Thursday 29 August 2013

مخالفتوں نے مجھے جماعت اسلامی سے مزید قریب کر دیا

| |
حاجی مجدد خان، جماعت کے بزرگ ترین رہنما ہیں۔ ضلعی امراء سے صوبائی و مرکزی شوریٰ کے رکن اور مختلف جماعتی ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ للہیت، جذبۂ اخلاص، تحرک، فعالیت اور لگن کے ساتھ جماعت کا کام سرانجام دیا۔ جماعت میں شامل ہوئے تو ’’وفاداری، بشرطِ استواری، اصل ایمان‘‘ کا نمونہ بنے۔ ان کی ساری زندگی جدوجہد، اخلاص، ثبات و استقلال، دعوت کے لیے تڑپ اور اللہ کے دین کے غلبے سے معمور ہے۔ ان سے ہونے والی گفتگو آپ کی نذر ہے:
 اپنی ابتدائی زندگی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے حاجی مجدد خان نے بتایا، میری عمر تقریباً پانچ چھ ماہ تھی کہ والد صاحب فوت ہو گئے۔ مڈل تک تعلیم حاصل کر سکا۔ 1941ء میں پولیس میں بھرتی ہو گیا۔ فلم اور کھیل کود سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ پولیس میں تین سال دفتروں اور دو سال تھانوں میں رہا۔ 1945ء میں سی آئی ڈی میں تبدیل ہو گیا۔ تقریباً ایک سال علاقہ تھانے حضرو میں ڈیوٹی دیتا رہا۔ پھر حضرو سے تبدیل کر کے تھانہ پنڈی گھیپ لگا دیا گیا۔ پنڈی گھیپ میں اسلام کی طرف سے مائل ہو گیا اور ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی کتاب ’’بانگ درا‘‘ کا بڑے شوق سے مطالعہ کرتا رہا اور پھر بالِ جبریل اور دیگر کتابیں حاصل کر لیں۔ اُس وقت سیاسی طور پر دو تحریکیں اور مسلم لیگ آمنے سامنے تھیں اور احرار کانگریس کی طرف مائل تھی۔ چونکہ میں سی آئی ڈی میں تقریباً تین سال کام کرتا رہا تھا۔ ہندو مسلم کشمکش کی رپورٹنگ میری ڈیوٹی تھی۔ میں مسلم لیگ کو پسند کرتا تھا کہ ان کا نعرہ لا الٰہ الا اللہ تھا۔ 1946ء میں مجھے تھانہ پنڈی گھیپ تبدیل کر دیا گیا۔ ایک سال کے بعد تھانہ تلہ گنگ لگا دیا گیا اور 1947ء میں پاکستان بن گیا۔ اس کے بعد مجھے سی آئی ڈی سے تبدیل کر کے محرر چوکی چکری تھانہ چونترہ لگا دیا گیا۔ چوکی چکری کی ڈیوٹی کے دوران، میں نے اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ قرآن کا مطالعہ اور نماز کی پابندی کر لی اور داڑھی بھی رکھ لی اور ملازمت سے دل بیزار ہو گیا اور 1949ء میں، میں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور حضرو شہر میں کپڑے کی دکان لے لی۔ چونکہ دل دین اسلام کی اور اس کی تعلیمات کی طرف مائل تھا۔ پیروں فقیروں اور علماء سے بھی رابطہ تھا۔ ان دونوں کی تقریریں شوق سے سنتا تھا اور بقول مولانا مودودیؒ ’’میں نے اِن علماء کو قریب سے دیکھا ہے‘‘ لیکن ذرا بچ کر چلتا رہا۔

 انتخابات کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ 1951ء میں انتخاب کا اعلان ہو گیا اور جماعت اسلامی نے مولانا محمد ایوب خان آف شینکہ کو مسلم لیگ کے مقابلے میں این اے 41 کی نشست پر کھڑا کر دیا۔ مولانا محمد ایوب خان کا خان برادری سے تعلق تھا اور فارغ دیوبند تھے۔ بہت جرأت مند اور متقی تھے۔ علاقہ چھوڑ کے تمام علماء کرام نے مولانا کی زبردست تائید کی اور شیخ الحدیث مولانا نصیر الدین غور غشتوی نے اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جماعت اسلامی کی یہ جیتی ہوئی سیٹ تھی، زبردست دھاندلی ہوئی اور مسلم لیگ کے امیدوار کو جیتوا دیا گیا۔
تحریک ختم نبوت میں حصہ لیا اور پھر جماعت میں آنے کا راستہ ہموار ہو گیا۔ حاجی صاحب بتاتے ہیں کہ 1953ء میں مرزائیوں کے خلاف تحریک چلی، اس تحریک کا پنجاب میں بہت زور تھا۔ میں نے اس تحریک میں حصہ لیا اور 1953ء میں مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ کچھ دن اٹک جیل میں گزارے اور پھر ملتان سنٹر جیل میں بھیج دیا گیا۔ میں تقریباً 250 قیدیوں کے ساتھ ایک پارک میں رہا، چونکہ ہم بی کلاس کے قیدی تھے اور زیادہ علماء کرام تھے۔اجتماعی درسِ قرآن اور درسِ حدیث ہوتا تھا اور مطالعے کا بھی زیادہ وقت مل جاتا تھا۔ ہم ملتان جیل میں ہی تھے کہ فوجی عدالت نے مولانا مودودیؒ کو سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا اور مولانا کا یہ فقرہ بھی سنا گیا کہ ’’زندگی اور موت کے فیصلے زمینوں پر نہیں بلکہ آسمانوں پر ہوتے ہیں۔‘‘ جیل سے رہا ہونے کے بعد مولانا وزیر محمد خان سے ملاقات ہو گئی۔ وہ موضع نڑٹوپہ کے رہنے والے تھے، بس پھر کیا تھا، میرے لیے جماعت اسلامی کا دروازہ کھل گیا۔ خطبات، دینیات، تفہیمات، تنقیہات، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، تحریک آزادیِ ہند مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش تقریباً اُس وقت موجود سب کتابیں خرید لیں۔ خود بھی مطالعہ کرتا رہا اور تقسیم بھی کرتا رہا۔ 1956ء میں رکنیت منظور ہوئی۔ شہر حضرو جماعت کا امیر بنا دیا گیا۔

 تحریکی، غیر تحریکی رسائل سے خود بھی استفادہ کرتے اور دوسروں کو مطالعہ کے لیے دیتے۔ بعد ازاں ان رسائل کی ایجنسی بھی لی۔ بتاتے ہیں: رسالہ ترجمانُ القرآن، آئین، ایشیا، بتول، تجلی، دیوبند انڈیا اور نور کی ایجنسی لے لی اور یہ رسالے بھی تقسیم کرتا رہا۔ جماعت کے خلاف علماء نے فتوے جاری کر دیے۔ رسالہ تجلی اُن کے اکثر اعتراضات کا مدلل جواب دیتا تھا۔ تقریباً پچاس رسالے حضرو آنے لگے۔ علماء کی مخالفت نے مجھے جماعت اسلامی سے زیادہ قریب کر دیا۔ علماء علاقہ چھچھ نے بھی جماعت کی مخالفت میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اِن علماء نے 1951ء میں جماعت اسلامی کی زبردست حمایت کی تھی۔ 1957ء سے مخالفت شروع کر دی۔ شیخ الحدیث مولانا نصیر الدین بھی مخالف علماء کی صف میں کھڑے ہو گئے۔
 اُس زمانے کی جماعت کے خلاف فتوے بازی بھی عروج پر تھی، فتوے کیسے دیے جاتے۔ مولانا نے بتایا: شیخ الحدیث کے مرید حاجی سعید الرحمن آف شنیکہ نے پیر صاحب سے سوال کیا کہ آپ نے جماعت کے خلاف جو فتویٰ دیا ہے، کیا آپ نے مولانا مودودی کی کتاب کا خود مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا: نہیں! مجھے رکن الدین نے کہا کہ مولانا نے یہ اور یہ لکھا ہے۔ حاجی سعید الرحمن نے کہا کہ کیا خدا کو بھی یہی جواب دو گے۔ ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔نتیجتاً حاجی صاحب مرحوم نے رکنیت کی درخواست دے دی اور جماعت کے رکن بن گئے۔
 اجتماع ماچھی گوٹھ شرکت کا احوال بتاتے ہیں کہ 1957ء کے اجتماع ماچھی گوٹھ میں شریک ہوا۔ اُس وقت جماعت اسلامی کے کل 1300 ارکان تھے۔ مشرقی پاکستان سے صرف ارکانِ شوریٰ اس اجتماع میں شریک ہوئے۔ اس اجتماع کی کل حاضری 945 تھی۔ مولانا کا خطاب ’’تحریک اسلامی کا آئندہ لائحۂ عمل‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہو گیا، بہت معرکے کی چیز ہے۔ جماعت کے کام کو سمجھنے کے لیے ہر کارکن کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ امیر جماعت کا انتخاب ہوا۔ صرف 13 ارکان نے اختلاف کیا۔ 932 ارکان نے مولانا کے حق میں ووٹ دیا۔ اُس اجتماع میں مولانا امین احسن جذباتی ہو گئے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ کی دعوت سے ہی ہم جماعت میں آئے ہیں اور ہم آپ کی ہی امارت کا اعلان کرتے ہیں۔ پانچ دن کا اجتماع تھا۔ صرف ارکان کی مجلس تھی۔ انتہائی پاکیزہ ماحول تھا۔ سب ارکان تھے۔ گویا سب یکجان تھے اور پورے اسلامی ماحول کا نقشہ نظر آتا تھا۔ دوسرے اجتماعات کی طرح اس اجتماع میں بھی فارغ وقت میں ارکان اپنے واقعات بھی سناتے تھے۔ سید صدیق الحسن گیلانی جو راولپنڈی ڈویژن کے امیر تھے، انہوں نے ایک واقعہ سنایا: ایک حکومتی بڑے افسر تھے، مجھ سے ملاقات کے لیے وقت مانگا۔ میں نے اس کو شام 3 سے 4 بجے کا ایک گھنٹہ دے دیا۔ وہ تقریباً چھ ماہ جماعت کے خلاف مجھے بریف کرتا رہا۔ جب میں نے اُس کو کہا کہ میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔ آپ مجھے اس کام کو کرنے کے لیے جماعت اسلامی سے بہترکوئی جماعت بتائیں۔ میں اُس میں چلا جاؤں گا اور جماعت اسلامی کا کام چھوڑ دوں گا۔ میری اس بات پر وہ لاجواب ہو کر اپنے مشن میں ناکام ہو گیا اور جاتے ہوئے کہا گیلانی صاحب! اگر آپ جماعت کو چھوڑ جاتے تو میں جماعت اسلامی کا 1/3 حصہ کاٹ کر لے جاتا۔ چونکہ اُس وقت گیلانی صاحب جماعت اسلامی راولپنڈی ڈویژن کے امیر تھے اور ان کے بھائی سید اسعد گیلانی (لائل پور) موجودہ فیصل آباد ڈویژن کے امیر تھے۔ ایسے کئی واقعات ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں، لیکن یہ قافلہ اللہ کے فضل و کرم سے چل رہا ہے اور اِن شاء اللہ چلتا رہے گا۔
 حاجی صاحب نے مختلف واقعات بیان کیے جس میں ایمان کی فراوانی اور جذبے کی حلاوت جا بجا نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا ایوب کے دور میں ہم بارہ ساتھیوں کا ایک قافلہ مولانا کی ملاقات کو حضرو سے لاہور روانہ ہوا۔ اس قافلے میں مولانا محمد ایوب خانؒ مرحوم بھی تھے اور یہ غالباً 1961-62ء کی بات ہے۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی تھی۔ پورے ماحول پر آمریت چھائی ہوئی تھی۔ سخت گھٹن تھی۔ مولانا محمد ایوب خانؒ نے مولانا پر سوال کیا کہ مولانا! یہ دور کب اور کیسے ختم ہو گا؟ مولانا نے برجستہ فرمایا ’’یہ آپ کا ہی ہم نام ہے۔‘‘ ذرا وقفے کے بعد فرمایا: اللہ کے فیصلوں کو ہمارے دماغ نہیں سمجھ سکتے۔ ہم بظاہر کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ ساری فوج اس کے ساتھ ہے۔ سارے سرمایہ دار اور ڈیمو کریٹ اس کے ساتھ ہیں۔ یہ کیسے ٹوٹ کر جائے گا، لیکن جب ٹوٹ کر جاتا ہے تو اُس وقت بھی ہم حیران ہوتے ہیں کہ اتنی کچی بنیادوں پر اتنا عرصہ یہ قائم کیسے رہا؟
 بھٹو دور میں غالباً 1971-72ء میں 56 افراد کا ایک وفد مولانا مودودیؒ کی ملاقات کے لیے لاہور گیا، نمازِ عصر اچھرہ میں ادا کی، مولانا نے نماز پڑھائی، سوال و جواب کی مجلس تھی۔ ہمارے ساتھی بڑے خوش ہوئے۔ نمازِ مغرب بھی مولانا نے پڑھائی اور مجھے بلایا اور فرمایا: تمھارا واپسی کا کیا پروگرام ہے؟ میں نے عرض کی، مولانا اِن شاء اللہ صبح واپس جائیں گے۔ مولانا نے فرمایا: آپ میرے مہمان ہیں، کھانا بھی میری طرف سے ہو گا اور صبح کا ناشتہ بھی۔ میں نے عرض کی: مولانا! کوئی بات نہیں۔ مولانا نے فرمایا: آپ سب میرے مہمان ہیں اور مجھے ’’اللہ میاں‘‘ کے ہاں شرمندہ نہ کریں۔ مولانا نے تین کارکنوں کی ڈیوٹی لگائی۔ ہم سب کو اچھرہ ہوٹل پر لے گئے۔ ہم سب نے مولانا ہی کا کھانا کھایا۔
ایک دفعہ عصری مجلس میں، میں مولانا کے بالکل قریب بیٹھا ہوا تھا کہ میاں طفیلؒ محمد بھی تشریف لے آئے۔ مولانا نے میاں صاحب سے ان کی بیماری کے متعلق پوچھا: اب کیا حال ہے۔ میاں صاحب نے کہا: کچھ قدرے آرام ہے۔ مولانا نے فرمایا: دوائی استعمال کر رہے ہو۔ میاں صاحب نے کہا: دوائی بند کر دی ہے۔ پانچ چھ روپے خرچ ہوتے ہیں، جو برداشت نہیں کر سکتا۔ اُس وقت میاں صاحب جماعت اسلامی پاکستان کے امیر تھے۔ اللہ کے دین کا کام کرنے والے ہمیشہ ایسے حالات میں ہی کام کرتے رہے۔ ایک دفعہ ضلع جہلم میں جماعت اسلامی کا اجتماع تھا۔ میاں صاحب نے فرمایا: پاکستان بنے 26 سال ہو گئے ہیں اور میں 22 مکان کرائے کے خالی کر چکا ہوں۔ اس لیے کہ مالک مکان زیادہ کرایہ کا مطالبہ کرتا۔ جو میری برداشت سے زیادہ ہوتا۔ میں مکان خالی کر دیتا تھا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، میاں طفیل محمدؒ سابق امیر جماعت قاضی حسین احمد اور موجودہ امیر جماعت سید منور حسن بارے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا: میں نے مولانا مودودیؒ ، میاں طفیل محمدؒ ، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی گزارنے والے اور اپنے دامن کو ہر داغ سے بچانے والے اور خوفِ خدا اور اطاعت رسول ہر وقت پیش نظر رکھنے والے پائے ہیں۔
حاجی صاحب نے جماعت کی مختلف ذمہ داریاں ادا کیں اور اخلاص سے بندھے رہے، بتاتے ہیں: میں جماعت اسلامی شہر حضرو کا امیر رہا ہوں۔ ضلعی شوریٰ کا رکن بنا دیا گیا۔ راولپنڈی ڈویژن کی شوریٰ کا ممبر بنایا گیا۔ اُس وقت سید صدیق الحسن راولپنڈی ڈویژن کے امیر تھے، ہر ساتھی انتہائی خلوص سے دعوتِ دین کا کام کرتا تھا۔ اسی امید پر کہ یہ وہی دعوت ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی ہے۔ پھر امیر ضلع کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی۔ ضلع اٹک کی ذمہ داری تقریباً بارہ سال میرے پاس رہی۔ اپنے دورۂ افغانستان کا تذکرہ یوں کیا: مولانا فتح محمد مرحومؒ جو اُس وقت امیر صوبہ پنجاب تھے، کی قیادت میں افغانستان کا دورہ کیا۔ اُس وقت مجاہدین نے صوبہ کنڑ روس سے آزاد کرا لیا تھا۔ جلال آباد روس کے قبضے میں تھا۔ مجاہد کمانڈر نے فرمایا کہ ہمارا مقابلہ روسی فوج سے ہوا۔ ہمارا ایک ساتھی اُس جگہ شہید ہو گیا۔ مقابلہ بہت سخت تھا، ہمیں کچھ پیچھے جانا پڑا۔ ہم نے اپنے شہید کو اُسی جگہ ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا اور اُس کے اوپر کانٹے دار شاخیں رکھ دیں۔ ساڑھے تین ماہ کے بعد جب ہم نے دوبارہ اُس علاقے کو فتح کیا اور اپنے شہید کو دیکھا تو وہ اُسی طرح جیسا ہم نے رکھا تھا، پڑا ہوا تھا۔ یعنی ایسے بے شمار واقعات ہمیں پیش آتے رہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی غیبی امداد تھی۔ اس وفد میں موجودہ نائب امیر جماعت ڈاکٹر کمال بھی ہمارے ساتھ تھے۔ میں تقریباً دس سال صوبائی اور مرکزی شوریٰ کا ممبر رہا ہوں اور جناب قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے۔ تاریخی دھرنا جو بے نظیر بھٹو کے خلاف راولپنڈی میں ہوا۔ اُس میں بھی شریک رہا اور مرد آہن کو باطل کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونے کا منتظر بھی دیکھا۔ تحریک اسلامی کا راستہ آسان نہیں، گرفتاریاں اور جیلیں اس راستے کا بنیادی پتھر ہیں۔ حاجی صاحب متعدد مرتبہ جیل گئے۔ انہوں نے بتایا کہ بھٹو دور میں، میں گرفتار ہوا اور ساتھیوں کے ساتھ اٹک جیل میں رہے۔ کچھ عرصہ کے بعد جب ہم سب رہا ہوئے، جیل کے گیٹ پر ہمارے ساتھی برکت علی خان آف برہان نے نعرہ لگایا: ’’جیل میں آنا پھر منظور۔۔۔ بھٹو شاہی نامنظور‘‘
بے نظیر بھٹو کے دور میں جیل میں کچھ وقت گزارا اور آخر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ضلع اٹک کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا اور رات کو پولیس کی بند گاڑیوں میں جیل جہلم پہنچا دیے گئے۔ جیل میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، جیل میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، جمعیت اور جماعت اسلامی سب کو ایک ہی بارک میں رکھا گیا اور بہت اچھے دن گزرے۔ اُس وقت میری عمر 88 سال تھی۔ مجھے اور ڈاکٹر اللہ بخش فتح جنگ کو زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے باقی قیدیوں سے کچھ پہلے رہا کر دیا گیا۔ تقریباً پانچ دفعہ جیل جانے کا موقع ملا۔ سب سے پہلے ختم نبوت کی تحریک میں 1953ء میں گرفتار ہوا۔ بھر بھٹو دور میں اور بے نظیر بھٹو دور کے آخری پرویز کے دور میں گرفتار ہوا۔
 مولانا مودودیؒ سے اپنی ملاقاتوں بارے بتایا: میری ملاقاتیں مولانا مودودیؒ سے لے کر ہر قائد سے ہوئی ہیں۔ ہر قائد کو خلوص سے جماعت اسلامی کی دعوت دیتے ہوئے پایا ہے۔ چونکہ ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور کئی چھوٹے اور بڑے جلسوں میں شریک ہونے کا موقع ملتا رہا ہے۔ ہر پروگرام کو قرآن و سنت کے مطابق ہی پایا ہے۔ جماعت اسلامی کے اوپر کئی بار مشکلات آئیں، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ہر مشکل آسان ہو گئی۔ مولانا مودودیؒ کا درسِ قرآن جو اُس وقت لاہور مسجد مبارک قلعہ گوجر سنگھ ہوا کرتا تھا، اکثر شریک ہوتا رہا۔
 کوثر نیازی رسالہ ’’شہاب‘‘ نکالا کرتا تھا اور ایشیا کی طرح ہم اسے بھی بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ کوثر نیازی پیپلز پارٹی میں چلا گیا۔ بھٹو کو خوش کرنے کے لیے اُس نے رسالہ شہاب کے پہلے صفحے پر ایک بہت بے ہودہ فوٹو چھاپ دیا۔ اُسی دن شورش کاشمیریؒ رسالہ ’’شہاب‘‘ لے کر مولانا کے پاس اچھرہ پہنچ گئے اور مولانا سے کہا کہ کوثر نیازی نے یہ بہت بری حرکت کی ہے۔ مولانا نے شورش کاشمیری کو فرمایا: اِس ’’صاحب‘‘ نے ایسا کرنا پسند کر لیا ہے۔ شورش نے کہا: اب بھی یہ شخص آپ کی نظر میں ’’صاحب‘‘ ہے؟ جواباً مولانا نے فرمایا: کیا میرے بزرگوں نے جو اخلاق مجھے سکھایا تھا، اِس شخص کے لیے چھوڑ دوں؟ کوثر نیازی کو پی پی پی نے وزیر بنا دیا۔ ایک دفعہ کوثر نیازی نے مکہ مکرمہ میں مولانا مودودیؒ سے ملاقات کی اور درخواست کی۔ مولانا مجھے معاف کر دیں۔ مولانا نے فرمایا: ’’تم خود سوچ لو کہ کس سے کٹے ہو اور کس سے جڑے ہو۔‘‘
 ایک عصری مجلس میں ایک آدمی نے سوال کیا: فلاں صدر یا وزیراعظم اچھا ہے یا اُس کا دور اچھا ہے؟ مولانا نے برجستہ فرمایا: میں ہر حکومت کا ستایا ہوا ہوں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ کتنا اچھا اور کتنا برا ہے۔ اسی مارچ میں مجھے ایک ساتھی حفیظ الاسلام آف شمس آباد نے بتایا کہ میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مولانا سے اچھرہ لاہور میں ملا۔ مولانا نے پوچھا: کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا: حضرو کے گاؤں شمس آباد ضلع اٹک سے آیا ہوں۔ مولانا نے فرمایا: مولانا محمد ایوب خان، مولانا شمس الرحمن اور مجدد کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: یہ میرے مہربان ہیں اور میری اِن سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مولانا کی کتنی وسیع نظر تھی۔ یعنی پورے پاکستان میں رہنے والے سب ساتھیوں سے باخبر رہتے تھے۔
  اجتماعِ عام میں شرکت کے لیے اپنے دوستوں کے ہمراہ اٹک سے شرکت کے لیے لاہور آئے، اس کی یاددیں تازہ کرتے ہوئے بتایا: 1963ء میں جماعت اسلامی کو کھلے میدان میں جلسہ کرنے کی اجازت نہ ملی اور جماعت نے ایک گیٹ کے سامنے جلسہ کیا۔ اُس وقت جماعت کے ارکان اور کارکنان کی حاضری چالیس ہزار سے بھی زائد تھی لاؤڈ سپیکر پر بھی پابندی تھی۔ مولانا سٹیج پر تقریر کر رہے تھے اور مولانا کی لکھی ہوئی تقریر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایک ہی وقت پر کارکن پڑھ رہے تھے۔ تقریر کے دوران سلنسر لگے پستول سے مولانا پر حملہ کیا گیا۔ جس سے اللہ بخش شہید ہو گئے۔ مولانا کو کہا گیا کہ آپ بیٹھ جائیں۔ فرمایا: ’’اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون ہو گا؟‘‘ رات کو کہا گیا کہ آپ رات یہاں قیام نہ کریں۔ مولانا نے فرمایا: ’’جس گولی پر میرا نام لکھا ہوا ہو گا، وہ میرے سوا کس کو لگے گی؟۔‘‘ دوسرے دن کارکنوں کے وفود بنائے گئے اور سارے لاہور میں لوگوں کے گھروں، دکانوں، کارخانوں اور مسجدوں میں جماعت اسلامی کی دعوت پہنچا دی گئی اور اس سے جماعت کے بہت اچھے اثرات رہے۔ ایک وفد کے ساتھ میں بھی تھا۔ اس کے بہت اچھے اثرات تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے قرآن و سنت کی دعوت اگر اخلاص کے ساتھ پیش کی جائے تو بہت زیادہ اثر رکھتی ہے۔
 اپنے جماعتی دور، کارکنانِ جماعت اور جماعت بارے بتایا کہ میرا تعلق جماعت اسلامی سے 1951ء میں ہوا اور آج 2012ء ہے۔ میں مقامی امیر، ضلعی امیر، ڈویژن کی شوریٰ کا رکن، صوبائی شوریٰ اور مرکزی شوریٰ میں رہ چکا ہوں۔ اِن 61 سالوں میں، میں نے کسی آدمی کو کسی شعبے میں ایک پائی کی خیانت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ خوفِ خدا ررکھتے ہوئے ہر کارکن کو کام کرتے ہوئے دیکھا۔ ہر ساتھی نے اس بات کو سامنے رکھا کہ ’’یہاں تو ہو جائے گا، وہاں کیا ہو گا؟‘‘
ہمارے ایک رکن جماعت محمد یعقوب مرحوم آف کالو کلاں تھے۔ بھٹو دور میں سوشلزم کی تحریک چل رہی تھی۔ سوشلزم کے رَد میں کتابیں اور رسالوں میں کثرت سے مضمون چھپ رہے تھے اور اُن کو مطالعے کا بڑا شوق تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے کہا کہ سوشلزم کے باطل ہونے پر میرے دماغ میں اتنا مواد جمع ہو گیا ہے کہ اب مزید مطالعے کی ضرورت نہیں ہے۔
 کارکنان کے جذبہ اخلاص و دعوت بارے یہ واقعہ سنایا: ملک محمد یعقوب مرحوم نے مجھے کہا: جبکہ میں حضرو شہر کا امیر تھا، جماعت اسلامی کے کام کے لیے کہیں بھی جانے کا کوئی حکم ہو تو میرا نام لکھ دیا کرو۔ چاہے وہ کراچی تک ہو۔ یعنی ملک یعقوب صاحب جماعت کے کام کو اپنے ذاتی کاموں پر ترجیح دیتے تھے، وہ 1976ء میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ کراچی شہر میں جماعت اسلامی کے بزرگ کارکن نے ایک دکاندار جو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے تھے، اور وہ بھٹو دور تھا۔ اُس کی دکان پر اُس سے ملاقات کی اور کچھ کتابیں مطالعے کے لیے اس کو دیں۔ اس طرح اس کی دکان پر اُس نے ملاقاتیں کرتے رہے۔ ایک دفعہ جب ملاقات کے لیے اس کی دکان پر گئے تو دکان بند تھی۔ پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ آج گھر ہی ہیں۔ یہ بزرگ اُن کے گھر چلے گئے۔ دروازے پر دستک دی، وہ باہر آیا۔ دیکھا تو وہ ہی ملاقات کے لیے آیا، اُس کو غصہ آیا اور دو تین تھپڑ مار دیے اور کہا کہ یہاں کیوں آ گئے ہو؟ جماعت کی دعوت دینے والے بزرگ مسجد میں چلے گئے۔ نفل پڑھے اور دعا کی۔ یا اللہ! میں تو تیرا پیغام پہنچانا چاہتا ہوں۔ میری ذاتی تو کوئی غرض نہیں۔ دل تو تیرے اختیار میں ہیں۔ بس پھر کیا تھا، تھوڑی دیر بعد وہ دکاندار سخت پشیمان ہو کر باہر آیا، پوچھا: کہ وہ بابا کہاں گیا ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ سامنے مسجد میں چلا گیا ہے۔ اُس نے بزرگ سے معافی مانگی۔ اُس کے بعد وہ مستقل طور پر جماعت اسلامی میں شامل ہو گیا۔

 حاجی مجدد خان کی گفتگو کی دلگداز بھی تھی اور پُرسوز بھی، اللہ ان کی کوششوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔

1 comments:

Imran Bhai, mujhey pehly shak tha... per abb yaqeen ho gya hay... k .. aap nazar k muamly mein tu shayed kamzoor hoon..magar baseerat k muamly mein buhat taiz hain...

Aao ka Islami Bhai
Ali

Post a Comment