Thursday 6 March 2014

قاضی حسین احمد ؒ سچے انقلابی تھے

| |
مومنانہ بصیرت اور مجاہدانہ کردار کے مالک قاضی حسین احمد ؒ کو ہم سے جدا ہوئے ایک سال گزر گیا۔ ان کی جدائی ان کے چاہنے والوں پر نہایت شاق گزری تھی ۔ ان کے چاہنے والے ،ان کے جنازے میں شرکت کے لیے پورے پاکستان سے پہنچے ، بزرگ بھی اور جوان بھی ، سیاسی لیڈر بھی اور مذہبی رہنما بھی، ان کے رفقا بھی اور عام آدمی بھی ۔یہ لوگوں کا ان کے ساتھ تعلق اور بے پناہ محبت و الفت کااظہار تھا۔ 
قاضی حسین احمد ؒ کا جنازہ شکوہ مومنین کا دلکش منظر پیش کررہاتھا جس میں ہر طبقہ فکر کاآدمی ان سے اپنے ذاتی تعلق نبھانے اور محبت کے اظہار کے لیے کھینچا چلاآیاتھا۔اس میں زیادہ تر لوگ تو وہ تھے ایک بڑی تعداد جماعت کے رفقاء کی تھی، جوان کے ساتھ ایک نظریاتی و فکری تعلق رکھتے تھے۔ ان سب کا رشتہ قاضی حسین احمد سے استوار تھا ۔ دین کا رشتہ محبت والفت کارشتہ !ان کی وفات کے دن جتنے لوگ ملے اپنے بھی اور غیر بھی سب ہی تعزیت کرتے اور ان کی شخصیت کے گن گاتے نظر آئے ، جیسے ان کا کوئی اپنا پیاراچلا گیاہو۔۔۔قاضی حسین احمد کی شخصیت ہی ایسی دلکش اور پیاری تھی ، ان کاروشن اور خوبصورت چہرہ ،جس کو دیکھ کر انسان مبہوت ہو جائے ۔ اس میں اتنی کشش اور جاذبیت تھی۔ اس طرح کا روشن اور خوبصورت چہرہ اپنے رب کے ساتھ مضبوط تعلق اور قیا م اللیل کا نتیجہ ہی ہوتاہے۔ وہ شب زندہ دار تھے ۔ قرآن ان کی زندگی میں رچا بسا نظر آتا۔ ان کی تلاوت میں عجیب سوز اور لحن تھا ۔خوبصورت تلاوت کرتے ، ان کی گفتگو دلوں کے تار چھیڑتی ،ان کا لب و لہجہ پشتون تھا لیکن از دل یزدبردل خیزد کی کیفیت ہوتی ۔ کہتے ہیں جذبات کی ایک ہی زبان ہوتی ہے ، چاہے گفتگو کرنے والا کسی زبان میں گفتگو کرے اور بولے ۔ ان کی گفتگو دل موہ لینے والی ، قرآنی آیات ، اقبال کے اُردو وفارسی کلام سے مرصع ہوتی اور تاریخی اور موجودہ مثال، مغرب اور مغربی تہذیب کے حوالے اور حالات حاضرہ سے مزین اور پرتیں کھولتی ، وہ مغربی تہذیب کے سخت ناقد تھے ۔ ان کی گفتگو ان کے وسیع مطالعے اور مومنانہ فراست کی آئینہ دار ہوتی ، اُردو ،انگریزی ،عربی اور فارسی میں مطالعہ کرتے ۔ وہ مردم بیزارنہیں مردم پسنداورخوش ذوق و خوش مزاج اور اعلیٰ ذوق کے انسان تھے ۔ وہ قرآن کے مردمومن اورحضور ؐ کے سچے عاشق زار،دین پر دل و جان سے عمل پیرا اور اس کی اقامت کے لیے ہر لمحہ تیار اور جدوجہد پر آمادہ اور برسرپیکار نظر آتے ۔قاضی صاحب ایسی خوبصورت شخصیت کے مالک انسان تھے کہ جو ان سے ملتا انہی کاہوجاتا۔ بقول شاعر


جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ  نے  شاید نہ  دیکھے  ہوں مگر  ایسے بھی  ہیں 

قاضی حسین احمد فرشتہ نہ تھے ،وہ ایک عام انسان تھے لیکن اللہ رب العزت نے ان کو بے پناہ خوبیوں سے نوازاتھا۔ ان تمام خوبیوں کے ساتھ وہ تمام عمر دین کی اقامت کے لیے سربکف رہے ۔ ان کی تمام زندگی اللہ کے دین کی سربلندی اور اقامت کی تصویر نظر آتی ہے۔ امیرجماعت بننے کے بعد تو طویل سفر ان کی زندگی کاحصہ بن گئے لیکن مجال ہے کہ وہ کبھی تھکاوٹ یا کمزوری کااظہارکرتے ہوئے نظر آئے ہوں۔ ہر لمحہ بہت چاک و چوبند نظر آتے۔ ایک سفر میں ،میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ایک مقام پر کچھ دیر چائے پینے کے لیے رکے ، یہی کوئی چارپانچ گھنٹے کی مسافت کے بعد رکے تھے ۔ میں نے انہیں آرام کا مشورہ دیا تو محبت سے بولے کہ بیٹا ابھی طبیعت آرام نہیں کام چاہتی ہے ۔ اس سفر سے رات 12بجے کے لگ بھگ ہماری واپسی ہوئی مگر وہ مکمل چاک وچوبند تھے ۔ اس طرح دوران سفر اکثر دیکھا کہ جہاں کہیں وہ وضویا نماز کے لیے رکتے تو لوگ ان کے پاس جمع ہوجاتے ۔ ان سے ہاتھ ملاتے ، سوال کرتے ،تصویر بنواتے اور محترم قاضی صاحب بھی نہایت خندہ پیشانی اور محبت کے ساتھ ان کے ساتھ پیش آتے ۔
قاضی صاحب جب بھی ملتان تشریف لاتے ہمیشہ خورشید احمد خان کانجو صاحب یا پھر میاں منیر احمد بودلہ صاحب کے ہاں قیام ہوتا۔ ہم ان کو ائیرپورٹ سے لیتے ،پروگرام ہوتا تو پروگرام کی جگہ پر ورنہ دفتر جماعت لاتے ، جہاں وہ پریس سے گفتگو کرتے جماعتی پہلو بھی سامنے لاتے اور ملکی و بین الاقوامی حالات پر بھی روشنی ڈالتے ۔ ان کی گفتگو میں تنوع ہوتااور ملکی حالات پربھی گہری نظر کی غماز ہوتی ۔ 
اسلامی جمعیت طلبہ ملتان ڈویژن کی ذمہ داری کے دوران ان کے ساتھ وفد کی صورت میں ملاقات ہوئی ۔ جس میں انہوں نے اپنی ہدایات سے نوازا ۔ ان کاکہناتھاکہ طالب علم کی حیثیت سے آپ کا فرض ہے کہ اپنی تعلیم کی تکمیل کریں اور ساتھ ساتھ دین کے علم کا حصول اور اس کے ابلاغ کے لیے جدوجہد کریں ۔ اس ملاقات میں جناب عبدالوہاب نیازی ، محمد علی نظامی ، راشد کمال ، عمر نواز ،فاروق بلوچ ،رجب بلوچ اورصہیب اکرام شامل تھے ۔ 
ایک مرتبہ ہم ان کو لینے کے لیے ائیرپورٹ گئے ۔ساتھی تھوڑے تھے لیکن ایک ساتھی نے جذباتی ہو کر نعرے لگانے شروع کردیے ۔ ہم بیٹے کس کے قاضی کے ،ہم ساتھ جیئیں گے قاضی کے ۔۔۔لیکن نعروں کا جواب وہ نہیں تھا جو آنا چاہیے تھااس پر وہ مسکرا ئے اور اس ساتھی کا چہرہ تھام کر سمجھایا کہ افرادکی موجودگی میں ہی نعرے جچتے ہیں۔ 
وہ دو مرتبہ سینٹ کے ممبر رہے ، اور اتنی ہی مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ،اور 5بار امیرجماعت اسلامی پاکستان منتخب ہوئے ۔ پہلی بار امیرجماعت منتخب ہونے کے بعد ’’کاروان دعوت ومحبت ‘‘کے نام سے ایسی جدوجہد کا ڈول ڈالا اور ایسا آہنگ دیا کہ جوان کے ساتھ چلنے والے راہروؤں کو آج تک نہیں بھولتا!جماعت کو عوامی مزاج اور آہنگ دینے کے لیے انہوں نے کتنے جتن کیے ، وہ بھی تاریخ کا انوکھاباب ہے۔
ان کا اپنامزاج بھی عوامی تھا جس کا وقتاً فوقتاً اظہار ہوتارہا۔ عوام سے مل کراور ان میں رہ کر خوش ہوتے۔فیصل مسجد اسلام آباد میں جماعت کا اجتماع عام ہو رہاتھا اور ان کا اختتامی خطاب جاری تھا۔۔۔۔ کیمرہ مینوں ، فوٹو گرافروں اور رپورٹروں نے ڈائس کو گھیر رکھاتھا ۔۔۔۔نہ سامعین کو ڈائس نظر آتاتھا اور نہ مقرر کو سامعین ۔ اس پر قاضی حسین احمد نے ان کو مخاطب کرکے محبت سے کہاکہ آپ لوگ درمیان سے ہٹ جائیں تاکہ لوگ مجھے اور میں ان کو دیکھ سکوں ۔ یہ لوگوں کے ساتھ محبت و تعلق اور عوامی انداز کا مظہر تھا۔
پاکستان اسلامک فرنٹ، ان کاایک انوکھا تجربہ تھا۔ اس نادر تجربے سے بہت خیر برآمد ہوتا لیکن ’’اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے ‘‘کے مصداق ابھی فرنٹ بناہی تھاکہ انتخابات کا بگل بج گیا اور فرنٹ کے نام سے ہی انتخابات میں حصہ لینے کااعلان کردیا گیا۔۔۔جو نتیجہ نکلا وہ سب کے سامنے اور تاریخ کا حصہ ہے ۔ اوراسلامک فرنٹ کا یہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ قاضی حسین احمد چاہتے تھے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کانظام نافذ ہو،اس کے لیے ان کی جدوجہد بے باکا نہ اور سرفروشانہ رہی ۔ 2008ء میں جماعت کااجتماع عام طے ہوا۔ بعد میں امن و امان کی ناگفتہ بہ صورت حال کے پیش نظر ان کو اجتماع عام منعقد کرنے سے روکنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن ان کا کہناتھاکہ جب ایک چیز طے ہوگئی ہے اب اسے حالات سے ڈر کر نہ کرنا مردوں کا شیوہ نہیں۔ اجتماع عام ہر حال میں ہوگا ۔۔۔اور سب نے دیکھاکہ وہ اجتماع عام ہوا، وہ جس بات کاعزم کرلیتے پھر اس سے ٹلتے نہ تھے چاہے جتنی قیمت ادا کرنا پڑے۔ 
2005ء میں آزاد کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں شدید زلزلہ آیا ۔۔۔ تو وہ پوری ٹیم لے کر ان اضلاع میں پہنچے۔ مقامی حالات معلوم کیے اوران کاجائزہ بھی لیا۔ اپنے کارکنوں کو متحرک کیا اور متاثرین کی مدد کے لیے لوگوں کو متوجہ کیا ۔ اس دورے کے دوران بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے رہے ۔ لیکن وہ جس مقصد کے لیے نکلے تھے ،اسے پوراکرکے ہی واپس لوٹے۔ یہ ایسا وقت تھا جب کشمیر اور صوبہ سرحد کے ہر گھر کے لوگ متاثر ہوئے تھے ۔ قاضی صاحب کا دورہ اہل کشمیر کے لیے بڑے حوصلے کا باعث ہوا۔
امارت سے فراغت کے بعد ایک مرتبہ ان کے گھر صفدر علی چودھری اور برادر شمس الدین امجد کے ہمراہ ملنے جانا ہوا ،وہ خود باہر آئے اور ہمیں اندر لے گئے ۔ اس موقعے پر ان سے جماعتی تنظیم ،ملکی و عالمی حالات کے بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی ۔ انہوں نے ہمارے سوالات سنے اور ان کے جوابات دیے ۔ہم نے انہیں کہاکہ کچھ رہنمائی فرمائیں کہ تعلقات عامہ کاکام کیسے کام کریں؟ انہوں نے کہاکہ معاشرے کے عام لوگوں تک جماعت کاپیغام پہنچانا چاہیے۔ عام لوگوں تک پہنچے اور پیغام پہنچائے بغیر بات نہیں بنے گی۔ ہم خود کو ہی سب کچھ نہ سمجھیں ۔ قاضی صاحب نے اس پر اپنے بڑے بھائی اور پشاور یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر عبدالقدوس قاضی کا واقعہ سنایاکہ ایک دفعہ ہم بازار سے گزررہے تھے کہ سرراہ ایک موچی جماعت کامونوگرام سینے پرلگائے بیٹھا جوتے گانٹھ رہاتھااور تم نے مجھ سے کہاتھاکہ بھائی جان یہ مجھے آپ سے زیادہ عزیز ہے کیوں کہ یہ ہمارا نظریاتی ساتھی ہے ۔ قاضی صاحب کہنے لگے کہ میرے بڑے بھائی کو تمام عمرمجھ سے یہ گلہ رہاکہ آپ لوگ جماعت کے باہر کے لوگوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ گویا وہ ہمیں یہ نصیحت کررہے تھے کہ تعلقات عامہ کے کام میں اپنے علاوہ دوسروں کو بھی اہمیت دیں۔
اسی طرح وفات سے پہلے رمضان المبارک میں ان کے دفترمیں برادرم یاسراعجاز (معاون خصوصی ) کے ذریعے ملاقات ہوئی ذکر اللہ مجاہد بھی ساتھ تھے۔ ہم دونوں ان کے پاس حاضر ہوئے تو قاضی صاحب تلاوت قرآن مجید میں مصروف تھے۔ ہمیں دیکھا تو فرمانے لگے کہ جماعتی ذمہ داری کے دوران سب سے زیادہ میرے مطالعہ جات متاثرہوئے ۔ قرآن کی تلاوت اور مطالعہ تو ہوتے تھے لیکن ایک تشنگی کی کیفیت رہتی ۔اب قرآن مجید کا بالترتیب تلاوت اور مطالعہ کررہاہوں۔ اسی دوران برما(میانمار) سے تعلق رکھنے والا ایک وفد ملاقات کے لیے آیا اور قاضی صاحب نے ان کے مسائل سنے اور اپنے اور جماعت کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ وہ ہمیشہ امت کی بات کرتے، اور اُمت کا درد محسوس کرتے اور اس کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے ہر لمحہ تیار رہتے۔ عراق کاکویت پر حملہ ہو یا بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کا مسئلہ، افغانستان ، شیشان ،فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کے لیے ہمیشہ متحرک رہے۔ ۵ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کی اپیل پہلی مرتبہ انہوں نے ہی کی تھی جس پر حکومت اور اپوزیشن نے لبیک کہا اور اب ہر سال یہ دن باقاعدگی سے یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر پر منایاجاتاہے۔
قاضی حسین احمد کی زندگی کاآخری کارنامہ اتحاد اُمت کانفرنس تھی ۔ جو کنونشن سنٹر اسلام آباد میں منعقد ہوئی ۔ کانفرنس میں پاکستان کے چوٹی کے علماء اور دینی قیادت نے شرکت کی ۔ کانفرنس میں اُمت کو جوڑنے اور پاکستان کے سلگتے مسائل کے حل کے لیے لائحہ عمل پیش کیاگیا ۔۔۔انتظامی کمیٹی کے ایک ذمہ دار نے مجھے بتایا کہ کانفرنس سے دوتین روزپہلے تک نہیں لگتا کہ یہ کانفرنس منعقد ہوپائے گی ۔ مگر قاضی صاحب کے عزم اور ولولے نے اس ناممکن کو ممکن کردکھایا۔
وہ علامہ اقبال کے کلام کے عاشق تھے اور اس کا بڑا حصہ انہیں ازبر تھا۔جسے وہ اپنی گفتگوؤں کاحصہ بناتے رہتے تھے۔اقبال کے اُردو اور فارسی کے وہ شعر اور نظمیں یاد آتی ہیں جن کو وہ اکثر پڑھا کرتے تھے ۔ اُردو کی ان نظموں میں خاص طور پر ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ ،شکوہ جواب شکوہ ،امامت ،مسجد قرطبہ ، بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو ،سلطان ٹیپو کی وصیت، خطاب بہ جوانان اسلام اور نصیحت ۔اُردو کے وہ شعر جو وہ زیادہ پڑھتے ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔


بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تو رانی  رہے   باقی   نہ   ایرانی   نہ   افغانی

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کاشجاعت کا
لیاجائے گا تجھ  سے  کام دنیا کی  امامت   کا

یہ نغمہ فصل گل ولالہ کانہیں پابند
بہار   ہو    کہ   خزاں   لاالہ الااللہ 

دیار مغرب کے رہنے والو خداکی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا  جسے  تم  سمجھ  رہے  ہو  وہ اب زرکم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو   شاخ   نارک   پہ  آشیانہ   بنے  گا   ناپائیدار   ہوگا

مگر   وہ   علم  کے   موتی   کتابیں  اپنے  آباء کی 
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتاہے سیپارا

وائے    ناکامی   متاع    کارواں    جاتا  رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

فارسی کے یہ اشعار اپنی گفتگوؤں میں وہ اکثر پڑھتے تھے۔

گردلم  آئینہ   بے  جوہر است 
ور بحر فم غیرقرآن مضمراست
روز  محشر  خوارو رسوا کن  مرا
بے نصیب  از بوسہ   پاکن مرا

شبے پیش خدا بگریستم زار
مسلماناں چرا زارند و خوارند
ندا آمد نمی دانی کہ ایں قوم 
دلے دارند و محبوبے ندارند!

فریاد زافرنگ و دل آویزی افرنگ
فریاد  زشیرینی  و پرویزی   افرنگ
عالم ہمہ  ویرانہ  زچنگیزی  افرنگ
معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خواب گراں خواب گراں خواب گراں خیز
از    خواب    گراں    خیز

در دل مسلم مقام مصطفی است
آبروئے ما زنام مصطفی است 
در شبستان حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید
از کلید   دیں  در  دنیا   کشاد
ہمچو   او   بطن   ام   گیتی  نژاد

قاضی حسین احمد کی وفات کا رات 1:30بجے کے قریب پیغام موصول ہوا اور اس کے بعد پیغامات کانہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ قاضی صاحب کے جانثار اور چاہنے والے ان سے اپنی محبت کااظہار کررہے تھے ۔۔۔اس کے بعد ساری رات نیند نہ آئی ، نماز فجر جامع مسجد منصورہ میں ادا کی ۔ ہر چہرہ غم سے سُتاہوا،ہر دل غمزدہ اور ہر آنکھ نم پائی ۔۔۔فوٹوگرافر،چینلز کے کیمرہ مین اور رپورٹر صبح ہی صبح جامع مسجد منصورہ میں پہنچے ہوئے تھے اور جماعت کے بزرگوں سے قاضی صاحب کے بارے میں گفتگو کررہے تھے ۔۔۔نمازجنازہ کے لیے جناب اظہر اقبال حسن اور میاں محمد زمان کے ہمراہ پشاور پہنچے تو عوام کاجم غفیر تھا جو پشاور کی سڑکوں پر رواں دواں نظر آیا، دوران سفر بھی ہر طرف سے قافلے پشاور کی طرف رواں دواں نظر آئے ۔ فقید المثال جنازہ تھا،جس طرح عمر بھر وہ اُمت کو متحدو یکجا کرنے کے لیے متمنی اور جدوجہد کرتے رہے آج وہ روح پرورمنظر اس طرح نظر آ رہاتھاکہ ملک بھر سے سیاسی او ردینی و مذہبی جماعتوں کے قائدین یکجا نظر آئے ۔محترم امیرجماعت سیدمنورحسن صاحب نے قاضی حسین احمد ؒ اور ان کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا اور نماز جنازہ پڑھائی ۔ جناز ے میں ہر آنکھ نم نظر آئی کہ ایک بڑا بزرگ رخصت ہو رہاتھا۔ جنازہ پشاور سے نوشہرہ کے لیے روانہ ہوا۔ جہاں ان کے آبائی گاؤں زیارت کاکا صاحب میں ان کے خاندانی قبرستان میں دفن کیاجاناتھا۔۔۔زیارت کاکاصاحب پہنچے تویہاں بھی لوگ پروانہ وارہر چہار طرف نظر آئے اور قبر کے گرد بھی ایک ہجوم بے کراں تھاجو قاضی بابا سے اپنی محبت کے اظہار اور تعلق کے لیے جمع تھا ۔ یہیں آصف لقمان قاضی ، انس فرحان قاضی اور ابراہیم قاضی اور برادر م یاسر اعجاز ملے۔ بے اختیار آنکھوں سے آنسوبہہ نکلے۔ یہ قاضی بابا کو ہمارا آخری خراج عقیدت تھا۔
قاضی حسین احمد سچے انقلابی تھے ،قاضی دراصل ایک عہد کا نام ہے ۔ وہ عہد جو ’’جھپٹنے ،پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے ‘‘ اور جہاں بھی اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے،ادھر ڈوبے ادھر نکلے سے عبارت ہے۔ قاضی حسین احمدتحرک ،فعالیت اور جوش و ولولے کی علامت تھے ۔ وہ اللہ والے تھے ، ان کو دیکھ کر اللہ یاد آجاتا۔ ان کا روشن چہرہ ، ایمان کی حرارت سے معمور ہوتا۔ ان کی مسکراہٹ دلوں کو موہ لیتی اور ان سے مل کر زندگی کا احساس ہوتا۔ سید مودودی ؒ نے جماعت اسلامی کی تاسیس کی اور اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی اور اسلامی افکار و نظریات کو عام کیا۔ اور تعلیم یافتہ طبقے کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا جبکہ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو رنگ وآہنگ دیا اور اسے ایک عوامی جماعت بنانے کی کوشش کی تاکہ اسلامی انقلاب کے فیصلہ کن مرحلے کے لیے عوامی سطح پر پذیرائی اور عوامی تائید حاصل کی جاسکے۔ نیز غلبہ اسلام اور اسلامی نظام حکومت کے قیام کی منزل سر کی جاسکے۔ فی الواقع یہی وہ مرحلہ ہے جو اسلامی تحریک کو آج درپیش ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ قاضی صاحب جس جذبے اور ولولے سے قوم میں انقلابی روح بیدار کرنا چاہتے تھے اس جدبے کو ایک بار پھر زندہ کیاجائے۔۔۔قاضی حسین احمد کو خرا ج عقیدت پیش کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔

2 comments:

،قاضی دراصل ایک عہد کا نام ہے ۔ وہ عہد جو ’’جھپٹنے ،پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے ‘‘ اور جہاں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے،ادھر ڈوبے ادھر نکلے سے عبارت ہے۔ قاضی حسین احمدتحرک ،فعالیت اور جوش و ولولے کی علامت تھے


جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

Post a Comment