مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
میر تقی میر کایہ ایک خوبصورت شعر ہے۔ جس میں انہوں نے کسی ’’ انسان‘‘ کی بازیافت کا تذکرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس کام میں کتنے ہی ماہ و سال لگ جاتے ہیں تب کہیں کوئی انسان ، کوئی شخصیت ، منصہ شہود پر ظہور پذیر ہوپاتی ہے اور اقبال نے اس جانب اس طرح اشارہ کیا ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مضمون ایک ہی ہے مگر اسکی ادائیگی کا ان کا اپنا اپنا اندا ز ہے۔ فی زمانہ ’’ انسان‘‘ تو بہت ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا حقیقی انسان سے محروم ہے۔ جو دنیا کے دلدر دور کردے اور ایسا چلن چلے کہ زمانہ مثال دے۔ اس دنیا میں ایسا کردار پیش کرے جو ہر کسی کے لیے قابل رشک ہو۔ ڈاکٹر نذیر شہیدکمزور نحیف جسم و جان مگر مضبوط فولادی عزم اور قوت ارادی کے مالک انسان تھے۔ آپ کے والد گرامی میاں اﷲ بخش مرحوم قناعت شعار انسان تھے۔ جو اپنی تھوڑی سی زمین پر گزر اوقات کرلیتے۔انہیں کثرت مال و زر کی حر ص تھی نہ تمنا! آپ کا آبائی قصبہ تیہنگ ضلع جالندھر تھا جہاں سے آپ کے والد ضلع فیصل آباد منتقل ہوگئے اور ۱۹۲۸ء میں حکومت نے آباد کاری سکیم کے تحت کسانوں کو آسان شرائط پر ضلع ڈیرہ غازیخاں میں زمین دینے کا فیصلہ کیا تو آپ کے والد نے ڈیرہ غازی خاں جیسے دور افتادہ ضلع میں ’’ فاضل پور‘‘ میں قیام کرنا پسند کیا۔ جہاں آپ کی برادر ی تھی اور نہ کوئی تعلق ۔ ایسے میں ۱۳ فروری ۱۹۲۹ء کو ڈاکٹر شہید کی ولادت ہوئی۔
آپ کے والد صاحب صرف ناظرہ قرآن مجید پڑھ سکتے تھے اس کے علاوہ انکی تعلیم نہ تھی مگر انہوں نے ڈاکٹر نذیر شہید کے لیے تعلیم کا خصوصی بندوبست کیا اور آپ کو فاضل پورمڈل سکول میں داخل کرادیا گیا جہاں آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کیا اور راجن پور ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ دین کے ساتھ محبت انہیں گویا گھٹی میں ملی تھی ۔ نماز روزہ کے سخت پابند تھے برائی کو ہاتھ سے روک دینے کے قائل تھے۔ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ تھانہ مٹھن کوٹ کے ہندو تھانیدار کا لڑکا جو ڈاکٹر شہید کا سکول فیلو تھا ، آپ نے دیکھا مسجد کی دیوار کے ساتھ پیشاب کررہا ہے ۔ آپ نے اسے وہیں پکڑ لیا اور خوب پٹائی کی۔ گویا حریت آزادی ،جرأت و بہادری انکے مزاج میں رچ بس گئی تھی۔ میٹرک کے امتحان کے بعد ایف سال اول میں داخلہ کے لیے ایمرسن کالج ملتان کا رخ کیا ۔ کالج میں آپ کی صلاحیتیں خوب نکھر کر سامنے آئیں۔ کالج آکر آپ نے مسلمان طلبہ کو اکٹھا کیا اور ان پر نماز کی اہمیت واضح کی۔ اس طرح با جماعت نماز کا اہتمام کیا اور کالج کی مسجد کو آباد کیا۔ ۔ کالج میں سال اول میں داخل ہونے والے طلبہ کو سینئر طلبہ فولنگ کرتے مگر آپ نے اس کے تدارک کے لیے ایک اصلاحی تنظیم ’’ جمعیت اسلامی‘‘ کے نام سے بنائی جس کے مقاصد درج ذیل تھے۔
۱۔ اقامت صلوۃ۔ طلباء میں نماز با جماعت ادا کرنے کی ترغیب اور نماز نہ پڑھنے والے طلباء پر جرمانہ
۲۔ غریب طلباء کی امدا د کے لیے فنڈ کا قیام
۳۔ اسلامی تعلیم کی طرف دعوت
ڈاکٹر نذیر شہید مولانا خان محمد ربانی اور اپنے ایک دوست عبد الجبار شاکر کی وساطت سے جماعت اسلامی کے لٹریچر کی طرف متوجہ ہوئے اور ہفتہ وار اجتماعات میں شرکت کرنے لگے۔ جماعت کو نہ صرف قریب سے دیکھابلکہ سمجھا اورجب مزاج کے مطابق پایا تو 1946ء میں جماعت اسلامی کے کل ہند اجتماع الہ آباد میں شریک ہوئے ۔ بانی جماعت کے پیغام ،اجتماع کے نظم وضبط، تنظیم اور سلیقہ سے متاثر ہوئے۔ ہم مقصد ا ور ہم ذوق و ہم مزاج رفقاء سے ملنے کے بعد جماعت میں اس اندا ز میں شامل ہوئے کہ اپنے بے لوث عمل اور جہد مسلسل سے جماعت اسلامی کی پہچان بن گئے۔ بہار میں مسلم کش فسادات کے موقع پر غازی عبد الجبار صاحب کی سربراہی میں خدمت خلق کی خدمات سر انجام دیں۔
قیام پاکستان کے بعد بانی جماعت سید مودودی ؒ کے فرمان پر ڈاکٹر نذیر احمد شہید نے دسمبر ۱۹۴۷ء میں جماعت اسلامی کو ضلع ڈیرہ غازی خاں میں متعارف کرانے کے لیے تحریکی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ موجودہ کمرشل کالج ( ہندوؤں کی متروکہ عمارت) میں مہاجر کیمپ میں مہاجرین کا علاج اور انکے لیے ریلیف کی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ شہر میں اپنا ہومیو پیتھک مطب کھولا۔ اس مطب کو جماعت کا دفتر بنایا۔ گھریلو اخراجات کے لیے پندرہ دن مطب پر بیٹھتے اور مہینے کے پندرہ دن جماعت کی دعوت پھیلانے ’’ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کا فریضہ ادا کرنے ، دینی شعور اجاگر کرنے اور ان میں سیاسی بیداری پیدا کرنے اوراحساس کمتری سے نکالنے کے لیے قصبات و دیہاتوں کا رخ کرتے۔ اس وقت ضلع ڈیرہ غازی خاں ( اب ڈیرہ غازی خاں ڈویژن) کی حدیں ڈیرہ اسماعیل خان ( سرحد)سے کشمور( سندھ) تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹرنذیر شہید نے نہایت سرگرمی کے ساتھ تحریکی سرگرمیوں کو سرانجام دیا۔ زندگی کے آخری لمحات تک ضلع ڈیرہ غازیخان کی امارت کی ذمہ داری مثالی انداز میں نبھائیں۔ جماعت اسلامی کی مرکزی و صوبائی مجلس شوریٰ کے شہادت تک (1972ء ) رکن رہے۔جبکہ جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ اور جماعت اسلامی پنجاب کے نائب امیر بھی رہے۔ جاگیر داروں ، تمنداروں اور سرداروں کے ضلع میں ڈاکٹر شہید کی سیاسی سرگرمیاں، ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانا ، نہ صرف سرداروں بلکہ بیوروکریسی کے لیے بالکل انوکھی بات تھی۔ اس لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے نظر بندی ، زبان بندی اور قلم بندی کی مسلسل تعزیریں جاری رہیں۔ دو درجن مقدمات بنائے گئے۔ آئے دن انکی گرفتاری اورجیل میں کئی کئی ماہ قید تنہائی جیسے ظالمانہ ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ ۱۹۶۴ء میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دور آمریت میں جماعت اسلامی خلاف قانون قرار دی گئی اور بانی جماعت اسلامی سمیت مرکزی شوریٰ کے تمام اراکین کو زندان کے حوالے کیا گیا ۔آپ بھی ان گرفتار شدگان میں شامل تھے۔ ڈاکٹر نذیر شہید کا دل بندہ مومن کا دل تھا۔ انہوں نے اعلائے کلمۃ الحق کا علم نہ صرف مضبوطی سے تھامے رکھا بلکہ اسے اتنا اونچا کیا کہ فرمانراؤں کو شہید کی حق گوئی بغاوت نظر آئی۔ پولیس کی نگرانی، پے درپے گرفتاریاں ، مقدمات اور زنداں میں قید تنہائی ۔ لیکن اس پیکر فقر غیور اور صاحب عشق جسو ر کے حوصلے پست ہوئے نہ قدم ڈگمگائے، بلکہ اپنی ایمانی قوت کا اظہار خود اپنے اشعار میں یوں کرتے ہیں۔
کنج قفس ہو یا کوئی گوشہ چمن عارف! ہم جہاں بھی رے آن سے رہے
حق گوئی کی پاداش میں سچ کہنے کی بے گناہی میں ۲۴ سالوں پر محیط تحریکی زندگی میں ۳۱ مرتبہ زنداں میں ڈالے گئے۔ڈاکٹر شہید ایک طویل عرصہ تک جماعت کے ذمہ دار ہے۔ ، ان کی زندگی سراپا تحریک تھی ان کی زندگی کے بے شمار واقعات ہیں جو کارکنان کے لیے رہنمائی کا لوازمہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر نذیر شہید دین کے سچے خادم، اطاعت نظم سے سرشار، حکمت و بصیرت کا مرقع ، جرأت و ہمت کے کہسار، مثالی کارکن اور کامیاب داعی تھے۔
نظم کی طرف سے جاری کردہ تمام ہدایات و احکامات نہ صرف من و عن تسلیم کرتے بلکہ ان پر عمل بھی کرتے ۔ا گر کوئی اختلافی معاملہ سامنے آتا توا س کو متعلقہ فورم پر اٹھاتے اور اس کی توقع اپنے ماتحت نظم سے کرتے خود کو ہمیشہ احتساب کے لیے تیار رکھتے، کارکنان جماعت کو اپنی قیمتی متاع سمجھتے اور انہیں بچوں کی طرح عزیز رکھتے۔ کارکنان کو گرمی کی شدت سے محفوط رکھنے کے لیے سوتے ہوئے رفقاء پر پنکھا جھلتے کہ وہ آرام سے نیند کرسکیں۔ اگر کھبی محسوس کرتے کہ دفتر میں واقع بیت الخلا کی بد بو کارکنان کے لیے تکلیف کا باعث ہے تو رات کے اندھیرے میں چپکے سے صاف کردیتے اور کارکنان کو پتہ بھی نہ چلتا ۔ رفقاء کی غلطیوں ، کوتاہیوں اور خامیوں سے ہمیشہ چشم پوشی کرتے ۔ کارکنان کی تربیت میں جبر اور سختی کے بجائے نہایت حکیمانہ انداز، پیار و محبت اور بھلائی کے پہلو غالب ہوتے۔ حکمت و دانش ہمیشہ پیش نظر رکھتے۔ ضلعی حکام کی جانب سے آپ کو زبان بندی کے احکامات ملتے تب بھی آپ اپنے دورے جاری رکھتے۔ ایک مرتبہ زبان بندی تھی تونسہ شریف کے نزدیک کوٹ قیصرانی پہنچے نماز کے بعد مسجد میں کھڑے ہوگئے اور اپنی تقریر کا آغاز یوں کیا۔ ’’ میری زبان بندی ہے اس لیے میں تقریر نہیں کرسکتا۔ البتہ ذرا حال احوال بتائے دیتا ہوں۔ کیونکہ آپ لوگ ہی کہیں گے کہ ڈاکٹر نذیر آیا مگر حال احوال بھی نہیں بتایا اور یوں ہی چلا گیا۔ اس طرح کوئی اڑھائی گھنٹہ خطاب فرمایا کہنے والی ساری باتیں حال احوال کے تحت ہی کہہ ڈالیں۔ ایک دفعہ موٹر سائیکل سے گر پڑے ،چوٹیں آئیں ، موٹر سائیکل پر بیٹھنا مشکل ہوگیا مگر دورہ جاری رکھا ۔ دورے پر ہمراہ رفیق نے کہا کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں دورہ ملتوری کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا بھائی! یہ لوگ میرے باپ کے ملازم تو نہیں جو میرا انتظار کررہے ہیں ،ان لوگوں کو خوامخواہ تکلیف ہوگی۔ ایک مرتبہ بستی ’’ سمینہ‘‘ میں پروگرام تھا۔ سخت سردی کے دن تھے۔ عصر کے بعد پروگرام کے لیے روانگی تھی کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ 9میل کا فاصلہ سائیکل پر طے کرنا تھا ۔ راستہ کچا اور دشوار گزار ۔ بارش تھمی تو خدا کا نام لے کر چل پڑے ۔آدھے راستے میں تھے کہ بارش دوبار ہ شروع ہوگئی۔ سائیکل چلانا تو کجا اٹھانا مشکل ہوگئی۔ سائیکل ایک طرف رکھی اور پیدل پروگرام میں پہنچے ۔ رفقاء بارش اور انتظار کے باعث مایوس ہوچکے تھے مگر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا تو خوشی سے نہال ہوگئے۔ ایک مرتبہ کسی اجتماع میں جاناتھ ا، آپ کا بیٹا عمر فاروق سخت بیمار بلکہ نزع کے عالم میں تھا، ڈاکٹروں کو بلوایا گیا ۔ تشخیص جاری تھی آپ نے دیکھا کہ اجتماع کا وقت ہواچاہتا ہے۔ آ پ یہ کہ کر چلے گئے کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے میرے رہنے یا نہ رہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ لہٰذا میں تو چلتا ہوں رات گئے اجتماع سے فارغ ہوکرگھر آئے تو معلوم ہوا کہ عمر فاروق اول فوت ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی سراپا دعوت و تحریک تھی آپ نے اپنے آپ کو تحریک کے لیے اس طرح وقف کردیا کہ اس راہ میں آنے والی ہر گھاٹی آپ کے عزم کو جلا بخشنے کا باعث بنتی چلی گئی۔
۱۹۷۰ میں قومی انتخابات میں جماعت اسلامی نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور مغربی اور مشرقی پاکستان میں اپنے امیدوار ان نامزدکیے۔ ڈیرہ غازی خان کی قومی اسمبلی کی سیٹ نمبر1کے لیے ڈاکٹر نذیر شہید کو نامزد کیا گیا۔جماعت اسلامی کے خلاف قادیانیوں اور نام نہاد ترقی پسند لینن نواز ، ماؤ نواز سوشلسٹوں اور انکے آلہ کار مذہبی طبقات نے الزامات واتہامات کا ایک طوفان برپا کردیا۔ انکے پیچھے جاگیرداروں اور وڈیروں کا ہاتھ تھا۔ اس مخالفت کی سب سے بڑی وجہ بانی جماعت کی انقلابی فکر تھی کہ مخلوق اﷲ کی، زمین اﷲ کی،اس پر قانون بھی اﷲ کا ہی ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر نذیر شہید جاگیر دار تھے اورنہ تمندار ، وڈیرے اور نہ پیر تھے ۔،درویش خدامست ،حقیقی عوامی درد رکھنے والے۔ عوام سے آپ کا قریبی رابطہ تھا۔ نہ امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ اور نہ مولویانہ کرو فر اور نہ فرقہ واریت کا جبہ و دستار۔ لو گ جہاں آپ کی فلاحی خدمات ,شرافت اور بے داغ کردار کے معترف تھے،وہاں آ پ کی حق گوئی و بے باکی اور اعلائے کلمۃ الحق جیسی صفات کے مداح بھی تھے، شہید کا دامن تمام آلودگیوں سے پاک تھا۔ شہید نے بانی جماعت کی متذکرہ انقلابی فکر اور دعوت عامہ کے منشور کو عوام کے سامنے رکھ کر ملک میں دین اسلام کے نفاذ کا پروگرام پیش کیا ۔ ساتھ ہی اپنی انتخابی تقاریر میں آپ ان تین باتوں کی طرف لازماً توجہ دلاتے تھے۔
الف۔ ووٹ فروخت نہ کرناکیونکہ یہ قوم کی امانت ہے۔
ب۔ ووٹ کسی آزاد امیدوار کو نہ دینا کیونکہ یہ اسمبلی میں جاکر عموماً بک جاتے ہیں۔
ج۔ ووٹ ضمیر کی آواز ہے اس لئے اسے کسی جاگیر دار، تمندار ، سرمایہ دار کے ڈر کی وجہ سے یا مرعوب ہوکر استعمال نہ کرنا بلکہ بے خوف ہوکر پوری آزادی سے استعمال کرنا۔
شہید کے مقابلے میں ضلع کے طاقتور ترین امیدوار، تمندار، سردار ، پیر اور مولوی تھے اور پیپلزپارٹی کا طوفا ن بھی راہ میں حائل تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے مرد درویش کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ووٹوں کا تناسب کچھ اس طرح تھا۔ ڈاکٹر نذیر احمد ۳۴ ہزار ، پیر خواجہ قطب الدین ۳۱ ہزار،، منظور قیصرانی ۲۷ ہزار، عبد الستار تونسوی ۲۱ ہزار اور نوابزادہ محمد خاں لغاری ۱۷ ہزار ووٹ حاصل کرسکے۔ انتخابی مہم کے دوران دنیاوی و مادی جاہ و جلال ، سطوت و شوکت اور مادی وسائل سے مالا مال یہ حریف اپنے مدمقابل گڈری پوش ، بوریا نشین اور درویش صفت ڈاکٹر نذیر احمد شہید کی عوامی مقبولیت سے بعض اوقات بوکھلا جاتے تھے۔ تمندارانہ اور جاگیردارانہ نظام سے سہمے لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ تمنداروں، سرداروں کے مقابلے میں ایک بے سرو سامان گڈری پوش کیسے ڈٹ کر کھڑ اہے۔ شہید نے غریب اور تمندارانہ نظام استبدادسے سہمے ہوئے لوگوں کو ایک ولولہ تازہ دیا۔ سردار اور تمندار کے مقابل کھڑا ہونے کی جرأت رندانہ کی بنیاد رکھی۔ شہید کا یہ قدم عوام کی سچی محبت کا مظہر تھا۔ اس لیے لوگوں نے آپ کا ساتھ دیا۔
دولت ، قوت، مذہبی فرقہ واریت اور جھوٹے پراپیگنڈے پر مبنی مہم کے نتیجے میں دین کے نفاذ اور اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت کی داعی جماعت مجموعی طور پر قومی سطح پرشکست سے دوچار کردی گئی مگر ضلع ڈیرہ غازی خاں سے ڈاکٹر نذیر شہید قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہو کر سامنے آئے۔
اس موقع پر ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا کہ ۳ مارچ ۱۹۷۱ء کے اعلان کردہ اجلاس قومی اسمبلی میں جو ایم این اے ڈھاکہ جائے گا وہ واپسی کا ٹکٹ نہ لے۔ہم اس ممبر کی ہڈیا ں توڑ دینگے۔ ہڈیاں تو نہ ٹوٹیں البتہ ملک ٹوٹ گیا۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید نے دو ماہ تک مشرقی پاکستان کا دورہ کیا۔ شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو اور عیاش فوجی آمر جنرل یحیٰ خان کی سازشوں سے اہل وطن کو آگاہ کیا۔ بھٹو نے ادھر تم ، ادھر ہم کا نعرہ لگایا اور بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔ ۹۰ ہزار پاکستانی فوجی انڈیا کے جنگی قیدی بنے۔ بھٹو کے اقتدارکے لیے ملک و قوم کو بھاری قیمت اداکرنا پڑی۔ سندھ کا جاگیر دار ذوالفقار علی بھٹو ’’روٹی ،کپڑا اور مکان ‘‘کے پرفریب دعوے اور نعرے ساتھ ترنگا پرچم لے کر میدان سیاست میں اپنے ہم مذہب اور ہم مشرب فوجی جرنیل یحیٰ خاں کی بھرپور پشت پناہی، بے دین اور نام نہاد ترقی پسندوں کے تعاون سے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر پھر ملک کا صدر بن کر نہ صرف پاکستان کا جغرافیائی نقشہ تبدیل کیا بلکہ پاکستانی کی نظریاتی سرحدوں پر بھی بھر پور یلغار کی۔ اسلامی تہذیب و تمدن، نظریات و تعلیمات کو پامال ورسوا کیا جانے لگا۔ اسلام کے نام لیواؤں اور ہر داڑھی والے کی توہین کی جانے لگی۔’’ اسلام پسندے ‘‘کہہ کر آواز لگائی جاتی۔ طالب علم کو استاد سے، مزدور کو آجر سے، مزارع کو کاشتکار سے اور ماتحت کو افسر سے لڑا دیاگیا۔ اسی موقع پر ترقی پسند شاعر حبیب جالب بے ساختہ کہہ اٹھے
غنڈہ گردی کی انتہا کردی پہنے پھرتے ہیں چور بھی وردی
ہر چھچھورے میں یوں ہو ا بھردی رخ پہ انسانیت کے ہے زردی
درج تھے نام جن کے تھانوں میں آج شامل ہیں حکمرانوں میں
قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے کے بعد اس فرض کی ادائیگی میں کراچی ملتان،لاہور سرگودھا اور راولپنڈی کے علاوہ ڈیرہ غازیخاں سمیت ملک کے دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا۔ ایوان زیریں میں عوامی آمر کو نہ صرف روکا بھی بلکہ ٹوکا بھی! جمہوری آمر ذوالفقار علی بھٹو جو۹۷۲ء میں مملکت خداداد کے سیاہ وسفید کے مالک تھے ۔ ڈاکٹر شہید سے یوں مخاطب ہوتے ہیں۔
’’ صدر محترم! جب مورخ تاریخ لکھے گا تو نہ ہم ہوں گے نہ آپ۔ کیا یہ مناسب نہیں اس مورخ کا فرض میں ادا کروں اور آپ کی موجودگی میں ادا کروں ۔ میں بڑی وضاحت کے ساتھ اور ادب و احترام کے ساتھ کہتا ہوں کہ المیہ مشرقی پاکستان اور ملک کی اس ساری تباہی کی ذمہ داری سب سے زیادہ صدر محترم آپ کی ذات پر ہے۔ ‘‘
صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ خدا کے لیے اپنے قلم کی حفاظت کرو اور اہل قتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کہو اور اس قوم کی ترجمانی کرو۔ تمہیں کوئی کھانہیں جائے اور اگر کھا بھی گیا تو کوئی حرج نہیں۔ اگر یہ قوم سلامت ہے ۔ اگر یہ ملک سلامت ہے تو مجھ جیسے اور آپ جیسے یہ قوم سینکڑوں پیدا کرے گی۔ اس قوم کی زندگی کی فکر کرو ۔ اس ملک کی بحالی کی بحالی کی فکر کرو۔ صاف صاف لکھو ۔‘‘
تحریک اسلامی کے اوصاف و خصوصیات کے موضوع پر سرگودھا میں تربیت گاہ سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شہید نے کہا
ََ’’استقامت کوئی معمولی بات نہیں کہ فوراً پیدا ہوجائے کہ جس کے نتیجے میں فرشتے نازل ہوں اور دولت اطمینان دیں۔ جب اس کے لیے کوشش کی جاتی ہے تو سب سے پہلے نفس آگے بڑھتا ہے، علائق دنیا گھیر لیتے ہیں۔ راہ کی مشکلات جلدی سے پیٹھ پھیرنے کا مشورہ دیتی ہیں لیکن داعی حق کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر ایسی استقامت پیدا کرے کہ آدمی اﷲ کی راہ میں مستقل مزاجی سے چلے۔ جب تک جسم کے اندر قوت ہے ٹانگوں میں زور ہے۔ تو پوری قوت سے چلے ۔ ٹانگیں جواب دے جائیں تو گھسٹتا رہے۔ یہ بھی نہ ہوتو حسرت بھری نگاہوں سے دوسروں کو منزل کی طرف اشارہ دیتا رہے۔ اور یہ ارزو رہے کہ دوسروں کی راہنمائی کرے ۔ سیرت نبی ،ؐ سیرت صحابہ ،ؓ مکے کی گلیاں ۔ طائف کے بازار بد ر و احد کے میدان کسی روشنی کے مینا رہیں یا قصے اور حکاتیں ؟ لذت نفس ہے؟خدا کا خوف کیجئے۔ واعظوں نے اس راہ پر نہ تو چلنے دیا اور نہ خود چلے۔ سرگودھا کے بازار بھی ویسے ہی مکہ کے بازار بن سکتے ہیں کہ یہاں پتھروں کی بارش ہو۔ طائف کے بازار یہاں بھی مل سکتے ہیں۔ بدر و احد کے میدان یہاں بھی قائم ہوسکتے ہیں ۔ اس راہ پر چلنے والوں کے لیے یہ سب کچھ موجود ہے۔ اگر یہ مقام نہیں آئے تو آپ اس راہ پر چلے ہی نہیں۔ آپ حق کی آوازکو ذرا نکھا رکر کہیں تو سہی۔ پتھر ہی پتھر آپ کو ملیں گے۔ ہم نے درحقیقت مصالحت کررکھی ہے کفر و ایمان سے ورنہ کیا وجہ ہے کہ جس نے بھی حق کو نمایاں کرکے پیش کیا اسے پھولوں کی بجائے گالیاں ہی پڑیں۔ کانٹوں ہی سے واسطہ پیش آیا۔ اور اگر ایسا ہی ہوا تو خطرہ ہے اس راہ پر چلتے ہوئے استقامت کے بغیر راہ حق سے ڈگمگا جائیں۔ ‘‘
ڈاکٹر نذیر شہید نے کلمۃ الحق کے فریضہ کی ادائیگی اور ضمیر کی آزادی کے تحفظ میں وہی تاریخ ساز کردار ادا کیا جو سید نا حضر ت امام حسین نے ادا کیا۔تاریخ یہی بتاتی ہے کلمہ حق جب بھی اور جہاں بھی گیا بلند کیا گیا اسے وقت کے نمرود صفت اور فرعونی کردار حکمران برداشت نہ کرسکے۔ نشہ اقتدار میں بدمست حکمران حق گو افراد کو کچلتے رہے۔ یہی سلوک سید نا امام حسینؓ کے عقید تمند نذیر شہید کے ساتھ کیا گیا۔ بلا شبہ اشرار کے نزدیک اس سے بہتر کوئی راستہ نہ تھا۔ اپریل ۱۹۷۲ء میں بھٹو کھر ملاقات گورنر ہاؤس لاہور میں ڈاکٹر نذیر احمد کو قتل کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ پہلا قاتلانہ حملہ ۶ جون ۷۲ کو مطب میں ڈاکٹرنذیر شہید پر کرایا گیا جس میں آپ بال بال بچ گئے مگردوسراحملہ ۸ جون ۱۹۷۲ء بروز جمعرات شام کو کیا گیا۔آپ اپنے مطب پر بیٹھے تھے قاتل نے اچانک اندر آکر یکے بعد دیگر ے آپ پر تین فائر کردیئے۔ا آپ کو ہسپتال لے جایا گیا ۔جہاں ۹ بج کر ۵۰ منٹ پر آپ مرتبہ شہادت پر فائز ہوگئے ۔
سید مودودی نے ڈاکٹر نذیر شہید کی شہادت پر گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے اسے عظیم صدمہ قرار دیا اور کہا جماعت اسلامی اپنے ایک بہترین کارکن کی خدمات سے محروم ہوگئی۔ ایک لحاظ سے یہ بات ان کے لیے باعث مسرت ہے کہ جماعت اسلامی کے ایک اور کارکن کو راہ خدا میں جان دینے کی سعادت نصیب ہوئی جس سے بڑھ کر مومن کے لیے اور کوئی مقصود نہیں ہوتا۔ جو لوگ ڈاکٹر صاحب کو جانتے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ انکی کسی سے ذاتی عداوت نہیں تھی جس کی بناء پر انہیں قتل کردیتا۔ ان سے عداوت کی اگر کوئی وجہ کسی کے لیے ہوسکتی ہے تو صرف اﷲ کے دین کی سربلندی کے لیے ان تھک کوششیں اور حق گوئی ہوسکتی تھی۔ ڈاکٹرنذیر احمد کو قتل کردینے سے قاتلوں کا مقصد حاصل نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ جب تک جماعت اسلامی ایک آدمی بھی زندہ ہے اس وقت تک انشاء اﷲ یہ کام جاری رہے گا۔
ڈاکٹر نذیر احمد شہید کے تین فرزند اور سات صاحبزادیاں بقید حیات اپنی خاندانی روایات اور شہید والد کے افکار و نظریات اور جذبات کا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑے فرزند میاں محمد ابوبکر صدیق ہیں۔۔منجھلے فرزند ڈاکٹر عمر فاروق ہیں جو اپنے شہید والد کی مسند مطب پرنذیر شہید کے نام سے موسوم کلینک پر پریکٹس کرتے ہیں جبکہ سب سے چھوٹے فرزند ڈاکٹر میاں حسین بھی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔
ڈاکٹر نذیر شہید تحریک اسلامی کا گل سر سبد تھے جنہوں نے اس راستے میں نہ صرف اپنی صلاحیتیں کھپائیں بلکہ اپنی جان بھی اس راستے میں قربان کردی۔ اﷲ کے ہاں ان کا اجر محفوظ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو اﷲ کے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر شہید کارکنان تحریک کے لیے یہ پیغام دے گئے ہیں کہ یہ راستہ حق کا راستہ ہے۔ اس راستہ میں پیش قدمی ، جدوجہد اور کشمکش نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی کامیابیوں سے ہمکنار کرے گی۔
0 comments:
Post a Comment