Wednesday 6 March 2019

محمدﷺ ہمارے بڑی شان والے

| |
Image result for ‫محمد‬‎
وہ منظر اور سماں کتنا دل کش جاذب نظر اور دل فریب ہوتا ہو گا جب نبی مہربانﷺ، آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین یکجا ہوتے ہوں گے ۔ مختلف ایشوز، دینی، عسکری و سیاسی مسائل پر بات چیت ہوتی ہو گی، ہنستے مسکراتے ہوں گے، ملائکہ اور جنات اس اکٹھ پر رشک کرتے ہوں گے۔ کروڑوں درود و سلام نبی مہربانﷺ پر جنھوں نے اُمت کے لیے دکھ اٹھائے، امت کے لیے پریشان ہوئے، راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر امت کی ہدایت اور جہنم سے نجات کے لیے دعائیں مانگیں۔ ماہر القادری نے اس کا کیا خوب صورت نقشہ کھینچا ہے:
سلام اس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
سلام اس پر جو اُمت کے لیے راتوں کو روتا تھا
سلام اس پر جو فرشِ خاک پر جاڑے میں سوتا تھا
سلام اس پر جو دنیاکے لیے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہے
نبی کریم ﷺ کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی پاکیزہ، صاف ستھری اور تقویٰ سے اور بھرپور آراستہ تھی کہ زندگی کے یہ مرحلے اللہ رب العزت کی براہِ راست نگرانی میں گزر رہے تھے اور نبوت کے بعد کی تیئس سالہ زندگی تو اور زیادہ خالص، پاکیزہ تھی کہ کارِ نبوت آپ کے سپرد ہو چکا تھا، کشمکش اور جدوجہد کا دور دورہ تھا۔ دعوتِ دین کے ابلاغ کی تڑپ تھی، جو آپؐ کو ہرلمحہ بے چین و بے قرار رکھتی تھی، ساری تگ و دو اسی کے لیے تھی کہ خلق خدا ہدایت پا جائے ۔ غزوات و سرایا تھے تو اس لیے کہ اللہ کا دین غالب ہو جائے۔ سیرت طیبہ تمام انسانیت کے لیے رہنما اصول دیتی ہے۔
حضورﷺ کی تمام زندگی بقول حضرت عائشہ صدیقہr قرآن کے اخلاق کا نمونہ پیش کرتی ہے۔آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ ایسے تھے جو ایک بار مل لیتا دوبارہ ملنے کی چاہت دل میں پال لیتا، آپ کی شخصیت میں ایسی کشش اور جاذبیت تھی کہ بار بار ملنے کو جی چاہتا۔ روئے تاباں ایسا منور اور روشن کہ بس دیکھتے رہیے اور دل نہ بھرے۔ لطف و کرم، جودوسخا، الطاف و عنائت ایسے تھے کہ جس نے ایک بار ہاتھ ملایا تو بار بار ملانے کی بے قراری رہی، معانقہ کیا تو بار بار معانقے کو جی چاہتا رہا، کسی کے شانے پر ہاتھ رکھا، کسی کو سینے سے لگایا، کسی کے سر پر ہاتھ پھیرا تو تمام زندگی وہ اس تصور محبت میں گم رہا کہ دوبارہ ایسا ہی موقع نصیب ہو جائے۔ دیہات سے بدو آتے یا دور درازسے وفود، حضورؐ سے ملتے تو شادشاد اور نہال جاتے۔
حضورﷺ کی زندگی سراپا روشنی، سراپا رہنمائی کہ خود قرآن میں ارشادِ رب العالمین ہے: ’’رسول اللہ کی زندگی میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘ آپ کی زندگی توازن اور اعتدال کا بہترین شاہکار ہے۔ حضورe ہمیشہ تبسم فرماتے،کبھی قہقہہ نہیں لگاتے تھے، آپؐ نے زیادہ ہنسنے سے منع فرمایا کہ اس سے دل مردہ ہو جاتے ہیں۔
نبی مہربان e نے مال کے حصول کی خواہش کو ناپسندیدہ نہیں قرار دیا، البتہ مال کے فتنہ ہونے کی جانب ضرور متوجہ کیا ہے۔
آپe کا ارشادِ گرامی ہے کہ میں تمھیں اس چیز کی خوش خبری سناتا ہوں جو تمھیں خوش کر دے۔ میں تم لوگوں پر فقر کا خوف نہیں رکھتا، دنیا کی وسعت کا خوف ہے نتیجتاً تم دنیا سے محبت کرنے لگو گے، جیسے تم سے پہلے لوگ کرتے تھے اور دنیا تم کو ہلاک کر دے گی جس طرح پہلے لو گوں کو ہلاک کر دیا۔
رسول اللہﷺ کے پاس ایک صاحب آئے ہیں اور اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔ آپ اسے لعنت ملامت کی بجائے گناہ سے پاک صاف ہونے کے بارے میں بتاتے ہیں وہ اپنی مجبوریوں کا ذکر کرتا ہے۔ آپﷺ غصہ میں آنے یا ناراض ہونے کی بجائے عفوو درگزر اور نرمی سے کام لیتے ہیں۔ لوگ نبیe کے پاس گناہوں کا بوجھ لے کر آتے اور اس بوجھ کو اتار کر پاکیزہ ہو کر جاتے۔ نبی مہربان کی اس وسیع النظری، اخلاقِ کریمانہ اور اس محبت و خیر خواہی کے کیاکہنے۔
ایک صاحب آئے اور آتے ہی آپؐ کے گلے میں چادر ڈال کر زور زور سے کھینچا کہ آپ کی گردن مبارک پر نشان ابھر آیا۔ آپe نے اس سے پوچھا: اے اللہ کے بندے یہ کیا ہے؟ اس نے کہا مجھے مال دیں جو اللہ نے آپؐ کو دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایامال ضرور دوں گا، لیکن تیرے ستانے کا بدلہ بھی لوں گا۔ وہ شخص کہنے لگا میں بدلہ نہیں دوں گا۔ آپؐ نے فرمایا کیوں؟ اس نے کہا اس لیے کہ آپؐ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے۔ یہ سن کر حضورe مسکرائے اور فرمایا کہ اس کو ایک اونٹ پر جَو اور ایک پر کھجوریں لاد دوجودوسخا، لطف و عطا، معاف کرنا اور دعائیں دینا تمام زندگی کا وظیفہ رہا۔ حتیٰ کہ گالیاں دینے والوں کو بھی آپؐ نے نوازا۔ اسی لطف و محبت کی کیا بات ہے جنھیں بکریاں چرانا نہیں آتی تھیں وہ دنیا کے امام اور قائد بن گئے۔مولانا ظفرعلی خان فرماتے ہیں:
کوئی صدیقؓ بن گیا کوئی فاروقؓ بن گیا
ملی ہے جس کو بھی قربت حضورؐ کی 
اور
جھکا دیں گردنیں فرط ادب سے کجکلا ہوں نے
زبان پر جب عرب کے سارباں زادوں کا نام آیا
متانت و شگفتگی آپ کے طبیعت و مزاج کا حصہ تھی۔ صحابہ کرام  اسی معاشرت کا حصہ تھے،صحابہ کرام اپنی مجالس میں ایک دوسرے کے ساتھ کبھی کبھی چھیڑ چھاڑ اور مذاق کرتے، حضورe اس طرزِ عمل پر خاموشی اختیار کرتے یا تبسم فرماتے اور کبھی شریک ہو جاتے۔ یہ فطرت کے تقاضوں میں سے ہے اور صحت مند معاشرہ کی نشانی۔ ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ آپؐ کا رویہ ایسا کہ جو دل کو بھائے۔ ازواجِ مطہرات (امت کی مائیں)، آپؐ کے گرد جمع ہیں ان کی آواز آپ کی آواز سے بلند ہے۔ اس دوران حضرت عمررضی اللہ عنہ تشریف لائے تو خواتین چھپ گئیں۔ آپؐ مسکرائے۔ حضرت عمرؓ نے کہا اللہ آپ کو ہمیشہ مسکراتا رکھے۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ آپؐ نے فرمایامجھے ان عورتوں پر تعجب ہے کہ میرے پاس تھیں تو ہنس رہی تھیں۔ تمھاری آواز سنی تو چلی گئیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا مجھ سے ڈرتی ہو اور حضورe سے نہیں ڈرتیں۔ انھوں نے کہا آپ حضورﷺ سے زیادہ سخت ہیں۔ حضور نے فرمایا اے عمر قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے شیطان اس راستے سے ہٹ جاتا ہے جس پر تُو چلتا ہے۔ (صحیح بخاری)
حضورﷺ کے اسوہ حسنہ پر چل کر معاشرے سے فتنہ و فساد ختم ہوتا ہے۔ رائے کااحترام اور اپنی رائے سے دست بردار ہونا ایک بڑی قربانی ہے۔ حضورﷺ صحابہؓ کی رائے کو اہمیت دیتے، ان پر اعتماد کا اظہار فرماتے۔ حضرت عمرt کہتے ہیں عبداللہ بن ابی، رئیس المنافقین فوت ہوا تو حضورﷺ سے نمازِ جنازہ پڑھوانے کی درخواست کی گئی۔ آپؐ تشریف لے گئے اور جنازہ پڑھانے کا ارادہ کیا تو میں اپنی جگہ سے حضورﷺ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور عرض کی کہ آپؐ اس دشمن خدا کی نمازِ جنازہ پڑھائیں گے؟ حضرت عمرکہتے ہیں (میں نے اس کی منافقت کے بہت سے واقعات دہرائے) حضورe نے سن کر تبسم فرمایا۔ حضورﷺ نے کہا عمر ہٹ جاؤ مجھے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ چاہوں تو اس کے لیے استغفار کروں اور چاہوں تو نہ کروں۔ میں نے استغفار کا انتخاب کیا ہے۔ کچھ دیر میں سورۂ توبہ کی آیات نازل ہوئیں اور آپؐ کو منافقین کی نمازِ جنازہ پڑھنے سے روک دیاگیا۔ 
بری شہرت، اور بدنام لوگوں کے ساتھ بھی اچھے طریقے اور خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ اس سے ملنے جلنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے کہ یہی سیرت رسول کا درس ہے۔ حضرت عائشہr روایت فرماتی ہیں کہ ایک شخص جس کا نام عینیہ بن حصین تھا۔ اس نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ نبیt نے فرمایا یہ بُرے قبیلے کا آدمی ہے۔ پھر اسے اندر آنے کی اجازت دی۔ تھوڑی دیر بھی نہ گزری کہ آپؐ اس کے ساتھ ہنسنے لگے۔ جب وہ شخص چلا گیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہe! آپ ؐنے اس کے بارے میں یہ کہا: پھر اس کے ساتھ ہنستے رہے۔ آپؐ نے فرمایا بدترین آدمی وہ ہے جس سے لوگ اس کے شر کی وجہ سے ملنا چھوڑ دیں۔
حضرت عائشہ صدیقہr نے اپنی خانگی زندگی کے واقعات بیان کرکے امت کے لیے اتنی بڑی قربانی دی جس کا تصور کرنا شاید آساں ہے مگر ایسا کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں، وہ حضورe کا اسوہ سامنے لائیں کہ امت کو رہنمائی حاصل ہو۔ اللہ انھیں اجر عظیم سے نوازے۔ ایک بار حضرت عائشہr کی باری تھی، نبی مہربانؐ حضرت عائشہرضی اللہ عنہا کے حجرہ میں تھے، اس دوران حضرت حفصہr نے کھانے کے لیے پیالے میں کچھ بھیجا۔ (حضورﷺ حضرت حفصہؓ کے ہاتھ کا کھانا بہت پسند فرماتے تھے)۔ حضرت عائشہr کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ انھوں نے غصے میں وہ پیالہ توڑ ڈالا۔ حضورﷺنے حضرت عائشہرضی اللہ عنہا کا یہ عمل دیکھا تو مسکرا دیے۔(بخاری) 
بھیڑ بکریاں چرانے والوں نے دنیا کا تمدن بدل ڈالا، لیکن یہ وہی لوگ ہیں جن کی سادگی مثالی اور زندگی بناوٹ اور تصنع سے پاک تھی۔ حضرت عبداللہ بن مغفلؓ فرماتے ہیں کہ غزوۂ خیبر میں مجھے چربی کی بھری ہوئی تھیلی ملی میں نے اسے اٹھا لیا اور کہا آج اس جیسی چیز میرے علاوہ کسی کو نہیں ملی۔ جب میں نے آپؐ کو دیکھا تو آپe متبسم تھے۔ (آپؐ نے میری سرگوشی سن لی)۔
آپﷺ کی مسکراہٹ کی دلآویزی کے کیا کہنے، مسکراتے تو کائنات مسکرا اٹھتی۔ حضرت علاء بن حضرمیؓ نے بحرین والوں سے جزیہ وصول کرکے خدمت اقدس میں بھیجا۔ مال کی کثرت تھی، اس کو صف میں پھلایا گیا اور حضورe نے اعلان کروایا کہ جس کو مال کی ضرورت ہے وہ آئے اور لے جائے۔ حضورe کے چچا عباسؓ تشریف لائے اور اپنی چادر میں بہت سا مال بھر لیا۔ اب جب اٹھاتے ہیں تووہ اٹھتا نہیں۔ حضورؐ قریب تھے، حضورe سے کہا اللہ کے رسولؐ! اس کو میرے سر پر رکھ دیجیے۔ حضورe مسکرائے اور فرمایا اس میں سے جتنا اٹھا سکتے ہو اتنا لے جاؤ۔ اسی طرح ایک بار ایک شخص حضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا مجھے سواری کی ضرورت ہے۔ مجھے اونٹ عطا فرما دیں۔ آپؐ نے فرمایا میں تجھے اونٹ کا بچہ دوں گا۔ اس نے پریشان ہو کر کہا حضورؐ میں اونٹ کے بچے کو کیا کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا بڑا اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔
حضورﷺ اپنی مجلس میں لوگوں کو نیکیوں پر ابھارتے، ان کی رغبت دلاتے اور سبقت لے جانے کا درس دیتے۔ حضرت ابی امامہؓ کہتے ہیں ایک بار رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا تم میں سے آج کس نے روزے کی حالت میں صبح کا آغاز کیا؟ لوگ چپ رہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا میں نے اے اللہ کے رسولؐ!آپؐ نے پوچھا آج کس نے صدقہ دیا۔ لوگ چپ رہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: میں نے اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے پوچھا: آج جنازہ کے ساتھ کون گیا؟ لوگ چپ رہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ میں نے۔ آپؐ نے پوچھا: آج مریض کی عیادت کس نے کی؟ لوگ چپ رہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ میں نے۔
یہ سن کر حضورﷺ نے تبسم فرمایا اور فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا، جس نے یہ اعمال سرانجام دیے وہ جنت میں جائے گا۔
حضور ﷺکی سیرت مبارکہ دل و دماغ کو معطر اور اعمال کو خوب صورتی فراہم کرتی ہے۔ اس سے ثواب اور برکت کے ساتھ ساتھ اپنی پوری زندگی کو معمور اور روشن کرنا چاہیے۔ امت مسلمہ اس اعتبار سے خوش نصیب ہے کہ آپe کی سیرتِ مطہرہ کا ہر ورق اور گوشہ محفوظ اور موجود ہے۔ صحابہ کرام اور محدثین عظام نے سیرت رسولؐ کو محفوظ کر دیا۔ آج ساڑھے چودہ صدیاں گزر گئیں نبی مہربان کی زندگی کا گوشہ گوشہ امت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے محفوظ ہے۔ آپؐ کی خوب صورت زندگی امت کے لیے ہر پہلو سے نمونہ ہے۔ آپؐ صحابہ کرام کو ہمت اور حوصلہ دلاتے، خوشی کا اظہار فرماتے۔ 
دنیا نے آپﷺ جیسی قیادت پہلے دیکھی اور نہ بعد میں۔ آپ کا قائدانہ کردار روشنی کا ذریعہ ہے اور رہے گا۔ آپؐ کی حوصلہ افزائی شاباش اور مسکراہٹ صحابہ کرام کے لیے بہت بڑا اعزاز اور قیمتی سرمایہ تھی۔ حضرت عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں کہ میں حضورﷺ کی خدمت اقدس میں آیا۔ آپؐ مسجد میں تشریف فرما تھے ۔ لوگوں نے مجھے پہچان کر کہا کہ یہ ’’عدی‘‘ ہے۔ جب مجھے آپؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ مجھے خبر تھی کہ حضورe نے فرمایا تھا کہ مجھے اُمید ہے کہ اللہ عدی کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دے گا۔[ اس دوران ایک خاتون اپنی ضرورت کے لیے آئی۔ آپؐ اس کے ساتھ گئے اور اس کی ضرورت پوری کی]۔ عدیؓ کہتے ہیں حضورe واپس آئے اور مجھے اپنے گھر لے آئے اور سامنے بٹھایا۔ پھر پوچھا: عدی تم کو کون سی چیز اسلام سے روکتی ہے اور اس بات سے کہ کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کے سوا بھی کوئی معبود ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہود پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور نصاریٰ گمراہ ہیں۔ عدی نے کہا میں دین حنیف کا پیرو اور مطیع ہوتا ہوں۔ یہ سن کر حضور کا چہرہ مبارک خوشی سے معمور ہو گیا۔
نبی کریمﷺ کے ساتھ محبت و الفت ایمان کی نشانی ہے۔ اس محبت و الفت کا اظہار حضورﷺ کے اخلاقِ کریمانہ اور سیرت پر عمل پیرا ہو کر اور نبی ﷺ پر درود و سلام بھیج کر ہم اپنے نامہ اعمال کو نیکیوں سے لبریز اور گناہوں سے دور ہو سکتے ہیں۔ حضرت ابوطلحہ انصاری کہتے ہیں کہ ایک دن حضور ﷺتشریف لائے۔ آپ کے چہرۂ انور سے خوشی و مسرت کے آثار ہویدا تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! آج آپ بہت خوش معلوم ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میرے رب کی طرف سے وحی آئی ہے کہ جو شخص مجھ پر درود بھیجے گا اللہ اس کے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھے گا اور اس کے دس گناہ معاف فرمائے گا۔ اللّٰھُمَّ صَلِّی وَسَلِّمْ عَلٰی نَبِیِّنَا مُحَمَّد 
حضورﷺ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت تھے۔ ارشاد ربانی ہے کہ آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ مولانا حالی کے بقول:
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی برلانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماوٰی
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
آپﷺ کی رحمت سے نہ صرف انسانوں بلکہ چرند پرند اور نباتات و جمادات بھی فیض یاب ہوئے۔ ایک بار آپ ایک باغ میں پہنچے وہاں ایک اونٹ صحن میں بندھا ہوا تھا جو بھوک اور پیاس سے بے حال تھا۔ نبیؐ کو آتے دیکھا تو بلبلایا، چلایا۔ آپ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، اس بے زبان نے آپؐ کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیا، پھر آپؐ نے اس کے مالک کو بلایا اور سمجھایا کہ بے زبان سے کام لیتے ہوئے اس کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔ مالک نے آیندہ حسن سلوک کا وعدہ فرمایا۔
رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی، آپؐ کی تعلیمات قرآنِ مجید، اور رسالت کے بارے میں مغرب کا رویہ دشمنی اور تعصب پر مبنی ہے۔ اسلام کے مقابلے کے لیے اہل مغرب نے حضورﷺ کے کردار و عمل اور قرآنِ مجید کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور تہذیب و ادب کی ہر حد کو توڑا۔ آج سیرت رسالت محمدﷺ مغرب کے حملوں کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ نتیجتاً جہاں موقع ملتا ہے حضورﷺکی ذاتِ گرامی قدر کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سلمان رشدی ہو یا تسلیمہ نسرین مغرب کی آنکھ کا تارا ہیں۔ مسلمان کے دل سے نبیﷺ کی محبت کو نکالنے کی سازشیں عروج پر ہیں، لیکن یہ سازش کرنے والے ناکام و نامراد رہیں گے۔ بقول اقبالؒ :
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
مغرب کا یہی طریقۂ واردات ہے امت کو مغرب کی اس واردات کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو سیرت مطہرہ سے وابستہ کرنا چاہیے۔ سیرت رسول سے وابستہ ہو کر اپنے دلدّر دور کرے، نبی مہربانe کی سیرتِ طیبہ میں ہر دکھ کا مداوا اور ہر مشکل کا حل موجود ہے۔ یہ زندگی کو روشن اوردل و دماغ کو معطر اور منور کرتی ہے۔ جتنی جتنی امت سیرت کے سانچے میں ڈھلتی جائے گی، اتنی اتنی امت سربلند اور عروج سے ہمکنار ہوتی جائے گی۔

0 comments:

Post a Comment