی حالت میں منا رہی ہے جب تازہ تازہ کوئٹہ ، بلوچستان میں المناک سانحہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں 75کے لگ بھگ شہید اور 100سے زائد زخمی ہوئے۔
مسلمانان ہند کی تاریخ میں 14اگست 1947خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے لئے 9کروڑ مسلمانان ہند میں سے 5کروڑ نے قیام پاکستان کے عظیم مقصد کے تحت اپنے رب سے زندگی بسرکرنے کا عہد کیاتھا۔ وہ عہد کیا تھا کہ ہم ایک ایسا خطہ چاہتے ہیں جس میں ہم اللہ اور اسکے رسول کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔
برصغیر پاک وہند میں ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ انگریز کے یہاں سے جانے کا سامان پیدا ہوا ہے انگریز کے جانے کے بعد معاملہ ہندواکثریت سے ہوگا۔ ہندو کی تنگدلی، اور مسلمان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ایسے حالات میں مسلمان اپنے عقیدے اور ایمان کے مطابق زندگی نہیں گزارسکتے۔ انہیں اقلیت بن کر رہنا پڑے گا اور ہندو کا محکوم۔ مسلمان اور ہندو اپنے عقیدے اور نظریے کے اعتبار سے دوالگ الگ نظریات رکھنے والی قومیں ہیں ان کامل جل کر رہنا مشکل ہوگا۔ اس کے پیشِ نظرمسلمانانِ ہند نے قیامِ پاکستان اورایک الگ ملک کے حصول کے لیے جدوجہد کی تاکہ مسلمان اپنے نظریے، عقیدے اور ایمان کے مطابق آزاد وطن میں زندگی گزار سکیں۔ یہ جدوجہد قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں کی گئی۔
نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والا یہ ملک پاکستان اللہ کی نعمت ہے، جس میں اچھا موسم اور پانی اور زرخیز زمینیں ہیں۔ جہاں تمام پھل اور فصلیں کا شت ہوتی ہیں۔ جس میں جنگلات ، پہاڑ، معدنیات، سمندر پائے جاتے ہیں۔ اب یہ یہاں کے رہنے والوں کا کام ہے کہ وہ ان نعمتوں سے خود فیض پائیں بلکہ دوسروں کوبھی نفع پہنچائیں۔ 
آج جبکہ قوم70واں یومِ آزادی منارہی ہے۔ قوم نے جس جذبے سے قیام پاکستان کیلئے جدوجہد کی‘ اوریہ خطۂ زمین حاصل کیا قیام پاکستان کے مقاصد ہنوز تشنہ تکمیل اور منتظر توجہ ہیں۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی بانی پاکستان قائد اعظم دنیا سے رخصت ہوگئے‘ اور عنان حکومت واقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آئی جن کو قیام پاکستان کے مقاصد کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کو دین اسلام اور شریعت اسلامی کے نفاذ سے بتدریج دور کیاگیا۔ قوم کو قوم بنانے کی بجائے ہجوم میں تبدیل کردیا گیا، مفادات پرست طبقے نے مفادات سمیٹے، اور قوت واختیار پر ایسے شکنجہ کساگیا کہ بدعنوانی، ناانصافی، ظلم ، بددیانتی وبداخلاقی، بے حیائی، فحاشی و عریانی، رشوت وسمگلنگ اور وطن فروشی اور ذاتی مفاد فروغ پاتے گئے اورعوام الناس کو مجبور محض بنا’دیاگیا‘جس آزادی کے خواب انہوں نے دیکھے تھے وہ حاصل نہ ہوگی۔ مایوسی‘ بے حسی اور بے کسی کی کیفیت نے قوم کو پژمردہ اور رہزنوں کے سپردکردیااور بقول شاعر: آزادی عوام نصیبوں جلی رہی،
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قیام پاکستان کے مقاصد کو فراموش نہ کیا جاتا۔ اس ملک کو دین اسلام کا گہوارہ بنایا جاتا، اور دنیا کے سامنے شہادت حق کی گواہی پیش کی جاتی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔
اللہ تعالیٰ نے حکمرانوں اور قوم کی بداعمالیوں کے نتیجے میں وقتاً فوقتاً آفات ارضی وسماوی کے ذریعے متوجہ کرنے اور توبہ کا راستہ دکھایا۔ لیکن کسی بڑی مشکل اور پریشانی سے دوچارنہیں کیا۔ ضرورت ہے کہ بحیثیت مجموعی قوم بالعموم اور برسراقتدار طبقہ اپنے گذشتہ اعمال پر سرعام اجتماعی ندامت کا اظہار کرے، کھلم کھُلا اجتماعی توبہ کا راستہ اختیار کرے اور پاکستان کو اسلامی نظریاتی اور فلاحی ملک بنائے اور تمام عالم کے سامنے شہادت حق کا فریضہ ادا کرے، کہ یہی اس ملک کی بقا‘ سلامتی اور ترقی کا راستہ ہے،
خُدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
مزید پڑھیں

Tuesday 23 February 2016

یہ امریکہ ہے!

| |
0 comments
امریکہ دنیاکا ایک بے باک اور آزاد ملک ہے، اور امریکہ کے رہنے والے اس آزادی وبے باکی سے کماحقہٗ فائدہ اٹھاتے ہیں، لطف اندوز ہوتے ہیں وہیں پر اس کی پوری قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔ حد سے بڑھی ہوئی آزادی و بے باکی دیکھنے اور سننے والے کو اچھی اور خوشنما لگتی ہے لیکن یہ حد سے بڑھی ہوئی بے باکیوں اور آزادیوں کی خوشنمائی، جگمگاہٹ اور خوبصورتی عارضی اور وقتی ہوتی ہے دائمی اور پائیدارنہیں۔
چکاچوند سے معموریہ ایک امریکی ماڈل کی کہانی ہے۔ جو نہایت عبرت ناک اور فکر انگیز ہے۔
امریکہ کی ایک مشہور ومعروف ماڈل تھی کرسٹا میکنا! ایک زمانے میں وہ شہرت کے بام عروج پر تھی۔ اس کی تصاویرلاکھوں ڈالر کے عوض ایک فحش امریکی میگزین ’پلے بوائے‘ میں چھپتیں اس کی یہ بے باکانہ تصاویر جن کے وہ لاکھوں ڈالر وصول کرتی، اس کے لاکھوں مداح ان تصاویر کو دیکھتے، لطف اندوز ہوتے اور سراہتے، یہ سلسلہ کئی سال چلتا رہا۔ یہ کرسٹامیکنا کی جوانی کا زمانہ تھا، جب اس کی جوانی گذر گئی اور بڑھاپے میں رعشہ ہو گیا۔ وہ جوان تھی، اوراس کی ہرادا دیکھنے والوں کو لبھاتی تھی۔ وقت گذرتا گیا اور 70کی دہائی کی کرسٹا میکنا، اپنی خوبصورتی اور جسم کی نازکی اور حیرت انگیز لچک پر ناز کرنے والی حسینہ، بے پناہ دولت اور شہرت کی مالک، آج اس بے پناہ دولت ، چمک دمک ، شہرت اور خوبصورتی سے محروم ہوچکی ہے۔ اس کی کمر خمیدہ ہوچکی، بینائی کمزور اور ہاتھوں میں رعشہ آگیا، نشے اور عیش وعشرت نے اسے شوبز کی زندگی سے علیحدہ ہونے پر مجبور کردیا، اور اب حالت یہ ہے کہ اس کا کوئی مداح اسے پوچھتا ہے اور نہ سراہنے والاسراہتاہے۔ آج وہ کوڑی کوڑی کی محتاج ہے اور بھیک مانگنے پر مجبور! اور60سال کی عمر میں ریاست مشی گن کی کسی سڑک کنارے ایک تختی لے کر بیٹھی رہتی ہے جس پر تحریر ہوتا ہے’’میں 60سال کی ہوں اور آپ سے اور خدا سے مدد کی اپیل کرتی ہوں‘‘ اور حال یہ ہے کہ سارا دن دردرکی ٹھوکریں کھانے پرمجبورہے۔ اسے چند سکے بھیک میں مل جائیں تو وہ خوشی سے پھولی نہیں سماتی۔ یہ امریکہ کی بے خُداسیکولراور مادہ پرست تہذیب ہے۔ جس نے عورت کو مادرپدر آزادی وبے باکی توعطا کی لیکن بڑھاپے میں بے آسرا اور بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ پوری دنیا میں عورت کی آزادیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے والے عورت کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں وہ اس تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے یہ تو صرف دیگ کا ایک چاول ہے۔ اقبال نے مغربی تہذیب بارے اپنے جذبات کا اس طرح اظہار کیاہے۔

؂ تمہاری تہذیب اپنے خنجرسے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
دیارِ مغرب کے رہنے والو خُدا کی بستی دوکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرکم عیار ہو گا
مزید پڑھیں

Thursday 10 December 2015

یواین او، پاکستان اور انسانی حقوق

| |
0 comments

10دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن ہے ۔ اس دن دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حوالے سے نہ صرف ڈسکشنز ہوتی ہیں بلکہ فورم ،کانفرنسز ، سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں اور اس طرح یہ پروگرامات نہ صرف انسانی حقوق سے آگہی کا عمدہ ذریعہ بنتے ہیں بلکہ انسان میں برداشت اور حوصلہ پیدا کرنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔
یہ 21ویں صدی ہے جس میں دنیا (گلوبل ویلج )عالمی گاؤں کا روپ دھار چکی ہے اور اس عالمی گاؤں میں جمہوریت، انسانی حقوق ،عدل وانصاف اور مساوات کابہت غلغلہ اور چرچا ہے۔
اس دنیا میں کوئی قوم بھی نہ تو اکیلے ترقی کرسکتی ہے اور نہ دنیا کو امن وامان مہیا کرسکتی ہے۔ یہاں امن و امان ہو یا ترقی کاحصول یہ سب ایک مشترکہ جدوجہد کامتقاضی ہے ۔ اس کے بغیر ان تک پہنچنا یا ان کاحصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اقوام متحدہ نے 2000ء میں ترقی کے 8 اہداف طے کئے ۔جن میں تعلیم کا فروغ،وبائی امراض، ٖغربت اور صنفی امتیازکا خاتمہ، ماں اور بچے کی صحت، ماحولیات اور ترقی کے ضمن میں مشترکہ جدوجہد اور کوشش سے اس معرکے کو سر کرنا مقصد ٹھہرا۔ 
اقوام متحدہ نے آمدہ پندرہ سالوں کے لئے نئے اہداف طے کیے ہیں ان میں افراد کی معاشی وسماجی حالت کا سدھار، تعلیم، صحت، ماحولیات، زرعی و صنعتی ترقی اور صنفی بنیادپر تفریق کے خاتمے کے لیے کام کرنا پیش نظر ہے۔اس میں شک نہیں کہ انسان کو ترقی کے فوائد وثمرات پہنچانے کے لئے یہ اہداف ایک لائحہ عمل متعین کرتے ہیں۔ ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اسے تحفظ ملے، صحت و تعلیم تک رسائی ہو اورجان ،مال اور عزت وآبرومحفوظ ہو۔ترقی کے ان تمام اہداف کی بنیاد انصاف ہے ۔لیکن عالمی منظر نامے اور ملکی تناظر میں اس کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ عالمی سطح پر کشمیر، فلسطین، شام ،برماعراق ،افغانستان میں انصاف کے اصولوں کواپنے اپنے مفاد ات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے ۔وطن عزیزمیں بھی انصاف اور اس کا حصول ناممکن حصول نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ایک مخصوص طبقہ انصاف کے حصول میں کامیاب ہوتا ہے۔اقوام متحدہ کے یہ اہداف قابل عمل ہیں لیکن انسان کو بحیثیت مجموعی امن اور انصاف کے حصول کے لیے اس آفاقی پیغام کی طرف مراجعت کرنا ہوگی اسلام کا یہ نظام انسان کو ان مسائل کے حل کے لیے آج بھی قابل عمل حل دیتا ہے۔ جس میں ایک انسان کے انفرادی اور اجتماعی کردار کا تعین کیاگیاہے۔اس کی بنیاد کسی مفاداورتعصب پر نہیںیہ اس خالق حقیقی کا دیا ہوا ابدی نظام ہے ۔ جس کی پیروی سے انسانیت دنیامیں بھی ترقی کا سفرطے کرسکتی ہے اور اُخروی زندگی میں بھی فوز و فلاح اور نجات پا سکتی ہے۔ 
ان اہداف کا مقصد یہ تھا کہ تمام اقوام ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ان اہداف کے حصول کی جانب آگے بڑھیں لیکن مجموعی طور پر سوائے چند ممالک کے کوئی ملک بھی ان اہداف میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکااور نہ کوئی پیش رفت ۔اس ضمن میں پاکستان میں بھی ماں اور بچے کی صحت کے علاوہ کسی بھی شعبہ میں کوئی کام نہ ہوسکا۔البتہ اس میں بھی پاکستان جنوبی ایشیاء کے ممالک میں سب سے نچلی سطح پر ہے ۔پاکستان میں ماؤں کی شرح اموات اوسطاً 276ہے جبکہ بچوں کی 78ہے۔ اس طرح تعلیم میں بھی ہم بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان میں سکول جانے کی عمر کے 2 کروڑ بچے سکول نہیں جاتے جن میں 53% پنجاب سے تعلق رکھتاہے۔ یہ مسئلہ اس سے الگ ہے کہ سکول جانے والے بچوں کو فراہم کی جانے والی تعلیم کس معیار کی ہے۔ بچوں کی صحت کا معاملہ بھی عدم توجہی کاشکار ہے۔ کوشش کے باوجود وہ بیماریاں جن کا وجود دنیاسے ختم ہو چکا وہ پاکستان میں موجود ہیں اور ختم ہونے کانام نہیں لے رہیں۔ جعلی ادویات کے اسکینڈلز اس پر مستزاد ہیں،سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہاں کسی کا احتساب نہیں ہوتااور کسی معاشرے میں احتساب کا میسر نہ ہونا دراصل معاشرے کے کمزور ہونے کی علامت ہے۔ مضبوط معاشرے، احتساب سے ہی بنتے ہیں۔ پاکستان میں ایک بے لاگ احتساب کی ضرورت ہے ۔ ایسا احتساب جس کی بنیاد اسلام کے نظام عدل پر ہو اور نظام جو کرپشن کاانسداد کر سکے ۔
کاروکاری، ونی،تیزاب گردی، قرآن سے شادی اور سوارہ جیسی رسوم و رواج معاشرے کے لیے ندامت کا باعث ہیں۔ موجودہ دور میں بعض علاقے ایسے ہیں جن میں بچیوں کے لیے تعلیم کا حصول ناممکن ہے، وراثت میں بیٹیوں کو حصہ نہیں دیا جاتا۔ ان مسائل کی بنیاد پرطاقتورممالک بالخصوص امریکہ وغیرہ معاشی لحاظ سے کمزور ممالک کااستحصال کرتے ہیں اور ان کو دبانے اور ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کرتے ہیں اس کے نتیجے میں ردعمل سامنے آیا اورردعمل کے نتیجے ان اہداف کا حصول مزید دشوارہو گیا۔مجموعی طور پر بحیثیت قوم ہم بہت سے معاملات میں غیرذمہ دار انہ رویہ اور افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ پاکستان میں10سے15 بچے روزانہ جنسی ہوس کانشانہ بنتے ہیں۔ابھی چند ماہ قبل رونماہونے والے سانحہ قصورنے انسانیت کا سرشرم سے جھکادیا ۔آئے روزاس طرح کے واقعات سامنے آتے ہیں ۔ لیکن ان میں ملوث افراد کو کبھی سزا نہیں ملتی۔اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ صوبوں میں بچوں کے تحفظ کے لئے کوئی با ضابطہ اور باقاعدہ پالیسی دکھائی نہیں دیتی ۔ پاکستان میں لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور سکول نہیں جاپاتے ۔۔۔کیونکہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں کتنے ہی بچے ہوں گے جو حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کرمحنت و مشقت کرتے ہیں۔لیکن حکومتی ترجیحات میں یہ مسئلہ کم ہی نظر آتاہے۔ حکومت کی توجہ میٹرو اورنج لائن ٹرین اور میگا پراجیکٹ بنانے کی طرف ہے لیکن معاشرے کے ان بنیادی،حساس اور اہم مسائل کو جو توجہ ملنی چاہیے وہ سردست اس توجہ سے محروم ہیں۔ ضرورت ہے کہ حکومت ان بنیادی مسائل کی طرف توجہ دے ۔ اس توجہ کے نتیجے میں انسانی حقوق کی صورت بہتر ہوگی اور صحت وتعلیم اور امن وامان کے مسائل بھی !!
اسلام کا ’نظام رحمت‘ انسانیت کے عمومی وخصوصی مسائل اور دکھوں کا وہ حل پیش کرتا ہے جس کو انسان اور اس کی فطرت کاپسندیدہ قرار دیا جاسکتاہے۔
مزید پڑھیں

Friday 25 September 2015

صدی کا بیٹا۔۔۔سیدمودودیؒ

| |
0 comments
سیدمودودیؒ جیسے انسان صدیوں بعد پید اہوتے ہیں۔ اور حقیقتا ایسے انسان عطیہ خداوندی ہوتے ہیں۔ جن کاعزم ،فکراور بصیرت طویل عصرتک انسانیت کے لیے رہنمائی کاذریعہ بنتی ہے۔سید مودودیؒ ایسے ہی انسانوں میں سے ایک تھے۔ ان کے قلم کی جولانیوں نے ایک نسل کو نہیں بلکہ کئی نسلوں کو تسخیر کیا۔ ان کی کتابوں بالخصوص الجہاد فی الاسلام نے اسلام کے فلسفہ جہاد کو نہ صرف نمایاں کیا بلکہ اس پر غیر مسلموں کے اعتراضات کا مسکت جواب دیا ۔مغرب پر ان کے تنقیدی مضامین ’تنقیحات‘ کے نام سے چھپے تو مغرب میں تہلکہ مچ گیا۔ یہ سید مودودیؒ کی فکری یلغار کا ایک شاہ کار ہے۔ اسی طرح سودی نظام اور اس کے اس کے سرپرستوں کے لیے ’سود‘ نامی کتاب کا جواب نہیں۔ جس میں سید نے ایک واضح لائحہ عمل رہا اور سود کے بارے میں وضاحت سے بتایا کہ یہ اللہ اور رسول کے خلاف جنگ کے سوا کچھ نہیں۔ تفہیمات (اول دوم ، سوم اور چہارم) اور رسائل و مسائل میں سید مودودیؒ کے قلم سے نکلے جواہر پارے میں جو آپ کی علمی و فکری بصیرت کا شاہکار ہیں۔ 
قیام پاکستان کے پس منظر میں مولانا کے تجزیوں پر مبنی ’’مسلمانان ہند اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے نام سے معرکۃ الآرا مضامین سیاسی فکر کے آئینہ دار ہیں۔ اسی طرح تفہیم القرآن مولانا مودودی کا قرآنی تفہیم کا شاہکار ہے۔ جو صدیوں تک انسانیت کو رہنمائی سے سرفراز کرتی رہے گی۔
سید مودودیؒ کی ذاتی زندگی ہو یا اجتماعی یا گھر یلو زندگی انتہائی سادہ اور نفیس دلکش او دلآویز پر کشش متانت سے مزین تھی، ان کا ظاہر و باطن ایک جیسا تھا۔ انہوں نے اپنی فکری آبیاری ترجمان القراآن سے کام لیا اور اپنی فکر کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں کو متاثر کیا۔ اسی فکر کی بنیاد پر 1941 میں لاہور میں جماعت کی بنیاد رکھی ۔ جس میں برصغیر پاک و ہند سے 75افراد نے شرکت کی ۔ اور سید مودودیؒ کو جماعت اسلامی کا پہلا امیر منتخب کیا۔ جماعت اسلامی ان کی علمی و فکری اور عملی بصیرت کا عملی اظہار ہے۔ انہوں نے اس تنظیم کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ چلایا ۔ اس کے لیے جدید خطوط استوار کیاجس کے لیے دنیا کی جدید ریسرچ سے کام لیا۔ سید مودودیؒ نے اپنی فکر کو آگے بڑھانے کے لیے نئے افراد کی تیاری اور حصول کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ کی بنیاد رکھی ہے۔جس سے جماعت کو ہرسطح کے لیے افراد کار اور قیادت بھی ملی۔اسی طرح جمعیت طلبہ عربیہ ، پریم یونین، پیاسی،NLF،تحریک محنت ، شباب ملی، تنظیم اساتذہ ، انجینئرز فورم، پیغام یونین واپڈا، PIMA، IHMRوغیرہ نے اپنے اپنے میدان میں جماعت اسلامی کی دعوت اور فکر کو آگے بڑھانے میں اہم کردار اداکیا۔


سید مودودیؒ نے اپنے زمانہ امارت میں جماعت اسلامی کو ایسے چلایا کہ اس کے اثرات مسلسل بڑھتے رہے۔ جہاں اس فکر کو آگے بڑھنے کا موقع ملا وہیں افرادی قوت کے اعتبار سے جماعت کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
انتخابات میں حصہ لینے کے نتیجہ میں جماعت اسلامی سیاسی میدان میں نئے رحجانات متعارف کرانے کی ذریعہ بنی،جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے افراد کی کارکردگی، سینیٹ ، قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلیوں اور بلدیات میں نہایت عمدہ بے باکانہ ، اور دیانتدارانہ رہی اور دامن پلاٹ و پرمٹ اور کرپشن سے پاک رہا۔ جماعت اسلامی مروجہ سیاست نہیں کرتی، بلکہ اس کی سیاست خدمت کے بے لوث جذبے سے عبارت ہے۔ جس پر انبیا کرام کے نقوش پا ثبت ہیں۔
سیدنے جماعت اسلامی کی بنیاد ایسے خطوط پر استوار کی کہ یہ نہ موروثی جماعت بنی اور نہ کسی فرقہ و مسلک کی علمبردار ،بلکہ اللہ کے دین کی علمبردار بنی۔ قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں اللہ کے دین کی تعلیمات عام کرنے ، پھیلانے اور اس کے مطابق پوری ایک نسل تیار کرکے اللہ کے دین کے لیے سرگرم عمل کرنے جذبہ عمل کے ساتھ مصروف جدوجہد ہے۔ اور اس جدوجہد و سعی کو پون صدی گذرچکی ۔ اور یہ سید مودودیؒ کی بصیرت و بصارت کا شاہکار بن کر سامنے آئی ہے۔
سید مودودیؒ ستمبر 1979کو دنیاسے رخصت ہوگئے اور اچھرہ لاہور میں مدفون ہوئے۔ وہ اپنے پیچھے اپنے روحانی شاگرد چھوڑ گئے جنہوں نے دعوت و ابلاغ کے لیے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔ اور یہ قافلہ حق میاں طفیل محمدؒ ، قاضی حسین احمدؒ کے جذبوں ولولوں اور سید منورحسن کو دین پر استقامت اورسراج الحق کی سادگی، درویشی اور تحرک کے نتیجے میں مسلسل پیش قدمی کی منزلیں طے کررہاہے۔اللہ سیدمودودیؒ کی قبرکو نور سے بھردے اور انہیں اپنے مقرب بندوں میں شامل فرمائے۔
مزید پڑھیں

Wednesday 12 August 2015

اردو کلیات غالب

| |
0 comments
کلام غالب کی عظمت کی دنیا قائل ہے کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر غالب کا کلام نہ ہوتا تو اردو ادب یتیم ہوتا ۔ دیوان غالب، غالب کی زندگی میں پانچ بار طبع ہوا۔’ انتخاب‘ میں عام طور پر پوری غزلیں موجود نہیں ۔غزلیں نامکمل اور نا تمام ہیں۔ اس میں بھی اشعار اور غزلوں کی تعداد مختلف ہے۔ چوتھی بار شائع ہونے والا نسخہ نظامی ( چوتھا مطبوعہ دیوان) متداول دیوان کے طور پر بار بار شائع ہوتا رہا۔با ربار شائع ہونے کی وجہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ غالب نے اس میں سے مشکل کلام نکال دیا تھا۔ حالانکہ متداول دیوان میں بھی جو کلام شامل ہے وہ کم مشکل نہیں۔ اس میں بھی ایک دو الفاظ کے علاوہ بہت سارے الفاظ فارسی کے ہیں۔ غالب کے خیالات بھی دقیق اورپیچیدہ ہیں۔ اگر متداول دیوان پسندیدہ اور مقبول ہوسکتا ہے تو وہ کلام کیوں خارج کیا جائے ، حالانکہ وہ بھی اپنی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے کم نہیں اور غالب کی فکر کا آئینہ دار اور عکاس ہے۔ متداول دیوان میں اشعار کی تعداد 1802ہے جبکہ مکمل کلیات غالب میں اشعار کی تعداد 4387ہے۔ غالب کے نصف سے زائد کلام کو دیوان سے خارج کردینا قرین انصاف نہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ غالب کا کلام مشکل ہے لیکن یہ عام لوگوں کی دلچسپی ، توجہ اور کشش کا باعث ہے۔ غالب کی یہ مشکل پسندی انکی زندگی کا جزو رہی ۔ زندگی بھر وہ جن مختلف اختلافات میں گھرے رہے ، یہ ان کا پرتو ہے۔ ان کی شاعری ، اس کے موضوعات ، اسلوب ، انفرادیت اور طرز بیان پر داد و تحسین کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ’غالبیات ‘کے نام سے یونیورسٹیز میں شعبہ جات قائم ہیں اور کتنی ہی انجمنیں اور ادارے اس کام کوآگے بڑھانے میں مصروف کار ہیں لیکن جس طرح کے کام کی ضرورت تھی شاید اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی یا توجہ نہیں دی گئی۔ غالب نے خود اپنی زندگی میں اس جانب توجہ دی اور نہ ان کے بعد یہ کام ہوا۔ گوتاریخی ترتیب کا نام تو دیا گیا لیکن از سر نو ترتیب و تدوین نہ کی گئی اور کلام غالب اسی حالت میں طبع ہوتا رہا جیسے پہلے چھپتا تھا۔ 
ڈاکٹر محمد خان اشرف نے غالب کے مکمل کلام کو نئی ترتیب اور درست متن کے ساتھ اپنے شوق اور لگن سے پیش کیا ہے۔جس میں ڈاکٹر عظمت رباب نے ان کی سربراہی میں کام کیا ہے۔ نے متداول دیوان غالب کی ترتیب کے ساتھ ساتھ غزلیات ردیف وار دی گئی ہیں۔ اردو کلیات غالب تمام اساس نسخہ اشرف ( قلمی) پر ہے۔ نسخہ عرشی تحقیقی اعتبار سے مستند ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے جس سے استفادہ کیا گیا۔ 
کالی داس گپتا رضا کے دیوان غالب سے بھی کام لیا گیا۔ جبکہ ان کے علاوہ تمام دستیاب اہم دیوان غالب کے نسخوں سے موازنہ اور مقابلہ بھی کیا گیا۔ جن نسخوں سے مدد لی گئی ان میں نسخہ اشرف، نسخہ عرشی، نسخہ رضا، نسخہ حمیدیہ، نسخہ شیرانی، نسخہ لاہور، نسخہ اصغر اور نسخہ عرشی دادہ شامل ہیں۔ درست متن کے ساتھ غالب کا تمام کلام اس کلیات میں آگیا ہے۔ 
اس نسخہ میں غزلیات کی ترتیب الف بائی ہے۔ جس میں ردیف وار اور جزوی ترتیب بھی مد نظر رکھی گئی ہے۔ پہلے الف ردیف ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی غزلیات کی ترتیب وار درج کی گئی ہیں۔ جس سے کسی غزل کو تلاش کرنے میں آسانی ہوگئی ہے۔ 
پہلے زمانے میں قصائد غزلیات سے پہلے جگہ پاتے تھے کہ زمانے کا چلن یہی تھا لیکن نسخہ اشرف میں آخر میں لائے گئے ہیں جبکہ اصناف کی ترتیب یوں ہے۔ 
غزلیات ، فردیات، رباعیات، قطعات، مثنویات اور قصائد متفرق منظومات ۔
اسی نسخے کی ترتیب کے دوران سامنے آنے والے اختلافات اور حوالہ جات کا اندراج حواشی و حوالہ جات کی صورت میں آخر میں دیا گیا ہے۔ عرشی سے پہلے کے اختلافات اور حوالہ جات کا اعادہ نہیں کیاگیا۔ ہر غزل کو نمبر دیا گیا جبکہ ہر غزل کے اشعار میں ہر پانچویں شعر پر نمبر دیا گیا ہے۔ اگر غزل گیارہ اشعار پر مشتمل ہے تو پانچویں شعر پر نمبر ہے۔ اگرگیارہ اشعار کی ہے تودسویں شعر کے درمیان ۱۰ لکھا گیا ہے۔ جس سے غزلوں کی تعداد اور اشعار کا شمار آسان ہوگیا ہے۔ اس سے غزل اور مخصوص اشعار کی نشاندہی بھی آسان ہوگئی ہے۔ دیگر اصناف کو بھی ایسے ہی نمبر شمار لگائے گئے ہیں ، جس سے غالب کے تمام کلام کے اشعار کا متن اور مقام متعین ہوگیا ہے۔ حواشی میں غزل نمبر، شعر نمبر اور مصرع لکھ کر اختلافات کا اندراج کیا گیا ہے۔ 
رموز اوقاف کا بے جا اور زائد استعمال نظر نہیں آتا ،’ کوما‘ کے استعمال میں بھی نہایت احتیاط برتی گئی ہے۔ سوالیہ نشان(؟ ) ، استعجابیہ یا ندائیہ (۱) استعمال کیا گیا ہے۔ 
نون اور نو ن غنہ اور یائے معروف اور یائے مجہول میں فرق رکھا گیا ہے اور ان غزلیات کو الگ الگ درج کیا گیا ہے۔ 
کلیات میں فہرست اصناف وار ترتیب دی گئی ہے۔ غزلیات کا ردیف وار اندراج کرکے صفحہ نمبر درج کئے گئے ۔ انفرادی غزلوں اور منظومات کی فہرست طویل ہونے کے باعث آخر میں اعشاریہ دیا گیا۔ املا میں وہی طریقہ کار اختیار کیا گیا جسے عوام، ادبا، شعرا اور اردو دان طبقہ استعمال کررہا ہے۔ اس میں عربی، فارسی ، ہندی کا اتباع نہیں کیاجاسکتا۔ یہ ’اردو‘ ہے ۔ البتہ احتیاط کے پورے تقاضے ملحوظ رکھے گئے ہیں۔
کلام غالب کا یہ نسخہ صاحبان ذوق کی تسکین کا باعث ہوگا اوران سے داد تحسین پائے گا۔ کتابت معیاری، اغلاط سے پاک اور پیش کش عمدہ ہے۔ ادب سے تعلق رکھنے والے اور کلا م غالب کے شائق حضرات کے لیے خصوصی چیز ہے۔ ایسے زمانے میں جب لوگ اردو سے نابلد ہورہے ہیں، انٹر نیٹ ، موبائل کی ایجادات نے کتاب سے دوری کی کیفیت پیدا کی ہے۔ کلام غالب پر یہ عمدہ کام شائقین غالب کے لیے کشش کا باعث ہوگا۔ ڈاکٹر محمد خان اشرف تحقیق و تدوین کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور تیس سے زائد کتب کے مصنف ہیں اور آج کل گیریژن یونیورسٹی لاہور سے وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر عظمت رباب نے تحقیق و تدوین کے مراحل ڈاکٹر محمد خان اشرف کی سرپرستی میں طے کئے ہیں۔ وہ آج کل خواتین یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ 
غالب پیشہ ور سپاہی، مہم جو، طالع آزما ترک خاندا ن سے تھے۔ ان کے دادا مرزا فوقان بیگ خان سمر قندسے ہجرت کرکے ہندوستان آئے اور لاہور مقیم ہوئے۔ محمد شاہ کے عہد میں دہلی پہنچے اور شاہی ملازمت اختیار کی۔ پھر مہاراجہ جے پور کی نوکری کرکے’ آگرہ‘ آگئے۔ ’الور‘ میں ایک بغاوت کے خاتمے پر مامور ہوئے جہاں مارے گئے۔فوقان بیگ کے بڑے لڑکے عبد اللہ بیگ خاں کی شادی آگرہ کے فوجی افسر کی بیٹی عزت النساء سے ہوئی۔ ان کے ہاں ۲۷ نومبر۱۷۹۷ء کو اسد اللہ بیگ خان کی ولادت ہوئی، جس نے دنیائے ادب میں مرزا غالب نام پایا۔ 
غالب نے شعر گوئی کا آغاز 1807یا 1808میں کیا اور’ اسد‘ تخلص رکھا۔ 1816میں تخلص ’غالب‘ کرلیا ۔جبکہ وہ کبھی کبھی’ اسد‘ بھی کام میں لائے۔غالب کی تعلیم باقاعدہ نہ تھی ۔ البتہ اس دور کے رواج کے مطابق کچھ تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے۱۹ اگست ۱۸۱۰ کو امراؤ بیگم سے شادی کی ۔اس وقت غالب کی عمر ۱۳ سال جبکہ امراؤ بیگم کی عمر ۱۱ سال تھی۔ اس کے ساتھ غالب نے ’دہلی‘ میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ 
غالب وسیع المشرب ، آزاد منش اور آزاد رو انسان تھے۔ جس نے ان کی شاعری کو آزاد خیالی، وسیع المشربی ، فلسفیانہ و صوفیانہ آہنگ عطا کیا۔ حالات کی مشکلات کے باجودوہ ہمیشہ پر عزم رہے۔ اور یہی خصوصیات ان کے کلام کی جا بجا نظر آتی ہے۔ 


نام کتاب : اردو کلیات غالب ( نسخہ اشرف)
ترتیب و تدوین : ڈاکٹر محمد خاں اشرف
: ڈاکٹر عظمت رباب
صفحات : 464
قیمت : 1400روپے
ناشر : سنگ میل پبلی کیشنز ، ۲۵ شاہراہ پاکستان ( لوئر مال) لاہور 
042-37220100
مزید پڑھیں