Friday, 31 May 2013

داعی کا کام یہ ہے کہ وہ مخاطب کی ذہنی استعداد کے مطابق دعوت پیش کرے

| |
جماعت اسلامی گجرات کے بزرگ رہنما شیخ ظہور احمد اپنی پیرانہ سالی کے باوجود، جوانوں کی طرح کام کرتے ہیں، جواں جذبوں کے مالک سید مودودیؒ کی کتب کے مطالعہ کے ذریعے جماعت اسلامی سے متعارف ہوئے اور 60 کی دہائی میں بطور رکن وابستہ ہو گئے، 17 سال تک ضلع گجرات کے امیر رہے اس دوران الیکشن بھی لڑا، قیدوبند کے مراحل سے بھی گزرے، سید مودودیؒ کی رفاقت کا شرف بھی حاصل رہا۔ شیخ ظہور احمد جماعت کی مرکزی و صوبائی مجلس کے شوریٰ کے رکن ہیں، یہ واحد رکن شوریٰ ہیں جو سید مودودیؒ کی شوریٰ میں رکن رہے، پھر میاں طفیل محمد مرحوم، محترم قاضی حسین احمد اور اب محترم سید منور حسن کی مجلس شوریٰ میں موجود ہیں۔ نرم دمِ گفتگو، گرم دم جستجو۔ پاک دل و پاک باز اور نگہ بلند، سخن دلنوازاور جان پرسوز رکھنے والے شیخ ظہور احمد بوڑھوں اور جوانوں میں یکساں مقبول اور جماعت کی دعوت و تاریخ کے کتنے ہی لمحوں کواپنے سینے میں بسائے جذبہ جدوجہد، کشمکش اور استقامت کی علامت ہیں۔ شیخ ظہور احمد نے جماعت اسلامی کے ساتھ اپنے تعلق، اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات اور اپنے تجربات عمران ظہور غازی کو ریکارڈ کرائے ہیں۔ قارئین ایشیا کی دلچسپی کے لیے پیش ہیں۔ بزرگ کارکنان جماعت سے گفتگو کا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔

س: اپنے ابتدائی حالاتِ زندگی کے بارے میں بتایئے کہاں اور کیسے گزرے۔
ج: میرا آبائی شہر جلالپور جٹاں گجرات سے دس بارہ کلومیٹر شمال کی جانب واقع ہے۔ جہاں میں 1926ء میں پیدا ہوا۔ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم بھی گورنمنٹ مشن سکول اور سناتن ہائی سکول سے حاصل کی۔ بچپن میں بڑے بوڑھوں سے روایتی کہانیاں سننے کا بڑا شوق تھا۔ ذرا بڑا ہوا تو کرکٹ سے دلچسپی تھی۔ اس کے بعد پنجابی شعراء کے چار مصروں والے اشعار سننے کا شوق تھا۔ جو آج بھی یاد ہے۔
بچپن سے ہی قدرتی رجحان مذہب کی جانب تھا جس کا اظہار محلے کی مسجد کی صفائی کرنا، غسل خانوں میں پانی بھرنا اور غیر شعوری نمازیں ادا کرنا تھا۔ جلالپور جٹاں میں صنعت پار چابانی کا مرکز تھا۔ یہاں کے کاریگر جب بحران ہوتا تو امرتسر چلے جاتے تھے۔ کیونکہ پنجاب میں دستی کھڈی کا مرکز جلالپور جٹاں اور لدھیانہ کے بعد امرتسر تھا۔ جو کاروباری ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں سیاست کا مرکز بھی تھا۔ چنانچہ جلالپور جٹاں کے جو نوجوان کام کے لیے امرتسر جاتے وہاں سے ان تحریکوں کا جذبہ لے کر آتے تھے۔ ہندوستان میں جمہوری طریقہ سے 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جو تحریک چلی وہ تحریک خلافت تھی۔ یہ تحریک میری پیدائش سے پہلے تقریباً 1922ء میں چلی لیکن میں بچپن میں ہی بڑے لوگوں میں اس کے اثرات محسوس کرتا تھا۔اس زمانے میں اور یہ نعرہ زبان زد عام تھا:
بولی اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو اور
روندے پھرن سمر نادے بال وے بیوہ ہو گیا ماہیاں
میں ابھی پانچ سال کا تھا کہ 1931ء میں مہاراجہ کشمیر کی قرآنِ پاک کی بے ادبی پرمجلس احرار اسلام کی طرف سے 1931ء میں تحریک چلی۔ اس کے جو جلوس جلالپور جٹاں میں نکلتے ایسا معلوم ہوتا کہ پورا شہر اس میں شامل ہے اور تمام لوگ سرخ شلوار قمیص پہننے ہوئے چلو بھائیو! کشمیر جنت ملدی اے کے نعرے لگا رہے ہوتے اس کے بعد تیسری تحریک 1936ء میں مسجد شہید گنج لاہور جس پر سکھوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ علامہ عنایت اللہ المشرقی کی خاکسار تحریک تھی اس میں بھی پورا شہر شامل تھا جو خاکی لباس پہن کر اور کندھے پر بیلچہ اٹھائے چپ راست کا مارچ کرتے نظر آئے ہم بھی ان کی نقل کرتے چھوٹے چھوٹے بیلچے بنا کر ان کی پوری نقل کرتے۔ اس کے بعد چوتھی تحریک 1946ء میں تحریک پاکستان تھی۔ 1946ء کے دستور ساز اسمبلی کے انتخابات جو تقسیم ہند کے بعد عوامی نمائندہ قرار پائے۔ جلالپور جٹاں میں 1945ء تک پورے شہر میں ایک دکان کے اندر مسلم لیگ کا ایک بینر لگا دیکھتے تھے، لیکن جب عوامی تحریک شروع ہوئی تو ’’بن کے رہے گا پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان، پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ ‘‘کے نعروں سے پورا ملک گونج اٹھا میں بھی ان جلوسوں میں شریک ہوتا۔
یہ تھا اس زمانے میں ہمارے گردوپیش کا سیاسی منظر جس میں میری زندگی پروان چڑھی ۔ پاکستان بننے کے بعد بھارت سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ شروع ہو گیا۔ جماعت اسلامی نے پاکستان میں اسلامی دستور کے لیے چار نکاتی مطالبہ شروع کر دیا۔ جہادِ کشمیر پر مولانا مودودیؒ کی گفتگو کو بنیاد بنا کر پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا کہ جماعت والے جہادِ کشمیر کی مخالفت کرتے ہیں ہم بھی اپنے آپ کو مسلم لیگ کا ورکر خیال کرتے ہوئے مسئلہ کو سمجھے بغیر مخالفت کرتے۔ ہمارے محلہ میں جماعت اسلامی اور مسلم لیگ والوں میں بحث و تکرار جاری رہتی۔ اسی دوران مولانا مودودی کو نظر بند کر دیا گیا، لیکن حکومت کو قراردادِ مقاصد منظور کرنا ہی پڑی۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور ملک کو قرآن و سنت کے مطابق اسلامی مملکت بننے کی راہ ہموار ہوئی۔
اس کے بعد لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان کی طرف سے 1950ء میں دستوری سفارشات پیش کی گئیں۔ جن کے خلاف مولانا مودودیؒ نے ملک بھر کا دورہ کیا۔ اس دوران آپ گجرات بھی تشریف لائے جماعت والوں نے بتایا کہ فلاں تاریخ کو مولانا مودودی گجرات تشریف لا رہے ہیں۔ انہوں نے تمام مسلم لیگی حضرات کو بھی مولانا مودودی کو سننے کی دعوت دی جس کے ساتھ ان کی شخصیت پر بحث مباحثہ رہتا تھا۔ چنانچہ جلسہ میں جانے کا پروگرام بن گیا جو کہ باغ میں تھا۔ جس کا حالیہ نام اقبال پارک ہے گرمیوں کا موسم تھا۔ ہمیں جلسہ گاہ سے دور سڑک پر جگہ ملی جیسے ہی مولانا خطاب کے لیے کھڑے ہوئے، بجلی آف ہو گئی یا کاٹ دی گئی۔ متبادل کوئی انتظام نہ تھا کافی دیر کے بعد بیٹری والا لاؤڈ سپیکر لایا گیا، لیکن ہمارے لیے حیرانی کی بات یہ تھی کہ جلسہ گاہ میں کوئی بھگدڑ نہ مچی بلکہ لوگ دیر تک اپنی جگہ پُرسکون بیٹھے رہے یہ تھی مولانا مودودی سے پہلی ملاقات، جماعت اسلامی کی ملک کو اسلامی دستور اور اسلامی ملک بنانے کی جو مہم چل رہی تھی سیکولر حلقے اس کے مخالف تھے وہ اسلام کے خلاف طرح طرح کے اعتراضات اٹھا رہے تھے کہ اسلامی حکومت بنے گی تو لوگوں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اور بازاروں میں لونڈی اور غلام بِکا کریں گے اور اس طرح غلامی کا دور دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ میں اس وقت مسلم لیگی ہونے کے باوجود اسلامی نظام کا قا ئل تھا، لیکن ان اعتراضات کا کوئی معقول علمی جواب نہیں پاتا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ ایک دن ایک دوست کے ہاتھ کتاب دیکھی، میں نے اس سے لے کر ورق گردانی شروع کی۔ ایک صفحے پر غلامی کا مسئلہ اور لونڈیوں کا عنوان پر نظر پڑی یہ کتاب تفہیمات حصہ دوم تھی۔ اس میں موجود سوالنامہ میں وہی سوال تھے جو روز ہم سے کیے جاتے تھے۔ بلکہ کچھ مزید سوالات بھی تھے لیکن جب میں نے ان کے جوابات پڑھے تو گویا میرے دل پر پڑے پردے کھل گئے اس کے بعد میں نے مولانا کی دوسری کتابیں حاصل کر کے پڑھنا شروع کر دیں اور الحمدللہ آج تک پڑھنے اور پڑھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ پھر جماعت کے اجتماعات میں شریک ہونا شروع کر دیا۔ 1953ء کی قادیانی کو غیر مسلم قرار دلوانے کی تحریک میں جیل میں بھی جانا پڑا۔
س: مولانا کی کس کتاب نے متاثر کیا؟
ج: ’’تفہیمات‘‘ کے مطالعہ اور مولانا سے تعارف کے بعد ان کی ہر کتاب نے متاثر کیا، مولاناؒ کا لٹریچر اپنے مضامین کے لحاظ سے متاثر کن ہے جس کی لمبی تفصیل ہے۔ اس کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی رہی اور اس کے حلقے قائم کرنے شروع کر دیے۔
س:جماعت اسلامی میں ہمہ وقتی کارکن کا تصور کیا ہے؟
ج: جماعت اسلامی میں ہمہ وقتی کارکن کا تصور یہ ہے کہ جس آدمی سے آپ پورا وقت لیتے ہیں اس کی کفالت کی ذمہ داری اسی ادارے کوپوری کرنی چاہیے اگر وقت کے خلیفہ کو بھی وظیفہ اعزازی دیا جا سکتا ہے ہر مسجد کے امام اور مدرّس میں پڑھانے والوں کو دیا جا سکتا ہے۔ بلکہ قرآن نے تو حاملین زکوٰۃ کا حصہ رکھا ہے تو جماعت اسلامی کے ہمہ وقتی کارکن کو کیوں نہیں دیا جا سکتا۔
س: آپ نے مولانا مودودیؒ ، میاں طفیل محمدؒ ، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن کے ادوارِ امارت کو کیسے پایا؟
ج: میں 1966ء میں جماعت کا رکن بنا اور 1968ء میں مقامی جماعت کا امیر اور پھر اسی سال قائم مقام امیر ضلع کی ذمہ داری لگا دی گئی۔ 1968ء میں ہی میں مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں بطور مبصر شریک ہوا جو مولانا کی امارت میں ہو رہا تھا۔ آئندہ سال یعنی 1969ء سے اب تک مرکزی اور صوبائی شوریٰ کا ممبر ہوں۔ اس طرح میں نے ان چاروں گرامی قدر امراء کے ادوار کو قریب سے دیکھا۔ اس جماعت کی بنیاد جن چاروں اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ دعوت تنظیم تربیت اور انقلاب و امامت ان نکات میں آج تک تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ اگرچہ حکمت عملی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ دوسری بات جماعت اسلامی کی تنظم کا جو ڈھانچہ تجویز کیا گیا، جماعت کی مجلس مشاورت تنظیم، مالیات کا نظام اور جماعتی انتخابات، اس میں مرکزی مجلس شوریٰ جو جماعت کا پالیسی ساز ادارہ ہے اس میں بحث و مباحثہ کا مقام اتنا بلند ہے جس کی مثال ہمارے معاشرے اور سیاسی جماعتوں میں ملنا ناممکن ہے۔
میرے چالیس سالہ دور میں جماعت کی پالیسی، قراردادیں اتفاق رائے سے منظور ہوئیں اور جب تک پورا ہاؤس اتفاق رائے تک نہ پہنچ جائے اُس وقت تک تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری رہتاہے۔
مجھے یاد ہے کہ 1970ء کے بعد کا زمانہ تھا اور پیپلز پارٹی کا دورِ حکومت تھا جماعت کی سیاسی حکمت عملی طے ہونا تھی۔ تین روز تک مسلسل رات کے 12 بجے تک اجلاس جاری رہتا۔ اس میں قراردادیں پیش ہوتیں اور واپس ہوتیں۔ تیسرے روز بالآخر اتفاق رائے سے قراداد منظور ہوئی۔ یہ وہ معیار ہے جو بانی جماعت سید مودودیؒ نے قائم کیا اور وہ الحمدللہ آج تک قائم ہے۔
حالات اور واقعات میں تغیر و تبدل تو ایک فطری بات ہے اور شخصیات کی صلاحیتیں اور خصوصیات بھی ایک جیسی نہیں ہوتیں، لیکن جماعت اسلامی پر یہ اللہ کا خاص فضل و کرم ہے کہ گاڑی بھی بہترین ہے اور چلانے والے بھی خوب سے خوب تر ہیں۔
مولانا مودودی کا زمانہ امارت، قیامِ پاکستان کے بعد 1948ء سے لے کر 1956ء تک مسلم لیگ کا دور تھا۔ جس میں انہیں سزائے موت تک سنائی گئی اور مجموعی طور پر مولانا نے ساڑھے 4 سال جیل کاٹی۔ 1958ء سے 1970ء تک جنرل ایوب کا دور، یہ پہلے دور سے بھی سخت ترین دور تھا۔ جس میں جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دے دیا گیا۔ پوری مجلس شوریٰ کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ فتنہ انکارِ حدیث کی سرکاری سرپرستی کی گئی اور پاکستان کو دولخت کر دیا گیا۔ اس لحاظ سے مولانا مودودیؒ کا دورِ امارت مشکل ترین دور تھا جس کو انہوں نے بڑے صبر و تحمل سے پورا کیا۔
س:کیا آپ 1963ء کو اجتماعِ عام میں شریک تھے؟
ج:بالکل میں اس میں شریک تھا۔ بلکہ سٹیج کے سامنے بالکل قریب تھا جب گولی چلی اللہ بخش نامی ایک کارکن شہید ہوا۔ سٹیج پر کھڑے کسی شخص نے کہا کہ مولانا بیٹھ جائیں تو آپ نے تاریخی جملہ فرمایا ’’اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا۔‘‘
س:جماعت اسلامی کی عملی کامیابیاں؟
ج:تقسم ملک سے پہلے مولانا نے قوم کو انگریز کی ذہنی او رفکری غلامی سے نجات دلانے کے لیے ترجمان القرآن میں جو مضامین لکھے وہ ان کی کتاب تنقیحات میں دیکھے جا سکتے ہیں اور اسی طرح ’پردہ‘ لکھ کر مغربی تہذیب کا کھوکھلا پن ظاہر کر دیا۔ اس کے بعد کانگریس کے متحدہ قومیت کے نظریہ کو باطل قرار دینے میں 1933ء سے 1940ء تک مسئلہ قومیت اور مسلمان اور سیاسی کشمکش حصہ اول، دوم لکھ کر بتایا کہ قومیت کی بنیاد، رنگ، نسل اور وطن پر نہیں بلکہ نظریہ پر ہے۔ اگر قومیت کی بنیاد وطن یا زبان پر ہوتی تو ابوجہل اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی وطن کے رہنے والے اور عربی زبان بولنے والے تھے، لیکن اسلام نے قومیت کی بنیاد کلمہ توحید۔۔۔ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر رکھی۔ 
دو قومی نظریے پر 1940ء میں مسلم لیگ نے قراردادِ پاکستان منظور کی لیکن دینی اور علمی نقطۂ نظر سے مولانا مودودیؒ نے مندرجہ بالا کتابیں لکھ کر کانگریس کے متحدہ قومیت کے نظریے کو نہ صرف غلط ثابت کیا بلکہ اس کے تاروپود بکھیر دیے۔ جبکہ علمائے دیوبند اور مجلس احرار اسلام جیسے دینی حلقے کانگریس کی متحدہ قومیت کی پشت پر تھے۔ ان کا کانگریس کے ساتھ یہ اتحاد دراصل اس بنیاد پر تھا کہ جب تک ہندو اور مسلم اکٹھے نہیں ہوں گے اس وقت تک انگریز سے آزادی حاصل نہیں کی جا سکتی، لیکن وہ اس خیال میں اتنی دور نکل گئے کہ جداگانہ قومیت کو نہ سمجھ پائے۔ جبکہ 1930ء میں مسلم لیگ کے اجلاس میں علامہ اقبالؒ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انگریز کے جانے کے بعد ہندوستان کے جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ان کو ملا کر الگ وطن بنایا جائے۔ اس فکر کے پیچھے یہ تصور کار فرما تھا کہ اگر جمہوری طریقے سے وطن آزاد ہو تو ہم انگریز کی غلامی سے نکل کر ہندو اکثریت کی غلامی میں آ جائیں گے۔ دوسرا یہ کہ اگر ہندو مسلمان سب مل کر اکٹھے آزاد ہوں گے تو پھر ہم اسلامی اصولوں پر مبنی ریاست قائم نہیں کرسکتے۔
اس سے پہلے فتنہ قادیانیت پر مولانا نے قادیانی مسئلہ نامی کتاب لکھ کر اور عدالت میں اپنے تاریخی بیانات (جواب کتابی شکل میں شائع ہو چکے) سے جعلی نبوت کا تاروپو بکھیر کر رکھ دیا اور اس طرح فتنہ انکار سنت جو کہ ایوبی دور میں سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا گیا۔ مولانا نے ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ لکھ کر اس فتنے کو بھی ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد ملک کو سوشلزم کے فتنے سے بچانے کے لیے کامیاب نظریاتی جنگ لڑی اور سب سے بڑی کامیابی یہ کہ 1948ء کے مطالبہ دستور اسلامی کے ساتھ قراردادِ مقاصد منظور ہوئی پھر خواجہ ناظم الدین کی دستوری سفارشات 1954ء وزیراعظم محمد علی بوگرا کا آئین اور 1956ء چوہدری محمد علی کا اسلامی دستور منظور ہوا جنرل ایوب کے 1962ء کے سیکولر دستور کا خلاف پورے نو سال جنگ لڑی اور 1979ء میں اس کومنسوخ کروایا۔
1973ء میں پیپلز پارٹی اور مسٹر بھٹو کے بھاری بھرکم مینڈیٹ کے باوجود سوشلزم کے بجائے قرآن و سنت کا دستور منظور کروایا جماعت اسلامی کی جدوجہد جاری ہے اور مکمل اسلامی نظام کے قیام تک جاری رہے گی۔ چلو چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی!
جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہو گا یہی ہے اک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اُس کا مشتاق ہے زمانہ
عدل، انصاف اور احسان پر مبنی ایک معاشرہ کی تشکیل باقی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ نظامِ رحمت عملی طور پر دنیا کے سامنے آ سکے۔
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود
پھر جبین خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
آسمان ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
س:جماعتی زندگی میں کچھ مقدمات اور گرفتاری سے گزرے یہ تجربہ کیسا رہا؟
ج:1953ء کی قادیانی تحریک میں قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ قائم ہوا، جیل میں بھی رہا، لیکن تحریک کے خاتمہ پر مقدمات واپس لے لیے گئے۔
1977ء کی پی این اے کی تحریک میں امیر ضلع گجرات کی حیثیت سے گرفتاری پیش کی۔ اس کی پاداش میں گجرات جیل اور بعد ازاں شاہ پور جیل سرگودھا میں ساڑھے چار ماہ نظر بند رہا۔
جنرل پرویزمشرف کے دور میں گول باغ لاہور کے جلسہ میں شرکت کی کوشش میں ناکہ بندی کے باعث انارکلی میں گرفتار ہوا۔ 20،25 روز تک کوٹ لکھپت جیل میں رہا۔ اس کے علاوہ جماعتی جلسے جلوسوں میں امتناعی نظر بندی اور پولیس تھانوں میں کئی بار رہنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ جیلیں، گرفتاریاں اور نظربندیاں اس راستے کے بنیادی پتھر ہیں، یہ آزمائش دراصل انسان کے درجات بھی بلند کرتی ہیں اور اس کی ہمت، حوصلے اور خدا میں استقامت کا جذبہ اور ولولہ بھی۔
س: زندگی کے اس مرحلے تک آتے آتے کوئی ایسا اہم کام جو نہ کر سکے؟
ج:قیامِ پاکستان کے بعد زندگی کا ایک مشن بنایا تھا کہ اس ملک کو مکمل اسلامی نظامِ زندگی سے ہمکنار کرنا ہے جو ابھی تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔اس کے لیے جدوجہد جاری ہے اور مرتے دم تک جاری رہے گی، ہمارا کام جدوجہد ہے، کامیابی دینا اللہ کا کام ہے۔
س:جس نصب العین پر جماعت کی تاسیس ہوئی تھی، کیا جماعت آج بھی اُسی پر قائم ہے؟
ج:جماعت کی جن 4 نکات پر تاسیس ہوئی تھی الحمدللہ جماعت آج بھی اُسی نصب العین پر قائم ہے البتہ حالات و واقعات کے مطابق ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ بعض اوقات حکمت عملی پر زور زیادہ نظر آتا ہے اور جس کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نصب العین تبدیل ہو گیا ہے الیکشن کی سیاست یا گوامریکہ گو مہم ہماری حکمت عملی تو ہو سکتی ہے نصب العین نہیں۔
س: آج کل کونسی سی کتاب زیر مطالعہ ہے؟
ج:ایک انگریز مصنف کانسنت اور جل جیور جیو جس کا اُردو ترجمہ ’’محمد ﷺ پیغمبر اسلام‘‘، مشتاق حسین میر نے کیا۔ میں چونکہ ہر وقت کتب مطالعہ کے لیے لوگوں کو متوجہ کرتا رہتا ہوں۔ اس لیے خود بھی جماعت کی تمام کتابوں کا مطالبہ کرتا ہوں۔
س: آپ کے خیال میں کون سی کتب ہر کسی کو لازماً پڑھنا چاہیے؟
ج: میں توکہتا ہوں کہ مولانا مودودیؒ کی تمام کتابوں کو بار بار پڑھنا چاہیے جو کتاب بھی مطالعہ سے رہ جائے گی آپ کی معلومات کا وہ پہلو کمزور رہ جائے گا۔
ذاتی تجربہ یہ ہے کہ مخاطب کی ذہنی استعداد کے مطابق کتاب کا انتخاب کرنا چاہیے اگر قاری مذہبی یا خالی ذہن کا ہے اس کے لیے تو رسالہ ’دینیات‘ اور ’خطبات‘ سے آغاز کرنا چاہیے، لیکن اگر سیاسی ذہن کا ہے تو پھر اس کو اسلام کا نظریہ سیاسی، تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں اور اسلامی دستور کی تدوین سے شروع کرنا چاہیے اور اگر صورتِ حال یہ ہو کہ آخر ملک میں پہلے سے دینی اور سیاسی جماعتیں موجود ہیں تو آخر جماعت اسلامی کونسا منفرد وظیفہ انجام دے رہی ہے تو اس کے لیے شہادتِ حق، فریضہ اقامت دین، حقیقت جہاد اور امر بالمعروف و نہی المنکر کے مضامین کا مطالعہ کرانا چاہیے۔
س: ارکان جماعت کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ج: ہر رکن جماعت کو جماعت کا نصب العین بخوبی سمجھنے اور لٹریچر پڑھ کر جماعت کی دعوت کا ابلاغ کرنا چاہیے ہماری دعوت کے ابلاغ کا بنیادی ذریعہ ارکانِ جماعت ہیں اس لیے ان کی تربیت بہت ضروری ہے اگر ان کا مطالعہ ہو گا تو روشنی پھیلے گی۔ سید مودودیؒ کا فرمان ہے کہ برف کی خاصیت ہے کہ اس کو جہاں رکھ دیا جائے وہ اس کو ٹھنڈا کر دیتی ہے او رآگ کی خاصیت جلا دینا ہے کارکنان کی مثال بھی برف جیسی ہے جتنا اس کا اخلاق اعلیٰ اور پختہ ہو گا وہ اسی قدر اپنے ماحول پر اثر انداز ہو گا۔

0 comments:

Post a Comment