Friday 25 September 2015

صدی کا بیٹا۔۔۔سیدمودودیؒ

| |
سیدمودودیؒ جیسے انسان صدیوں بعد پید اہوتے ہیں۔ اور حقیقتا ایسے انسان عطیہ خداوندی ہوتے ہیں۔ جن کاعزم ،فکراور بصیرت طویل عصرتک انسانیت کے لیے رہنمائی کاذریعہ بنتی ہے۔سید مودودیؒ ایسے ہی انسانوں میں سے ایک تھے۔ ان کے قلم کی جولانیوں نے ایک نسل کو نہیں بلکہ کئی نسلوں کو تسخیر کیا۔ ان کی کتابوں بالخصوص الجہاد فی الاسلام نے اسلام کے فلسفہ جہاد کو نہ صرف نمایاں کیا بلکہ اس پر غیر مسلموں کے اعتراضات کا مسکت جواب دیا ۔مغرب پر ان کے تنقیدی مضامین ’تنقیحات‘ کے نام سے چھپے تو مغرب میں تہلکہ مچ گیا۔ یہ سید مودودیؒ کی فکری یلغار کا ایک شاہ کار ہے۔ اسی طرح سودی نظام اور اس کے اس کے سرپرستوں کے لیے ’سود‘ نامی کتاب کا جواب نہیں۔ جس میں سید نے ایک واضح لائحہ عمل رہا اور سود کے بارے میں وضاحت سے بتایا کہ یہ اللہ اور رسول کے خلاف جنگ کے سوا کچھ نہیں۔ تفہیمات (اول دوم ، سوم اور چہارم) اور رسائل و مسائل میں سید مودودیؒ کے قلم سے نکلے جواہر پارے میں جو آپ کی علمی و فکری بصیرت کا شاہکار ہیں۔ 
قیام پاکستان کے پس منظر میں مولانا کے تجزیوں پر مبنی ’’مسلمانان ہند اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے نام سے معرکۃ الآرا مضامین سیاسی فکر کے آئینہ دار ہیں۔ اسی طرح تفہیم القرآن مولانا مودودی کا قرآنی تفہیم کا شاہکار ہے۔ جو صدیوں تک انسانیت کو رہنمائی سے سرفراز کرتی رہے گی۔
سید مودودیؒ کی ذاتی زندگی ہو یا اجتماعی یا گھر یلو زندگی انتہائی سادہ اور نفیس دلکش او دلآویز پر کشش متانت سے مزین تھی، ان کا ظاہر و باطن ایک جیسا تھا۔ انہوں نے اپنی فکری آبیاری ترجمان القراآن سے کام لیا اور اپنی فکر کے ذریعے دنیا بھر کے انسانوں کو متاثر کیا۔ اسی فکر کی بنیاد پر 1941 میں لاہور میں جماعت کی بنیاد رکھی ۔ جس میں برصغیر پاک و ہند سے 75افراد نے شرکت کی ۔ اور سید مودودیؒ کو جماعت اسلامی کا پہلا امیر منتخب کیا۔ جماعت اسلامی ان کی علمی و فکری اور عملی بصیرت کا عملی اظہار ہے۔ انہوں نے اس تنظیم کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ چلایا ۔ اس کے لیے جدید خطوط استوار کیاجس کے لیے دنیا کی جدید ریسرچ سے کام لیا۔ سید مودودیؒ نے اپنی فکر کو آگے بڑھانے کے لیے نئے افراد کی تیاری اور حصول کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ کی بنیاد رکھی ہے۔جس سے جماعت کو ہرسطح کے لیے افراد کار اور قیادت بھی ملی۔اسی طرح جمعیت طلبہ عربیہ ، پریم یونین، پیاسی،NLF،تحریک محنت ، شباب ملی، تنظیم اساتذہ ، انجینئرز فورم، پیغام یونین واپڈا، PIMA، IHMRوغیرہ نے اپنے اپنے میدان میں جماعت اسلامی کی دعوت اور فکر کو آگے بڑھانے میں اہم کردار اداکیا۔


سید مودودیؒ نے اپنے زمانہ امارت میں جماعت اسلامی کو ایسے چلایا کہ اس کے اثرات مسلسل بڑھتے رہے۔ جہاں اس فکر کو آگے بڑھنے کا موقع ملا وہیں افرادی قوت کے اعتبار سے جماعت کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
انتخابات میں حصہ لینے کے نتیجہ میں جماعت اسلامی سیاسی میدان میں نئے رحجانات متعارف کرانے کی ذریعہ بنی،جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے افراد کی کارکردگی، سینیٹ ، قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلیوں اور بلدیات میں نہایت عمدہ بے باکانہ ، اور دیانتدارانہ رہی اور دامن پلاٹ و پرمٹ اور کرپشن سے پاک رہا۔ جماعت اسلامی مروجہ سیاست نہیں کرتی، بلکہ اس کی سیاست خدمت کے بے لوث جذبے سے عبارت ہے۔ جس پر انبیا کرام کے نقوش پا ثبت ہیں۔
سیدنے جماعت اسلامی کی بنیاد ایسے خطوط پر استوار کی کہ یہ نہ موروثی جماعت بنی اور نہ کسی فرقہ و مسلک کی علمبردار ،بلکہ اللہ کے دین کی علمبردار بنی۔ قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں اللہ کے دین کی تعلیمات عام کرنے ، پھیلانے اور اس کے مطابق پوری ایک نسل تیار کرکے اللہ کے دین کے لیے سرگرم عمل کرنے جذبہ عمل کے ساتھ مصروف جدوجہد ہے۔ اور اس جدوجہد و سعی کو پون صدی گذرچکی ۔ اور یہ سید مودودیؒ کی بصیرت و بصارت کا شاہکار بن کر سامنے آئی ہے۔
سید مودودیؒ ستمبر 1979کو دنیاسے رخصت ہوگئے اور اچھرہ لاہور میں مدفون ہوئے۔ وہ اپنے پیچھے اپنے روحانی شاگرد چھوڑ گئے جنہوں نے دعوت و ابلاغ کے لیے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔ اور یہ قافلہ حق میاں طفیل محمدؒ ، قاضی حسین احمدؒ کے جذبوں ولولوں اور سید منورحسن کو دین پر استقامت اورسراج الحق کی سادگی، درویشی اور تحرک کے نتیجے میں مسلسل پیش قدمی کی منزلیں طے کررہاہے۔اللہ سیدمودودیؒ کی قبرکو نور سے بھردے اور انہیں اپنے مقرب بندوں میں شامل فرمائے۔

0 comments:

Post a Comment