Monday, 25 February 2013

صرف اسلام امریکہ کو نسل پرستی کی عفریت سے نجات دلا سکتا ہے

| |
مکہ ، وہ مقدس سرزمین ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت محمد ﷺ کا گھر ہے اور جہاں ان پر مقد س کتاب ( قرآن) نازل ہوئی۔ اس مقدس سرزمین پر زبردست ہجوم کے باجود مسافروں کی مہمان نوازی، بھائی چارہ، جذبۂ اخوت کی حقیقی روح تمام نسلوں اور رنگ کے انسانوں کے ساتھ نظر آتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس مہربانی اور لطف و عنایت روارکھے جانے پر ہی حیرت سے دم بخود تھا جب میں نے اپنے اردگرد تمام رنگ و نسل کے انسانوں کو دیکھا۔ 
یہ مجھ پر اﷲ کا خاص فضل وکرم ہے کہ مجھے اس پاکیزہ اور مقدس شہر مکہ جانے کا موقع ملا۔ میں نے کعبہ کے سات چکر لگائے ۔ ایک نوجوان گائیڈ محمد نے میری رہنمائی کی۔ میں نے زم زم سے جی بھر کر پانی پیا۔ صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے سعی کی اور منیٰ کے قدیم شہر اورمقام عرفات میں عبادت کی۔ یہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے لاکھوں حجاج موجود تھے۔ جن میں تما م رنگ و نسل ، نیلی آنکھوں، سنہرے بالوں اور کالی رنگت والے افریقی بھی موجود تھے۔ جو تمام مراسم عبودیت نہایت اہتمام، حقیقی روح، جذبہ اتحاد و یگانگت اور بھائی چارہ کے ساتھ ادا کررہے تھے۔ لیکن امریکہ میں میرا تجربہ اس کے برعکس تھا کہ گورے اور کالے کہیں اکٹھے ہوسکتے ہیں یا رہ سکتے ہیں۔ 
امریکہ کو اسلام سمجھانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک ایسا دین ہے جو امریکی معاشرے کو نسل پرستی کے تعصب سے نجات دلاسکتا ہے۔ پوری مسلم دنیا جہاں جہاں میں مختلف لوگوں سے ملا،ان کے ساتھ کھانا کھایا، سفر کیا ،میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ گوری رنگت کا تعصب گوروں کے ذہنوں سے صرف اور صرف اسلام کی تعلیمات کے ذریعے نکل سکتا ہے۔ اس سے قبل میں نے اتنا اخلاص، سچی اخوت و محبت بلاتفریق تمام رنگ و نسل کے انسانوں میں کہیں نہیں دیکھی جتنی مسلم دنیا میں دیکھی۔ 
میرے یہ الفاظ آپ کے لیے صدمے کے باعث ہوں گے لیکن سچ یہی ہے کہ اس حج کے دوران میرے مشاہدے اور تجربے نے مجھے مجبور کیا کہ میں اپنے پرانے خیالات اور اخذ کردہ نتائج کو ایک طرف رکھ دوں ۔ اور انہیں از سر نو ترتیب دوں ۔ اسکے باوجود کہ میں نہایت محکم اور پختہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ حقائق کا سامنا کروں، اور زندگی کی حقیقت کو نئے تجربے اور نئے علم کے طور پر جانوں۔ سچائی تک پہنچنے کے لیے کھلے اور بیدار ذہن اور لچک دار ی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ 
ان گیارہ دنوں میں ، میں نے مسلم دنیا کے نیلی آنکھوں، سنہرے بالوں اور دودھ جیسی سفید رنگت والے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھایا۔ ایک گلاس میں پیا، ایک قالین پر سویا اور ایک اﷲ کی عبادت کی۔ ان گورے مسلمانوں کے الفاظ اور اعمال میں ، میں نے وہی اپنائیت ، خلوص پایا جو نائیجیرین، سوڈانی اور گھانا کے کالی رنگت والی مسلمانوں میں پایا۔ حقیقت میں ہم سب بھائی ہیں۔ ایک خدا پران کے محکم ایمان اور عقیدے نے ان کے دل و دماغ اور رویوں سے رنگ و نسل کا تعصب کھرچ ڈالا۔ 
میں سمجھتا ہوں کہ اگر امریکی خدائے واحد کی توحید کو قبول کرلیں تو وہ وحدت آدم کے بھی قائل ہوجائیں گے۔اسی طرح وہ رنگ و نسل کے اختلافات اور نقصانات سے بھی نکل سکتے ہیں۔ نسل پرستی کا طاعون امریکہ کے لیے ناقابل علاج کینسر ہے۔ نام نہاد عیسائیت اور امریکی اس کو تباہ کن مسئلہ کے طور پر ثابت شدہ دلیل کے طور پر ماننے میں دیر نہیں کرینگے۔ شایدیہ امریکہ کو اس جلد رونما ہونے والی بڑی تباہی سے بچاسکے کیونکہ نسل پرستی کی یہ آفت اس سے پہلے جرمنی پر گزر چکی ہے۔ جس نے بالآخر جرمنوں کوتوڑپھوڑ ڈالا ہے۔ 

اس مقد س سرزمین پر گذرنے والا ہر لمحہ میرے اندر اس استعداد او ربصیرت میں اضافہ کرتا رہا کہ امریکہ میں کالے اور گورے کے مسائل اور حقائق کے بارے میں محسوس یا جاتا ہے۔ امریکن نیگرو کا تشخص نسل پرستی کی عداوت کو الزام نہیں دے سکتا۔ وہ تو چار صدیوں سے امریکی نسل پرستی کے مسئلہ پر اپنا رد عمل دے رہے ہیں۔ امریکہ میں نسل پرستی کا رجحان دراصل امریکہ کے لیے خو د کشی کا راستہ ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اور اسکے ساتھ ہوں کہ امریکی نوجوان نسل جو کالجز اور یونیورسٹیز میں زیر تعلیم ہے وہ یہ نوشتہ دیوار پڑھ کر سچائی کے روحانی راستے کی طرف گامزن ہے۔ صرف اور صرف اسلام امریکہ کو نسل پرستی کے عفریت سے نجات دلا سکتا ہے۔ 
کبھی اتنا معزز نہ ہوتا اور نہ عاجزی محسوس کرتا ، ایک امریکن نیگرون پر خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے ڈھیر لگائے جائیں گے۔ چند روز پہلے امریکہ کے اس آدمی کو جو اقوام متحدہ میں ڈپلومیٹ او ر سفیر تھا ۔ شہنشاہوں کا دوست تھا نے اس نے ہیچمدان کو رہنے کے لیے اپنا کمرہ اور بیڈ عنایت کیا۔ میں کبھی اس کا تصور بھی نہ کرسکتا تھا۔ یہ بخشش اور عطائیگی جس کی امریکہ میں بارش کی گئی ایک شہنشاہ پرتو ہوسکتی تھی نہ کہ ایک نیگرو پر !
تما م تعریفیں اﷲ کے لیے ہی روا ہیں، جو تمام جہانوں کا مالک اور آقا ہے۔ 

مخلص
  (الحاج ملک الشہباز ؛ (میلکم ایکس
اپریل 1964میں میلکم ایکس کا حج کرنے کے بعدایک فکر انگیز اور مختصر خطاب