Saturday 15 October 2016

پروفیسرمسلم سجاد بھی رخصت ہوئے!!

| |

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی!
اقبال کا یہ شعر جماعت کے ان بزرگوں پر صادق آتا ہے جو اپنی نذر پوری کرکے اللہ کے حضور حاضر ہو رہے ہیں۔ اور اپنے اپنے مقام پر جن کی حیثیت، مرجع خلائق، اور سائبان کی تھی، ان بزرگوں کا خاصہ یہ تھا کہ دین کی تعلیمات کا درس انھوں نے سید مودودیؒ سے پایا اور صحیح معنوں میں دین کے داعی، جماعت کے بہی خواہ، اپنا ہر لمحہ اللہ کے دین کے لیے وقف رکھنے اور اسی کے لیے سرگرداں رہنے اور جماعت کے کام کو ذاتی کام پر ترجیح دینے والے تھے۔ ان بزرگوں میں سے کوئی رخصت ہوتا ہے تو ایک خلا کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ اس خالق کائنات کا ترتیب دیا ہوا کار خانہ اور منصوبہ ہے، جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے جلد یا بدیر واپس جانا ہے۔ اس سے مفر ممکن نہیں۔
ایک ہمہ جہت ، ہمہ گیر شخصیت، ایڈیٹر، دانشور، منتظم، تبصرہ نگار، ترجمہ نگار، ان کی شخصیت میں کتنی گوناں گوں خوبیاں جمع تھیں جن کو وہ کام میں لاتے اورجو جو ان کی شخصیت سے سے مَس ہوئے۔ وہ لکھنے پڑھنے کی صلاحیت سے ہی بہرہ ور نہیں ہوئے، عمدہ تجزیے، عمدہ نکتہ زنی سے بھی شاد کام ہوتے، صرف تحریکی رسائل و جرائد اور کتب کا ہی مطالعہ نہیں کرتے تھے بلکہ وہ سائنس اور سائنسی مضامین بھی پڑھتے، علم دین بھی اور اس سے متعلقہ موضوعات، ادب و شعربھی پڑھتے۔ ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا۔
وہ مطالعہ صرف اردو زبان ہی میں نہیں، انگریزی میں بھی کرتے، صرف اردو رسائل و جرائد ہی نہیں دیکھتے اور پڑھتے تھے، بلکہ انگریزی اخبارات و رسائل بالخصوص اکانومسٹ، ٹائم میگزین ، نیوز ویک، ڈان کا سنڈے میگزین اور ’بک اینڈآتھر‘بھی ضرور دیکھتے، نشان لگاتے، دوسروں کو اس مطالعے میں شریک کرتے، فوٹو کاپی کراتے اور ان تک پہنچاتے جو اس کے قدر دان ہوتے، تحریکی جرائد کے لیے مفید سمجھتے تو انھیں بھیجتے۔
اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے، لکھتے پڑھتے اور دیکھتے جو تجاویز ذہن میں آتی وہ مرکز جماعت، اداروں، افراد کار، رسائل و جرائد کو بہتری کے لیے ان کو ارسال کرتے، اور خوب سے خوب کی تلاش میں خود بھی رہتے اور دوسروں کو بھی اس کا خوگر بناتے۔ میں نے ان کو داد تحسین کا عادی نہیں پایا، یعنی بقول غالب ع 
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ!
وہ کام کے خوگر تھے، کام کرتے، اور بس کام کام ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا،
وہ رابطہ رکھنے میں بھی یدطولیٰ رکھتے۔ خط لکھتے جب کہ آج کل تو ویسے ہی خط لکھنے کا رواج ختم ہو چلا، ٹیلی فون کرتے۔ البتہ انس بھائی کی انتہائی کوشش کے باوجود بھی وہ موبائل سے مناسب انداز میں استفادہ نہیں کرپاتے، فیس بک نہ واٹس اَپ، اور نہ ایس ایم ایس۔ لیکن ان کا تحرک اور فعالیت، زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہا، ماہ ستمبر۲۰۱۶ء کا عالمی ترجمان القرآن کا پرچہ تیار کروایا، ہر چیز خود دیکھی، اور جب پرچہ پریس چلا گیا تو اطمینان کا سانس لیا، لیکن اطمینان کہاں، اب اکتوبر کے پرچے کی تیاری کا مرحلہ درپیش تھا۔ پروفیسر سلیم منصور خالد اور امجد عباسی اس کام میں ان کے دست وبازو ہیں، وہ فوراً ہی اگلے پرچے کا پلان سامنے رکھ دیتے۔
مسلم صاحب نے میرے مطالعے کو نئی جہت دی، پہلے صرف اردو اخبارات و رسائل پر اکتفا کرتا تھا مگر وہ اچھے اچھے، عمدہ اور خوبصورت انگلش مضامین فوٹو کاپی کراکے بھیج دیتے، انھوں نے اکانومسٹ ، ٹائم میگزین، نیوز ویک اور انگریزی اخبارات دیکھنے کی عادت ڈالی، بلکہ ایک دو انگریزی مضامین کا ترجمہ بھی ترجمان القرآن کے لیے کروایا، اس طرح ہم ترجمہ نگار بھی ہو گئے۔
وہ خود بہت اچھے مترجم تھے انگریزی سے اردو ترجمہ میں انھیں خاص مہارت حاصل تھی۔ ان کا ترجمہ کرنے کا انداز بہت معیاری اور اعلیٰ تھا۔ میں نے خرم مرادؒ کی کتاب Way to Quran میں دیکھا، جس کا انھوں نے ایسا رواں شستہ ترجمہ کیا کہ اصل کا گمان ہوتا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ انگریزی کتاب کا ترجمہ ہے بلکہ اردو کتاب ’’قرآن کا راستہ‘‘ پڑھ کے ایسا لگتا ہے کہ یہ اردو کی کتاب ہے۔ 
وہ کراچی جاتے تو فون ضرور کرتے، حال احوال پوچھتے اور کبھی میں بھی فون کر لیتا۔ کراچی کے موسم سے لے کر حالات تک اور ملاقاتوں، نشستوں، کتب میلوں اور بدلتے کراچی اور معاشرت کے بارے میں تفصیلاً گفتگو کرتے، اور ساتھ میں اپنی تجاویز اور کام کی باتوں سے نوازتے جاتے۔ بعض باتوں پر افسوس بھی کرتے کہ کاش ہمارے ہاں بھی ایسا ہوتا۔
وہ تحریک اسلامی کے بے لوث کارکن تھے۔ وہ رکن جماعت نہیں بنے اگر وہ زندہ ہوتے تو ان سے ضرور پوچھتا کہ آپ جماعت کے رکن کیوں نہیں بنے۔حالانکہ وہ لوگوں کو تحریک کے ساتھ جوڑتے، کام کی طرف متوجہ کرتے، کتابیں تحفہ میں دیتے۔بالخصوص عیدین اور تہواروں کے موقع پر بھولے بسروں کو یاد کرتے، دعوتی سیٹ ارسال کرتے، منشورات کی نئی کتاب آتی تو وہ دیتے۔
مرکز جماعت، مرکزی ذمہ داران اور کارکنان سے بھی قریبی تعلق رکھتے اور جس جانب متوجہ کرنا ہوتا ضرور کرتے اور خط بھی لکھتے۔ قاضی حسین احمدمرحوم، سید منور حسن صاحب اور لیاقت بلوچ صاحب کے نام ان کے خطوط اور تجاویز کے نتیجے میں کئی تجاویز پر عمل ہوا۔ تاہم اس بارے میں ان کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ ہمیں اپنے ساتھیوں اور نظم کو متوجہ کرتے رہنا چاہیے، اس میں تساہل نہیں ہونا چاہیے۔ اور نہ پریشانی کہ کوئی کیا کہے گا۔
ان کی کتنی ہی تجاویز پر عمل ہوا اور اس کے کے نتیجے میں مرکزی دفاتر کے سامنے والے لان میں بزرگوں کے بیٹھنے کے لیے بنچ رکھے گئے جو دوران واک تھک جاتے تو ان پر بیٹھ کر سکون پاتے۔ اسی طرح جامع مسجد منصورہ کے دروازے پر ریلنگ اور وہیل چیئر مسجد لے جانے کے لیے راستہ بنایا گیا۔ ان کی تجاویز وطن عزیز کے حالات، سیاسی حالات، بناؤ بگاڑ، برادر تنظیمات، رسائل و جرائد، امیر جماعت، قیم جماعت، افراد کار بارے بھی ہوتیں وہ ہمیشہ جماعت کے اداروں کے فعال کردار کے آرزو مند رہے۔
کچھ ہی عرصہ قبل انھوں نے ایک قرار داد ’’ملک میں بڑھتے ہوئے حادثات‘‘کے حوالے سے تیار کرکے دی، جس کو محترم لیاقت بلوچ صاحب نے مختلف صوبائی و قومی اداروں اور ان کے ذمہ داروں کو ارسال کیا۔ جب تک یہ قرار داد چلی نہیں گئی وہ فالو اَپ کرتے رہے۔
کہیں کوئی نئی کتاب چھپتی اور وہ اس کی خبر پا لیتے، جب تک اسے حاصل نہ کر لیتے چین سے نہ بیٹھتے۔
خرم مراد مرحوم کراچی سے انھیں ترجمان القرآن میں لائے، اور کراچی سے آکر وہ لاہور کے ماحول میں ایڈجسٹ ہی نہیں ہوئے بلکہ لاہور کے ہی ہو رہے۔ کراچی سے آنے والوں کا ان کے ہاں مستقل ڈیرہ ہوتا، گفتگو ہوتی، چائے چلتی۔ ترجمان کے دفتر میں صبح سویرے آجاتے ، جہاں وہ پوری دنیا سے رابطے کرتے، مضامین دیکھتے، ان کی اصلاح کرتے، نئی کتب دیکھتے، تبصرہ لکھواتے، خود بھی لکھتے، رسائل و جرائد دیکھتے۔ وہ تیزی سے کام کرنے کے عادی تھے، اور کام کا تعاقب اس سے بھی زیادہ سرعت ساتھ کرتے۔
خرم مراد مرحوم نے ترجمان القرآن کو نیا آہنگ دیا اور مسلم سجاد نے ان کا خوب ساتھ نبھایا بلکہ پروفیسر خورشید احمد مدیر بنے تو ان کا زیادہ تر انحصار بھی مسلم سجاد پر ہی ہوتا اور انھوں نے بھی اپنے تعلق کو خوب نبھایا۔ دن رات کام کرتے، ترجمان القرآن کی اشاعت بڑھائی۔ اس طرف بھی وقتاً فوقتاً جماعت کے ذمہ داران کو بھی اشاعت بڑھانے بارے متوجہ کرتے۔
جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوتا تو اس میں لازمی شرکت کرتے۔ منشورات کی نئی کتب اراکین شوریٰ کو پیش کرتے۔ انھیں دفتر ترجمان لے جاتے، اور اس موقع پر مختلف تحریکی امور پر گفتگو بھی ہوتی۔ نماز کی ادایگی کے لیے ہمیشہ مسجد آتے، آخری عمر میں جب چلنے میں مشکل محسوس کرتے تھے تب بھی مسجد ضرور آتے، کبھی اپنے بیٹے زید کے ساتھ اور کبھی عدی کے ساتھ۔ مسجد کے ساتھ ان کا تعلق بہت مضبوط تھا۔ مسجد آتے،تو مختلف احباب سے ملاقات بھی کرتے۔ فجر کی نماز کے بعد مولانا عبدالمالک صاحب کے درس حدیث کو شوق سے سنتے اور پروموٹ کرتے۔
جمعیت کے زمانے میں ان کی ایک تحریر ’مخلوط تعلیم‘ احمد انس کے قلمی نام سے دیکھی۔ اس طرح کی چیز بعد میں کم ہی نظر آئی، ان کی یہ تحریر ایسی تھی کہ جب یہ پہلی بار چھپی تو سید مودودیؒ نے بھی اسے دیکھا تھا اور اس بارے معلومات بھی فراہم کیں اور یہ مشورہ بھی دیا کہ اس کا انگریزی ترجمہ ہونا چاہیے، لیکن نامعلوم کیوں یہ ترجمہ نہ ہو سکا۔ آج تو خیر صورت حال بہت بدل چکی ہے اور آج تو تمام تعلیمی ادارے، غیروں کے تو اپنی جگہ اپنوں کے بھی ’مخلوط تعلیم‘ جسے نئے رجحان سے بچ نہیں پائے۔
وہ لکھتے بھی خوب تھے، اور ڈکٹیٹ بھی خوب کراتے، روداد نویسی کے بھی خوب ماہر تھے۔ ایک بار کسی موضوع پر کوئی گفتگو سن لیتے تو اس کو احسن انداز میں لکھتے۔ کوئی یہ گمان نہ کر سکتا کہ یہ انھوں نے نوٹس لیے بغیر لکھی ہے۔ وہ ایڈیٹنگ کے بھی خوب ماہر تھے، بہت تیزی کے ساتھ ایڈیٹنگ کرتے۔ وہ جملہ بازی کے خوگر تھے، خوب جملہ بازی کرتے، لیکن ہر کسی سے نہیں جن سے بے تکلفی ہوتی، یہ معاملہ اسی سے کرتے۔ کہتے تھے کہ بندہ چلا جائے لیکن جملہ نہ جانے پائے!
ان کے پاس دفتر جانا ہوتا تو ہمیشہ خوش ہوتے، چائے پلاتے اور ساتھ اپنی ٹیبل کے کسی خانے میں رکھے ڈبے سے بسکٹ نکال کر پیش کرتے۔ مختلف ایشوز شیئر کرتے، تحائف سے نوازتے۔ جب کراچی سے آتے تو ہمیشہ کوئی نہ کوئی کتاب ضرور لاتے۔ پھر ذوق مطالعہ دو چند کرتے، کتاب کے مندرجات کا ذکر کرتے، اور ان کے بارے پوچھتے ادب، شاعری افسانے، ڈرامہ، ناول وغیرہ اس بار کوئی میں زیادہ وقت گزارا، صحت بھی ٹھیک نہیں تھی لیکن آئے تو ابن بطوطہ بارے کتاب لائے، اس بار عید الالضحیٰ پر تھرماس بھیجا، بلال کو خاص طور پر بھیجا کہ جاؤ دے کر آؤ۔
۴، ۵ سال قبل جب صحت اچھی تھی تو ہم اکھٹے نماز فجر کے بعد سیر کرتے۔ سانس کے مریض ہونے کے باعث وہ آہستہ آہستہ چلتے۔ اس زمانے میں سیرکے بعد ان کے دفتر میں باقاعدگی سے نشست ہوئی جس میں چائے کا دور چلتا۔ اس بیٹھک اور چائے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا۔ان کے گھر میں کئی بار کھانا کھانے کا موقع ملا۔ وہ دعوتیں کھاتے بھی تھے اورکھلاتے بھی تھے۔ مولانا سید جلال الدین عمری ، سید رضی الاسلام ندوی، اور کتنے ہی کراچی اور باہر کی دنیا کے لوگوں سے اس طرح تعارف ہوا۔ اللہ ان کی اہلیہ کو سلامت رکھے بہت مزے مزے کے کھانے بناتیں اور کھلاتیں۔ ان کے ہاتھوں کی بنائی بریانی کا کیا خوب ذائقہ ہوتا۔ 
دفتر میں باقاعدگی سے چائے کی مجلس ہوتی چائے کا دور چلتا، اس چائے کالطف ہی کچھ اورتھا۔
لاہور آنے کے بعد بالخصوص خرم مراد مرحوم کی وفات کے بعد انھوں نے منشورات پر خصوصی توجہ دی، منشورات کو کتب کی اشاعت کا مقبول ادارہ بنانے میں ان کا بہت اہم کردار رہا۔ گو اس دوران وہ مختلف بحرانوں سے بھی گزرا، لیکن ترقی کا یہ سفر جاری رہا۔ انھوں نے مولانا مودودی، خرم مراد اور پروفیسر خورشید احمد کے مختلف موضوعات پر کتابچے خوبصورت انداز میں طبع کیے اور کئی نئے لکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنے۔ طباعت و اشاعت کو ایک نیا آہنگ بخشا۔ انھوں نے منشورات کے تحت مختلف کتابیں بھی طبع کیں۔ ان کتابوں کے سرورق ہوں یا طباعت، نئے انداز اور نئے رجحانات متعارف کروائے۔ اس کا م میں پروفیسر سلیم منصور خالد، راشد الیاس وغیرہ ان کے ہم رکاب رہے۔
کبھی کبھار وہ ہمارے پاس مرکز جماعت کے استقبالیہ پر تشریف لاتے، اورچائے کی فرمایش کرتے، سبز چائے شوق سے پیتے۔ ہمارے دفتر آنے والے اخبارات جنگ اور نوائے وقت ساتھ لے جاتے لیکن اگلے ہی روز پڑھنے کے بعد شکریے کے ساتھ واپس بھیجو دیتے۔
زمانہ طالب علمی اسلامی جمعیت طلبہ سے کراچی میں وابستہ ہوئے۔ جمعیت کے معتمد عمومی رہے۔ جمعیت کی قیادت اور کارکن سے مل کر خوش ہوتے اور ان کو کام کے سلسلے میں مفید مشوروں سے نوازتے۔ ان کا جمعیت کا زمانہ جمعیت کا ابتدائی دور تھا۔ جمعیت سے فراغت کے بعد انھوں نے لیکچرر شپ اختیار کر لی اور طلبا کو زوالوجی (حیوانیات)پڑھاتے رہے، لیکن اس تمام عرصے میں وہ اپنے فرائض سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ طلبا و اساتذہ تک دعوت پہنچاتے۔ اور ان کو تحریک کے قریب لاتے رہے حقیقت میں وہ ایک بے چین اور مضطرب روح رکھتے تھے۔
وہ چراغِ راہ کے مشاورتی بورڈ میں احمد انس کے قلمی نام سے شامل رہے، کا تذکرہ کرتے اور بتاتے کہ خورشید صاحب نے میرے اوپر بہت محنت کی اور اس قابل بنایا۔ آج جو کچھ ہوں اس میں خورشید صاحب کی بے پایاں محبت، خلوص اور محنت کا بڑا ہاتھ ہے جمعیت سے فراغت کے بعد وہ تنظیم اساتذہ کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پروفیسر حافظ وحیداللہ خان تنظیم اساتذہ کے صدر اور صوبہ سندھ کے صدر پروفیسر عنایت علی خان تھے۔ تنظیم اساتذہ میں بھی اپنی صلاحیتوں کا خوب خوب لوہا منوایا اور انتھک انداز میں کام کیا۔
منصورہ آنے کے بعد پروفیسر مسلم سجاد صاحب کے دو کام بہت اہم نوعیت کے رہے بالخصوص ترجمان القرآن کی ۱۹۳۲ء سے لے کر دسمبر۲۰۱۴ء تک کی DVD کی تیاری اور دوم اسی طرح تفہیم القرآن کی آڈیو CD۔
منصورہ میں نمازِ ظہر کے بعد ان کی نمازہ جنازہ کا اعلان کیا گیا تھا۔ نماز ظہر کے بعد ان کے گھر سے جنازہ اٹھایا گیا تو آسمان پر ہلکے ہلکے بادل موجود تھے، نماز جنازہ حافظ محمد ادریس صاحب نے پڑھائی۔ نماز جنازہ کے بعد میت کو کریم بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں لے جایا گیا، جہاں جماعت کے کئی اکابرین مدفون ہیں۔ ابھی میت کو قبر میں رکھنے کا مرحلہ باقی تھا کہ پہلے ہلکی ہلکی پھر تیز بارش شروع ہو گئی۔ بارش ہی میں عبدالغفار عزیز صاحب نے قرآن مجید کی تلاوت اور دعا کی یوں پروفیسر مسلم سجاد سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ اور ہم لوگ تیز بارش میں انھیں تنہا قبر کے حوالے کرکے منصورہ واپس آگئے کہ یہی زمانے کہ دستور ہے، جانے والا چلا جاتا ہے اور اس کے عزیز و اقارب ہوں یا دوست احباب، سب رخصت کرکے اپنی اپنی راہ لیتے ہیں، اور سفر آخرت پر جانے والا اکیلا ہی اس سفر پر روانہ ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ بھی تن تنہا اس سفر پر روانہ ہوئے۔ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور انھیں اعلی علیین سے نوازے۔آمین

0 comments:

Post a Comment