مصرمیں جمہوریت کا قتل ، عرب بہار سے خوف زدہ ٹولے کی سازش کے سوا کچھ نہیں ہے، عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر کو نظر بند کرکے فوجی حکم نامے کے ذریعے اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنا فوجی قبضے اور بغاوت سے جمہوریت کے اس قتل پر مغرب کارویہ دوہرے معیار کا حامل قابل مذمت اور شرمناک ہے۔ مغرب کے اپنے معیارات اورمفاد ہیں ، اگر جمہوریت اس کے مفادات کی حفاظت کرے اور وفادار ہو تو اسے وہ پسند ہے اور اگر جمہوریت اس کے معیار پر پورا نہ اُترے تو اُسے فوجی آمریت کو بھی گلے لگانے میں عار محسوس نہیں ہوتا۔ مغرب کا یہ دوہرا رویہ اور معیار کوئی نیا نہیں ، امریکا اور یورپ کس جمہوریت کو مانتے ہیں؟ یہ ان کے مفادات کے انحصار پر ہے۔ ان کے مفادات آمریت سے پورے ہوں تو وہ ان کی پسندیدہ کیااور اگر جمہوریت پورے کرے تو وہ پسندیدہ ،کیاچند ہزار افراد کا مظاہرہ کسی کو یہ حق دیتاہے کہ ایک منتخب جمہوری حکومت کو بیک جنبش قلم برطرف کردے ؟ ہرگز نہیں !صدر مرسی کے انتخاب کو بمشکل ابھی ایک سال ہی گزرا تھاکہ فوجی انقلاب برپا ہوا، صدر مرسی کو نظر بند کردیا گیا۔ یہ سارا کھیل دراصل اس ناٹک کا حصہ تھا جس میں فوج ، عدلیہ اور مصر کے سیکولر افراد کے ساتھ بعض مغربی ممالک (امریکہ ، اسرائیل )اور بعض اسلامی ممالک (کویت ، عرب امارات اور سعودی عرب ) مصر میں عرب بہار سے ناخوش اور اسلامی احیاء کی لہر سے خوف ردہ تھے ، ان تمام ممالک نے غیر جمہوری ،فوجی آمریت کو خوش آمدید کہا اور جمہوریت کے قتل پر شادیانے بجائے ، اور مالی امداد کی ، اخوان اور اسلام پسندوں کی مصر میں کامیابی ، مصر کے سیکولر طبقے اور میڈیا کے لیے نہایت پریشانی کا باعث تھی ،نتیجتاً اسلام پسندوں کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی پروپیگنڈہ مہم کا آغاز کردیاگیا ،اسلام ، اسلام پسندوں ،اسلامی شریعت ، اسلامی سزاؤں کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کیا گیا اور کہا گیاکہ اسلام آئے گا تو عیسائیوں کو ذمی بنادیا جائے گا ،۔۔۔سیاحت کا خاتمہ ہوجائے گااور ملک میں معاشی تباہی آئے گی ، حالانکہ یہ وہی میڈیا تھا جس کے سامنے حسنی مبارک کا 30سالہ دور بھی تھا۔ جس نے عوام کو معاشی بدحالی سے دوچار کررکھاتھا۔ اس میڈیا نے حالات سدھارنے کے لیے صدر مرسی کو 365دن بھی نہیں دئیے حالانکہ حسنی مبارک کو 30سال قبول کیے رکھا۔ یہ زردصحافت کا بھیانک اور متعصبانہ چہرہ ہے ۔سیکولر میڈیا اور زردصحافت کے حامی ’’اسلام ‘‘ کے نام سے چڑتے ہیں۔ یہ نام کے مسلمان ہیں مگر عملاً اسلام ان کو پسند نہیں جو اُن کے اللے تللوں پر پابندی لگاتاہے۔ سیکولر ز مادر پدر آزادی چاہتے ہیں۔ اسلام ان کو بطور نظام پسند نہیں ۔
ایک منتخب عوامی حکومت کو اس طرح ہٹانا اور فوج کا تسلط قائم کرنا کسی طرح قرین انصاف نہیں ہے ۔ مصر کے حالات بگاڑنے ،گیس، تیل اور بجلی کے بحران میں سیکولراور مفادپرست عناصر مکمل طور پر شریک تھے ۔ فوجی مداخلت کے اگلے ہی روز گیس، تیل اور بجلی کی بحالی ہوگئی ۔ حسنی مبارک کے 30سالہ دور میں پولیس ، فوج اور عدلیہ نے جو مراعات اور اختیارات کو حاصل کیں ۔ ان کسی طرح بھی چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کسی منتخب جمہوری حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا معیار اور کسوٹی کیاہے ؟ صرف ایک سال (365دن )،فوج کو یہ اختیار کس نے تفویض کیا کہ وہ چند سو افراد کے ایک مظاہرے کے نتیجے میں نو منتخب صدر ، اس کی کابینہ اور حکومت کو برطرف کردے ؟ ایوان بالا میں واضح اکثریت رکھنے والی اخوان المسلمون اور دیگر اسلام پسندوں نے پانچ بار عوامی ریفرنڈم اور انتخابات جیتے تھے اور ووٹ کی طاقت سے فتح یاب قرار پائے تھے،سیکولر سٹوں کے پاس عوامی طاقت کے مقابلے کی تاب نہیں تھی لہٰذا پہلے عدلیہ اور پھر فوج کی مداخلت کے ذریعے جمہوریت کا قتل کیاگیا۔ کیا فوج کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ منتخب جمہوری حکومت کو برطرف کرے اور خود برسراقتدار آجائے ؟ فوج قانون سے بالا تر نہیں اور نہ ملک کا دستور اس کی اجازت دیتاہے۔فوج ملک کے دستور اور قانون کی پابند ہے ، اور ہر فوجی جب اپنے عہدے کا حلف لیتاہے تو وہ دستور کا پابند رہنے کا اعلان کرتاہے ، اگر کوئی اپنے لیے گئے حلف کی خلاف ورزی کرتاہے اور دستور توڑتاہے ،تو دستور کی خلاف ورزی پروہ بغاوت کا مرتکب ہوتاہے۔ جس پر اس بغاوت کے نتیجے میں اس پر مقدمہ چلایا جاسکتاہے۔ اگر یہ ہوجائے تو آئندہ اس فتنے کا راستہ رک جائے گا اور کسی کو دستور توڑنے کی جرأت نہیں ہوگی۔
لگتا یہ ہے کہ صدر مرسی کے حلف اٹھاتے ہی ان کے مخالفین نے ان کے خلاف سازشوں کا ڈلوایاتھا۔ اور ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ان کی منتخب حکومت کو برطرف کردیاگیا۔صدر مرسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ فوج اور عدلیہ ان کی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف اتنا بڑا اقدام کرے گی ، صدر مرسی نے 12اگست 2012ء کو حسنی مبارک کے مقررکردہ فوجی سربراہ فیلڈ مارشل طنطاوی کو برطرف کیا۔ 3نومبر2012ء کو صدر مرسی نے دستور میں اسلامی دفعات کا اضافہ کرکے ایوان بالا میں پیش کیا جسے منظور کیاگیا ۔
15تا20دسمبر 2012ء کو 64%عوام نے دوسرے راؤنڈ میں دستوری ترامیم میں اسلامی دفعات کی توثیق کردی ۔
2جولائی 2013ء کو عدلیہ نے سینٹ کو معطل کرنے کااعلان کردیا ۔ جو صدراور الاخوان کے خلاف طبل جنگ کے مترادف تھا، 23جون کو جنرل عبدالفتاح السیسی نے بیان دیاکہ اگر ملک میں ہنگامے ہوئے تو فوج مداخلت کرے گی ۔ 28جون کو امریکی سفارتخانے نے اپنے زائد عملے کو مصر چھوڑنے کے احکامات جاری کیے اور 29جون کو صدر اوباما نے صدر مرسی کو تعمیری رویہ اپنانے کامشورہ دیا ۔ حالانکہ ان کا رویہ پہلے ہی تعمیر اور مشفقانہ تھا او ر وہ اپنوں اور پرایوں کو ساتھ لے کر چل رہے تھے ۔
اخوان کے بارے میں تواتر کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ان کو حکومت کاکوئی تجربہ نہیں ہے اور حکومت اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔حالانکہ ابھی حکومت کو ایک سال بھی نہیں گزرا تھا۔ 30جون کو صدر مرسی کی مخالف سیکولر جماعتوں نے تحریر چوک میں مظاہرہ کیا ، جس میں چند ہزار سے زائد افراد نہیں تھے اور نہ پورے مصر کے نمائندہ ،فوج نے ان کی سرپرستی کی ، ان کے ساتھ اپنی شرکت کا اظہار کیا اور فوجی ہیلی کاپٹر ز نے اس کی فلم بنا کر میڈیاکو جاری کی ،یہ ایسی کیفیت تھی جو جمہوریت اور ووٹ پر یقین رکھنے والوں کو جمہوریت سے مایوس اور دور کرنے کا سبب بنتی ہے ، اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا اس دور میں جمہوریت کے ذریعے اسلام کا نفاذ ممکن ہے ؟ جب اپنے بھی اور غیر بھی اسلام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے راستہ روکتے ہیں اور پرامن جدوجہد کا راستہ بند کردیتے ہیں تو پھر اس ظلم اور زیادتی کے نتیجے میں ایک ایسا رویہ پروان چڑھتاہے جو غصے کے اظہار کا غماز ہوتاہے۔ لیکن اس کا ذمہ دار مغرب ہے جو معاشروں میں تبدیلی کے لیے پرامن راستوں کو بند کرتاہے اسی بندش کے نتیجے میں جو تشدد کاراستہ پروان چڑھتاہے یہ سب مغرب کا اپنا کیا دھرا ہے۔ مغرب کے یہی رویے ہیں جس کے باعث مغرب کی وسعتیں تنگنائیوں میں بدل رہی ہیں۔ کتنی بڑی طاقتیں ہمارے سامنے ملیا میٹ ہوگئیں ، مغرب کے خاتمے کے دن بھی قریب ہیں۔اس میں شک نہیں کہ اسلامی نظام کا قیام ایک صبر آزما اور طویل جدوجہد کا متقاضی ہے ، پارلیمان میں چند نشستوں کا حصول اور ایوان اقتدار اس کی منزل ہرگز نہیں ، اس کی منزل اللہ کی رضا کا حصول ہے جس کے نتیجے میں اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ ہو ، مغرب کے جمہوری اور لادینی نظام کو جمہوری نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اسلام اور اسلامی تحریکوں نے مغرب کے جمہوری نظام کو کبھی تسلیم کیا اور نہ حمایت کی ہے، اسلامی تحریکوں نے اس جمہوری نظام کو دستورمیں تبدیلی کے ذریعے اسلامی نظام کی طرف پیش قدمی کی بعض مقامات پر حکمت عملی کے تحت دستور میں تبدیلی اور بعض دوسرے مقامات پر حکومت کے ذریعے تبدیلی کی کوشش کا راستہ اختیار کیاگیا۔ اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے مختلف مقامات پر مختلف حکمت عملی اپنائی گئی ۔ دعوت کاابلاغ اور مسلسل جدوجہد ،کامیابی کے لیے ناگزیر اور بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مستقل اور پائیدار تبدیلی ہمیشہ رائے عامہ کی تبدیلی سے آتی ہے ،یہ سوال بھی بعض اوقات پریشانی کا سبب بنتاہے کہ اتنے سال جدوجہد کرتے ہوگئے مگر کامیابی نہیں ملی ،اصل بات یہ ہے کہ ہم جدوجہد اور کوشش کے مکلف ہیں کامیابی کے نہیں کامیابی تو ،انسانوں کی کوشش سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے مشروط ہے ۔ وہ چاہے تو ساڑھے نو سوسال (950)کی جدوجہد کے بعد بھی کامیابی عطا نہ کرے اور چاہے تو 23سال کی قلیل مدت میں کامیابی سے ہمکنار کردے۔ یہ اللہ کی حکمتیں ہیں اور وہی ان کو خوب جانتاہے کہ کس کو کب کا میابی عطا کرنی ہے ؟
مصر کی موجودہ کیفیت اور صورت حال ہر صاحب فہم و شعور کے لیے حیرانی کا باعث ہے کہ جس میں مغرب کا دوہرا معیار اور رویہ سامنے آتاہے۔ایک طرف جمہوریت کا راگ اوردوسری طرف فوجی آمریت کا ساتھ دراصل اسلام دشمنی پر مبنی رویہ ہے ، مغرب کے دوہر ے معیار نے اس کے چہرے سے نقاب ہٹادیاہے اور صدر مرسی کی حمایت نہ کرنے والے بھی مغرب کے اس رویے سے اپنی بے زاری اور نفرت کا اظہار کررہے ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ صدر مرسی کو ان کے جمہوری حق سے محروم کرنا کس طرح قرین انصاف نہیں ۔
اخوان کے ساتھ فوج اور پولیس کا رویہ مخاصمانہ اور متعصبانہ ہے۔ اخوان کے دفاتر جلا دیئے گئے ،ان کے ہزاروں کارکنان شہید کردیئے گئے ، معصوم بچے ،بوڑھے ، خواتین اور نوجوانوں پر ٹینک چڑھا دیئے گئے ، پرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لہو کے دریا بہادیئے گئے۔سیکولر میڈیا عدلیہ اور فوج کے اس رویے پر فرعون بھی خوش ہورہاہوگاکہ یہ ہیں میرے صحیح فرزند ،اور وارث ہیں۔
اعلیٰ عدلیہ ،مصری فوج اور پولیس کا رویہ دوہرے معیار کا غماز، جمہوریت کش اور اخوان اور ان کے اتحادیوں کی حکومت کو ناکام بنارہاہے۔ صدر مرسی نے مفاہمت کی پالیسی کے تحت اپنی وزارت میں بعض ایسے لوگ بھی شامل کیے جو ان کی اپنی جماعت کے نہیں تھے اور وہ حکومت کے خلاف کام کرتے رہے۔ اور اُسے ناکام کرنے میں لگے رہے ۔اس کو صدر مرسی کی وسیع القلبی کہیں یا سادگی بہرحال انہوں نے پورے اخلاص اور نیک نیتی کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی جبکہ مغرب کا متعصب میڈیا اخوان کوبطور شدت پسند جبکہ سیکولر، جمہوریت کش افراد کو ہیرو بنا کر پیش کررہاہے۔
مصر کے موجودہ حالات کی تمام تر خرابی ، بدامنی ، قتل و غارت اور کشت و خون کے ذمہ دار امریکہ ، اسرائیل اور وہ ممالک (سعودی عرب ، کویت اور متحدہ عرب امارات )ہیں جنہوں نے آمریت کو پروان چڑھانے کے لیے پروردہ ٹولے کو 12ملین ڈالر رقم دینے کا اعلان کیاہے۔
ایسے وقت میں اسلامی تحریکات کے لیے چیلنج بڑھتے جارہے ہیں۔ان چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لیے عالمی اسلامی تحریکات کو مل جل کر آگے بڑھنااور راستہ نکالناہوگا۔ دو چار ہاتھ لب بام رہ جانے کے باوجود کامیابی سے دو ر کئے جانے اوران عالمی سازشوں کو نہایت صبر و حکمت اور فہم و فراست اور حوصلے کے ساتھ انگیز کرنا اور اپنے جلو میں چلنے والوں کے جذبوں ، حوصلوں اور ولولوں کو ماند نہ پڑنے دینا، اور منزل کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے انقلاب کاراستہ ہموارکرتے چلے جانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔اندھیروں کے پجاری شکست سے دوچار ہوں گے اور روشنی اور اُجالے دنیا کا مقدر بن کر رہیں گے،ان شاء اللہ۔
ایک منتخب عوامی حکومت کو اس طرح ہٹانا اور فوج کا تسلط قائم کرنا کسی طرح قرین انصاف نہیں ہے ۔ مصر کے حالات بگاڑنے ،گیس، تیل اور بجلی کے بحران میں سیکولراور مفادپرست عناصر مکمل طور پر شریک تھے ۔ فوجی مداخلت کے اگلے ہی روز گیس، تیل اور بجلی کی بحالی ہوگئی ۔ حسنی مبارک کے 30سالہ دور میں پولیس ، فوج اور عدلیہ نے جو مراعات اور اختیارات کو حاصل کیں ۔ ان کسی طرح بھی چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کسی منتخب جمہوری حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا معیار اور کسوٹی کیاہے ؟ صرف ایک سال (365دن )،فوج کو یہ اختیار کس نے تفویض کیا کہ وہ چند سو افراد کے ایک مظاہرے کے نتیجے میں نو منتخب صدر ، اس کی کابینہ اور حکومت کو برطرف کردے ؟ ایوان بالا میں واضح اکثریت رکھنے والی اخوان المسلمون اور دیگر اسلام پسندوں نے پانچ بار عوامی ریفرنڈم اور انتخابات جیتے تھے اور ووٹ کی طاقت سے فتح یاب قرار پائے تھے،سیکولر سٹوں کے پاس عوامی طاقت کے مقابلے کی تاب نہیں تھی لہٰذا پہلے عدلیہ اور پھر فوج کی مداخلت کے ذریعے جمہوریت کا قتل کیاگیا۔ کیا فوج کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ منتخب جمہوری حکومت کو برطرف کرے اور خود برسراقتدار آجائے ؟ فوج قانون سے بالا تر نہیں اور نہ ملک کا دستور اس کی اجازت دیتاہے۔فوج ملک کے دستور اور قانون کی پابند ہے ، اور ہر فوجی جب اپنے عہدے کا حلف لیتاہے تو وہ دستور کا پابند رہنے کا اعلان کرتاہے ، اگر کوئی اپنے لیے گئے حلف کی خلاف ورزی کرتاہے اور دستور توڑتاہے ،تو دستور کی خلاف ورزی پروہ بغاوت کا مرتکب ہوتاہے۔ جس پر اس بغاوت کے نتیجے میں اس پر مقدمہ چلایا جاسکتاہے۔ اگر یہ ہوجائے تو آئندہ اس فتنے کا راستہ رک جائے گا اور کسی کو دستور توڑنے کی جرأت نہیں ہوگی۔
لگتا یہ ہے کہ صدر مرسی کے حلف اٹھاتے ہی ان کے مخالفین نے ان کے خلاف سازشوں کا ڈلوایاتھا۔ اور ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ان کی منتخب حکومت کو برطرف کردیاگیا۔صدر مرسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ فوج اور عدلیہ ان کی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف اتنا بڑا اقدام کرے گی ، صدر مرسی نے 12اگست 2012ء کو حسنی مبارک کے مقررکردہ فوجی سربراہ فیلڈ مارشل طنطاوی کو برطرف کیا۔ 3نومبر2012ء کو صدر مرسی نے دستور میں اسلامی دفعات کا اضافہ کرکے ایوان بالا میں پیش کیا جسے منظور کیاگیا ۔
15تا20دسمبر 2012ء کو 64%عوام نے دوسرے راؤنڈ میں دستوری ترامیم میں اسلامی دفعات کی توثیق کردی ۔
2جولائی 2013ء کو عدلیہ نے سینٹ کو معطل کرنے کااعلان کردیا ۔ جو صدراور الاخوان کے خلاف طبل جنگ کے مترادف تھا، 23جون کو جنرل عبدالفتاح السیسی نے بیان دیاکہ اگر ملک میں ہنگامے ہوئے تو فوج مداخلت کرے گی ۔ 28جون کو امریکی سفارتخانے نے اپنے زائد عملے کو مصر چھوڑنے کے احکامات جاری کیے اور 29جون کو صدر اوباما نے صدر مرسی کو تعمیری رویہ اپنانے کامشورہ دیا ۔ حالانکہ ان کا رویہ پہلے ہی تعمیر اور مشفقانہ تھا او ر وہ اپنوں اور پرایوں کو ساتھ لے کر چل رہے تھے ۔
اخوان کے بارے میں تواتر کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ان کو حکومت کاکوئی تجربہ نہیں ہے اور حکومت اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔حالانکہ ابھی حکومت کو ایک سال بھی نہیں گزرا تھا۔ 30جون کو صدر مرسی کی مخالف سیکولر جماعتوں نے تحریر چوک میں مظاہرہ کیا ، جس میں چند ہزار سے زائد افراد نہیں تھے اور نہ پورے مصر کے نمائندہ ،فوج نے ان کی سرپرستی کی ، ان کے ساتھ اپنی شرکت کا اظہار کیا اور فوجی ہیلی کاپٹر ز نے اس کی فلم بنا کر میڈیاکو جاری کی ،یہ ایسی کیفیت تھی جو جمہوریت اور ووٹ پر یقین رکھنے والوں کو جمہوریت سے مایوس اور دور کرنے کا سبب بنتی ہے ، اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا اس دور میں جمہوریت کے ذریعے اسلام کا نفاذ ممکن ہے ؟ جب اپنے بھی اور غیر بھی اسلام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے راستہ روکتے ہیں اور پرامن جدوجہد کا راستہ بند کردیتے ہیں تو پھر اس ظلم اور زیادتی کے نتیجے میں ایک ایسا رویہ پروان چڑھتاہے جو غصے کے اظہار کا غماز ہوتاہے۔ لیکن اس کا ذمہ دار مغرب ہے جو معاشروں میں تبدیلی کے لیے پرامن راستوں کو بند کرتاہے اسی بندش کے نتیجے میں جو تشدد کاراستہ پروان چڑھتاہے یہ سب مغرب کا اپنا کیا دھرا ہے۔ مغرب کے یہی رویے ہیں جس کے باعث مغرب کی وسعتیں تنگنائیوں میں بدل رہی ہیں۔ کتنی بڑی طاقتیں ہمارے سامنے ملیا میٹ ہوگئیں ، مغرب کے خاتمے کے دن بھی قریب ہیں۔اس میں شک نہیں کہ اسلامی نظام کا قیام ایک صبر آزما اور طویل جدوجہد کا متقاضی ہے ، پارلیمان میں چند نشستوں کا حصول اور ایوان اقتدار اس کی منزل ہرگز نہیں ، اس کی منزل اللہ کی رضا کا حصول ہے جس کے نتیجے میں اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ ہو ، مغرب کے جمہوری اور لادینی نظام کو جمہوری نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اسلام اور اسلامی تحریکوں نے مغرب کے جمہوری نظام کو کبھی تسلیم کیا اور نہ حمایت کی ہے، اسلامی تحریکوں نے اس جمہوری نظام کو دستورمیں تبدیلی کے ذریعے اسلامی نظام کی طرف پیش قدمی کی بعض مقامات پر حکمت عملی کے تحت دستور میں تبدیلی اور بعض دوسرے مقامات پر حکومت کے ذریعے تبدیلی کی کوشش کا راستہ اختیار کیاگیا۔ اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے مختلف مقامات پر مختلف حکمت عملی اپنائی گئی ۔ دعوت کاابلاغ اور مسلسل جدوجہد ،کامیابی کے لیے ناگزیر اور بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مستقل اور پائیدار تبدیلی ہمیشہ رائے عامہ کی تبدیلی سے آتی ہے ،یہ سوال بھی بعض اوقات پریشانی کا سبب بنتاہے کہ اتنے سال جدوجہد کرتے ہوگئے مگر کامیابی نہیں ملی ،اصل بات یہ ہے کہ ہم جدوجہد اور کوشش کے مکلف ہیں کامیابی کے نہیں کامیابی تو ،انسانوں کی کوشش سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے مشروط ہے ۔ وہ چاہے تو ساڑھے نو سوسال (950)کی جدوجہد کے بعد بھی کامیابی عطا نہ کرے اور چاہے تو 23سال کی قلیل مدت میں کامیابی سے ہمکنار کردے۔ یہ اللہ کی حکمتیں ہیں اور وہی ان کو خوب جانتاہے کہ کس کو کب کا میابی عطا کرنی ہے ؟
مصر کی موجودہ کیفیت اور صورت حال ہر صاحب فہم و شعور کے لیے حیرانی کا باعث ہے کہ جس میں مغرب کا دوہرا معیار اور رویہ سامنے آتاہے۔ایک طرف جمہوریت کا راگ اوردوسری طرف فوجی آمریت کا ساتھ دراصل اسلام دشمنی پر مبنی رویہ ہے ، مغرب کے دوہر ے معیار نے اس کے چہرے سے نقاب ہٹادیاہے اور صدر مرسی کی حمایت نہ کرنے والے بھی مغرب کے اس رویے سے اپنی بے زاری اور نفرت کا اظہار کررہے ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ صدر مرسی کو ان کے جمہوری حق سے محروم کرنا کس طرح قرین انصاف نہیں ۔
اخوان کے ساتھ فوج اور پولیس کا رویہ مخاصمانہ اور متعصبانہ ہے۔ اخوان کے دفاتر جلا دیئے گئے ،ان کے ہزاروں کارکنان شہید کردیئے گئے ، معصوم بچے ،بوڑھے ، خواتین اور نوجوانوں پر ٹینک چڑھا دیئے گئے ، پرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لہو کے دریا بہادیئے گئے۔سیکولر میڈیا عدلیہ اور فوج کے اس رویے پر فرعون بھی خوش ہورہاہوگاکہ یہ ہیں میرے صحیح فرزند ،اور وارث ہیں۔
اعلیٰ عدلیہ ،مصری فوج اور پولیس کا رویہ دوہرے معیار کا غماز، جمہوریت کش اور اخوان اور ان کے اتحادیوں کی حکومت کو ناکام بنارہاہے۔ صدر مرسی نے مفاہمت کی پالیسی کے تحت اپنی وزارت میں بعض ایسے لوگ بھی شامل کیے جو ان کی اپنی جماعت کے نہیں تھے اور وہ حکومت کے خلاف کام کرتے رہے۔ اور اُسے ناکام کرنے میں لگے رہے ۔اس کو صدر مرسی کی وسیع القلبی کہیں یا سادگی بہرحال انہوں نے پورے اخلاص اور نیک نیتی کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی جبکہ مغرب کا متعصب میڈیا اخوان کوبطور شدت پسند جبکہ سیکولر، جمہوریت کش افراد کو ہیرو بنا کر پیش کررہاہے۔
مصر کے موجودہ حالات کی تمام تر خرابی ، بدامنی ، قتل و غارت اور کشت و خون کے ذمہ دار امریکہ ، اسرائیل اور وہ ممالک (سعودی عرب ، کویت اور متحدہ عرب امارات )ہیں جنہوں نے آمریت کو پروان چڑھانے کے لیے پروردہ ٹولے کو 12ملین ڈالر رقم دینے کا اعلان کیاہے۔
ایسے وقت میں اسلامی تحریکات کے لیے چیلنج بڑھتے جارہے ہیں۔ان چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لیے عالمی اسلامی تحریکات کو مل جل کر آگے بڑھنااور راستہ نکالناہوگا۔ دو چار ہاتھ لب بام رہ جانے کے باوجود کامیابی سے دو ر کئے جانے اوران عالمی سازشوں کو نہایت صبر و حکمت اور فہم و فراست اور حوصلے کے ساتھ انگیز کرنا اور اپنے جلو میں چلنے والوں کے جذبوں ، حوصلوں اور ولولوں کو ماند نہ پڑنے دینا، اور منزل کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے انقلاب کاراستہ ہموارکرتے چلے جانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔اندھیروں کے پجاری شکست سے دوچار ہوں گے اور روشنی اور اُجالے دنیا کا مقدر بن کر رہیں گے،ان شاء اللہ۔
0 comments:
Post a Comment