جناب قمر الدین جعفر، اسلامی پارٹی ملائیشیا کے شعبہ فارن افیرز کے چیئرمین اور سنٹرل کمیٹی کے ممبر ہیں، 3 مرتبہ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہو چکے ہیں۔ مسلم یوتھ ملائیشیا (آبیم)کے ذریعے اسلامی تحریک سے متاثر ہوئے۔ اُس وقت انور ابراہیم آبیم کے صدر تھے۔ (پھر وہ حکومتی پارٹی میں شامل ہو گئے۔) یہ مہاتیر محمد کے زمانے کے بعد سکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار بھی ہوئے۔ تشدد کا نشانہ بنے، پھر رہا کر دیے گئے۔ نیشنل یونیورسٹی ملائیشیا کے سابق پروفیسر ہیں اور اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کی۔ وہیں سید مودودیؒ سے متعارف ہوئے اور سیدؒ کی کتب پڑھنے کا موقع میسر آیا۔ جماعت اسلامی اور اخوانُ المسلمون کے احباب سے ملاقاتیں رہیں۔ اس دوران پروفیسر خورشید احمد سے بھی ملاقات ہوئی۔ "impact international" میں ملائیشیا کی سیاست کے بارے میں لکھا اور امپیکٹ میں کئی مضامین چھپے۔ گزشتہ دنوں ’’عالمی اتحاد امت کانفرنس‘‘ اسلام آباد میں شرکت کے لیے پاکستان تشریف لائے۔ اس موقع پر ان سے جو گفتگو ہوئی وہ نذرِ قارئین ہے:۔۔۔ یاد رہے ملائیشیا میں مسلمان اور غیر مسلم کم و بیش نصف نصف ہیں۔
س: ملائیشیا کی اسلامی تحریک ’’پاس‘‘ کے کام اور سرگرمیوں کے بارے میں بتایئے؟
ج: سالانہ بنیاد پر بڑے پروگرامات کا انعقاد کرتے ہیں، رمضانُ المبارک میں تراویح کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا جاتا ہے۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلامی تحریکوں کے قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ کامیابی ووٹوں میں بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ ہزاروں لوگ مسلمان ہو رہے ہیں عیسائی اس بارے پراپیگنڈہ کرتے ہیں، ملائیشیا مسلمان ملک ہے، ہم اسلام کا تجربہ کر رہے ہیں۔ عوام کا رجوع بڑھ رہا ہے اور وہ اسلام کے قائل رہے ہیں، اسلام فیڈریشن کا ملک ہے۔ اسلامی تحریک کے علماء ونگ، یوتھ ونگ، نان مسلم ونگ میں نان مسلم ونگ میں اسلامی تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ ہماری دعوت کے کام اہمیت دیتے ہیں۔ اس ضمن میں مختلف تجربات کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے ہاں کوئی امیدوار نہیں ہوتا۔ دعوتی حوالے سے خواتین میں ہمارا کام بہت مضبوط مربوط اور مؤثر ہے ہم نے ’’اسرہ‘‘ کا نظام اپنایا ہوا ہے۔ عمومی دعوت کے لیے رابطہ کرتے ہیں جس کے لیے ہم گھر گھر جاتے ہیں۔ اپنی دعوت کا ابلاغ اور دوسرے مذاہب کے ساتھ موازنہ پیش کرتے، کتب تقسیم کرتے ہیں۔ Harakadaily کے نام سے تحریک کا پرچہ باقاعدگی سے نکلتا ہے۔ بڑی بڑی پبلک ریلیز کا اہتمام کرتے ہیں جس میں خطابات ہوتے ہیں، مل جل کر ہر کام کرنے میں ہمارا اُسرہ سسٹم بہت اہم ہے۔ اجلاس کرتے ہیں، قرآن کی تفسیر پڑھتے ہیں، علماء سے رہنمائی لی جاتی ہے چند علماء جامعہ الازھر سے سے فارغ التحصیل ہیں۔
س: مہاتیر محمد کا دور اور موجودہ دور کیسا ہے اور کام کیسے ہو رہا ہے؟
ج:معیشت کے میدان میں جیسے مہاتیر محمد کے زمانے میں کام ہو رہا تھا، اب بھی ویسے ہی جاری ہے۔بلکہ اس میں کچھ ترقی بھی ہوئی ہے۔ پام آئل اینڈ گیس کے میدان میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ حکومت پام آئل کے حوالے سے کافی بہتری لائی ہے، ہمارا زیادہ تر انحصارِ کام انڈسٹری پر تھا۔ اس زمانے میں دیگر ہمسایہ ممالک میں یہ سستی ہونے کی بنا پر ہمیں نقصان ہوا۔ کمپیوٹر پراڈکٹس اور دیگر مصنوعات پر ہمارا انحصار ہے، معیشت میں گلوبل کرائسز کے کافی اثرات ہیں۔ ملائیشیا سستا ملک ہے اور چیزیں بھی سستی ہیں، جس کا ہمیں نقصان ہوا۔ البتہ پاکستان سے کافی آگے ہے۔ ہمارا بڑا مسئلہ کرپشن اور معاشی حکمت عملی کا ہے۔ کرپشن ختم ہو گی تو معاملات بہتر ہوں گے، حکومت کا کردار بہت اہم ہے۔ مرکز کے اختیارات کم کرنے اور صوبوں کو اختیارات دینے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر ملک میں مرکز کا کنٹرول ہے، صوبوں کے پاس محدود اختیارات ہیں اس کے باوجود ہم عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں۔
س: انور ابراہیم کے ساتھ آپ کا کافی تعلق رہا ہے، کچھ اس بارے میں بتایئے؟
ج: 1998ء میں گرفتاری کے بعد انھوں نے جسٹس پارٹی کے نام سے نئی پارٹی بنائی۔ وہ خود جیل میں تھے، ان کی بیوی اس پارٹی کو لے کر چلتی رہیں۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں وہ بالآخر رہا ہوئے اور الیکشن جیتے ۔ پانچ سال تک وہ جیل میں رہے۔ مہاتیر محمد کے دوسرے دور میں ڈپٹی پرائم منسٹر تھے۔ اب اپوزیشن لیڈر ہیں اور ہمارے اتحاد (تین جماعتوں) کے پارلیمانی لیڈر بھی، ہم مل جل کر کام کر رہے ہیں اور مستقبل میں بھی مل کر چلیں گے۔
س: کلنتانصوبہ میں اسلامی تحریک کی دو دہائیوں سے حکومت ہے۔ کچھ اس کی کامیابیوں کی تفصیلات بتائیں؟
ج: اسلامی تحریک صوبہ کلنتان میں 1999ء سے 2008ء تک 22 سال سے برابر کامیاب ہو رہی ہے۔ اسی طرح ایک اور صوبے میں بھی کامیابی ملی۔ ہمارے لوگوں نے بہتر کردار ادا کیا۔ استاد نک عبدالعزیز 22 سال سے وزیراعلیٰ ہیں۔ انھوں نے اپنے صوبے میں کافی تبدیلیاں کیں۔ یہ 90 فیصد مسلم آبادی کا صوبہ ہے۔ ویسے مالی طور پر صوبے کمزور ہیں۔ تاہم تعلیم اور امن کی صورتِ حال بہتر ہے۔ مدارس اور اسلامی سکولوں کے نظام پر مرکز کا کنٹرول ہے۔ مرکز سے مراد سلطان ملائیشیا ہے۔ سلطان مذہب بیزار ہے۔ اسلامی کونسل کا چیئرمین بھی ہے۔ امام مسجد تک کی تقرری کا اختیار اس کے ہاتھ میں ہے۔
س: اسلامک بینکنگ سسٹم کافی کامیابی سے چل رہا ہے اس کے خدوخال کیا ہیں؟
ج: اسلامک بینکنگ سسٹم کا آغاز انور ابراہیم کے زمانے میں ہوا، اسلامی بینک کاری فروغ پا رہی ہے۔ سودی نظام بھی چل رہا ہے۔ دو بینکنگ سسٹم چل رہے ہیں۔ ملائیشیا وہ ملک ہے جہاں سرکاری طور پر اسلامک بینکنگ پھل پھول رہی ہے۔ بینکنگ سسٹم کے حوالے سے علماء کی رائے میں اختلاف ہے، اتفاق رائے کے لیے کوشاں ہیں ویسے ملائیشین بینکوں کے اصول مختلف اور لچکدار (flexible) ہیں۔ کوششیں جاری ہیں مکمل کامیاب نہیں کہا جا سکتا۔
س: ملائیشیا کا تعلیمی نظام کیسا ہے کچھ اس کا تذکرہ ہو جائے؟
ج: گزشتہ دس سالوں سے پرائیویٹ تعلیم کی حوصلہ افزائی جاری ہے۔ جنوبی افریقہ سے لوگ آتے ہیں، مشکلات موجود ہیں حکومت تعلیم کے لیے فنڈز نہیں قرض دیتی ہے۔ چائنا اور افریقہ کے لیے میڈیکل ہسپتال، بزنس اور فارن ایکسچینج کی سہولیات دستیاب ہیں۔ سیاحت کے حوالے سے بتایا کہ نائن الیون کے بعد ملائیشیا میں سیرو سیاحت کا رجحان بڑھا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے بعد خلیج سے زیادہ لوگ آنے لگے ہیں۔ مالی آمدن کا اہم ذریعہ بھی ہے۔
س: بنگسا مورد کا اصل ایشو کیا ہے۔ اس بارے میں کوئی معاہدہ بھی ہوا ہے؟
ج: یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ معاہدہ امن کا روڈ میپ (Road Map) ہے۔ مکمل اور پختہ جز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ آگے بڑھنے کا ایک راستہ ہے۔ ہم نے اس کو Own کیا ہے۔ ہمارے ملک میں ملائیشین دستور قانون و مذہب کی آزادی دیتا ہے۔ غیر مسلموں کو بھی تبلیغ کی آزادی ہے۔ عیسائی ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اسلام دعوت کا دین ہے۔
س: عرب سپرنگ کو کیسے دیکھتے ہیں، اس کے عالم اسلام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
ج: اسلامی نظام کے مستقبل بارے کہا کہ یہ مشکل مگر سنجیدہ سوال ہے۔ میری ذاتی رائے میں عرب سپرنگ آئی ہے ان سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومت آئے گی تو مکمل اسلام کا نظام جہاں تک ممکن ہوا، نافذ کریں گے۔
س: سید مودودیؒ کی کتب کا ملیائی زبان میں ترجمہ ہوا ہے؟
ج: مولانا مودودیؒ کی کتب ملائی زبان میں کم ہیں۔ اب مولانا کی کتابوں کے تراجم تیزی سے ہو رہے ہیں، تاہم بہت سی کتابیں ابھی تک ترجمہ نہیں ہوئی، البتہ انڈونیشین زبان میں کتب کے تراجم موجود ہیں۔ جامعہ الازھر کے علماء سے استفادہ کرتے ہیں، بالخصوص فی ظلال القرآن (سید قطبؒ ) وغیرہ۔
س: آنے والے انتخابات میں اسلامی تحریک کا لائحہ عمل کیا ہے؟
ج: مستقبل میں اسلامی تحریک کا مستقبل روشن ہے۔ میں پُرامید آدمی ہوں۔ بہرحال چیلنجز تو موجود رہتے ہیں۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد کے زمانے میں مضبوط معیشت کا تاثر تھا۔ اب مسائل زیادہ ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ قریب آ رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے حجاب اٹھ رہے ہیں اور حقیقی عوامی اسلامی لیڈر شپ سامنے آ رہی ہے۔
س: اہلیانِ پاکستان اور تحریک اسلامی کے لیے کیا پیغام دیں گے؟
ج: اسلامی تحریک ملائیشیا پاکستان کے عوام اور اسلامی تحریک کیلئے محبت کے جذبات اور جماعت اسلامی پاکستان، اس کی قیادت جناب سید منور حسن اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے پارٹی کارکنان سے نیک خواہشات رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابیوں سے نوازے۔
ج: سالانہ بنیاد پر بڑے پروگرامات کا انعقاد کرتے ہیں، رمضانُ المبارک میں تراویح کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا جاتا ہے۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلامی تحریکوں کے قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ کامیابی ووٹوں میں بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ ہزاروں لوگ مسلمان ہو رہے ہیں عیسائی اس بارے پراپیگنڈہ کرتے ہیں، ملائیشیا مسلمان ملک ہے، ہم اسلام کا تجربہ کر رہے ہیں۔ عوام کا رجوع بڑھ رہا ہے اور وہ اسلام کے قائل رہے ہیں، اسلام فیڈریشن کا ملک ہے۔ اسلامی تحریک کے علماء ونگ، یوتھ ونگ، نان مسلم ونگ میں نان مسلم ونگ میں اسلامی تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ ہماری دعوت کے کام اہمیت دیتے ہیں۔ اس ضمن میں مختلف تجربات کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے ہاں کوئی امیدوار نہیں ہوتا۔ دعوتی حوالے سے خواتین میں ہمارا کام بہت مضبوط مربوط اور مؤثر ہے ہم نے ’’اسرہ‘‘ کا نظام اپنایا ہوا ہے۔ عمومی دعوت کے لیے رابطہ کرتے ہیں جس کے لیے ہم گھر گھر جاتے ہیں۔ اپنی دعوت کا ابلاغ اور دوسرے مذاہب کے ساتھ موازنہ پیش کرتے، کتب تقسیم کرتے ہیں۔ Harakadaily کے نام سے تحریک کا پرچہ باقاعدگی سے نکلتا ہے۔ بڑی بڑی پبلک ریلیز کا اہتمام کرتے ہیں جس میں خطابات ہوتے ہیں، مل جل کر ہر کام کرنے میں ہمارا اُسرہ سسٹم بہت اہم ہے۔ اجلاس کرتے ہیں، قرآن کی تفسیر پڑھتے ہیں، علماء سے رہنمائی لی جاتی ہے چند علماء جامعہ الازھر سے سے فارغ التحصیل ہیں۔
س: مہاتیر محمد کا دور اور موجودہ دور کیسا ہے اور کام کیسے ہو رہا ہے؟
ج:معیشت کے میدان میں جیسے مہاتیر محمد کے زمانے میں کام ہو رہا تھا، اب بھی ویسے ہی جاری ہے۔بلکہ اس میں کچھ ترقی بھی ہوئی ہے۔ پام آئل اینڈ گیس کے میدان میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ حکومت پام آئل کے حوالے سے کافی بہتری لائی ہے، ہمارا زیادہ تر انحصارِ کام انڈسٹری پر تھا۔ اس زمانے میں دیگر ہمسایہ ممالک میں یہ سستی ہونے کی بنا پر ہمیں نقصان ہوا۔ کمپیوٹر پراڈکٹس اور دیگر مصنوعات پر ہمارا انحصار ہے، معیشت میں گلوبل کرائسز کے کافی اثرات ہیں۔ ملائیشیا سستا ملک ہے اور چیزیں بھی سستی ہیں، جس کا ہمیں نقصان ہوا۔ البتہ پاکستان سے کافی آگے ہے۔ ہمارا بڑا مسئلہ کرپشن اور معاشی حکمت عملی کا ہے۔ کرپشن ختم ہو گی تو معاملات بہتر ہوں گے، حکومت کا کردار بہت اہم ہے۔ مرکز کے اختیارات کم کرنے اور صوبوں کو اختیارات دینے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر ملک میں مرکز کا کنٹرول ہے، صوبوں کے پاس محدود اختیارات ہیں اس کے باوجود ہم عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں۔
س: انور ابراہیم کے ساتھ آپ کا کافی تعلق رہا ہے، کچھ اس بارے میں بتایئے؟
ج: 1998ء میں گرفتاری کے بعد انھوں نے جسٹس پارٹی کے نام سے نئی پارٹی بنائی۔ وہ خود جیل میں تھے، ان کی بیوی اس پارٹی کو لے کر چلتی رہیں۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں وہ بالآخر رہا ہوئے اور الیکشن جیتے ۔ پانچ سال تک وہ جیل میں رہے۔ مہاتیر محمد کے دوسرے دور میں ڈپٹی پرائم منسٹر تھے۔ اب اپوزیشن لیڈر ہیں اور ہمارے اتحاد (تین جماعتوں) کے پارلیمانی لیڈر بھی، ہم مل جل کر کام کر رہے ہیں اور مستقبل میں بھی مل کر چلیں گے۔
س: کلنتانصوبہ میں اسلامی تحریک کی دو دہائیوں سے حکومت ہے۔ کچھ اس کی کامیابیوں کی تفصیلات بتائیں؟
ج: اسلامی تحریک صوبہ کلنتان میں 1999ء سے 2008ء تک 22 سال سے برابر کامیاب ہو رہی ہے۔ اسی طرح ایک اور صوبے میں بھی کامیابی ملی۔ ہمارے لوگوں نے بہتر کردار ادا کیا۔ استاد نک عبدالعزیز 22 سال سے وزیراعلیٰ ہیں۔ انھوں نے اپنے صوبے میں کافی تبدیلیاں کیں۔ یہ 90 فیصد مسلم آبادی کا صوبہ ہے۔ ویسے مالی طور پر صوبے کمزور ہیں۔ تاہم تعلیم اور امن کی صورتِ حال بہتر ہے۔ مدارس اور اسلامی سکولوں کے نظام پر مرکز کا کنٹرول ہے۔ مرکز سے مراد سلطان ملائیشیا ہے۔ سلطان مذہب بیزار ہے۔ اسلامی کونسل کا چیئرمین بھی ہے۔ امام مسجد تک کی تقرری کا اختیار اس کے ہاتھ میں ہے۔
س: اسلامک بینکنگ سسٹم کافی کامیابی سے چل رہا ہے اس کے خدوخال کیا ہیں؟
ج: اسلامک بینکنگ سسٹم کا آغاز انور ابراہیم کے زمانے میں ہوا، اسلامی بینک کاری فروغ پا رہی ہے۔ سودی نظام بھی چل رہا ہے۔ دو بینکنگ سسٹم چل رہے ہیں۔ ملائیشیا وہ ملک ہے جہاں سرکاری طور پر اسلامک بینکنگ پھل پھول رہی ہے۔ بینکنگ سسٹم کے حوالے سے علماء کی رائے میں اختلاف ہے، اتفاق رائے کے لیے کوشاں ہیں ویسے ملائیشین بینکوں کے اصول مختلف اور لچکدار (flexible) ہیں۔ کوششیں جاری ہیں مکمل کامیاب نہیں کہا جا سکتا۔
س: ملائیشیا کا تعلیمی نظام کیسا ہے کچھ اس کا تذکرہ ہو جائے؟
ج: گزشتہ دس سالوں سے پرائیویٹ تعلیم کی حوصلہ افزائی جاری ہے۔ جنوبی افریقہ سے لوگ آتے ہیں، مشکلات موجود ہیں حکومت تعلیم کے لیے فنڈز نہیں قرض دیتی ہے۔ چائنا اور افریقہ کے لیے میڈیکل ہسپتال، بزنس اور فارن ایکسچینج کی سہولیات دستیاب ہیں۔ سیاحت کے حوالے سے بتایا کہ نائن الیون کے بعد ملائیشیا میں سیرو سیاحت کا رجحان بڑھا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے بعد خلیج سے زیادہ لوگ آنے لگے ہیں۔ مالی آمدن کا اہم ذریعہ بھی ہے۔
س: بنگسا مورد کا اصل ایشو کیا ہے۔ اس بارے میں کوئی معاہدہ بھی ہوا ہے؟
ج: یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ معاہدہ امن کا روڈ میپ (Road Map) ہے۔ مکمل اور پختہ جز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ آگے بڑھنے کا ایک راستہ ہے۔ ہم نے اس کو Own کیا ہے۔ ہمارے ملک میں ملائیشین دستور قانون و مذہب کی آزادی دیتا ہے۔ غیر مسلموں کو بھی تبلیغ کی آزادی ہے۔ عیسائی ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اسلام دعوت کا دین ہے۔
س: عرب سپرنگ کو کیسے دیکھتے ہیں، اس کے عالم اسلام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
ج: اسلامی نظام کے مستقبل بارے کہا کہ یہ مشکل مگر سنجیدہ سوال ہے۔ میری ذاتی رائے میں عرب سپرنگ آئی ہے ان سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومت آئے گی تو مکمل اسلام کا نظام جہاں تک ممکن ہوا، نافذ کریں گے۔
س: سید مودودیؒ کی کتب کا ملیائی زبان میں ترجمہ ہوا ہے؟
ج: مولانا مودودیؒ کی کتب ملائی زبان میں کم ہیں۔ اب مولانا کی کتابوں کے تراجم تیزی سے ہو رہے ہیں، تاہم بہت سی کتابیں ابھی تک ترجمہ نہیں ہوئی، البتہ انڈونیشین زبان میں کتب کے تراجم موجود ہیں۔ جامعہ الازھر کے علماء سے استفادہ کرتے ہیں، بالخصوص فی ظلال القرآن (سید قطبؒ ) وغیرہ۔
س: آنے والے انتخابات میں اسلامی تحریک کا لائحہ عمل کیا ہے؟
ج: مستقبل میں اسلامی تحریک کا مستقبل روشن ہے۔ میں پُرامید آدمی ہوں۔ بہرحال چیلنجز تو موجود رہتے ہیں۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد کے زمانے میں مضبوط معیشت کا تاثر تھا۔ اب مسائل زیادہ ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ قریب آ رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے حجاب اٹھ رہے ہیں اور حقیقی عوامی اسلامی لیڈر شپ سامنے آ رہی ہے۔
س: اہلیانِ پاکستان اور تحریک اسلامی کے لیے کیا پیغام دیں گے؟
ج: اسلامی تحریک ملائیشیا پاکستان کے عوام اور اسلامی تحریک کیلئے محبت کے جذبات اور جماعت اسلامی پاکستان، اس کی قیادت جناب سید منور حسن اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے پارٹی کارکنان سے نیک خواہشات رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابیوں سے نوازے۔
0 comments:
Post a Comment