Sunday 25 September 2016

سیدمودودیؒ اورخلافت و ملوکیت

| |
تحریک اسلامی کے مؤسس سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ (25ستمبر1903ء)کاآج یوم پیدائش ہے۔سیدمودودیؒ جو امت کے گل سرسبد ہیں۔امت کا روشن دماغ اور چمکتا دمکتا چہرہ ہیں۔ ان کی پھیلائی ہوئی روشنی سے امت کے دل و دماغ روشن ہورہے ہیں۔ مولانا مودودیؒ عصر حاضر کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے، جن کا عزت و احترام پورا عالم اسلام میں پایاجاتا ہے۔
مولانا مودودیؒ کا علم و فضل جذبہ و اخلاص، فہم و ذکا،بصیرت و بصارت تحریک و تحرک، عبقریت، بلند نگاہی ،دلنواز سخن، جاں پر سوزی، اور فریضہ اقامت دین کے لیے پایاجانے والااضطراب ان کی زندگی کے وہ خاص نمایاں اور ممتاز پہلو ہیں ۔
سید مودودیؒ نے تن تنہا اداروں جتنا کام کیا۔ اور ایسا وسیع کام جو ادارے بھی صدیوں میں سرانجام دیتے ہیں۔سید مودودیؒ ے جو لکھا خوب لکھا، جو مسائل اٹھائے سوچ سمجھ کر اور ان کاجائزہ لے کر مضبوط موقف کے ساتھ مدلل، اور مؤثر اندازمیں قرآن و سنت کی روشنی میں اٹھائے مولانا مودودی نے دنیا کے گوناگوں مسئلہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔
اسلام ، اسلامی تہذیب و معاشرت ،اسلامی شریعت ، اسلامی دعوت ، عقائد ، عبادات، اخلاق ، قانون، معیشت ، سیاست، تاریخ امت ، معاشرہ ، خاندان ، حکومت و ریاست اور بین الاقوامی تعلقات جیسے موضوع پر قلم اٹھایا اوراس کا حق ادا کردیا۔
سید مودودیؒ کی تحریر وتقریر کا یہ خاص امتیاز اور فخر ہے کہ وہ جسے حق سمجھتے ہیں اس بارے میں بلا تامل اوربلا خوف و خطر اظہارخیال کرتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں وہ کسی سے خوف نہیں کھاتے اور نہ کسی ڈکٹیٹر کی پرواہ کرتے ہیں۔ کوئی لادین ہویا اشتراکی، سرمایہ پرست ہویا مغرب کا مادیت زدہ، کوئی سیکولرازم کا پرچارک ہویا قدامت کا علمبردار، سید مودودیؒ کا قلم حق و سچ لکھتا ہے۔ اور وہ کبھی زہر ہلاہل کو قند نہیں کہتے۔ چاہے اس کی جتنی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔
ان کے افکار عالی شان سے صرف برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں ہی نے فیض نہیں پایا۔ بلکہ پورے عالم اسلام نے فیض پایا ہے۔ ان کے نظریہ و افکار نے امت کے لاکھوں انسانوں کی زندگی بدلی ، ان کوسوچنے سمجھنے کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ نسل نو کو تحرک اور فعالیت بخشی اور امت مسلمہ کو تحریک اسلامی کا تحفہ دیا اور اس کے ساتھ اسلامی جمعیت طلبہ، سیدمودودیؒ کا لٹریچر ہویا ان کی برپا کردہ تحریک ، دونوں کا فیض جاری ہے۔اور فیض پانے والے فیض پارہے ہیں۔ یہ لٹریچر اور تحریک ان کے لیے بمنزلہ صدقہ جاریہ ہے۔ اللہ ان کی قبرکو نور سے بھردے اور ان کو جنت الفردوس سے نوازے اور نبی مکرمﷺ کی معیت عطا فرمائے۔

خلافت و ملوکیت ، سید مودودیؒ کی شہرہ آفاق تصنیف ہے۔ جس میں سیدمودودیؒ نے نے خلافت کے ملوکیت میں بدل جانے کے عمل بارے تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔اس موضوع پر سید مودودیؒ کے شاگرد خاص اوروفاقی شرعی عدالت کے جج ،جسٹس ملک غلام علی نے ’’خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ ‘‘ کے عنوان سے بالخصوصدیوبندی مکتبہ فکر اور بالعموم دیگر مکاتب فکر  کے خلافت و ملوکیت پر اٹھائے گئےسوالات و اشکالات کے نہایت عمدہ اور مسکت جوابات دیئے ۔ جس پر دیوبندی مکتبہ فکر کے ایک سینئر عالم دین کا کہنا تھا کہ جسٹس ملک غلام علی نے خلافت و ملوکیت پرکئے جانے والے اعتراضات کا زبردست دلائل کے ساتھ دفاع کیا ہے۔ کچھ لوگ سید مودودیؒ کی کتاب خلافت و ملوکیت پر اعتراض کرکے اپنا قدبڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ 600سال کی تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو، اس موضوع پراس طرح کا عمدہ تجزیہ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
سیدمودودیؒ کی خلافت و ملوکیت ،اس اہم موضوع پر شاہکار(Master Piece)ہے۔سید کی فکر روشن چراغ ہے اور ان کے افکار عالی سے پھوٹنے والی روشنی سے مغرب اور سیکولرز خوف زدہ اور پریشان ہیں۔ سید مودودیؒ کے جلائے ہوئے چراغوں میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment