Tuesday, 19 February 2013

ماہنامہ ترجمان القرآن کے حسن البنا شہید نمبر سے چند اقتسابات

| |
ہفتہ وار ایشیا کے شمارہ نمبر ۳۰ ۔۔۔۲۵ جولائی ۲۰۰۷ء کے صفحہ ۲۶۔۲۷ میں جناب دانش یار نے حسن البناء ؒ پر مبنی ماہنامہ ترجمان القرآن سے کچھ اقتباسات ارسال کیے، ان کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ جماعت اسلامی کی تحریک سے وابستہ پیرو جواں کو اخوان المسلمون کے کردار کے آئینے میں اپنا جائزہ لینے کی طرف متوجہ کریں۔ میرے مطالعہ میں چند مزید اقتباسات بھی قارئین ایشیا کی توجہ کے طالب ہیں۔ اس لیے کہ ۔۔۔۔۔۔ نو را تلخ ترمی زن چوں ذوقِ نغمہ کم یابی
۱۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر مظاہرے کے پیچھے اور ہر ہڑتال میں سرگرم ہیں۔یہ وہ تحریک اور طاقت ہے جو اسی بیداری کی سر خیل ہے جو آج کل ملی احساس کو زندہ کررہی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں ، جنہوں نے ایک ہی دن میں جلاوطنی کے ایک لاکھ بیج ( Badges)نہ صرف تقسیم کردیے بلکہ معزز مصریوں کے سینوں پر سجا بھی دیا۔ ص۳۳۲
۲۔ امیر اور مامور ۔۔۔ ’’ مرشد عام: مشرع شخصیت ، چمکتی آنکھیں ، فیصلہ کن اور توانا آواز ۔۔۔ اس کے حکم پر لاکھوں انسان اپنے خوان کا آخری قطرہ تک بہادینے کے لیے تیار ہیں اور یہی وہ اصل طاقت ہے‘‘ ص۳۲۲۔۔۔ ( اپنے امیر کی شخصیت کا سوز و ساز اور ولولہ شہادت دیکھیے اور جب نکلنے کی پکار آتی ہے تو ہم بڑے شہروں والے ہی کس قدر’’ لبیک۔۔۔ لبیک۔۔۔۔۔۔‘‘ کہتے ہیں۔ ( سنتا جا۔۔۔۔۔۔ پڑھتا جا اور سر دھنا !!)
۳۔ ’’ ۵ ہزار ( پانچ ہزار) انصار ۔۔۔۔۔۔ ( ہمارے متفقین کی مانند ؟ ) جلاوطنی کے دن کے حادثے کے بعد ان سے ہدایات لینے پہنچ گئے۔ اب اس شخص کی نمایاں خوبی ظاہر ہوتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ لوگوں کو خطاب کس طرح کیا جائے اور ان کے احساسات کو کس طرح شعلہ بار کیا جائے۔ میں سن رہا تھا۔ جب وہ ان سے کہہ رہے تھے: سنو! بہترین انسانو! ے لشکر نجات، آزادی کے پیغامبرو، اے راتوں کے تہجد گزارو اوردن کے شہ سوارو!‘‘
مرشد اپنے کارکنوں کی خوبیوں کا ادراک کرکے ان کی ان صفات کو مزید اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ کیا جب میرا امیر ۔۔۔ اپنے کارکنوں سے کبھی یوں مخاطب ہوگا۔۔۔ تو کیا میں اس اہل ہوں کہ اس جماعت کا ایک رفیق و شریک ہونے کا ہل قرار پاسکوں گا!
۴۔ ’’ وہ انہیں پر امن مظاہروں کا حکم دیتے ہیں، تاہم وہ یہ نہیں سمجھتے کہ صرف ان پر امن مظاہروں سے مصر کو اس کے حقوق مل جائیں گے۔ لیکن ان کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ فی الحال یہ خون دینے کا وقت نہیں ۔۔۔۔۔۔ اس لیے اپنی طاقت کو محفوظ رکھا جائے۔ 
میں نے پوچھا ’’ اس وقت اخوان سے وابستہ کتنے حلقے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ’’ مصر میں ۱۵۰۰ حلقے ہیں۔( ہمارے ہاں کا مقامی جماعت کا حلقہ اس طرح کا حلقہ قرار دیا جاسکتا ہے۔)جن سے لاکھوں اخوان وابستہ ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں ہمارے کئی حلقے ہیں۔ جن سے ڈیڑھ لاکھ اخوانی کارکن وابستہ ہیں۔ اخوان المناصرون( متفقین) ان کے علاوہ ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ فی الحال باقاعدہ ہمارے ساھ شرک عمل نہیں ہوئے۔ ص ۳۳۴
۵۔ اگر آپ کو حکومت دی گئی تو آپ اسے قبول نہیں کریں گے؟
امام حسن البناء شہید نے فرمایا۔’’ میں حکومت کو قبول کرلوں گا کیونکہ حکومت عیش و عشرت کا نام نہیں بلکہ یہ تو ایک گراں بار ذمہ داری ہے جو جہاد جیسی قربانی کا متقاضی ہے۔ اگر میں نے حکومت قبول کرلی تو انگریزوں سے کہوں گا کہ وہ فوراً اور مکمل طور پر مصرسے نکل جائیں یا مصریوں سے کہوں گا ۔۔۔ اے میری قوم کے لوگو! جہا کرو، صرف جہاد ہی سے آزادی مل سکتی ہے۔ ‘‘ ( اس بیان کو سید علی گیلانی چیئرمین حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر کا تصور کرکے پڑھیں)
۔۔۔ ’’ میں ہر اس وزیر اعظم کے پیچھے چلنے کو تیار ہوں جو جہاد کی دعوت دے‘‘ ص ۳۳۵
۶۔ ’’ ہمارا اسلحہ ایمان ہے، اخوان میں سے ہر ایک اس پر ایمان رکھتا ہے کہ اﷲ تبارک تعالیٰ نے ان کی جانیں اور مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں: وہ اﷲ کی راہ میں جہاد کریں گے۔ قربانی دیں گے اور سامراج سے آزادی چھینیں گے۔۔۔۔۔۔۔ جہاد کے موقع پر تم ہمیں دیکھو گے کہے ہم گولیوں کے سامنے یہ کہتے ہوئے ڈٹ جائیں گے۔ اے جنت کی ہواؤ! آؤ ہماری طرف، آؤ ہماری طرف‘‘
۷۔ میں نے پوچھا’’ کیا آپ کی جماعت کے پاس مال و دولت ہے؟ ‘‘ انہوں نے فرمایا
’’ ہماری جماعت سب سے زیادہ غریب ہے اور سب سے زیادہ دولت مند بھی۔ ہمارا باقاعدہ سرمایہ تو اخوان کے چندے اور اعانتیں ہیں۔ البتہ فی الواقع اخوان سے وابستہ کارکنوں کی ساری دولت ہماری دولت ہے۔ جب ہم نے یہ مرکزخریدنے کا فیصلہ کیا اس وقت اخوان کے بیت المال میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اخوان نے ایک ہی دن میں ۱۶ ہزار پونڈ ادا کردیے۔ ہم نے یکم فروری کو اعلان کیا کہ ’’ ہمیں ایک اخبار اور پریس کی ضرورت ہے، جس کی لاگت ڈھائی لاکھ پاؤنڈ ہے۔ کیونکہ ہم مشرق وسطیٰ میں اس قسم کا سب سے بڑا ادارہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اخوان نے دو ہفتوں میں ۲ لاکھ اور بیس ہزار پاؤنڈ پیش کردیے۔ ‘‘ص ۳۳۶
۸۔ ۔۔۔’’ زیادہ بحث و مباحثہ نہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مناظرہ بازی اور فضول بحث سے کوئی بھلائی حاصل نہیں ہوتی۔ ‘‘ ص ۳۳۶۔۔۔۔۔۔ اﷲ سے ملا ہوا دل پر سکون اور سنجیدہ ہوتا ہے اور سنجیدگی ہی جہاد کا طرہ امتیاز ہے۔ ‘‘ ص ۳۳۶
۹۔ ’’ اخوان المسلمون موجودہ دور میں قرآن مجید کا ایک معجزہ ہے۔ ‘‘ امام حسن البناءؒ نے اپنے علم وعمل، ہدایت و رہنمائی ، فعالیت و روحانیت ، مضبوط اور غیر متزلزل ایمان اور کامل اطاعت سے اس جماعت کو بے پناہ قوت و توانائی پہنچائی اور اسی جماعت کے افراد نے ایسے عظیم الشان و ناقابل فراموش کارنامے سر انجام دیے ہیں، جن سے قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہوگئی۔ ‘‘ ص ۳۳۷
۱۰۔ آج مصر اور غیر مصر کے بے شمار نوجوانوں میں جو پاکیزہ دینی اور روحانی رجحانات پروان چڑھے ہیں تو یہ شہید کی دی ہوئی اسلامی تعلیم وتربیت ہی کا نتیجہ ہے۔ شہید کی اس تربیت کے روشن نتائج فلسطین کے میدان جہاد میں اخوان کی شجاعت و بہادری اور ان کے جذبہ قربانی و ایثار کی صورت میں ہمارے لیے مینارہ نور اور بہترین مثال ہیں۔ ‘‘ اگر اخوان کے راستے میں اپنوں اور غیروں کی طرف سے خفیہ سازشیں ،ر سیہ کاریاں اور رکاوٹیں کھڑی نہ کی جاتیں تو فتح و نصرت خداوندی کی تکمیل اور مجاہدین کی کامیابی کی صورت میں آج حالات بالکل مختلف ہوتے۔