Tuesday 27 August 2013

پیپلزپارٹی سے جماعت اسلامی تک

| |
شیخ عبد الوحید نہایت عمدہ ، نفیس اور سادہ انسان تھے۔ پیپلز پارٹی میں رہے اور ’’ جیالے‘‘ کے طور پر جانے جاتے رہے۔
ملازمت کے سلسلے میں سعودیہ گئے۔ سعودی بن لادن میں بطور آڈیٹر کام کیا۔ فہم قرآن کلاسز کے ذریعے تحریک اسلامی کے حلقے سے متعارف ہوئے تو ان کی زندگی کا رنگ ڈھنگ بدل گیا۔ ان کا مطالعہ بھی خوب تھا۔ اور در س قرآن بھی خوب دیتے۔ قرآن کا خصوصی شغف رکھتے۔ ان کی گفتگو قرآن و سنت کی دعوت کے گرد گھومتی۔ دعوت و تربیت انکی طبیعت اور مزاج کا خاص وصف تھی۔ تقریباً بیس برس اس حلقے کے ساتھ وابستہ رہے اور مختلف ذمہ داریاں نبھائیں۔ 
بہاولپور واپس آئے تو آتے ہی جماعت کے ساتھ وابستہ ہوگئے، دعوت و تربیت ان کے مزاج کا خاص امتیاز اور وصف تھا ۔تقریباً 20برس اس حلقے کے ساتھ وابستہ رہے اور مختلف ذمہ داریاں نبھائیں ۔ 

بہاولپور واپس آئے تو آتے ہی جماعت کے ساتھ وابستہ ہو گئے ،دعوت و تربیت ان کے مزاج کا خاص امتیاز اور وصف تھا۔اقامت دین کی جدوجہد ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھی ۔اسی بارے اْٹھتے بیٹھتے سوچتے ،پلان کرتے اور عمل درآمد کیلئے کمر بستہ ہو جاتے ،آسان فہم اور سادہ زبان سے دلوں کے تار چھیڑتے ،خود بھی روتے اور دوسروں کو بھی اس درد سے آشنا کرتے ، افراد سازی میں خاص درک رکھتے ۔

بہاولپور آئے تو یہاں کے لوگوں کو اپنے کردار و عمل سے گرویدہ کر لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 2011 ء کے لوکل باڈیز کے انتخابات میں حصہ لیا۔مسجد ان کا مورچہ ٹھہری ،حلقے کی تمام مساجد کے نمازیوں سے ربط ضبط بڑھایا ۔مقابل سابق ایم این اے کا بھائی اور ایک سابق ناظم تھا ۔دونوں مضبوط اْمیدوار تھے ۔شیخ صاحب کے بارے پراپیگنڈہ کرتے اور کہتے کہ سعودیہ پلٹ ہیں جس کی حلقے میں جان ہے نہ پہچان اور ہمارے مقابل میدان میں آیا ہے۔لیکن شیخ صاحب کے عزم اور توکل کے سامنے اس فرسودہ نظام کے سارے مہروں اور اداروں کی ساری چالیں مات ہو گئیں اور یہ ناظم منتخب ہو گئے اور منتخب ہونے کے بعد اپنے حلقے میں مثالی کام کیا۔پہلے قیم شہر بنائے گئے پھر امیر شہراور آخر میں امیر ضلع ،چار سال امیر ضلع رہے ،تحریک کے کام کو آگے بڑھانے بارے ہمیشہ متحرک رہے ۔

شوریٰ کے اجلاسوں میں شرکت کیلئے منصورہ تشریف لاتے تو ان کے ساتھ ملاقات ہوتی ،نہایت سادہ، شفیق اور عمدہ انسان تھے ۔ان کا چہرہ ان کے باطن کا آئینہ دار ہوتا ۔حقیقتاً وہ ایک مومن مسلم تھے ۔شوریٰ میں ان کی گفتگو ان کے جذبات دل کی ترجمان ہوتی ۔اپنی رائے کا بے لاگ اظہار کرتے ۔
کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ دفتر میں تشریف لائے ،چائے پی ،اخبار دیکھا اور مختصر گفتگو کے بعد تشریف لے گئے لیکن یہ ان کا خاص وصف تھا وہ جب بھی آتے تو ملتے ضرورتھے اور حال احوال پوچھتے گو یا یہ ان کا اپنے خصوصی تعلق کا اظہار ہوتا۔وہ اتنی جلدی چلے جائیں گے اس کا یقین نہیں آتا۔لیکن یہ اللہ کے فیصلے ہیں ۔ڈاکٹر عبد المحسن ہادی کے بعد شیخ عبد الوحید کی وفات بہاولپور ہی نہیں جماعت کیلئے بھی بہت بڑا سانحہ ہے ۔جانے والا چلا گیا ہے اور دنیا میں آنے والے ہر انسان کو جانا ہی ہے ۔لیکن اتنا نفیس ،پاکیزہ کیش اور محبت کرنے والا انسان ہمارے درمیان سے اْٹھ گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے۔ درجات بلند کرے اور اعلیٰ علیین سے نوازے ۔

انہوں نے اپنے پیچھے دو بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑی ہیں نماز جنازہ سے قبل نائب قیم جماعت میاں مقصود احمدنے تذکیر کی اور سابق ایم پی اے امیر جماعت اسلامی پنجاب ڈاکٹر سید وسیم اختر نے نماز جنازہ پڑھائی ۔نماز جنازہ میں ایسے لگتا تھا کہ پورا بہاولپور اْمڈ آیا ہے ۔یہ دراصل جانے والے کیلئے اہل بہاولپور کی محبت کا ایک انداز تھا۔ ہر آنکھ نم اور آنسو سے تر تھی ۔کہ جانے والا خود بھی محبتوں کا سفیر تھا اور اللہ کے راستے کی طرف نہایت اخلاص محبت کے ساتھ بلانے اور نیکی کے بیج ڈالنے والا تھا۔ ان کی زندگی صبح کے اس ستارے کی طرح تھی جو روشنی کا پیغام دیتا ہے اور جلد ہی رخصت ہو جاتا ہے ۔روشنی کا یہ پیغام بر چلا گیا مگر روشنی کا یہ سفر تک جاری رکھنے اور آگے بڑھانے کا درس دے گیا ہے کہ یہی حقیقی کامیابی کا راستہ ہے ۔ 

1 comments:

buhat khoob

Post a Comment