Thursday 10 December 2015

یواین او، پاکستان اور انسانی حقوق

| |

10دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن ہے ۔ اس دن دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حوالے سے نہ صرف ڈسکشنز ہوتی ہیں بلکہ فورم ،کانفرنسز ، سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں اور اس طرح یہ پروگرامات نہ صرف انسانی حقوق سے آگہی کا عمدہ ذریعہ بنتے ہیں بلکہ انسان میں برداشت اور حوصلہ پیدا کرنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔
یہ 21ویں صدی ہے جس میں دنیا (گلوبل ویلج )عالمی گاؤں کا روپ دھار چکی ہے اور اس عالمی گاؤں میں جمہوریت، انسانی حقوق ،عدل وانصاف اور مساوات کابہت غلغلہ اور چرچا ہے۔
اس دنیا میں کوئی قوم بھی نہ تو اکیلے ترقی کرسکتی ہے اور نہ دنیا کو امن وامان مہیا کرسکتی ہے۔ یہاں امن و امان ہو یا ترقی کاحصول یہ سب ایک مشترکہ جدوجہد کامتقاضی ہے ۔ اس کے بغیر ان تک پہنچنا یا ان کاحصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اقوام متحدہ نے 2000ء میں ترقی کے 8 اہداف طے کئے ۔جن میں تعلیم کا فروغ،وبائی امراض، ٖغربت اور صنفی امتیازکا خاتمہ، ماں اور بچے کی صحت، ماحولیات اور ترقی کے ضمن میں مشترکہ جدوجہد اور کوشش سے اس معرکے کو سر کرنا مقصد ٹھہرا۔ 
اقوام متحدہ نے آمدہ پندرہ سالوں کے لئے نئے اہداف طے کیے ہیں ان میں افراد کی معاشی وسماجی حالت کا سدھار، تعلیم، صحت، ماحولیات، زرعی و صنعتی ترقی اور صنفی بنیادپر تفریق کے خاتمے کے لیے کام کرنا پیش نظر ہے۔اس میں شک نہیں کہ انسان کو ترقی کے فوائد وثمرات پہنچانے کے لئے یہ اہداف ایک لائحہ عمل متعین کرتے ہیں۔ ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اسے تحفظ ملے، صحت و تعلیم تک رسائی ہو اورجان ،مال اور عزت وآبرومحفوظ ہو۔ترقی کے ان تمام اہداف کی بنیاد انصاف ہے ۔لیکن عالمی منظر نامے اور ملکی تناظر میں اس کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ عالمی سطح پر کشمیر، فلسطین، شام ،برماعراق ،افغانستان میں انصاف کے اصولوں کواپنے اپنے مفاد ات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے ۔وطن عزیزمیں بھی انصاف اور اس کا حصول ناممکن حصول نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ایک مخصوص طبقہ انصاف کے حصول میں کامیاب ہوتا ہے۔اقوام متحدہ کے یہ اہداف قابل عمل ہیں لیکن انسان کو بحیثیت مجموعی امن اور انصاف کے حصول کے لیے اس آفاقی پیغام کی طرف مراجعت کرنا ہوگی اسلام کا یہ نظام انسان کو ان مسائل کے حل کے لیے آج بھی قابل عمل حل دیتا ہے۔ جس میں ایک انسان کے انفرادی اور اجتماعی کردار کا تعین کیاگیاہے۔اس کی بنیاد کسی مفاداورتعصب پر نہیںیہ اس خالق حقیقی کا دیا ہوا ابدی نظام ہے ۔ جس کی پیروی سے انسانیت دنیامیں بھی ترقی کا سفرطے کرسکتی ہے اور اُخروی زندگی میں بھی فوز و فلاح اور نجات پا سکتی ہے۔ 
ان اہداف کا مقصد یہ تھا کہ تمام اقوام ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ان اہداف کے حصول کی جانب آگے بڑھیں لیکن مجموعی طور پر سوائے چند ممالک کے کوئی ملک بھی ان اہداف میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکااور نہ کوئی پیش رفت ۔اس ضمن میں پاکستان میں بھی ماں اور بچے کی صحت کے علاوہ کسی بھی شعبہ میں کوئی کام نہ ہوسکا۔البتہ اس میں بھی پاکستان جنوبی ایشیاء کے ممالک میں سب سے نچلی سطح پر ہے ۔پاکستان میں ماؤں کی شرح اموات اوسطاً 276ہے جبکہ بچوں کی 78ہے۔ اس طرح تعلیم میں بھی ہم بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان میں سکول جانے کی عمر کے 2 کروڑ بچے سکول نہیں جاتے جن میں 53% پنجاب سے تعلق رکھتاہے۔ یہ مسئلہ اس سے الگ ہے کہ سکول جانے والے بچوں کو فراہم کی جانے والی تعلیم کس معیار کی ہے۔ بچوں کی صحت کا معاملہ بھی عدم توجہی کاشکار ہے۔ کوشش کے باوجود وہ بیماریاں جن کا وجود دنیاسے ختم ہو چکا وہ پاکستان میں موجود ہیں اور ختم ہونے کانام نہیں لے رہیں۔ جعلی ادویات کے اسکینڈلز اس پر مستزاد ہیں،سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہاں کسی کا احتساب نہیں ہوتااور کسی معاشرے میں احتساب کا میسر نہ ہونا دراصل معاشرے کے کمزور ہونے کی علامت ہے۔ مضبوط معاشرے، احتساب سے ہی بنتے ہیں۔ پاکستان میں ایک بے لاگ احتساب کی ضرورت ہے ۔ ایسا احتساب جس کی بنیاد اسلام کے نظام عدل پر ہو اور نظام جو کرپشن کاانسداد کر سکے ۔
کاروکاری، ونی،تیزاب گردی، قرآن سے شادی اور سوارہ جیسی رسوم و رواج معاشرے کے لیے ندامت کا باعث ہیں۔ موجودہ دور میں بعض علاقے ایسے ہیں جن میں بچیوں کے لیے تعلیم کا حصول ناممکن ہے، وراثت میں بیٹیوں کو حصہ نہیں دیا جاتا۔ ان مسائل کی بنیاد پرطاقتورممالک بالخصوص امریکہ وغیرہ معاشی لحاظ سے کمزور ممالک کااستحصال کرتے ہیں اور ان کو دبانے اور ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کرتے ہیں اس کے نتیجے میں ردعمل سامنے آیا اورردعمل کے نتیجے ان اہداف کا حصول مزید دشوارہو گیا۔مجموعی طور پر بحیثیت قوم ہم بہت سے معاملات میں غیرذمہ دار انہ رویہ اور افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ پاکستان میں10سے15 بچے روزانہ جنسی ہوس کانشانہ بنتے ہیں۔ابھی چند ماہ قبل رونماہونے والے سانحہ قصورنے انسانیت کا سرشرم سے جھکادیا ۔آئے روزاس طرح کے واقعات سامنے آتے ہیں ۔ لیکن ان میں ملوث افراد کو کبھی سزا نہیں ملتی۔اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ صوبوں میں بچوں کے تحفظ کے لئے کوئی با ضابطہ اور باقاعدہ پالیسی دکھائی نہیں دیتی ۔ پاکستان میں لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور سکول نہیں جاپاتے ۔۔۔کیونکہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں کتنے ہی بچے ہوں گے جو حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کرمحنت و مشقت کرتے ہیں۔لیکن حکومتی ترجیحات میں یہ مسئلہ کم ہی نظر آتاہے۔ حکومت کی توجہ میٹرو اورنج لائن ٹرین اور میگا پراجیکٹ بنانے کی طرف ہے لیکن معاشرے کے ان بنیادی،حساس اور اہم مسائل کو جو توجہ ملنی چاہیے وہ سردست اس توجہ سے محروم ہیں۔ ضرورت ہے کہ حکومت ان بنیادی مسائل کی طرف توجہ دے ۔ اس توجہ کے نتیجے میں انسانی حقوق کی صورت بہتر ہوگی اور صحت وتعلیم اور امن وامان کے مسائل بھی !!
اسلام کا ’نظام رحمت‘ انسانیت کے عمومی وخصوصی مسائل اور دکھوں کا وہ حل پیش کرتا ہے جس کو انسان اور اس کی فطرت کاپسندیدہ قرار دیا جاسکتاہے۔

0 comments:

Post a Comment