Sunday 15 September 2013

مغرب کے لئے صحیح طرز عمل

| |
اسلام اور اسلام کا نظام رحمت امریکہ اور اس کے حواریوں کے لئے نہ تو پسندیدہ ہے اور نہ قابل قبول ۔مغرب اسلام کے بڑھتے ہوئے قدموں سے خائف ہے اسلئے کبھی تو اسلام کو Militant Islamکہہ کو مطعون کیا جاتا ہے اور کبھی Political Islam۔ مغرب کو صوفی اسلام پسند ہے جس کیلئے آج کل UNOٖ کی سرپرستی میں مہمات ترتیب دی جاتی ہیں اور مسلم معاشروں کو جنگجو اور سیاسی اسلام سے بدظن کرتے ہوئے اس سے بچانے اور دور لے جانے کے لئے صوفی اسلام کا اونچے سروں میں پرچار کیا جاتا ہے، کہ اسلام کا یہ ایڈیشن مغرب کو بہت پسند ہے۔جو اسلام ان کے نظام کو چیلنج کرے ،ان کے مقابل کھڑا ہو جائے وہ ہرگز ہرگز پسندیدہ نہیں۔


اسی طرح ان کو’ قرآن‘ پسند نہیں ،جوکتابِ جہاد ہے۔ اس قرآن سے ان کی جان جاتی ہے۔اسلئے اہل مغرب قرآن کی تعلیمات مسخ کرکے،اسلام اور قرآن کا وہ رُخ پیش کرتے ہیں جو ان کو بھاتا ہے۔اسی طرح پیغمبر اسلام کے خاکے اور فلمیں بنانا اہل مغرب کا محبوب مشغلہ ہے ۔آزادئ اظہار رائے کے نام پر اسلام،قرآن اور پیغمبر اسلام کے خلاف ہر طرح کی زیادتی ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔


مغرب کواسلام سے خائف ہوکر اسلام کے خلاف اقدام کرنے کیلئے کسی سہارے کو نہیں تلاشنا چاہیے۔مغرب کو جو سہارے میسر آتے ہیں وہ اپنے مفادات کے تحت اسلام کا اصل رنگ اور رُخ سامنے نہیں آنے دیتے۔اس لئے ضرورت ہے کہ مغرب اور اہل مغرب اسلا م اورقرآن کی تعلیمات کو براہ راست سمجھیں،اس میں اہل مغرب کا ہی بھلا ہوگا۔


مغرب کا اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ رویہ ایسا نہیں جس کو قابل تحسین قرار دیا جا سکے۔مغرب نے دوہرے معیارات اپنا رکھے ہیں اور ان دوہرے معیارات ،رویوں اور منافقت نے مغرب کا ایک ایسا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جو انصاف پسندنہیں ہے بلکہ اپنے مفادات کے تابع ہے۔مغرب دنیا میں جمہوریت،انصاف،انسانی حقوق اور آئین و قانون کا پرچار کرتا ہے۔ کہیں چوہا بھی مر جائے تو مغرب اور اہل مغرب واویلا کرتے نظر آتے ہیں اور انسانی حقوق کے ادارے فوری حرکت میں آ جاتے ہیں لیکن حالات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہ سب مغرب کے مفادات کے تحت ہوتا ہے۔


مغرب کو دنیا میں وہ جمہوریت پسند ہے جو اس کے مفادات کا تحفظ کرے۔ورنہ وہ آمریتوں کا حامی ہے ۔اسلام پسند الجزائرمیں 80%یا مصر میں 64%ووٹ لے کر کامیاب ہو جائیں تو وہ کسی طرح قبول نہیں اس لئے کہ وہ مغرب کے لئے چیلنج ہیں لیکن عرب شیوخ ان کے گھڑے کی مچھلی بنے رہیں تو وہ اس کو پسند ہیں یا کوئی فوجی ڈکٹیٹر جو ان کے مفادات کا تحفظ کرے وہ ان کا پسندیدہ ہے، چاہے وہ 30سال حکمران رہے اور عوام کے حقوق ، ووٹ اور بیلٹ کا تقدس پامال ہوتا رہے۔مغرب اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے جھوٹی کہانیاں گھڑ کر عراق پر حملہ کر دے تو درست اور افغانستان میں اسامہ بن لادن کا بہانہ گھڑلے تو اسے کوئی روکنے والا نہیں۔


اسی طرح مغرب کے مفادات کے تحفظ کے لئے انسانی حقوق کے ادارے ہوں یا UNOاور اس کی سیکورٹی کونسل اور NATO،فوری حرکت میں آ جاتے ہیں ۔مغرب نے بہت سوچ سمجھ کر ان اداروں کو پروان چڑھایا ہے ،جو ہر مشکل وقت میں اس کے کام آتے ہیں۔اور مقاصد کو آگے بڑھاتے ہیں۔مغرب اور اہل مغرب کا یہ رویہ اسلام اور اہل اسلام کیلئے پسندید ہ ہے اور نہ قرین انصاف۔اس کا نتیجہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں مغرب سے شدید نفرت کا رویہ پروان چڑھ رہا ہے اور اس نفرت کو بڑھانے میں خود مغرب کا اپنا کردار ہے ۔اہل اسلام میں پروان چڑھنے والا یہ رویہ مغرب کے اپنے لئے کوئی سود مند نہیں۔مغرب کو اپنے اس رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے ۔


مغرب کامیڈیا دراصل مغرب کا نہیں یہودیوں کے زیر تسلط اور ان کی بنائی ہوئی پالیسیوں کا مرہون منت ہے،اہل یہود اپنے اس کنٹرول کے ذریعے مغرب اور اسلام میں دیواریں کھڑی کرتے ہیں۔مغرب کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ یہودی مغرب کے خیر خواہ نہیں ،وہ اپنے مفادات کے لئے مغرب کو استعمال کرتے ہیں مغرب کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ اہل یہود کا فائدہ اسی میں ہے کہ اہل اسلام اور مغرب میں دوری رہے اور دونوں فریق قریب نہ ہونے پائیں۔اور وہ اس میں کامیاب ہیں۔اور یہی ان کی کامیابی کا گُر ہے 


اہل مغرب کو یہ حقیقت بھی جان لینی چاہیے کہ دنیا میں وہی قومیں پنپتی اور باقی رہتی ہیں جو عدل و انصاف کا دامن تھامے رکھتی ہیں جو ظلم کے راستے پر چلتا ہے وہ زیادہ عرصہ تک اپنا مقام برقرار نہیں رکھ سکتا۔بہت دور کی نہیں قریب کی بات ہے کہ ایک زمانے میں جب برطانیہ ،’’برطانیہ عظمیٰ‘‘ کہلاتا تھا اور اس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اب یہ وقت ہے کہ اس پر سوج طلوع نہیں ہوتا۔اسی طرح روس، اب وہ روس نہیں رہا جو گزشتہ صدی کے آغاز میں تھا۔اس کے کام نہ سطوت و طاقت آئی اور نہ ہتھیار ۔ برطانیہ اور روس دو بڑی طاقتیں تھیں مگر اپنے ظالمانہ اور عدل و انصاف کے علی الرغم رویّے کے سبب کتنے سکڑ گئے ہیں اور کتنے زوال آشنا ہوئے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔اور یہی تاریخ کا سبق ہے


آج کا مغرب اگر اپنی اداؤں پر غور نہیں کرتا اور یہی رویّے اپنائے رکھے اور اہل یہود کے ہاتھوں میں کھیلتا رہے تو کل وہ بھی قصہ پارینہ ہوگا ۔اس لئےِ مغرب کو اس حوالے سے گہرے غور و خوض اور سوچ بچار کی ضرورت ہے تاکہ اس کی روشنی میں وہ درست سمت کا تعین کر سکے اور آگے بڑھ سکے اور اہل یہود کے دیے ہوئے روڈمیپ سے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرے۔


اگر اہل مغرب اس حقیقت کو پا لیں تو دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اس کا راستہ صرف اور صرف یہی ہے کہ یہودیوں کے دیے ہوئے روڈ میپ پر نہیں اپنی آزاد مرضی کے ساتھ عادلانہ فیصلے کریں۔ لیکن یہودی کبھی نہیں چاہیں گے کہ مسلمان اور اہل مغرب آپس میں ملیں اور دنیا میں امن قائم ہو، اور مغرب آزادی اور آزاد روی کے ساتھ اپنے فیصلے آپ کرنے لگے ۔یہ مغرب کے اہل دانش و بینش کا بھی امتحان ہے کہ وہ کیا رویّہ اپناتے ہیں ، کیا وہ اس گھسے پٹے راستے پر چلتے رہیں گے یا اپنے لئے کسی نئے راستے کے متحمل ہو سکیں گے جو دنیا کے سامنے مغرب کا ایک نیا اور اجلا روپ پیش کر سکے۔بہرحال یہ فیصلہ مغرب کو کرنا ہے اور یہ فیصلہ کرنا اتنا آسان بھی نہیں اور اہل یہود کب چاہیں گے کہ مغرب ان کے چنگل سے آزاد ہو جائے ۔اب دیکھتے ہیں کہ مغرب کیا کرتا ہے۔ع

فیصلہ ترا ترے ہاتھوں میں ہے اسلام یا اہل یہود

2 comments:

بہت اچھی کاوش ہے ۔ ماشااللہ

ماشااللہ
بہت اچھی کاوش ہے۔
کاش کہ اہل مغرب بھی اس سے استفادہ کریں۔
یوسف حیدر

Post a Comment