Thursday 25 August 2016

جماعت اسلامی کایومِ تاسیس

| |
جماعتِ اسلامی ایک علمی وفکری تحریک ہے، جس کے بانی گذشتہ صدی کے عظیم مفکراسلام سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں، انہوں نے۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء میں اسلامیہ پارک لاہور میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اس ابتدائی اجلاس میں برصغیرپاک وہند سے کل 75افراد نے شرکت کی، یہ افرد مولانا مودودیؒ کی ترجمان القرآن کی تحریروں کے ذریعے ان کی فکر سے متاثر ہوئے تھے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے بیت المال میں کل سرمایہ 74روپے 12آنے تھا۔ گویا افراداورسرمایہ ایک جیسا ہی تھا۔ ان کے پیش نظر برصغیر پاک وہند میں اللہ کے دین کا پرچم سربلند کرنا تھا۔ اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلا کر انہیں ایک اللہ کی بندگی میں دینا تھا۔ اسے فریضہ اقامتِ دین، اعلائے کلمۃ اللہ اور شہادت حق کے نام سے موسوم کیاگیا۔ یہ فریضہ تمام انبیاء کرام نے انجام دیا۔ اور آخری نبی حضورؐ اس فریضے کو بجا لائے۔ سیّد مودودیؒ کے پیش نظر وہی کام تھا، اسی طرح کے افراد کار کی تیاری اور معاشرہ تشکیل دینا تھا۔ سیّدنے تمام زندگی اپنے علم وعمل ، وعظ ونصیحت، تقریروتحریر کے ذریعے اس کام کو کیا۔ 
اس کام کے لیے لوگ آتے گئے اور قافلہ بنتاگیا، 75افراداور قلیل سرمائے سے شروع کیاجانے والایہ کام دن بدن آگے بڑھتا رہا، افرادی قوت فراہم ہوتی رہی، اور مولانا مودودیؒ کے وژن کے مطابق جماعت اسلامی کی جدوجہد آگے بڑھتی رہی، مولانا مودودیؒ نے اس قافلہ حریت کی قیادت ۱۹۷۹ء تک کی ۔ انہوں نے جماعت کی امارت سے معذرت کی روایت ڈالی۔ قیادت کے منصب سے معذرت کی توارکانِ جماعت نے قیادت کیلئے میاں طفیل محمد کومنتخب کیا، ناکہ مولانامودودیؒ کے حقیقی بیٹوں کو، اس طرح جماعت کی قیادت کاسفرآگے بڑھا۔ میاں طفیل محمدؒ ۱۹۸۷ء تک جماعت اسلامی کی امارت کے منصب پر فائز رہے، انھوں نے بھی مولانا مودودیؒ کی قائم کردہ اس روایت کو آگے بڑھایا اور جماعت کی قیادت KPKکے ضلع نوشہرہ کے گاؤں زیارت کاکاصاحبکے ایک پختون قاضی حسین احمد کے سپرد ہوئی جن کے والد گرامی فاضل دیوبندتھے۔ انہوں نے ۲۲سال تک جماعت کی قیادت کی اس کے بعدیہ امارت دلّی کے سیدخانوادے کے چشم وچراغ کراچی کے سیّدمنورحسن کے سپردکی، وہ اپنا عہدنبھا کررخصت ہوئے تو جماعت اسلامی کی قیادت دیرسے تعلق رکھنے والے، اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ اوردوبارصوبہ kpkمیں وزیرخزانہ رہنے والے سراج الحق کے کندھوں پر آئی۔ آج کل وہ جماعت اسلامی کی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ 
جماعت اسلامی دراصل امربالمعروف ونہی عن المنکر کی ایک تحریک ہے۔ جو معاشرے میں نیکی کے فروغ اور ابلاغ کیلئے سرگرم عمل ہے اور برائی کی ہرشکل کا قلع قمع کرنے کیلئے جدوجہد آزما ہے۔ نیکی کا حکم دینا اوربدی سے منع کرنا قرآنی حکم ہے، یہ انبیاء والا کام ہے، اس کے ذریعے معاشرے میں نیکی فروغ پاتی ہے اور اس کا چلن عام ہوتا ہے اور برائی، بے حیائی اورحرامکاری کے راستے بند ہوتے چلے جاتے ہیں، اس کے نتیجہ میں معاشرہ پاکیزہ سے پاکیزہ ترہوتاچلاجاتاہے۔
جماعت اسلامی فرشتوں کی جماعت نہیں انسانوں کی جماعت ہے اور انسان خطاؤں سے ماورا نہیں ہوتے، غلطی کا سرزد ہوجانا ان کی سرشت میں شامل ہے لیکن ایک اچھا، نیک اور پاکیزہ انسان فوری اپنے رب کے درکی طرف لپکتا ہے اور توبہ کا دروازہ کھٹکھٹاتاہے اور گناہوں پراپنی ندامت کا اظہار کرتاہے، جس پر اس کا رب اسے معاف کردیتاہے، یہی انسان کا بڑا پن اور عظمت ہے۔ جماعت اسلامی اپنے رب سے ڈرکر زندگی گزارنے والے انسانوں کی جماعت ہے۔
جماعت اسلامی نے دعوت و خدمت کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے، اس کے افراد بلدیات میں بھی منتخب ہوئے اور اسمبلیوں میں بھی۔ انہوں نے اپنے کرداروعمل سے اچھا اورعمدہ کردار پیش کیا۔ وہ چاہتے تو بہتی گنگا سے ہاتھ دھوسکتے تھے، مال بناسکتے تھے، پلاٹ اورپرمٹ لے سکتے تھے۔ لیکن خوف خدا سے سرشاراللہ کے ان بندوں نے کبھی کسی حکومت سے مراعات نہیں لیں، اپنے وقت اور مال سے ایثار کیا اور قوم کی خدمت کی۔ اپنا ، اپنے گھروالوں اور بچوں کا پیٹ کاٹا مشکل برداشت کی لیکن اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیا۔ 
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایسے اچھے اور سُچے کردار کے لوگ باربار منتخب کئے جاتے۔ اسمبلیوں میں آتے اور لوگوں کی خدمت بجالاتے، لیکن قوم ان کو ووٹ نہیں دیتی اور یہ منتخب نہیں ہوپاتے۔ اس میں ان کا قصورنہیں۔ ڈاکٹر نذیرشہیدہوں یا دوبارایم این اے اور کراچی جیسے شہرکے میئررہنے والے عبدالستارافغانی، پروفیسرعبدالغفوراحمدہوںیا چوہدری رحمت الٰہی، قاضی حسین احمد، لیاقت بلوچ ہوں یا نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ، حافظ سلمان بٹ ہوں یاڈاکٹرفریداحمد پراچہ، اسداللہ بھٹو ، پروفیسرخورشید احمد ہوں یا پروفیسر محمد ابراہیم اور اب امیرجماعت جناب سراج الحق ، ڈاکٹر سیّدوسیم اختر ہوں یا چوہدری محمد اصغرگجر یادوسرے لوگ انہوں نے اپنی امانت ودیانت ، اخلاص، صلاحیت واہلیت کھرے کردار کا لوہا منوایا۔ پارلیمنٹ میں ان کی کارکردگی کی مخالفین بھی تعریف کرتے ہیں۔
مسئلہ یہ نہیں کہ لوگ ووٹ نہیں دیتے ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ نظام انتخاب میں ایسے بہت سے نقائص اور خامیاں موجود ہیں جو کسی ایسی جماعت اورفردکو آگے نہیں بڑھنے دیتے۔ جو قوم اور ملک اور اداروں کو مضبوط بنانے کی جدوجہدکرے اور ذاتی وشخصی مفادات سے بالاترہوکر ملکی وملّی مفادات کیلئے کام کرے۔ عوام الناس اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی طرف دیکھتے ہیں اور جہاں سے ان کے یہ مفادات پورے ہوتے ہوں وہ اس کا دامن تھام لیتے ہیں۔ چاہے اس میں قوم وملک کتنا خسارہ برداشت کرے۔

ذکی کیفی نے بجافرمایا
راہ وفامیں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم
لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم

0 comments:

Post a Comment