Sunday 20 April 2014

جب منصورہ کا دامن تنگ پڑ گیا

| |
9 اپریل 2014ء کا دن اس لحاظ سے ایک تاریخی، منفرد اور انوکھا دن تھا کہ اس روز مرکز جماعت منصورہ لاہور میں نومنتخب امیر جماعت کی تقریب حلف برداری منعقد ہو رہی تھی۔ اس تقریب میں دور و نزدیک سے شرکت کے لیے آنے والوں کا جذبہ دیدنی تھا۔ مرکز جماعت میں ہر طرف انسانوں کا ہجوم تھا۔ مسجد سے لے کر سبزہ زار تک اور پنڈال سے لے کر منصورہ کی مرکزی شاہراہ تک، جہاں یہ تقریب منعقد ہونا تھی، انسان ہی انسان تھے۔ یہ لوگ اپنے امیرجماعت کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے پاکستان بھر سے آئے تھے۔ اس میں بچے بھی تھے اور بڑے بھی، نوجوان بھی تھے اور بوڑھے بھی، اپنے بھی تھے اور غیربھی، معززین بھی تھے اور عامی بھی۔ دوسری سیاسی اور دینی جماعتوں کے قائدین بھی تھے اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے بھی۔ KPK حکومت کا وفد جناب اسد قیصر سپیکر اسمبلی کی قیادت میں شریک تھا۔ مقبوضہ اور آزاد جموں و کشمیر، پنجاب، بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا سے بھی وفود نے شرکت کی جبکہ خواتین کی کثیر تعداد کے سامنے منصورہ آڈیٹوریم اپنی تنگ دامنی پر شکوہ سنج تھا۔
تقریب کا آغاز بدھ کے روز نمازِ عصر کے بعد ہونا تھا، جبکہ لوگوں کی آمد گذشتہ روز سے شروع ہو چکی تھی، اور جوں جوں تقریب کا وقت قریب آ رہا تھا لوگوں کی آمد کی رفتار بڑھتی جا رہی تھی۔ نمازِ عصر کے لیے اذان ہوئی، پہلے مسجد کے صحن میں صفیں بنیں، پھر یہ صفیں ہال میں منتقل ہو گئیں کہ مسجد کا بڑا صحن بھی اپنی تنگ دامانی کا منظر پیش کر رہا تھا، جن کو مسجد میں جگہ نہ ملی انھوں نے سڑک پر نمازِ عصر ادا کی۔ نمازِ عصر کے بعد لوگ پنڈال کی طرف بڑھ رہے تھے۔ مرکزی دفاتر کے سامنے والا سبزہ زار اس انسانی ہجوم کے سامنے بے بس نظر آتا تھا۔ پہلے مرحلے پر کرسیاں بھریں، پھر اردگردخالی جگہ بھری اور اس کے بعد سٹیج کے سامنے والی جگہ بھی بھر گئی لیکن انسانوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہا۔ سبزہ زار کے باہر سڑک پر اور صحن مسجد میں بھی لوگ نظر آ رہے تھے۔ ان کی یہ آمد دراصل ان کی اپنے امیر جماعت سے محبت کی غماز تھی، اور یہی جذبہ انھیں کشاں کشاں یہاں لے آیا تھا۔ میں نے دیکھا جامع مسجد منصورہ کا مینار سبزہ زار کے درخت سے سرگوشیاں کر رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ منصورہ میں بڑے بڑے پروگرام ہوئے، بے شمار لوگ آئے لیکن آج جو جذبہ نظر آتا ہے، کم کم ہی دیکھنے میں آیا۔ مینار کہہ رہا تھا کہ میں نے مولانا مودودیa کو بھی یہاں آتے جاتے دیکھا، ان کے جانشین میاں طفیل محمدؒ ، قاضی حسین احمدؒ اور سید منور حسن کی دین کے لیے جدوجہد اور کوشش ابھی کل کی بات محسوس ہوتی ہے۔ 
جماعت اسلامی کی جدوجہد خالصتاً رضاے الٰہی کے حصول کی جدوجہد ہے۔ جماعت اسلامی کے اس سفر کا آغاز انتہائی جذبہ اخلاص کا مرہونِ منت ہے۔ جماعت اسلامی کی جدوجہد پیغمبرانہ جدوجہد ہے۔ یہ انبیا والا کام ہے۔ اس کام کے لیے یہ جذبہ اور اخلاص بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نومنتخب امیر جماعت محترم سراج الحق کا جذبہ اخلاص، رب سے مضبوط تعلق اور حضور سے والہانہ محبت و عشق ان کا سرمایہ ہے اور یہی وہ توشہ ہے جو کامیابی کی ضمانت بنتا ہے۔
مائیک پر محترم لیاقت بلوچ قیم جماعت اسلامی پاکستان کی آواز ابھرتی ہے، وہ قاری وقار احمد کو تلاوت کلام پاک کی سعادت حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور حافظ لئیق احمد نعت رسول مقبول ’’میرا پیمبر عظیم تر ہے‘‘ سنا کر مجمع کے دلوں میں رسول اللہ کی محبت کی جوت جگا رہے ہیں۔ اس موقع پر جناب عبدالحفیظ احمد ناظم انتخاب جماعت اسلامی پاکستان نے جماعت اسلامی کے طریق انتخاب پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 30 ہزار سے زائد ارکان جماعت کو بیلٹ پیپرز ارسال کیے گئے جن میں سے 25 ہزار سے زائد نے اپنی رائے استعمال کی اور جناب سراج الحق کو امیر جماعت منتخب کیا ہے۔
اب نو منتخب امیر جماعت کو ’حلف‘ کے لیے دعوت دی گئی ہے وہ مائیک پر آتے ہیں اور حلف امارت پڑھتے ہیں، حلف امارت کے موقع پر میں نے دیکھا کہ کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنی نمناک آنکھوں سے آنسو پونچھ رہے ہیں اور سسکیاں لے رہے ہیں۔ جماعت اور امیرجماعت کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔
اب محترم سید منور حسن کو خطاب کی دعوت دی گئی تو شرکا نے ہم بیٹے کس کے۔۔۔ سیدکے، ہم ساتھ جئیں گے۔۔۔ سید کے، کے پُر زور نعروں سے ان کا استقبال کیا۔جناب سید منور حسن شرکا سے مخاطب ہوئے۔ انھوں نے محترم سراج الحق کے انتخاب کو جماعت کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا قرار دیتے ہوئے کہا کہ تحریک کی قیادت درست ہاتھوں سے درست ہاتھوں میں منتقل ہوئی ہے۔ ارکان و کارکنان کا فرض ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قرآن و سنت کے غلبے، ملک و ملت کی خوشحالی کے لیے اس تحریک کو آنے والی نسلوں تک منتقل کریں۔انھوں نے اس جانب بھی متوجہ کیا کہ دین کا کام کرنے والوں کو جاہلیت کی معرفت حاصل کرنا چاہیے۔ جاہلیت کی معرفت حاصل کیے بغیر دین کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔
مجھے خوشی ہے اور میں اس بات پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ تمام آئینی، دستوری، قانونی راہوں سے گزر کراور جماعت اسلامی کی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے امیرجماعت کا انتخاب تکمیل کو پہنچا اور برادرم سراج الحق نے حلف امارت بھی اٹھا لیاہے۔ جس جوش و جذبے کا، جس تعلق اور رفاقت کا آپ نے مظاہرہ کیا ہے وہ بھی دیدنی ہے۔
کسی بھی سمع و طاعت کی تنظیم کے اندر، کسی بھی ایسی جماعت میں جو غلبۂ دین کے لیے برپا ہوئی ہو، نظم و ضبط بھی ہونا چاہیے اور پیار و محبت بھی۔ پھر اس کا اظہار بھی ہونا چاہیے اور آپ نے ہاتھ اٹھا کر، نعرے لگا کر اور نئے امیر کا استقبال کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ جماعت اسلامی کے کارکن ہیں، ایک منزل اور ایک نصب العین آپ کے سامنے ہے۔ نشاناتِ منزل کودیکھتے ہوئے ہم منزل کی طرف بڑھیں گے اور ان شاء اللہ منزل کو پا کر رہیں گے۔
دینی اور نظریاتی تحریکوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ غلبۂ دین کے راستے کی اصل رکاوٹ کیا ہے، ان وجوہات کو جانیں کہ جو ان کے قدموں کو روکنے والی، ان کی منزل کو کھوٹا کرنے والی اور ان کے بڑھتے ہوئے قدموں کو پیچھے ہٹانے والی ہیں۔ ہرلمحہ تاریخ کا ایک طاغوت ہوتا ہے۔ ہر لمحہ تاریخ کی جہالت کا ایک عنوان ہوتا ہے۔ آج کی اصطلاح میں اس کا نامسیکولر ازم اور لبرلزم ہے،اس کو سمجھنے جاننے اور پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اگر میں یوں کہوں تو درست ہو گا کہ نہ صرف قیادت کے لیے یہ ضروری ہے بلکہ اس کے جلو میں چلنے والوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ جاہلیت کی معرفت حاصل کریں۔ 
جاہلیت ایک کردار ہے۔ ہر دور کے اندر یہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے۔ نئی بوتلیں پرانی شراب لے کر آتی ہیں۔ وہ ذہنوں کو مسموم کرتی، منزلوں کو کھوٹا کرتی اور راہوں کو مسدود کرتی ہیں اور جاہلیت کی نفی کے بغیر ا سلام کی ترقی اور خوش حالی اور اسلام کا غلبہ اور اس کا برپا ہونا ممکن نہیں۔ 
طاغوت اور جاہلیت کی نفی کیے بغیر، سیکولرازم کو اس کی اصل روح کے ساتھ پہچانے اور جانے بغیر اس کی نفی ممکن نہیں۔ ہمارا تو کلمہ ہی نفی سے شروع ہوتا ہے۔ لاالٰہ الا اللہ۔ کس الٰہ کی ہم نفی کر رہے ہیں۔ کون سے معبودوں کو ہم ٹھکرا رہے ہیں۔ کون سے خدائی کے دعوے داروں کو ہم جوتے کی نوک پر رکھ رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ بڑے نظر آتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ جماعت اسلامی نے پچھلے 70،75 سالوں سے مسلسل انھی چیزوں پر کام کیا ہے۔
ہم ’’گو امریکہ گو‘‘ کی تحریک چلاتے ہیں، ہمیں اس امریکہ سے کوئی غرض نہیں ہے جو دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ جہاں کروڑوں انسان بستے ہیں، ان سے ہمیں کوئی کد نہیں۔ہم اُس امریکہ کو ’گو امریکہ گو‘ کہتے ہیں جو اپنی پالیسیوں کے اعتبار سے اسلام دشمن اور اسلامی تحریکوں کا دشمن ہے۔ اسلام کے بحیثیت نظریے اور دین کا دشمن ہے اور اس کے لیے وہ چاردانگ عالم کے اندر مسلمانوں پر چڑھائی کرتا ہے، ان پر بمباری کرتا ہے۔ نیٹو کی فوجیں ان پر چڑھا لاتا ہے۔ کبھی عراق میں، کبھی افغانستان میں،کبھی فلسطین میں اسرائیل کے ذریعے اور کبھی کشمیر میں بھارت کے ذریعے ان کا ناطقہ بند کرنے اور قافیہ تنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے ’گو امریکہ گو‘ کی تحریک نظریات کے حوالے سے جانی پہچانی تحریک ہے۔
آج اگر امریکہ افغانستان سے جا رہا ہے تو آپ کی ’گوامریکہ گو‘ تحریک نے بھی لوگوں میں بیداری پیدا کی ہے، ذہنوں کی آبیاری کی ہے، سوچ کے عنوان بدلے ہیں، نقطہ ہاے نظر بدلے ہیں، زاویہ ہاے نگاہ تبدیل کیے ہیں۔ زندگی اور اس کی ترجیحات کو تبدیل کیا ہے اور طاغوت کی نشاندہی کرکے وقت کی جاہلیت کا نام لے کر جب ہم نے اس کی نفی کی ہے، تو محض آپ نے نعرے نہیں لگائے ہیں بلکہ آپ نے فلسفے کے دائرے میں، نظریے کے دائرے میں اور سیاسی دائرے میں ان تمام چیزوں کو دلائل فراہم کیے ہیں، واقعات فراہم کیے ہیں۔ حادثات جو رونما ہوئے ہیں، اس کے حوالے دیے ہیں۔ اس لیے جب تک یہ تحریک اپنے منطقی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتی، دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی فورسز یہاں سے چلی جائیں۔ میں ان لوگوں سے اتفاق نہیں کرتا جو کہتے ہیں کہ پہلے یہاں کا نظام درست کریں، جو کہتے ہیں کہ افغانستان کے اندر پہلے انتخابی نتائج کے مطابق حکومتیں قائم کریں۔ جب بڑی تعداد میں لوگوں نے بائیکاٹ کیا ہے، جب بڑے پیمانے پر لوگوں نے اس بات کو للکارا ہے اور پکارا ہے کہ ہماری آزادی رائے پر پہرا بٹھانے کے لیے فوجیں موجود ہیں، ان فوجوں کے نکلے بغیر کوئی فیئر الیکشن نہیں ہو سکتے۔ ٹرانسپیرنسی نہیں آ سکتی۔ اس لیے ہم اُن کے ساتھ ہیں۔ 
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے پچھلے دنوں کے اندر وقت اور حالات کے دھارے کو سمجھا ہے۔ نوشتہ دیوار کو پڑھا ہے۔ وقت اور حالات کی نزاکتوں کو سمجھا ہے اور ٹھیک ٹھیک قوم کی اورملک کی اور امت مسلمہ کی نباضی کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ وہ لوگ ہیں، جنھوں نے سب سے پہلے یہ بات کہی تھی کہ مذاکرات کی میز بچھنی چاہیے، اُس وقت ہمارے خلاف کتنے اداریے لکھے گئے۔ اُس وقت کتنے کالم نگاروں نے ہمارے خلاف کالم لکھے۔ کتنے لوگوں نے ہمارا تیا پانچہ کرنے اور بخیے ادھیڑنے کی کوشش کی ہے۔ آج قومی اتفاق رائے ہے کہ مذاکرات ہونے چاہییں اور مذاکرات کی میز بچھ چکی ہے۔ مذاکرات کے لیے لوگ سنجیدہ ہیں۔ آج ہم پھر اس بات کو دھرانا چاہتے ہیں کہ اگر یہ مذاکرات ناکام ہوں گے تو اس کے نتیجے میں دوسرے مذاکرات کی میز بچھائی جائے گی۔ مذاکرات کی ناکامی کا نتیجہ فوجی آپریشن نہیں۔ جمہوریت کی ناکامی کے نتیجے سے آمریت نہیں نکلتی۔ اگر قانون کی عمل داری ختم ہو جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ لاقانونیت کو اپنا لیا جائے، بلکہ قانون کی عمل داری کو یقینی بنانا چاہیے۔ 
اس وقت مذاکرات جاری ہیں ،میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے بڑے پیمانے پر عوام کے دلوں پر دستک دی ہے اور بڑے پیمانے پر اُن کی ہم نوائی حاصل کی ہے۔ مذاکرات کی میز بچھانے کے سلسلے میں وزیراعظم پاکستان نے بھی اور بالخصوص وزیرداخلہ نے پوری قوم کے سامنے اپنا مافی الضمیر بھی پیش کیا ہے اور حکمت عملی بھی بنائی ہے۔ حضرت مولانا سمیع الحق، حضرت مولانا یوسف شاہ اور پروفیسر محمد ابراہیم نے تحمل کا دامن تھامے رکھا ہے۔ صبر اور حوصلے سے انھوں نے کام کیا ہے۔ ایسے واقعات دل و دماغ کی دنیا پر بجلی بن کر گرتے ہیں، ناگوار گزرتے ہیں اور پیشانیوں پر بل لے کر آتے ہیں مگر انھوں نے بلند حوصلگی کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے۔ 
حضرات! یہاں بڑی تعداد میں جماعت اسلامی کے کارکن بہی خواہ اور اس کی تعریف میں رطب اللسان رہنے والے لوگ موجود ہیں۔ ان سے میں الگ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں، جماعت اسلامی ایک اجتماعیت کا نام ہے اور اگر 70،75 سال سے یہ قافلہ بغیر رکے منزل کی طرف چلتا رہا، لوگ آتے اور جاتے رہے۔ لوگ ناراض ہوتے رہے، لوگ راضی ہوتے رہے مگر تمام داستانوں کے باوجود یہ تحریک زندہ تابندہ ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل سے اور اس کے احسان کے نتیجے میں اُس کی رحمتیں سایہ فگن رہی ہیں۔ آج بھی تحریک سے وابستہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پچھلے لوگوں کی طرح تحریک کو آگے کی طرف منتقل کریں۔ نئی نسلوں کی طرف منتقل کریں اُس مزاج کے ساتھ جو تحریکی مزاج ہے۔ ان رویوں کے ساتھ جو تحریکی رویے ہیں۔ تحریکی رویے اور مزاج کیا ہیں؟ قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھل جانے کا نام تحریک ہے۔ قرآن و سنت کی آواز پر لبیک کہنا، رسول اللہ ؐ کی سنتوں سے تعلق اور آبیاری پیدا کرنا، آپؐ کی شریعت مطہرہ کو بھی لے کر اٹھنا، جوش و جذبے کے ساتھ،بڑھتے ہوئے قدموں کے ساتھ اور ہر حوالے سے اپنے آپ کو منزل کی طرف لے کر چلنا ناگزیر ہے کہ آج کی تحریک کے کارکن اس تحریک کو آگے کی طرف منتقل کریں۔
محترم سراج الحق کا امارت کے منصب پر فائز ہونا، ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ اُن کا اس منصب پر فائز ہونا تحریک کا صحیح ہاتھوں سے صحیح ہاتھوں کی طرف منتقل ہونا ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے جانفشانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ امور کو اپنانے اور کچھ امور سے گریز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا اجتماعی فیصلوں میں برکت ہوتی ہے۔
تقریب کے آخر میں نومنتخب امیر جماعت محترم سراج الحق کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ انھوں نے اپنے پُرجوش، جامع اور نپے تلے خطاب میں  کہا
مجھے ارکانِ جماعت اسلامی پاکستان نے اپنا امیر مقرر کیا ہے حالانکہ میں آپ سب میں سے بہتر نہیں ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میر ی جان ہے میں سیدمنور حسن سے کسی بھی لحاظ سے بہتر نہیں ہوں۔ نہ میں عالم ہوں اور نہ تقویٰ و پرہیز گاری میں ان سے بر تر ہوں۔ جماعت اسلامی کی امارت کے لیے مجھ سے بہتر بہت سارے بزرگ موجود تھے مگر یہ پہاڑ جتنا بوجھ میرے کندھوں پر ارکانِ جماعت نے ڈال دیا اور میں نے نظامِ جماعت کی خاطر آج امارت کا حلف اٹھایا ہے ورنہ میرے اندر اتنی طاقت و صلاحیت نہیں کہ میں اس بارعظیم کا جواب اللہ تعالیٰ، ارکانِ جماعت اور پاکستان کے عوام کو دے سکوں۔ (من آنم کہ من دانم) خدا کے لیے مجھے نبی کریم کے معیار پر نہ پرکھیے گا کہ وہ شیطان سے محفوظ تھے اور اُن کی رہنمائی کے لیے وحی نازل ہوتی تھی۔ مجھے صحابہ کرام کے معیار پر بھی نہ رکھیے گا کہ وہ نبی مہربانؐ کے تربیت یافتہ تھے اور اللہ تعالیٰ ان سے راضی تھا، خدارا، مجھے اولیا ے کرام، صوفیاے کرام اور علماے حق کے معیار پر بھی نہ جانچیے گا کہ وہ علم اور تقویٰ کی معراج تھے۔ 

انہوں نے کہا میں بحیثیت امیر جماعت اسلامی، حلف اُٹھانے کے باوجود بھی قائد تحریک اسلامی سید ابو الاعلیٰ مودودی کے برابر ہر گز نہیں ہو سکتا۔ نہ میرا موازنہ عظیم درویش میاں طفیل محمدؒ سے ہو سکتا ہے اور نہ میں مجاہداسلام قاضی حسین احمد ؒ کی سیرت و بصیرت کا عشر عشیر ہوں۔ میں تو عاشق رسولؐ سیدمنور حسن کے پیروں کی خاک بھی نہیں جنھوں نے اپنے شاندار کیرےئر کو اللہ تعالیٰ کے نام پرقربان کر دیا۔ جنھوں نے پرُسکون زندگی پر جدو جہد کی زندگی کو ترجیح دی۔ جنھوں نے آج کے تاریک دور میں حق و صداقت کی مثال قائم کی، جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کی بالادستی کے لیے تن من دھن کی قربانی دی۔ 
سید منور حسن صاحب نے ایک ایسے وقت میں جماعت اسلامی کی قیادت کی جب یہ خطہ انتہائی مشکل دو ر سے گزر رہا تھا۔ میر ے ساتھیو! آپ نے مجھ پر بہت بڑا بوجھ اور ذمہ داری ڈال دی ہے، میں اس کو کس طرح اٹھاؤ ں گا؟۔۔۔ میرے لیے دعا کیجیے کہ میر ے اندر سید ابو الاعلیٰ مودودی جیسا وژن، میاں طفیل محمد جیسا اخلاص، قاضی حسین احمد جیسا تحرک اور سید منور حسن جیسا تقویٰ، جرأت اور قوت فیصلہ پیدا ہو۔ 
میرے بھائیو اور بہنو! ہماری دعوت کا محور و مرکز امیرجماعت نہیں ہے بلکہ جماعت اسلامی ہے جو اللہ کی دھرتی پر اللہ کا نظام قائم کرنا چاہتی ہے۔ سید ابولاعلیٰ مودودیؒ نے ملت اسلامیہ کو اللہ کی بندگی اور حضرت محمد کی پیروی اختیار کرنے کی طرف بُلایا۔ اپنی زندگی سے دورنگی اور منافقت کو خارج کرنے کی دعوت دی اور پاکستان کے عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ ملکی قیادت کے منصب سے نااہل اور خدا سے غافل لوگوں کو ہٹا کر اقتداردیانت دار اور صالح لوگو ں کے ہاتھ میں دے دیں تاکہ ایک فلاحی اسلامی معاشرے کی تشکیل ہو سکے۔ 
کارکنا ن جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی پاکستان محض ایک سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ ایک منظم اسلامی تحریک ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کی جڑیں ہیں۔ ہمار ا اصل ہدف اقامت دین یعنی دین اسلام کا نفاذ ہے۔ ہماری سیاسی جدو جہد کا مقصد محض اقتدار کا حصول نہیں ہے بلکہ سیاسی نظام او ر قیادت کی اصلاح ہے۔ عوام کو غربت، جہالت، ناخواندگی، عدم تحفظ، لاقانونیت، اقرباپروری، فساد، بیماری، بے اعتدالی اور کرپشن سے نجات دلانا ہے۔ جماعت اسلامی ملک کے اندر اسلامی معاشرے کی تشکیل اور ایک فلاحی اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے ہم انفرادی اور قومی سوچ کے اندر انقلاب بر پا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر قانونی طریقوں کے ذریعے ملکی قیادت کو تبدیل کرنے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ہم ایک پُرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے انقلاب چاہتے ہیں، آئین پاکستان کے دائرے میں اور عوام کی مرضی سے انقلاب لانا چاہتے ہیں کیونکہ پائیدار تبدیلی کے لیے قوم کے ذہن کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور آئین پاکستان ایک اسلامی آئین ہے جو اسلامی نظا م اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ 
سید ابوالاعلیٰ مودوی کی فکر کسی قسم کے تشدد، سازش اور خفیہ تحریک کے ذریعے سے انقلاب بر پا کرنے سے روکتی ہے۔ جماعت اسلامی پہلے دن سے اسی نظریے پر کاربند ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑیں نہیں پکڑ سکتا جب تک لوگوں کے خیالات اور رویے تبدیل نہ ہوں۔ مصنوعی نعروں سے انقلاب بر پا نہیں ہوتے بلکہ ہمیں حقیقی معیار قائم کر کے اُسے حاصل کرنے کی جدو جہد کرنا ہو گی۔ 
خواتین و حضرات!گذشتہ کئی دہائیوں سے ہمارے ملک کی پانچ فی صد اشرافیہ نے ملک کے 95% وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے اور وسائل کی بنیاد پر انھوں نے جمہوریت، سیاست اور عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہ لوگ پیسے کے بل بوتے پر عوام کے اصل نمایندوں کو پارلیمنٹ میں آنے نہیں دیتے۔ اسی ٹولے نے جمہوریت کی بساط لپیٹنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اسی استحصالی طبقے نے پی آئی اے، ریلویز، واپڈا اور سٹیل ملز اور دوسرے اداروں کو تباہ کیا۔ یہ ٹولہ تمام اداروں میں اپنا اثر و نفوذ رکھتا ہے۔ عوام کا اصل مقابلہ اسی اشرافیہ کے ساتھ ہے اور انھی کی وجہ سے پورا ملک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا مقروض ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ ہم جمہوری جدو جہد کے قائل ہیں لیکن یہاں انتخابی نظام میں بے شمار خرابیاں ہیں۔ ہم محنت کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پاتے۔ ہمارے ملک کی گورننس کی خرابی کی اصل جڑ یہ ناقص انتخابی نظام اور انتخابی مشینری ہے۔ اس نظام کو بہترین بنانے کا یہ کام ہم تنہا نہیں کر سکتے بلکہ اس کے لیے ہمیں دوسری سیاسی و دینی جماعتوں کی مدد بھی درکار ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے نظریاتی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی نظام کو سمجھنے اور اپنا پارلیمانی حجم بڑھانے کے لیے بھی مؤثر حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ 
ہمیں سیاسی کامیابیاں حاصل کرنے سے پہلے عوام کا دل جیتنا ہے۔ پاکستان کے عوام پر بہت ظلم ہوا اور ہورہا ہے۔ اُن کو اپنے عمل سے یہ یقین دلانا ہے کہ جماعت اسلامی ہی واحد جماعت ہے جو اس قوم کو پرامن اور ترقی یافتہ بنا سکتی ہے۔ جماعت اسلامی بے روزگار وں کو روزگار، بچوں کو تعلیم، غریبوں کے لیے علاج، بے گھرافراد کو سر چھپانے کی جگہ، عزت کی روٹی اور عزت کی زندگی فراہم کرسکتی ہے۔ ہم بلدیاتی اور صوبائی حکومتوں میں رہے ہیں جہاں جماعت اسلامی کے وزرا اور ارکان نے اپنی دیانت، امانت اور اہلیت کو ثابت کیا ہے، اگر چہ سیاسی کام کرتے ہوئے بھی ہمیں اپنے انفرادی معیار کو بھی قائم رکھنا ہے جس کی گواہی ہر کس و ناکس دیتا ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندر ہمیں دوسری جماعتوں اور ان کے کارکنان سے روابط بڑھانے ہیں کیونکہ اس سے سیاسی اور معاشرتی رواداری کو فروغ ملتا ہے۔ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں نے اس ملک میں جمہوریت کو قائم کرنے کے لیے اور آمریت کا راستہ روکنے کے لیے ایک طویل جدو جہد کی ہے۔ تمام سیاسی اور دینی جماعتیں اس ملک سے کرپشن، ظلم، بیڈ گورننس، آمریت، لاقانونیت، بدامنی اور جہالت ختم کرنا چاہتی ہیں۔ ہم اُن سب کی دل کی گہرائیوں سے قدر کرتے ہیں۔ یہ وہ مشترکات ہیں جن پر سب سیاسی قوتوں کو ایک چارٹر پر دستخط کرنا چاہییں۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے تعاون سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر قومی ایشوز پر مشترکہ کانفرنس کر کے یکسوئی، یکسانیت اور مشترکہ موقف اختیار کرنا چاہیے تاکہ سیاسی نظام مضبوط ہو اور آمریت مستقبل میں اپنا رستہ نہ بنا سکے۔ 
محتر م امیر جماعت فرما رہے تھے کہ جماعت اسلامی پاکستان، جمہوریت کے فروغ اور عدلیہ کی بحالی کے لیے وکلا کی جدوجہد کی ہم رکاب تھی، ایک عادلانہ نظام انصاف ہی قانون کی بالادستی کا ضامن ہے۔ اس ملک کے مزدور ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ہماری حکومتی مشینری اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ ہماری فوج، پولیس اور دوسرے ادارے عوام کو محفوظ زندگی دینے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے ڈاکٹرز اور انجینئرز دنیا میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ ہمارے اساتذہ اور پروفیسروں نے تعلیمی معیار کو پہلے سے بہتر بنایا ہے، ہمارے ملک کے صنعت کار وں نے روزگار کی فراہمی اور کوالٹی پراڈکٹس تیار کر کے معیشت کی بہتری کے لیے کام کیا ہے۔ ہمارے کسانوں نے کم منافع کے باوجود محنت اور مشقت کا راستہ ترک نہیں کیا۔ ہمارے طلبہ کم سہولیات کے باوجود تعلیمی میدان میں کارہاے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں نے اپنا ٹیلنٹ اور صلاحیت ثابت کر دی ہے۔ ہم اوورسیز پاکستانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو دیا رِغیر میں محنت اور مشقت کر کے اپنی کمائی کے ذریعے وطن عزیز کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر ہماری خواتین کا معاشرہ کی تشکیل اور ترقی میں رول نمایاں ہو گیا ہے۔ جماعت اسلامی کا حلقہ خواتین، پاکستان کی خواتین کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواتین کی شرکت کے بغیر اسلامی انقلاب بر پا نہیں ہو سکتا اور نہ ملک کی ترقی کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمیں اس ملک کے سافٹ امیج کے لیے ہر طبقے میں خو د اعتمادی پیدا کرنی ہے۔ 
انہوں نے میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے میڈیا کا سیاسی و سماجی شعور کی بیداری میں زبردست کردار رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے صحافیوں نے جمہوری رویوں کے فروغ کے لیے قربانیاں دیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے بھی معاشرتی اور سیاسی خرابیوں اور منافقتوں کو بھر پور انداز سے ایکسپوز کیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ اب خود اینکر ز اور میڈیا کے بڑے لوگوں نے خوداحتسابی کاعمل شروع کر دیا ہے جس کے ذریعے عُریانی اور فحاشی کی بیخ کنی ہو سکے گی۔ تاہم ہماری خواہش ہے کہ وہ ہمارے خاندانی نظام، معاشرتی ڈھانچے اور سیاسی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے انصاف کا ایک ایسا نظام وضع کریں جو اس ملک کی نظریاتی اساس کے استحکام کا باعث بنے۔ مجھے امید ہے کہ میڈیا سیاسی جماعتوں کی سیاسی سرگرمیوں کی کوریج میں بھی انصاف سے کام لے گا۔ 
 اس وقت ہمارا ملک بدامنی کا شکار ہے۔ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات سے قوم کو بہترین توقعات ہیں۔ جماعت اسلامی ایک پر امن پاکستان کے لیے اس وقت ایک تاریخ ساز کردار ادا کر رہی ہے۔ پوری قوم ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعا گو ہے۔ میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور امن کو یقینی بنائے۔ ان شاء اللہ مذاکرات کی کامیابی کے بعد اس خطے میں ایک زبردست اور مثبت تبدیلی آئے گی۔ 
فاٹاپاکستان کا حصہ اور اس کے قبائل ہمارے ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے اصل محافظ ہیں۔ فاٹا میں آپریشن کے ذریعے جو تباہ کاری ہوئی اور IDP,sکا جو مسئلہ پیدا ہوا اُس کو ترجیحاً حل کرنا ہوگااور شورش زدہ علاقوں کی دوبارہ آباد کاری اور بحالی کا کام بھی کرنا ہوگا۔ جنگ کے نتیجے میں جو 50ہزار شہادتیں ہوئیں، اُن کے خاندانوں کی کفالت کا بندوبست ہونا چاہیے۔ 
بلوچستان کا صوبہ ایک عرصے سے سُلگ رہا ہے۔ ہمیں بلوچستان کے عوام کے احساس کو سمجھنا ہو گا اور ماضی کی تمام تر ناانصافیوں کا ازالہ کرنا ہوگا اور ہر قیمت پر اُنھیں راضی کرنا ہوگااور ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا ہو گا۔ میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ کراچی کے حالات کو پُرامن اور محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ 
گذشتہ انتخابات کے دوران جماعت اسلامی نے بھر پور اور مکمل یکسوئی کے ساتھ اپنے جھنڈے اور ترازوکے انتخابی نشان کے تحت انتخابی مہم چلائی مگر ہمیں عوام میں پذیرائی حاصل نہیں ہوئی لیکن ہم آیندہ الیکشن میں حصہ لے کر بھر پور کامیابی حاصل کریں گے۔ ان شاء اللہ!
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے 
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے 
انہوں نے جماعت اسلامی کی خارجہ پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کی خواہاں ہے۔ عظیم چین ہمارا مخلص دوست ہے۔ افغانستان اور ایران ہمارے برادر ہمسایہ اسلامی ممالک ہیں۔ ہمیں غلط فہمیوں کا ازالہ اور اعتمادسازی کرنا چاہیے۔ ہم ہندستان سے بھی اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں مگراُن سے چاہتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں حل کریں اور وہاں ظلم و جبر اور قتل عام بند کرے۔ میں مغرب سے بھی کہنا چاہوں گا کہ وہ مسلمانوں کے حوالے سے مثبت رویہ اختیار کرے تو صرف اسی صورت میں بقائے باہمی کے اصول کے تحت تعلقات کا دائرہ کار طے ہو سکتا ہے۔ 
ہم سعودی عرب اور خادم الحرمین شریفین کا بے حد احترام کرتے ہیں اور ہم اُن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ امت کی یک جہتی کے لیے اخوان المسلمون، حماس اور دوسری اسلامی تنظیموں کو اپنی قوت سمجھیں اور اُن کے حوالے سے پالیسی پر نظر ثانی کریں۔ ہم مصر میں منتخب جمہوری حکومت کی برطرفی اور اخوان المسلمین کے کارکنان کے قتل عام کی مذمت کرتے ہیں اور صدر محمد مرسی کی بحالی اور گرفتار کارکنان کی جلد رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کہا کہ ہم اِس موقع پر کشمیر کے مظلوموں کو نہیں بھول سکتے جو تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کے لیے لڑ رہے، کٹ رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔ ان شاء اللہ ایک دن ضرور آئے گا جب کشمیر پاکستان کا حصہ ہو گا۔ ہم بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے عدالتی قتل اور شیخ حسینہ کے ظالمانہ اقدامات کی پر زور مذمت کرتے ہیں جو وہ محبان پاکستان کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے۔ ہم بر ما اور دوسرے ممالک میں مسلمانوں کے قتل عام کی بھی مذمت کرتے ہیں اور اقوام متحدہ اور او آئی سی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔ 
کارکنا ن جماعت کو دوبارہ مخاطب کرکے کہا کہ جماعت اسلامی کے کارکنان پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ میری رہنمائی کریں۔ اگر میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کریں اور اگر میں بھٹک جاؤں تو وہ مجھے واپس صراطِ مستقیم پر ڈال دیں۔ میں کارکنان کو ہدایت دیتا ہو کہ وہ اپنی انفرادی زندگی کو شریعت کے مطابق ڈھال دیں۔ اللہ سے تعلق، قرآن سے تعلق، نبی کریم سے عشق و محبت، مسجد سے تعلق، اللہ کے ذکر اور حضور پر درود و سلام ہی ہمارے وہ ہتھیار ہیں جو ہمیں شیطان کے شر سے محفوظ رکھتے ہیں اور ہمارے دلوں کو سرور اور سکون دے سکتے ہیں۔
آخر میں، میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو قوم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد چھوڑ دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے اس لیے میں آپ سے وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہو جائیں جو ظالموں کے خلاف،کرپشن کے خلاف، لاقانونیت کے خلاف، لوڈشیڈنگ کے خلاف اور استحصالی قوتوں کے خلاف ہے جو انسانوں پر اپنی خدائی مسلط کرنا چاہتی ہیں۔ 
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغام سجود 
پھر جبین خا کِ حرم سے آشنا ہو جائے گی 
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے 
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

تقریب حلف برداری کی جھلکیاں:

  • تقریب کا باقاعدہ آغاز 5:30 پر قاری وقار احمد نے تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا۔ 
  • محترم لیاقت بلوچ نے حلف برداری تقریب کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔
  • برادر محترم سراج الحق کا امیر جماعت منتخب ہونا ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے:سیدمنورحسن۔
  • سید منور حسن کی تقریر خوب صورت الفاظ سے مرصع، جذباتی اور دل موہ لینے والی تھی۔
  • نو منتخب امیر جماعت ’سراج الحق‘ نے جامع مسجد منصورہ میں نمازِ عصر ادا کی اور سیدمنور حسن کے ہمراہ پنڈال میں تشریف لائے۔
  • تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد اپنے ذاتی جذبے سے شریک ہوئی۔ پنڈال اور جامع مسجد منصورہ میں گنجائش کم پڑ گئی۔
  • عبدالحفیظ احمد ناظم انتخاب نے دستور جماعت کی روشنی میں امیر جماعت کے انتخاب کے نتائج کا اعلان کیا۔ 
  • سراج الحق حلف لینے آئے تو کارکنان نے کھڑے ہو کر جذباتی نعروں کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔دورانِ حلف ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ جبکہ شرکا کی آنکھیں بھی نمناک تھیں۔
  •  جماعت اسلامی کراچی کے۔ www.raah.tv نے اس تقریب کو براہِ راست دکھانے کا اہتمام کیا۔
  • نائب امرائے جماعت: چودھری محمد اسلم سلیمی، ڈاکٹر محمد کمال، نائب قیمین: ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، حافظ ساجد انور، سید وقاص جعفری، نظام الدین میمن تشریف فرما تھے۔
  •  امرائے صوبہ ڈاکٹر سید وسیم اختر (پنجاب)، پروفیسر محمد ابراہیم(خیبر پختونخوا)، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی(سندھ)، عبدالمتین اخونزادہ (بلوچستان) بھی سٹیج پر موجود تھے، جبکہ دیگر ذمہ داران میں عبدالغفار عزیز، محمد انور نیازی، رشیداحمد چودھری، میاں محمد اسلم، امیر العظیم، اظہر اقبال حسن، میاں مقصود احمد، نذیر احمد جنجوعہ، عزیر لطیف، حافظ نعیم الرحمن، عبدالحفیظ احمد، راؤ ظفر اقبال، شیخ عثمان فاروق، زبیر فاروق خان، ہارون الرشید، ڈاکٹر اقبال خلیل، سید احسان اللہ خان وقاص، راشد نسیم، مولانا محمد اسماعیل، شبیراحمد خان، زرنور آفریدی۔ہارون الرشید، شاہراز خان بھی موجود تھے۔
  • مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر جماعت کے وفد میں جناب عبدالرشید ترابی، مولانا غلام نبی نوشہری (نائب امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر)،غلام محمد صفی(تحریک حریت کشمیر)، محمد غالب (صدر تحریک حریت کشمیر یورپ)، جہانگیر خان (نائب امیر جماعت آزاد کشمیر)، مشتاق احمد خان اور نثار شاہق شامل تھے۔
  • اسلامی جمعیت طلبہ کے سیکڑوں کارکنان اپنے ناظم اعلیٰ زبیر حفیظ اور معتمد عام سیدمدثرشاہ، عبدالمقیت (ناظم جامعہ پنجاب)، سید مستقیم معین (ناظم لاہور) کے ہمراہ شریک تھے۔
  • صوبہ خیبر پختونخوا سے سپیکر اسمبلی اسد قیصر کی قیادت میں صوبائی وزرا کے ایک بڑے وفد نے شرکت کی۔ وفد میں جناب اسد قیصر سپیکر خیبر پختونخوا ۔ جناب شاہ فرمان وزیراطلاعات۔ عنایت اللہ خان وزیر بلدیات۔ جناب عاطف وزیر تعلیم، جناب شہرام ترکئ سینئر منسٹر۔ جناب شوکت یوسف زئی۔ جناب حبیب الرحمن وزیر مذہبی امور ۔ جناب ملک بہرام خان ایم این اے۔ جناب سید گل صاحب ایم پی اے شامل تھے۔
  • این ایل ایف کے صدر شمس الرحمن سواتی، سابق صدر محمد رفیق خان، عبدالوہاب نیازی، تنظیم اساتذہ پاکستان کے صدر ڈاکٹر پروفیسر میاں محمد اکرم، خالد بخاری صدر تحریک محنت، ڈاکٹر عبدالرزاق سابق سیکرٹری جنرل HMA پاکستان، محمود بشیر، منتظم جمعیت طلبہ عربیہ بھی موجود تھے۔
  • فضا بار بار نعرہ ہائے تکبیر، انقلاب انقلاب اسلامی انقلاب، پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ سے گونج رہی تھی۔
  • سینئر صحافی اور کالم نگار مجیب الرحمن شامی، الطاف حسن قریشی، سجاد میر، عطاء الرحمن، نصراللہ ملک، میاں اشفاق انجم، نصیر سلیمی،خادم حسین، کنور محمد صدیق، رفیق قریشی بھی شریک تھے۔
  •  پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے، جنھوں نے پروگرام براہِ راست دکھایا۔ 
  • قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ خان و دیگر ممبرانِ اسمبلی صاحبزادہ یعقوب علی خان، شیر اکبر خان ایڈووکیٹ بھی شریک تھے۔
  • خواتین کے لیے منصورہ آڈیٹوریم میں ایک بڑی ملٹی میڈیا سکرین کے ذریعے حلف برداری تقریب دکھانے کا اہتمام تھا، جس میں خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
  • مرکزی دفاتر کے سامنے والے سبزہ زار میں شرکا کے بیٹھنے کے لیے کرسیوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سبزہ زار کے اردگرد درختوں پر جماعت کے جھنڈے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ سٹیج پر تقریب حلف برداری کا بڑا فلیکس آویزاں کیا گیا تھا۔ ڈائس کے ایک جانب جماعت جبکہ دوسری جانب پاکستان کا جھنڈا لگایا گیا تھا۔
  • منصورہ مرکز کے محافظ، شجاع الدین نعمانی کی قیادت میں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دیے گئے۔
  •  سٹیج کے دائیں جانب صحافیوں، کالم نگاروں اور رپورٹرز کے بیٹھنے کا اہتمام تھا۔ جبکہ بائیں جانب معزز ین شہر، سیاسی و سماجی شخصیات کے بیٹھنے کا اہتمام تھا۔
  • شیخ القران و الحدیث مولانا عبد المالک نے نہایت خوبصورت اور جامع دعا سے پروگرام کا اختتام کیا۔

13 comments:

Anonymous said... Sunday, April 20, 2014

اچھوتی اور منفرد روداد ہےتقریبا تمام پہلو اچھے اانداز میںمرتب ھو کر سامنے آۓ

Bohat Khoob Imran zahoor bhi, bohaat acha ankhooh deekha haall

بہت خوب بہترین رودادلکھی آپ نے

Buhat khub hy , likan agr kuch din pehley upload hota tu ziyada theak tha.........


ماشاء اللہ مکمل روداد

سلام بھائی اتنا لمبا بلاگ لکھیں گے تو پڑھے گا کون؟؟؟؟ تھوڑا سا اختصار سے کام لیا کریں جی

بہت خوب غازی صاحب
حمیداللہ خٹک

excellent
By
Hafiz junaid ur Rehman

This is a well narrated description of an important event. I think the following lines written for newly selected Ameer-e-Jamat lead all of us to the road to success both in this life and Hereafter
، رب سے مضبوط تعلق اور حضور سے والہانہ محبت و عشق ان کا سرمایہ ہے اور یہی وہ توشہ ہے جو کامیابی کی ضمانت بنتا ہے۔

Post a Comment