Monday 7 April 2014

اردو ہے جس کا نام

| |
زندہ قوموں کی پہچان ان کی تہذیب و ثقافت کے ذریعے ہوتی ہے اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت میں قومی زبان کا کردار مسلم ہے۔گویا جو قومیں اپنی زبان کے معاملے میں سنجیدہ رویہ اختیار کرتی ہیں، وہی اپنی شناخت قائم رکھ پاتی ہیں۔ زبان زندہ قوموں کی تاریخ کی وارث و امین بھی ہوتی ہے اور ان کے مستقبل کی ضامن بھی۔

                اردو ہماری قومی زبان ہے اور یہ جہاں ہماری تہذیب و ثقافت اور شاندار روایات کی امین ہے وہیں ہماری شناخت بھی۔ بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان میں اردو کو وہ مقام نہ مل سکا جس کی وہ حق دار تھی ۔ارباب اختیار نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات اور غلامانہ ذہنیت کے باعث اردو کو وہ مقام حاصل نہ ہونے دیا جو اسے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور آئین پاکستان دینا چاہتے تھے ۔1973,1962,1956کے دساتیر میں دی گئی ضمانت ”کہ اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان بنایا جائے گا۔“توجہ طلب ہے۔اردو کہنے کی حد تک تو ہماری قومی زبان ہے لیکن تمام کار سرکار انگریزی میں انجام پاتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک، خواہ کتنا ہی ترقی یافتہ ہو، اپنی قومی زبان کے ساتھ وہ سلوک روا نہیں رکھتا جو ہم نے رکھا ہوا ہے۔ چین و جاپان ہوں یا جرمنی و فرانس ان سب کی ترقی اور اپنی قومی زبان سے وابستگی ہمارے سامنے ہے۔جنہوں نے مروجہ علوم کو اپنی زبانوں میں منتقل کیا اور ترقی کی منازل طے کیں۔یونیسکو کے مطابق اردو اس وقت دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔

اگرہندوستان میں بولی جانے والی عام لوگوں کی زبان کو بھی شامل کر لیا جائے تو بلاشبہ یہ دنیا کے اندر بولی جانے والی دوسری بڑی زبان ہے ۔دنیا کے کئی ممالک اردو میں اپنی نشریات پیش کرتے ہیں،اور کئی بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں تدریس و تحقیق کے شعبہ جات کام کر رہے ہیں ۔انگریزی سیکھنے کی مخالفت نہیں ہو سکتی اورنہ ہونی چاہیے ۔یہ بین الاقوامی رابطے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن اسے اعصاب پر سوار کر لینا اور کاروبار مملکت کے لئے اسے ناگزیر گرداننا انصاف نہیں ہے۔ اردو میں نہ صرف دفتر ی کاروبار کو بحسن و خوبی چلانے کی بھر پور استعداد و صلاحیت موجود ہے بلکہ طلبہ و طالبات کے لئے اردو سے بہتر ذریعہ تعلیم کوئی نہیں ہو سکتا۔

                نام نہاد تعلیم دوست پنجاب حکومت نے جس مضحکہ خیز انداز میں سکولوں کو انگریزی میڈیم بنانے کی کوشش کی ہے، اس سے بچا کھچا سرکاری تعلیمی نظام بھی تباہی کے دہانے پہنچ گیا ہے۔ ذہنی غلامی میں مبتلا ارباب اقتدار کی طرف سے ناپختہ ذہنوں کو ایسی مشکل میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ بچے جو ابھی ثقافت ،روایات اور اسلاف سے متعارف ہونے کے مرحلے میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں ان کے معصوم ذہنوں کو بھی انگریزی زبان کو لازمی قرار دے کر نہ صرف غلامی کے ذلت آمیز راستے پر ڈال دیا گیا ہے بلکہ ان سے ان کی شناخت بھی چھیننے کی کوشش کی گئی ہے۔محض سکولوں میں ابتدائی جماعتوں سے انگریزی لازمی کر دینے سے تو بچے فرفر انگریزی نہیں بول سکتے جبکہ ہماری روایات ،ہمارا ماحول اور ہماری شناخت اردو زبان ہے جو کسی بھی بدیسی زبان سے زیادہ شیرینی اور چاشنی اپنے اندر رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس نہ تو اس سطح پر انگریزی کے اساتذہ ہی موجود ہیں اور نہ ان کی تربیت کا کوئی موثر انتظام۔یہ سب اقدامات کسے راضی کرنے کے لئے اور کیوں کیے جا رہے ہیں اور ان اقدامات سے اب تک کیا خیر برآمد ہوئی ہے۔ ’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘۔

                ضرورت ہے کہ ہم اپنے دائرئہ کار میں جس حد تک بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اردو کو اس کا حقیقی مقام دلانے کی سعی و جہد کریں اور اسی حوالے سے آپ سے یہ گزارش ہے کہ آپ کسی بھی شعبے یا طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اردو کی حفاظت ، فروغ اور علمی و ادبی سرمایہ کی آئندہ نسلوں تک منتقلی میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں ۔ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک کے مقتدر طبقوں کو بھی اس جانب متوجہ کریں اور سیاسی جماعتوں کو بھی کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار نبھائیں ۔سیاسی جماعتیں اپنے منشور کو اردو کے تحفظ اور فروغ کو جگہ دیں اور حکومت اردو کی سرپرستی کے لئے قائم اداروں کو فعال بنائے۔

4 comments:

کمال کر دیا غازی صاحب آپ نے۔ یو بھولے بسرے قومی زبان کے مسئلے ایک بار پھر نمایاں کردیا۔ آپ نے درست فرمایا کہ نام نہاد تعلیم دوست پنجاب حکومت نے جس مضحکہ خیز انداز میں سکولوں کو انگریزی میڈیم بنانے کی کوشش کی ہے، اس سے بچا کھچا سرکاری تعلیمی نظام بھی تباہی کے دہانے پہنچ گیا ہے۔ ویسے یہ تو ہو گا ہی۔ اگر ہماری تعلیم کی نوک پلک گورے سنواریں گے تو یہ تو ہو گا ہی۔

Hamari Qumi Zuban Hay laiken is k Sath Hakomaton ka Ravia sotaila Raha jis ki waja say yah Sarkari Zuban na Ban saki.Nadeem Rana

Urdu Hay Jis Ka Naam Hami Jantay Hain Daagh
Saaray Jahaan Main Dhoom Hamari Zubaan ki Hay

Assalam o Alaikum wa Rahmatullah wa barakatoho,
Muhtram Shaikh! sb I am student of islamic studies in Srgodha University.The topic of my thesis for Phd is" Uloom ul Quran wa Tafseer ul Quran pr ghair matboa urdu mwad" plez guide and send me the relavent material.I will pray that Allah Taala succeed you in this world and the world after,forgive all your mistakes.
yours sincerely,
Rafiuddin
Basti dewan wali st. Zafar bloch old Chiniot road Jhang saddar
03336750546 - 03016998303 Email address drfi@ymail.com

Post a Comment