خرم مراد تحریک اسلامی کا گل سرسبد تھے۔ تحریک ان کی زندگی کی پہلی ترجیحات میں سے تھی، ابتدائی زندگی ہی میں تحریک سے متعارف ہوئے۔ انھوں نے شعوری طور پر اس راستے کو اختیار کیا۔ اس راستے پر آئے تو پھر تمام عمر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ نہ کبھی ان کے قدم ڈگمگائے، اور نہ راستہ بدلنے کا سوچا۔
وہ کمزور جسم و جان مگر فولادی عزم وحوصلے کے انسان تھے، بولتے تو سوچ سمجھ کر، ہر لفظ پر غور کرتے، پوری تیاری اور ذمہ داری کے ساتھ بولتے، وسیع المطالطہ، تحریکی لٹریچر ہی نہیں جدیدو قدیم پرنظر رکھنے والے، انھیں سید مودودیؒ کے لٹریچر کا حافظ کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔ انھیں عبارتوں کی عبارتیں یاد تھیں، لکھتے تو بھی حوالے کے ساتھ، تقریر و تحریر دلائل و براہین سے مزین ہوتی، گفتگو بھی خوب ہوتی تھی مگر تقریر خوب تر، اقبال کے اشعار کا خوب استعمال کرتے۔ اعتماد بلا کا تھا، کیوں نہ ہوتا کہ اللہ کے دین کی اقامت کے علمبر دار تھے، شب زندہ دار، رات کے راہب اور دن کے شہ سوار، مشکل بات کہنے اور انکار کی جرأت کا سلیقہ رکھنے والے۔ قید وبند کی صعوبتوں سے بھی گزرے اور اللہ نے اس اسیری کو ان کے لیے اعتبار افزا بنا دیا۔ مگر پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ تمام عمر پورے شعور، یقین اور دل کی آمادگی کے ساتھ اس راستے پر گامزن رہے۔ ’’وفا داری بشرط استواری اصل ایماں‘‘ کا پیکر بنے رہے۔ وہ تحریک کا سرمایہ تھے، حقیقت میں تو وہ فنا فی التحریک تھے۔تحریک اسلامی ان کا اوڑھنا پچھونا تھی کہ یہ اللہ کے دین کی اقامت کی تحریک ہے۔ جب تحریک کو اوڑھنا بچھونا بنایا تو پھر اس کے لیے انھوں نے عوامی زندگی تک (Public Life) ترک کر دی۔ گویا ان کی زندگی کا ہر ہر لمحہ یاد خدا، اور راہ خدا میں جدوجہد سے عبارت تھا۔
وہ تحریک کا دماغ اور فکری رہنما تھے، تحریک کے بارے میں سوچتے، غور وفکر کرتے، کام کو آگے بڑھانے کے پلان بناتے، منصوبہ عمل کی تیاری ان کے ذمے لگی تو پانچ پانچ سالہ منصوبہ تیار کیا، پھر اس طرح سالانہ منصوبہ، جو کام کرتے خوبصورت انداز اور درجہ کمال تک پہنچانے کے جذبے کے ساتھ پاکستان اسلامک فرنٹ انھی کا آئیڈیا تھا، بہت بے مثال اور خوبصورت آئیڈیا کہ تحریک کے کام کے لیے معاشرے کے صالح عنصر کو کیسے تحریک کے کام میں استعمال کیا جائے مگر اس آئیڈے کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بن کھلے مرجھا گیا،اور آج مصر اور ہندوستان کی تحریک اسلامی اس آئیڈیے پر عمل پیرا ہے، اس طرح بزم پیغام کے ذریعے سکول کے طلبہ تک تحریک کا پیغام پہنچایا جائے اور نیکی کی آبیاری کی جائے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ ان کی وابستگی اور تعلق آخر دم تک قائم رہا، اعانت بھی دیتے مگر اس کے ساتھ ساتھ رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کرتے، کبھی اس پہلو سے غافل نہیں ہوئے، تام عمر اپنا تجربہ اور مطالعہ اسلامی جمعیت طلبہ کی جھولی میں ڈالتے رہے کہ یہ تحریک اسلامی کی نرسری جو ٹھیری اس قافلہ سخت جاں کی اٹھان میں ان کا حصہ وافر رہا۔ گویا ان کی نظر میں عالم نو کی سحربے حجاب تھی۔
ترجمان القرآن کے مدیر رہے، یہ وہ زمانہ تھا جب ترجمان کی اشاعت گھٹ کر چند ہزار ہوگئی تھی مگر انھوں نے اس چیلنج کو قبول کیا، نہ صرف اشاعت بڑھائی بلکہ اس کے مضامین کے معیار کو بھی بہتر کیا۔ اور اس طرح ترجمان القرآن اپنی زندگی کے ایک نئے دور میں داخل ہوا۔
وہ لاہور جماعت کے امیر بھی رہے، لاہور جیسے بڑے شہرمیں اس طرح باہر سے آ کر کام سنبھالناایک مشکل کام تھا۔ مگر انھوں نے اس کام کو سنبھالا نئی نئی اور مفید چیزیں متعارف کرائیں، اُس زمانے میں شاید لاہور میں پہلی مرتبہ رمضان کے آخری دنوں جماعت اسلامی لاہور کی شب بیداری بادشاہی مسجد میں منعقد ہوئی جس میں عام لوگوں کی شرکت بھی وسیع پیمانے پر تھی، ان کا خیال تھا کہ رمضان کے دنوں میں معاشرہ میں نیکی کی قبولیت کا رجحان فزوں ہوتا ہے اس رجحان سے تحریک کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے زمانے میں مجھے ان کی کتنی ہی گفتگوئیں سننے اور ان سے ملنے کا موقع ملا۔ وہ ہمیشہ محبت سے پیش آتے۔ ۱۹۹۱ء میں جب انھوں نے ۱۰ روزہ فہم و تدریس قرآن کورس شروع کیا تو مجھے بھی اس کی پہلی کلاس میں شرکت کا موقع ملا۔ وہ دس روز تک باقاعدگی کے ساتھ کلاس کے لیے اپنے وقت پر تشریف لاتے، شرکا کے درس سنتے، اس پر اپنا تبصرہ کرتے، رہنمائی دیتے بعض اوقات بہت سخت اور تلخ سوالات بھی ہوتے مگر وہ نہایت سکون کے ساتھ سوال سنتے اور پھر مخصوص مسکراہٹ، حوصلے، شائستگی اور دلسوزی کے انداز میں اس گتھی کو سلجھادیتے، سوال کرنے والا بھی مطمئن ہو جاتا اور سننے والا بھی، ایک مرتبہ کسی صاحب نے یہ بھی سوال کیا کہ آپ تو جماعت میں لبرل خیال اور فکر کے حامل ہیں، بالخصوص جماعت میں نئی نئی چیزوں کا متعارف کرانا اور چہرے کے حجاب کے حوالے سے بھی آپ کا نقطہ نظر دین کے عمومی تصور سے ہٹا ہوا ہے۔ اتنے سخت سوال پر بھی کیا مجال کہ وہ غصے یا جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے ہوں، نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ انھوں نے جواب دیا۔
فہم وتدریس قرآن کورس کا آخری روز تھا، شرکا کے لیے وہ خود شرینی لائے اور سب کو گلے سے لگایا اور رخصت کیا۔ ان کا اس طرح ہر شریک کو گلے لگا کر رخصت کرنا میرے لیے ایک نئی بات تھی، جب اپنی باری پر میں ان کے گلے لگا یعنی ’جپھی‘ ڈالی تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی چیز میرے دل میں داخل ہو رہی ہے اس کیفیت کو کیسے بیان کروں آج تک سمجھ سے بالا ہے، یہ ایک لمحہ ہی تھا مگر آج بھی دل پر نقش ہے بھلاؤں تو بھی نہیں بھولتا۔
وہ سول انجینئر تھے مگر جب انھوں نے سمجھ لیا کہ اس قوم کی بگڑی بنانے کا واحد ذریعہ قرآن کے ساتھ وابستگی میں ہی مضمر ہے تو انھوں نے اس کو اپنا اوڑھنا پچھونا بنایا۔ عربی زبان سیکھی اور دینی تعلیم مکمل کی قرآن وسنت پر ان کی گہری نظر تھی، جس کا گہرا عکس ان کی تحریر و تقریر میں جابجا ملتا ہے۔میرا خیال ہے کہ وہ بہت اچھی اردو، انگریزی کے ساتھ عربی و فارسی بھی جانتے تھے جس کی چھاپ ان کی تحریریں ملتی ہے۔
سید مودودیؒ کے بعد تحریک اور تنظیم کی فکری و عملی رہنمائی کا بہت بڑا ذریعہ ان کی تحریریں ہیں، چند تصویریں سیرتؐ کے البم سے ، قرآن کا راستہ، وصیت اور لمحات بار بار پڑھنے والی تحریریں ہیں۔ اسی طرح تحریک کے تقاضے، مغرب اور عالم اسلام، ان کی تقریریں جو انھوں نے مختلف مواقع پر جماعت اور جمعیت کے پروگرامات اور تربیت گاہوں میں کیں، خاصے کی چیزیں ہیں، اسی طرح ان کے زمانے ادارت میں ترجمان القرآن کے اشارات، جماعت اور جمعیت کے حوالے سے وہ کسی مداہنت ،لالچ اور خوف کے بغیر، اور پورے شعور وآگہی کے ساتھ ’’آئین نو‘‘ پر چلنے کے قائل تھے، وہ سمجھتے تھے کہ یہ منزل گو کہ کٹھن اور مشکل ہے مگر تحریکیں اور جماعتیں تبھی آگے بڑھ پاتی ہیں جب وہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے اور اس کے تقاضوں کے داعیے کے ساتھ کام کرتی ہیں۔
اس کا پر تو ان کی تحریروں اور گفتگوؤں میں جا بجا نظر آتاہے۔ ان کی شخصیت قرآن وسنت کی تعلیمات میں ڈھلے ہوئے اقبال کے کتنے ہی شعروں کا کے مصداق تھی تو ان کی شخصیت تھی، ان کی زندگی بھی اس فکر کی غماز اور عملی نمونہ تھی، اقبال کے کتنے شعر ان پر صادق آتے۔
نرم دمِ گفتگو ، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دلِ و پاک باز
نقطۂ پُر کار حق، مرد خدا کا یقین
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و حجاز
علاج کے سلسلے میں لندن گئے، اس دوران رب کا بلاوہ آگیا اور وہ اپنے رب کے حضور میں ہو گئے۔ اور وہیں دفن ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول کرلے، سئیسات سے درگزر فرمائے اور اعلیٰ علین سرفراز کرے۔حق مغفرت کرے۔
وہ کمزور جسم و جان مگر فولادی عزم وحوصلے کے انسان تھے، بولتے تو سوچ سمجھ کر، ہر لفظ پر غور کرتے، پوری تیاری اور ذمہ داری کے ساتھ بولتے، وسیع المطالطہ، تحریکی لٹریچر ہی نہیں جدیدو قدیم پرنظر رکھنے والے، انھیں سید مودودیؒ کے لٹریچر کا حافظ کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔ انھیں عبارتوں کی عبارتیں یاد تھیں، لکھتے تو بھی حوالے کے ساتھ، تقریر و تحریر دلائل و براہین سے مزین ہوتی، گفتگو بھی خوب ہوتی تھی مگر تقریر خوب تر، اقبال کے اشعار کا خوب استعمال کرتے۔ اعتماد بلا کا تھا، کیوں نہ ہوتا کہ اللہ کے دین کی اقامت کے علمبر دار تھے، شب زندہ دار، رات کے راہب اور دن کے شہ سوار، مشکل بات کہنے اور انکار کی جرأت کا سلیقہ رکھنے والے۔ قید وبند کی صعوبتوں سے بھی گزرے اور اللہ نے اس اسیری کو ان کے لیے اعتبار افزا بنا دیا۔ مگر پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ تمام عمر پورے شعور، یقین اور دل کی آمادگی کے ساتھ اس راستے پر گامزن رہے۔ ’’وفا داری بشرط استواری اصل ایماں‘‘ کا پیکر بنے رہے۔ وہ تحریک کا سرمایہ تھے، حقیقت میں تو وہ فنا فی التحریک تھے۔تحریک اسلامی ان کا اوڑھنا پچھونا تھی کہ یہ اللہ کے دین کی اقامت کی تحریک ہے۔ جب تحریک کو اوڑھنا بچھونا بنایا تو پھر اس کے لیے انھوں نے عوامی زندگی تک (Public Life) ترک کر دی۔ گویا ان کی زندگی کا ہر ہر لمحہ یاد خدا، اور راہ خدا میں جدوجہد سے عبارت تھا۔
وہ تحریک کا دماغ اور فکری رہنما تھے، تحریک کے بارے میں سوچتے، غور وفکر کرتے، کام کو آگے بڑھانے کے پلان بناتے، منصوبہ عمل کی تیاری ان کے ذمے لگی تو پانچ پانچ سالہ منصوبہ تیار کیا، پھر اس طرح سالانہ منصوبہ، جو کام کرتے خوبصورت انداز اور درجہ کمال تک پہنچانے کے جذبے کے ساتھ پاکستان اسلامک فرنٹ انھی کا آئیڈیا تھا، بہت بے مثال اور خوبصورت آئیڈیا کہ تحریک کے کام کے لیے معاشرے کے صالح عنصر کو کیسے تحریک کے کام میں استعمال کیا جائے مگر اس آئیڈے کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بن کھلے مرجھا گیا،اور آج مصر اور ہندوستان کی تحریک اسلامی اس آئیڈیے پر عمل پیرا ہے، اس طرح بزم پیغام کے ذریعے سکول کے طلبہ تک تحریک کا پیغام پہنچایا جائے اور نیکی کی آبیاری کی جائے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ ان کی وابستگی اور تعلق آخر دم تک قائم رہا، اعانت بھی دیتے مگر اس کے ساتھ ساتھ رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کرتے، کبھی اس پہلو سے غافل نہیں ہوئے، تام عمر اپنا تجربہ اور مطالعہ اسلامی جمعیت طلبہ کی جھولی میں ڈالتے رہے کہ یہ تحریک اسلامی کی نرسری جو ٹھیری اس قافلہ سخت جاں کی اٹھان میں ان کا حصہ وافر رہا۔ گویا ان کی نظر میں عالم نو کی سحربے حجاب تھی۔
ترجمان القرآن کے مدیر رہے، یہ وہ زمانہ تھا جب ترجمان کی اشاعت گھٹ کر چند ہزار ہوگئی تھی مگر انھوں نے اس چیلنج کو قبول کیا، نہ صرف اشاعت بڑھائی بلکہ اس کے مضامین کے معیار کو بھی بہتر کیا۔ اور اس طرح ترجمان القرآن اپنی زندگی کے ایک نئے دور میں داخل ہوا۔
وہ لاہور جماعت کے امیر بھی رہے، لاہور جیسے بڑے شہرمیں اس طرح باہر سے آ کر کام سنبھالناایک مشکل کام تھا۔ مگر انھوں نے اس کام کو سنبھالا نئی نئی اور مفید چیزیں متعارف کرائیں، اُس زمانے میں شاید لاہور میں پہلی مرتبہ رمضان کے آخری دنوں جماعت اسلامی لاہور کی شب بیداری بادشاہی مسجد میں منعقد ہوئی جس میں عام لوگوں کی شرکت بھی وسیع پیمانے پر تھی، ان کا خیال تھا کہ رمضان کے دنوں میں معاشرہ میں نیکی کی قبولیت کا رجحان فزوں ہوتا ہے اس رجحان سے تحریک کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے زمانے میں مجھے ان کی کتنی ہی گفتگوئیں سننے اور ان سے ملنے کا موقع ملا۔ وہ ہمیشہ محبت سے پیش آتے۔ ۱۹۹۱ء میں جب انھوں نے ۱۰ روزہ فہم و تدریس قرآن کورس شروع کیا تو مجھے بھی اس کی پہلی کلاس میں شرکت کا موقع ملا۔ وہ دس روز تک باقاعدگی کے ساتھ کلاس کے لیے اپنے وقت پر تشریف لاتے، شرکا کے درس سنتے، اس پر اپنا تبصرہ کرتے، رہنمائی دیتے بعض اوقات بہت سخت اور تلخ سوالات بھی ہوتے مگر وہ نہایت سکون کے ساتھ سوال سنتے اور پھر مخصوص مسکراہٹ، حوصلے، شائستگی اور دلسوزی کے انداز میں اس گتھی کو سلجھادیتے، سوال کرنے والا بھی مطمئن ہو جاتا اور سننے والا بھی، ایک مرتبہ کسی صاحب نے یہ بھی سوال کیا کہ آپ تو جماعت میں لبرل خیال اور فکر کے حامل ہیں، بالخصوص جماعت میں نئی نئی چیزوں کا متعارف کرانا اور چہرے کے حجاب کے حوالے سے بھی آپ کا نقطہ نظر دین کے عمومی تصور سے ہٹا ہوا ہے۔ اتنے سخت سوال پر بھی کیا مجال کہ وہ غصے یا جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے ہوں، نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ انھوں نے جواب دیا۔
فہم وتدریس قرآن کورس کا آخری روز تھا، شرکا کے لیے وہ خود شرینی لائے اور سب کو گلے سے لگایا اور رخصت کیا۔ ان کا اس طرح ہر شریک کو گلے لگا کر رخصت کرنا میرے لیے ایک نئی بات تھی، جب اپنی باری پر میں ان کے گلے لگا یعنی ’جپھی‘ ڈالی تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی چیز میرے دل میں داخل ہو رہی ہے اس کیفیت کو کیسے بیان کروں آج تک سمجھ سے بالا ہے، یہ ایک لمحہ ہی تھا مگر آج بھی دل پر نقش ہے بھلاؤں تو بھی نہیں بھولتا۔
وہ سول انجینئر تھے مگر جب انھوں نے سمجھ لیا کہ اس قوم کی بگڑی بنانے کا واحد ذریعہ قرآن کے ساتھ وابستگی میں ہی مضمر ہے تو انھوں نے اس کو اپنا اوڑھنا پچھونا بنایا۔ عربی زبان سیکھی اور دینی تعلیم مکمل کی قرآن وسنت پر ان کی گہری نظر تھی، جس کا گہرا عکس ان کی تحریر و تقریر میں جابجا ملتا ہے۔میرا خیال ہے کہ وہ بہت اچھی اردو، انگریزی کے ساتھ عربی و فارسی بھی جانتے تھے جس کی چھاپ ان کی تحریریں ملتی ہے۔
سید مودودیؒ کے بعد تحریک اور تنظیم کی فکری و عملی رہنمائی کا بہت بڑا ذریعہ ان کی تحریریں ہیں، چند تصویریں سیرتؐ کے البم سے ، قرآن کا راستہ، وصیت اور لمحات بار بار پڑھنے والی تحریریں ہیں۔ اسی طرح تحریک کے تقاضے، مغرب اور عالم اسلام، ان کی تقریریں جو انھوں نے مختلف مواقع پر جماعت اور جمعیت کے پروگرامات اور تربیت گاہوں میں کیں، خاصے کی چیزیں ہیں، اسی طرح ان کے زمانے ادارت میں ترجمان القرآن کے اشارات، جماعت اور جمعیت کے حوالے سے وہ کسی مداہنت ،لالچ اور خوف کے بغیر، اور پورے شعور وآگہی کے ساتھ ’’آئین نو‘‘ پر چلنے کے قائل تھے، وہ سمجھتے تھے کہ یہ منزل گو کہ کٹھن اور مشکل ہے مگر تحریکیں اور جماعتیں تبھی آگے بڑھ پاتی ہیں جب وہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے اور اس کے تقاضوں کے داعیے کے ساتھ کام کرتی ہیں۔
اس کا پر تو ان کی تحریروں اور گفتگوؤں میں جا بجا نظر آتاہے۔ ان کی شخصیت قرآن وسنت کی تعلیمات میں ڈھلے ہوئے اقبال کے کتنے ہی شعروں کا کے مصداق تھی تو ان کی شخصیت تھی، ان کی زندگی بھی اس فکر کی غماز اور عملی نمونہ تھی، اقبال کے کتنے شعر ان پر صادق آتے۔
نرم دمِ گفتگو ، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دلِ و پاک باز
نقطۂ پُر کار حق، مرد خدا کا یقین
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و حجاز
علاج کے سلسلے میں لندن گئے، اس دوران رب کا بلاوہ آگیا اور وہ اپنے رب کے حضور میں ہو گئے۔ اور وہیں دفن ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول کرلے، سئیسات سے درگزر فرمائے اور اعلیٰ علین سرفراز کرے۔حق مغفرت کرے۔
9 comments:
آسمان تیری لحد پر شبنم فشانی کرے
تحریک اسلامی کے گلاب، اللہ ان کی قبر کو اپنے نور سے بھر دے۔ آمین
مودوی گستاخ صحابہ ہے خود کو بڑا عقلمند سمجھتا ہے۔ صحابہ کا جو گستاخ ہے وہ ناپاک ہے
anonymous sb, ilzamaat ki bjay baat daleel say kerni chahiey... JazakAllah
لکھنے والے بہت اچھا لکھتے ہیں مگرآپ نے تو کمال ہی کر دیا غازی صاحب
اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم سے نوازے ماشااللہ بہت خوب تحریر ہے
خرم مراد صاحب کے بارے میں آپ کی یہ تحریر ان کی خدمات کا اعتراف بھی ہے اور ان کے روزوشب خدااور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی ہی میں گزرے اس بات کی ایک سریح گواہی بھی۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
http://www.abcearn.blogspot.com
خرم مراد پر لکھا گیا یہ مضمون بہت عمدہ انداز میں ان کو پیش کیا گیا خراج تحسین ہے۔ سید مودودیؒ کی فکر کو لے کر چلنے میں خرم مراد مرحوم کی کوششیں پوشیدہ نہیں۔ان کی پوری زندگی جماعت اسلامی کے نصب العین اور مقصد کو آگے بڑھانے میں گزری۔ اللہ تعالیٰ ان کی جدوجہد کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔
ایک صاحب نے اوپر مولانا مودودیؒ کے بارے میں نامناسب بات لکھی ہے اور یہ بات لکھنے والے میں اتنی اخلاقی جرأت ہونی چاہیے تھی کہ وہ اپنا نام اور حوالہ ساتھ لکھتے ۔ مولانا مودودیؒ کی معرکۃ الآرا تفسیر تفہیم القرآن پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے بڑھے اور سچے عاشق رسول تھے۔ جس کو شک و شبہ ہو اس کا مطالعہ کرکے دیکھے۔
Bohat Khoob Imran Sahib. Bahat kamal ka tajzia kya hai aap ne
Post a Comment