Tuesday 2 July 2013

جماعت اسلامی نے اپنا نصب العین کبھی فراموش نہیں کیا

| |
 سابق قیم اور نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم چوہدری رحمت الٰہی سے ایک خصوصی گفتگو جوکئی اعتبار سے اہم اور آج کے کارکن کے لیے اپنے ماضی پر بجا طور پر فخر کرنے کی راہیں کھولتی اور اسے اعتماد دیتی ہے۔ یہ تحریر ہفت روزہ ایشیاء میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

ایشیا: جماعت اسلامی میں کیسے آئے؟
چوہدری رحمت الٰہی: 1944ء کی بات ہے، میں انگریز کی فوج میں ملازم تھا، چھٹی پر گھر آیا تو میرے بڑے بھائی چوہدری کرم الٰہی اور بعض قریبی عزیز پہلے سے جماعت اسلامی سے منسلک تھے، انہوں نے مجھے جماعت کے لٹریچر کی کچھ کتب پڑھنے کو دیں، وہ پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا، اور اس کے بعد میں نے کچھ مزید کتابیں منگوائیں اور جماعت کا پرچہ سہ روزہ کوثر بھی اپنے نام جاری کروایا۔ میری تعیناتی اس وقت سیالکوٹ میں تھی، جماعت سے قریب ہونے کے بعد خاموشی سے وہاں جماعت کے مقامی ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے لگا۔ اس وقت قاضی حمید اللہ جماعت اسلامی سیالکوٹ کے امیر تھے اور میں سائیکل پر چھاؤنی سے اجتماع میں شرکت کے لیے آتا تھا۔
اُس زمانے میں مولانا مودودیؒ اپنے گردے کے آپریشن کے بعد آرام کی غرض سے سیالکوٹ کی نواحی بستی مراد پور میں (چوہدری محمد اکبر) کے ہاں ٹھہرے۔ ان کے اس قیام کے دوران ہی ایک اجتماع میں شریک ہوا اور میں نے پہلی مرتبہ مولانا محترم کو دیکھا۔ مولانا کی وہ تقریر (شہادت حق) بہت اثر انگیز تھی، اس کے بعد جماعت سے میرا تعلق بڑھتا گیا۔
ایشیا: آپ جماعت اسلامی میں ہی کیوں آئے؟
چوہدری رحمت الٰہی: جماعت کی دعوت خالص، اسلام کی دعوت ہے، کوئی بھی صاحب ایمان شخص سننے اور پڑھنے کے بعد متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دوسری جماعتیں دنیاوی جماعتیں ہیں، جماعت تو عین دینی تحریک ہے۔
ایشیا: آپ کی انگریزی اور عربی بہت اچھی ہے اور ڈرافٹنگ بھی؟
چوہدری رحمت الٰہی: عربی پڑھ لیتا ہوں، انگریزی لکھتا بولتا بھی ہوں۔ مولانا مودودیؒ کے ساتھ رہنے کا اثر ہوا گفتگو میں بھی اور ان کی تحریریں بھی پڑھتا رہا۔
ایشیا: جماعت میں ہمہ وقتی کارکن کا کیا تصور تھا؟ اس بارے میں کچھ بتایئے؟
چوہدری رحمت الٰہی: جب سے جماعت سے متاثر ہوا تو کسی دوسری طرف دلچسپی نہیں ہوئی اور نہ کوئی اور راستہ اختیار کرنے کا سوچا۔ معاش کے سلسلے میں ملازمت کی تھی جبکہ جماعت کا کام یکسوئی مانگتا ہے بالخصوص اس زمانے میں، یکسوئی اس وقت تک میسر نہیں ہو سکتی کہ فکر معاش سے آزاد ہوں۔ اس زمانے میں بہت سارے لوگوں نے قربانی دی اور دنیاوی مشاغل چھوڑ کر صرف کفالت پر یکسو ہو کر جماعت کے کام میں لگ گئے۔ ہمہ وقت کارکن جماعت کے مسائل پر ہی سوچتے اور جماعت کو آگے بڑھانے پر غور کرتے تھے۔ اب تو شاید اس کا ادراک اور احساس کم ہو گیا ہے ۔
ایشیا: جماعت اسلامی پر پابندی کے دوران آپ کے ذمہ کیا فرائض تھے؟
چوہدری رحمت الٰہی: پابندی 64ء میں لگی جب ایوب خان کا دور تھا میں ایک ہفتہ قبل ہی مرکز پہنچا تھا۔ پوری مجلس شوریٰ اور محترم امیر جماعت (مولانا مودودیؒ ) گرفتار کر لئے گئے تھے۔ اس لیے مرکز میں باقی رہ جانے والوں میں صرف میں ہی ایسا فرد تھا جو اس سے پہلے جماعت کی کسی اہم ذمہ داری پر کام کر چکا تھا۔ لہٰذا قدرتی طور پر سارے معاملات کو دیکھنے کی ذمہ داری مجھ پر آ گئی اور میں نے اپنی صلاحیت کے مطابق اسے ادا کرنے کی کوشش کی۔ یہ پابندی صرف جماعت پر لگی تھی۔ 1956ء میں مارشل لاء لگنے پر سب جماعتیں ختم ہوگئی تھیں۔
ایشیا: مطالبہ نفاذِ دستور اسلامی کی مہم کیا تھی اور اس میں آپ کا کیا کردار تھا؟
چوہدری رحمت الٰہی: پاکستان بن جانے کے بعد ریاست پاکستان کو کسی غلط رُخ پر جانے سے بچانے کے لیے مولانا مودودیؒ نے یہ طے کیا کہ پاکستان میں جو آئین بنے وہ اسلام کے اصولوں اور تعلیمات کے مطابق ہو، اس مقصد کے لیے سب سے پہلے مولانا مرحوم و مغفور نے ایک ایسی قرارداد، دستور ساز اسمبلی سے منظور کرانے کا مطالبہ کیا، جس میں واضح طور پر ریاست کے اسلامی کردار کا تعین کر دیا جائے، اس قرارداد کے لیے 4 نکاتی مطالبہ تیار ہوا اور اس کی تشہیر کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں مطالبہ نظامِ اسلامی کی مہم شروع کر دی گئی جو بالآخر قراردادِ مقاصد کی منظوری پر منتج ہوئی، میں اس وقت جماعت کا ایک عام کارکن تھا، اور اس میں میرا کوئی امتیازی کردار نہیں تھا میں بھی جماعت کے اس مطالبے کے لیے کام کرتا رہا۔
قرارداد کا مسودہ مولانا کو ملتان جیل میں دکھایا گیا اور مولانا مودودیؒ کے اظہار اتفاق کے بعد اُسے اسمبلی میں پیش کیا گیا۔
ایشیا: 32 علمائے کرام کے 22 نکات کا پس منظر کیا تھا اور اس کے اثرات کیا مرتب ہوئے؟
چوہدری رحمت الٰہی: مطالبہ نظامِ اسلامی کی مہم کے دوران حکومتی اور بعض سیکولر حلقوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ اسلام کے ماننے والے تو کئی فرقوں میں تقسیم ہیں تو کون سا اسلام نافذ کیا جائے گا۔ یہ گویا اسلامی نظام کے مخالفین کا سب سے بڑا حربہ تھا، لہٰذا اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کے سیاسی نظام کے بارے میں ایک متفقہ موقف پیش کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے 32 علماء کا ایک اجتماع کراچی میں منعقد ہوا جس میں اسلامی دستور کے سلسلے میں 22 متفقہ نکات منظور کیے گئے، اس کام میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کا کلیدی کردار رہا اور یہ 22 نکات سامنے آ جانے کے بعد مخالفین کے اس حربے کا زور ٹوٹ گیا۔
ایشیا: 1956ء کا دستور کیسے منظور ہوا؟ کیا جماعت اسلامی نے اسے منظور کیا؟
چوہدری رحمت الٰہی: قرادادِ مقاصد 1949ء میں منظور ہوئی تھی، توقع کی تھی کہ اس کے جلد ہی بعد دستور سازی کا کام شروع ہو جائے گا اور پاکستان کا دستور اس قراداد کی روشنی میں مرتب کر لیا جائے گا لیکن قرادادِ مقاصد منظور ہونے کے بعد اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے طویل خاموشی سامنے آئی اور اس دوران حکومت کی طرف سے جو دستور کا مسودہ سامنے آیا وہ سراسر غیر اسلامی خطوط پر بنایا گیا تھا۔ اس مسودے کو جماعت نے مسترد کر دیا اور اس میں اصلاح کے لیے متعدد تجاویز پیش کیں اور اسلامی دستور بنانے کے سلسلے میں پہلے سے جاری مہم کو مزید تیز کر دیا۔ جماعت کی اس ’’مہم‘‘ کے نتیجے میں 1954ء میں ایک دوسرا مسودہ سامنے لایا گیا جو پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر تھا، اس کے مطابق دستور سازی کا کام تقریباً مکمل ہو چکا تھا کہ گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی۔ اسمبلی ٹوٹنے کے بعد ملک پر ایک سناٹا چھا گیا۔ مولانا مودودیؒ کی ہدایت پر قیم جماعت میاں طفیل محمد کراچی گئے اور وہاں کے احباب کو ساتھ لے کر مولوی تمیزالدین خان کو غلام محمد کے اس اقدام کو چیلنج کرنے کے لیے تیار کیا اور اس طرح دستور ساز اسمبلی توڑنے کا یہ اقدام عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ اس سلسلے کے بارے میں اخراجات بھی جماعت نے برداشت کیے، ویسے تو یہ اقدام سراسر غیر جمہوری اور غیر آئینی تھا اور عوام میں اس کے خلاف شدید ناراضگی پائی جاتی تھی، لیکن اس وقت کی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے اس حکم کو کالعدم قرار دینے کی بجائے نئی دستور ساز اسمبلی بنانے کا فیصلہ کیا اور اس کا انتخاب بھی براہِ راست انتخاب کی بجائے ریاستی اسمبلیوں کے ذریعے بالواسطہ انتخابات کے ذریعے عمل میں لایا گیا (یعنی MPAS نے ووٹ ڈالا) اس کے بعد جماعت اسلامی نے اسلامی دستور کی مہم کا سلسلہ آگے بڑھایا اور ملک میں جلسے جلوسوں کے علاوہ دستور ساز اسمبلی کے نئے ممبران سے فرداً فرداً رابطہ کر کے انہیں دستور اسلامی خطوط پر بنانے کے لیے ہموار کیا۔ اس طرح بالآخر مارچ 1956ء میں جبکہ چوہدری محمد علی وزیراعظم تھے پاکستان کا آئین منظور ہوا اس آئین میں دیگر امور کے علاوہ قرادادِ مقاصد بطور دیباچے کے شامل تھی اور اس بات کا واضح طور پر اعلان تھا کہ ملک میں کوئی ایسا قانون نہیں بن سکے گا جو قرآن و سنت سے متصادم ہو اور موجودہ قوانین کی اسلام کی روشنی میں اصلاح کی جائے گی۔ یہ دستور 56ء اگرچہ پوری طرح جماعت اسلامی کے نظریے کے مطابق نہیں بنا، تاہم وہ کم از کم باتیں منظور کر لی گئیں جن کا اسلام تقاضا کرتا تھا۔ اس لیے جماعت اسلامی نے بھی اس دستور کو منظور کیا اور پورے ملک میں جشن منایا گیا۔ اس کا نفاذ 23 مارچ 1956ء کو ہوا۔ (اس لیے 23 مارچ کو یومِ پاکستان کہا جاتا ہے) 
1965ء کا دستور نافذ ہونے کے بعد مرکزی اسمبلی کے انتخابات کااعلان کیا گیا جو گزشتہ تقریباً 11 سال سے (47ء سے 58ء تک) زیر التوا چلے آ رہے تھے۔ اس سے تھوڑا عرصہ پہلے کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جس میں جماعت اسلامی نے حصہ لیا اور اس کے ایک کے سوا سب امیدوار کامیاب ہو گئے۔ ان انتخابات کے نتائج دیکھ کر اسلام مخالف بیرونی اور اندرونی قوتوں میں خطرے کی گھنٹی بج گئی اور انہیں یہ احساس ہوا کہ اگر اس تبدیلی کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی تو تھوڑے ہی عرصے میں یہاں اسلام پسند قوتیں غالب آ جائیں گی۔ اس کے بعد 1956ء کے دستور کی منظوری نے اس احساس کو اور قوت بخشی اور سکندر مرزا (جو اس وقت صدرِ پاکستان تھے) انہوں نے جنرل ایوب خان چیف کمانڈر افواجِ پاکستان کے ساتھ مل کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی اور نئے ہونے والے انتخابات انتخابی مہم کے دوران ہی ختم کر کے مارشل لاء نافذ کر دیا اور تمام اسمبلیاں برخواست کر دیں، تمام سیاسی جماعتوں پا پابندی لگا دی اور جماعت کے تمام دفاتر سربمہر کر دیے گئے اور جماعت کے زیراہتمام چلنے والے خدمت خلق کے ادارے بھی بند کر دیے گئے۔ جماعت کے تمام اہم افراد اور ذمہ داران پر خفیہ اداروں کی نگرانی سخت کر دی گئی، لیکن جماعت اسلامی نے اپنی دعوتی و تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
ایشیا: مولانا مودودیؒ کو پھانسی کی سزا کیوں سنائی گئی؟
چوہدری رحمت الٰہی: 1953ء میں جب پنجاب میں قادیانیوں کے خلاف تحریک چل رہی تھی تو مولانا مودودیؒ نے قادیانی مسئلہ کے نام سے ایک کتابچہ شائع کیا جس میں قادیانی مسئلہ کی حقیقت بیان کی گئی اور مسئلہ کے مضمرات سے قوم کو آگاہ کیا اس کتابچے نے پوری قوم اور بالخصوص جدید تعلیم یافتہ طبقے کو قادیانیوں کی سازش سے پوری طرح آگاہ کیا اور وہ لوگ بھی جو اس کو محض مولویوں کا مسئلہ کہتے تھے وہ اس کے خطرناک عزائم سے آگاہ ہوئے، اس کتابچے میں مولانا نے اس کے حل کے طو رپر تجویز دی کہ قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اس تحریک کے دوران کچھ بدامنی کے واقعات بھی پیش آئے جس کے نتیجے میں لاہور میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ اگرچہ جماعت کا ان بدامنی کے واقعات میں کوئی کردار نہیں تھا، لیکن دیگر گرفتاریوں کے ساتھ مولانا مودودیؒ ، مولانا امین احسن اصلاحی اور میاں طفیل محمد کو بھی گرفتار کیا، اور قادیانی مسئلہ شائع کرنے والے حضرات جن میں ملک نصر اللہ خان عزیز اور سید نقی علی شامل تھے کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ مولانا مودودیؒ پر اس جرم میں فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ اگرچہ بظاہر ان پر قادیانی مسئلہ کی تحریک کو ہوا دینے کا الزام تھا، لیکن حکمران ان کی اسلامی نظام کی مہم سے خائف تھے اور انہیں راستے سے ہٹانا چاہتے تھے۔ لہٰذا ان کو فوجی عدالت کے ذریعے سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ اس حکم میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وہ اگر چاہیں تو رحم کی اپیل کر سکتے ہیں، لیکن مولانا مودودیؒ نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں کسی سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا۔موت اور زندگی کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہو گیا تو مجھے کوئی بچا نہیں سکتا اور اگر وہاں یہ فیصلہ نہیں ہوا تو حکمران الٹے بھی لٹک کر مجھے نہیں لٹکا سکتے۔ مولانا مودودی کی سزائے موت کی خبر شائع ہونے کے بعد بیرونِ ملک اور اندرونِ ملک شدید ردّعمل سامنے آیا۔ جماعت اسلامی نے بھی پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرے کیے۔ کراچی میں جماعت اور جمعیت نے ایئرپورٹ پر عین اس وقت مظاہرہ کیا جب وزیراعظم اپنے دورے سے واپس پہنچ رہے تھے۔ اس مظاہرے کے لیے بینرز اور کتبے اس طریقے سے ایئرپورٹ پر پہنچائے گئے کہ پولیس ان کو روکنے میں ناکام رہی۔ اس احتجاج نے اتنی شدت اختیار کی اور بیرونِ ملک سے بھی مسلسل اس سزا کے خلاف احتجاجی پیغامات موصول ہوئے جن کے دباؤ کے تحت حکومت مجبور ہوئی اور سزائے موت، سزائے عمر قید (14 سال) میں تبدیل کر دی اور کچھ عرصہ بعد ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ان تمام حضرات کو رہائی ملی۔
ایشیا: جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ نے قادیانی مسئلہ کے حل کے لیے کیاکردار ادا کیا؟
چوہدری رحمت الٰہی: جہاں تک قادیاتی مسئلے کا تعلق ہے یہ حقیقت میں انگریز حکومت کے ایماء پر مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سازش تھی اور اس کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کو استعمال کیا گیا چنانچہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ کر کے امت مسلمہ کے اندر ایک نئی امت کھڑی کرنے کی کوشش کی، نیز تحریر و تقریر میں جہاد کی مخالفت کی اور انگریزوں اور ان کی خدمت کے لیے اچھے جذبات کا اظہار کیا جہاد کی دیگر اسلامی قوتوں کے ساتھ جماعت اسلامی نے بھی اس فتنے کے خلاف بھرپور کردار ادا کیا اور بالآخر 1974ء میں قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کیا جو مولانا مودودی کی تجویز کے مطابق تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ اس مہم کا آغاز بنی۔ اس مسئلے میں انگریزوں کی آشیرباد شامل ہونے کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تو ان کا مرکز انگلستان منتقل ہوا ۔
ایشیا: کیا 1970ء کے انتخابات میں شکست کے بعد مولانا مودودیؒ نے سیاست چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا تھا؟
چوہدری رحمت الٰہی: 70ء کے انتخابات کے حوالے سے مولانا کی ریٹائرمنٹ والی بات درست نہیں۔ 70ء کے انتخابات کے نتائج آنے کے بعد مولانا نے کارکنان کے اجتماع میں اس کا تجزیہ بھی کیا اور اس کے بعد کارکنان کو نیا حوصلہ اور ولولہ دیا۔ مولانا کی وہ تقریر آج بھی جماعت کے لٹریچر کا اہم حصہ ہے۔ اس لیے یہ بات صحیح نہیں کہ مولانا نے سیاست سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا۔ 70ء کے انتخابات کی مہم بہت طویل تھی جو تقریباً ایک سال پر محیط تھی۔ مشرقی پاکستان میں تو پاکستان مخالف قوتیں پہلے سے سرگرم تھیں وہاں غیر مسلم (ہندو) بڑی تعداد میں موجود تھے اور تعلیمی اداروں میں ان کا بڑا نفوذ تھا۔ وہ پاکستان کے خلاف ذہن سازی کا کام کرتے رہے جس کا ہماری حکومتوں نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ اس لیے وہاں ایک تعصب کی فضا بنی ہوئی تھی۔ اس دوران وہاں ایک بہت بڑا طوفان آیا جس میں ہزاروں لوگ جاں بحق ہوئے، بہت بڑی تباہی پھیلی۔ اس نے ان تعصبات کو مزید ہوا دی، اس کے نتیجے میں 70ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے سوا کوئی جماعت کامیاب نہ ہوئی۔ جماعت اسلامی کو مشرقی پاکستان میں صرف ایک سیٹ حاصل ہوئی۔ مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی نے عوام کو فریب دینے کے لیے جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف نعرے لگائے، عوام کوروٹی، کپڑااور مکان دینے کا نعرہ لگایا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ پہلے مرکزی اسمبلی کے انتخابات تھے۔ عوام جو 20، 25 سال سے مختلف مظالم برداشت کر رہے تھے۔ وہ کسی تبدیلی کے لیے بے تاب تھے۔ اس فضا میں بھٹو صاحب کے یہ نعرے اپنا کام کر گئے اور مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کو ان انتخابات میں اکثریت حاصل ہو گئی۔ جماعت اسلامی کو ان انتخابات میں مغربی پاکستان میں 4 نشستیں ملیں۔ اس طرح مولانا مودودی کی وہ پیش گوئی سامنے آ گئی کہ اگر عوام نے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہ کیا تو مغربی اور مشرقی پاکستان میں ایسی قوتیں ابھریں گی کہ پاکستان کو فوج بھی نہیں بچا سکے گی۔ چنانچہ اس کے بعد تیزی سے حالات پاکستان کے دولخت ہونے کی طرف بڑھنے لگے۔ ہمارے حکمران طبقہ میں پہلے سے ایسے لوگ موجود تھے جو مشرقی پاکستان کو ایک بوجھ سمجھتے تھے اور اس سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ بھٹو صاحب کا یحییٰ خان (جو اس وقت صدرِ پاکستان تھے) سے گٹھ جوڑ تھا اور وہ ان کی پوری پشت پناہی کرتے تھے۔ انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں ہونا طے ہوا، لیکن بھٹو صاحب اس میں آڑے آ گئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ مغربی پاکستان سے جو ممبرانِ اسمبلی اُس اجلاس میں شرکت کے لیے جائیں وہ یکطرفہ ٹکٹ لے کر جائیں کیونکہ انہیں واپس مغربی پاکستان نہیں آنے دیا جائے گا۔ انہوں نے یحییٰ خان پر دباؤ ڈال کر اسمبلی کا یہ سیشن ملتوی کرا دیا۔ جس سے وہ کشمکش جو پہلے سے مشرقی اور مغربی پاکستان میں ہو رہی تھی عروج پر پہنچ گئی۔ بھٹو صاحب نے اس دوران یہ نعرہ بھی لگایا کہ ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ یہ صریحاً ملک کو دو حصوں میں بانٹنے کی بات تھی۔
ایشیا: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں جماعت اسلامی 1941ء کے اختیار کردہ موقف اور نصب العین پر قائم ہے؟
چوہدری رحمت الٰہی: جماعت اسلامی نے پہلے دن سے جو نصب العین اپنے سامنے رکھا وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن و سنت پر عمل تھا اور اجتماعی زندگی کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسلامی نظام کا قیام ناگزیر تھا۔ یہ نصب العین کبھی جماعت کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا اور آج بھی جماعت اسلامی اس کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔
ایشیا: آپ جماعت کے سیکرٹری جنرل رہے۔ آپ کے دور میں عالمی اسلامی تحریکوں کے ساتھ تعلقات بڑھے۔ اس کے اثرات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
چوہدری رحمت الٰہی: جماعت اسلامی کا یہ نصب العین صرف پاکستان کے لیے نہیں ہے، جماعت جب بنی تو پاکستان کا وجود نہیں تھا، یہ نصب العین تو ہر ملک اور پوری دنیا کے لیے ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ تمام تحریکیں یا قوتیں جو اس نصب العین سے متفق ہوں یا کام کرنے والی ہوں ان کے ساتھ روابط قائم کرنا اور بڑھانا ایک فطری ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے جماعت نے شروع ہی سے شعوری طور پر کوششیں کی ہیں، چنانچہ عرب ممالک سے رابطے کے لیے دارالعروبہ کے نام سے مولانا مسعود عالم ندوی کی سربراہی میں ادارہ قائم کیا اور جماعت کے لٹریچر کے عربی ترجمے کا کام شروع کیا۔ اس کے بعد مولانا مسعود عالم نے عرب ممالک کا دورہ کیا اور وہاں جماعت کو متعارف کرنے کے ساتھ وہاں کی اسلامی تحریک الاخوان المسلمون کے ساتھ رابطے قائم کیے۔ اس کے بعد سے یہ روابط مزید گہرے ہوتے رہے اور دونوں اسلامی تحریکوں نے ایک دوسرے ممالک کا دورہ بھی کیا اور لٹریچر کا بھی ایک سے دوسری زبان میں ترجمہ ہوا۔ ابھی حال ہی میں امیر جماعت محترم سید منور حسن نے مصر کا دورہ کر کے وہاں کی تحریک اسلامی اخوان المسلمون کے ساتھ اپنے روابط کو مزید گہرا کیا ہے۔
ایشیا: ایک روسی سفیر نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی خالق جماعت ہے اس میں کتنی صداقت ہے؟
چوہدری رحمت الٰہی: یہ بات بالکل جھوٹ ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی تو ہمیشہ اس کے حکمران بناتے اور چلاتے رہے، جماعت اکثر و بیشتر اس کی مخالف رہی ہے، امریکہ سے تعلق کی ابتداء سے ہی جماعت نے مخالفت کی جب امریکہ سے پہلی مرتبہ غذائی امداد پاکستان آئی تو جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے بیرونی امداد لینے کے خلاف قراداد منظور کی۔ جماعت اسلامی خارجہ پالیسی کے طور پر ہمیشہ اس بات کی حامی رہی ہے کہ مسلم ممالک سے پاکستان کے روابط قریبی ہونے چاہئیں اور باقی تمام ممالک سے برابری کی بنیاد پر اچھے دوستانہ تعلقات ہونے چاہئیں۔ اس وقت جو امریکہ نواز بلکہ امریکہ کی باجگذار ریاست ہونے کی خارجہ پالیسی چل رہی ہے جماعت اس کی شدید مخالف ہے اور امریکہ کی غلامی سے نجات چاہتی ہے البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جماعت اسلامی کمیونزم کی مخالف رہی ہے اور روس کی جارحانہ حکمت عملی اور دوسرے ممالک میں کمیونزم کے لانے اور ان پر تسلط لانے کی مخالف رہی ہے۔ ممکن ہے جماعت کے اس طرزِ عمل کے خلاف انہوں نے بے بنیاد الزام لگایا ہو جو اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے۔
ایشیا: چین بھی کمیونسٹ ملک ہے، اس بارے میں پالیسی کیا ہے اور کیوں مختلف۔۔۔؟
چوہدری رحمت الٰہی: چین اگرچہ کمیونسٹ ملک رہا ہے ایک تو اس میں بہت تبدیلی آ گئی ہے اور اب کمیونزم کی وہ سختی وہاں نہیں رہی، لیکن اس سے بڑی بات یہ ہے کہ چین نے کبھی بھی روس کی طرح توسیع پسندانہ پالیسی اختیار نہیں کی جن کے تحت وہ دوسرے ممالک میں مداخلت کرے اور تسلط قائم کرے۔ باقی خارجہ پالیسی میں نظریات کے اختلاف کے باوجود باہمی مفادات کی بنیاد پر تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کے شواہد ملتے ہیں کہ انہوں نے یہودی قبائل کے ساتھ معاہدات کیے۔ لہٰذا چین اور پاکستان باہمی مفادات کی بنیاد پر ایک عرصے سے دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں اور بین الاقوامی زندگی میں مختلف حالات اور آزمائشوں میں یہ دوستانہ تعلقات مفید بھی ثابت ہوئے ہیں اور قائم بھی رہے ہیں۔ لہٰذا جماعت پاک چین دوستی کی حامی ہے اور اس کو مزید مضبوط دیکھنا چاہتی ہے۔
ایشیا: پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ بھارت سے دوستی کی بات کرتی ہے لیکن ہمارا مخالفانہ رویہ کیوں؟
چوہدری رحمت الٰہی: پاکستان اور بھارت پڑوسی ممالک ہیں اور ان کے باہم اچھے تعلقات اور دوستی دونوں کے مفاد میں ہے، لیکن یہ تعلقات اور دوستی انصاف پر مبنی ہی ہو سکتی ہے۔ ہندوستان سے دب کر اور اپنے مفادات قربان کر کے نہیں، جبکہ بھارت نے نہ صرف تحریک پاکستان اور تشکیل پاکستان کی شدید مخالفت کی بلکہ پاکستان بن جانے کے بعد اس کی یہ دشمنی قائم رہی اور پاکستان بننے کے بعد ہر طرح کی سازشوں کے ذریعے یہ کوشش کی کہ پاکستان ناکام ہو جائے اور دوبارہ بھارت میں ضم ہو جانے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے بے شمار اہم رہنماؤں کے بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں۔ پھر بھارت نے سازشوں کے ذریعے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا جو آج تک قائم ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم کرنے کے باوجود اس نے آج تک ان پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا اور اب تو وہ پاکستان کے پانی پر بھی قبضہ کرتا چلا جا رہا ہے۔ جو پاکستان کو شدید بحران سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ اس طریقے سے اس نے سیاچن پر قبضہ کیا ہوا ہے اور سرکریک کے معاملے کو بھی لٹکایا ہوا ہے۔ اس کی اور بھی متعدد زیادتیاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان ناانصافیوں کے ساتھ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔ بھارت کی کوشش اور چال یہ ہے کہ وہ اعتماد بحال کرنے کے نام پر اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ان مسائل کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان سے تجارتی تعلقات قائم کرے اور ہمارے بھی بعض دانشور اور سیاسی جماعتیں اس فریب میں آ کر بھارت سے اچھے تعلقات بنانے کی حمایت کرتی ہیں۔ اگر بھارت انصاف کے مطابق مسائل کو حل کرنے کو تیار ہو جائے تو ہم بھی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی حمایت کریں گے۔ 
ایشیا: دو بڑے سیاسی اتحادوں (پاکستان قومی اتحاد اور ایم ایم اے) کے ساتھ حکومت میں شمولیت پر کیا تبصرہ کریں گے؟
چوہدری رحمت الٰہی: پی این اے کا اتحاد تو بھٹو آمریت کے خلاف اور اس سے نجات کی کوشش تھی، مشترک مقاصد کے لیے دوسری سیاسی قوتوں سے اتحاد اور جدوجہد کے جماعت خلاف نہیں ہے۔ حالات اور ضرورت کے تحت آئندہ بھی اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کے پی کے 2002ء کے انتخابات میں دو ہی جماعتوں نے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی اور وہ کامیابی اس نوعیت کی تھی کہ صوبہ میں حکومت سازی ہو سکتی تھی اور بالخصوص جماعت دینی قوتوں کے اتحاد کی ہمیشہ حامی رہی ہے، اس نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ مل کر حکومت بنائی لیکن اس میں بھی سینئر پارٹیز JUI ہی تھی اور وزیراعلیٰ بھی، جو اصل حکمران ہوتا ہے انہی کا تھا۔ اس حکومت میں الحمدللہ جماعت اسلامی کے وزرا کا کردار بہت صاف شفاف رہا اور صوبہ خیبر کے عوام میں اس کے اچھے اثرات قائم ہوئے، تاہم چونکہ وزارتِ علیا ہمارے پاس نہیں تھی اس لیے ہم اپنے ایجنڈے پر پوری طرح عمل نہیں کر سکے۔
ایشیا: کوئی اہم پیغام جو آپ دینا چاہیں؟
چوہدری رحمت الٰہی: آج پاکستان متعدد بحرانوں کا شکار ہے، جس کی بنیاد پر قوم میں دل شکنی اور مایوسی کی کیفیت بڑھ رہی ہے ان بحرانوں کے متعدد اسباب ہیں لیکن بڑا سبب امریکی جارحیت اور مداخلت ہے لہٰذا اس سے نجات پانا پاکستان کی ترجیح اول ہونی چاہیے۔ امریکہ کے یہاں سے نکل جانے کے بعد بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے مگر پاکستان کا اصل مسئلہ صحیح قیادت کا ہے۔ تاریخ بھی اس بات پر شاہد ہے کہ قیادت ہی کسی قوم کو اٹھانے یا گرانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اگر پاکستانی عوام قیادت کی اہمیت سمجھ کر اپنے ووٹوں کے ذریعے صحیح دیانتدار اور باعزت قیادت کو حکمران بنانے کو تیار ہو جائیں تو تھوڑے ہی عرصے میں پاکستان اِن بحرانوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے اور ترقی کی منازل تیزی سے طے کر کے اقوامِ عالم میں پروقار مقام حاصل کر سکتا ہے، لیکن اگر قوم اور عوام چھوٹے چھوٹے مفادات اور تعصبات میں گھر کر حسب سابق مفادات پرست سیاست دانوں کو ووٹ دیتے رہے تو پھر اس طرح کے بحران نہ صرف جاری رہیں گے بلکہ وہ مزید خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔

1 comments:

Bohat Umda Or Tahreeki Yadoon ko Taaza Karny Wala Interview Hay

Post a Comment