Wednesday 11 September 2013

مصر میں صحافیوں کا بہیمانہ قتل

| |
صدر مرسی کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی جہاں اسلام پسندوں پر قیامت اورظلم کے پہاڑ ٹوٹے وہیں معاشرے کا ہر طبقہ متاثر ہوا ، لیکن فوجی حکمرانوں کے ظلم و ستم کا اسلام پسندوں کے ساتھ ساتھ صحافی خاص طور پر نشانہ بنے ۔ یہ صحافی پرامن احتجاج کرنے والوں پر فوجی ظلم و تشدد کے عینی شاہد تھے ، اور دنیا میں عوام کی حقیقی آواز پہنچانے کا واحد ذریعہ تمام ممالک میں صحافی ہی وہ مخلوق ہے جن کو ایسے موقعوں پر خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے سو یہاں بھی یہ عمل دہرایا گیا ۔ ابتدائی طور پر جمہوریت کا راگ الاپنے اور اس کا چمپئین بننے کے دعویداروں نے نہتے عوام اور صحافیوں کو خاموش کرانے کی زبانی کلامی کوشش کی ، لیکن جب ہر طرح ناکامی ہوئی تو انہوں نے نہتے اور پرامن عوام اور صحافیوں کو نشانہ بناڈالا ۔ جس کے نتیجہ میں 6ہزار سے زائد نہتے اور پرامن عوام گولیوں کا نشانہ بنے ،ٹینکوں تلے روندے گئے ۔ ہزاروں شدید زخمی ہوئے اور ان عوام کے ساتھ ہی دنیا کو مصر میں ایک سال بعد ہی لوٹ آنے والے غیر جمہوری اور غیر آئینی فوجی حکمرانوں کا چہرہ دکھانے والے صحافی بھی نشانہ بنے اور جان کی بازی ہار گئے ۔۔۔ سینکڑوں اس جدوجہد میں زخمی ہوئے۔ مگر پیشہ وارانہ جدوجہد سے ایک قدم نہیں پیچھے ہٹایا ،آفرین ہے ان صحافیوں پر جنہوں نے دوران ڈیوٹی اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی ۔
یہاں ان چار صحافیوں کا تذکرہ کرنا مقصود ہے جنہوں نے حالات کے جبر اور خرابی کے باوجود اپنی ڈیوٹی جاری رکھی اور سچ کو دنیا تک پہنچانے کا فریضہ آخر دم تک نبھایا۔
حبیبہ احمد عبدالعزیز گلف نیوز میں بطور سٹاف رپورٹر کے کام کرنے والی وہ بلند عزم و حوصلہ خاتون ہے جو 14اگست کو قاہرہ میں ہونے والے فوجی آپریشن کے دوران شہادت کے بلند مرتبے پر فائز ہوئی ، اس نے آخری لمحات میں اپنی والدہ (صابرین منگود) کو فیس بک (Facebook)پر پیغام بھیجا ۔ ماں نے اس سے پوچھاکہ تم کہاں ہو ؟ وہ لکھتی ہے کہ یہاں ایک بلڈنگ میں مقید ہوں ۔اب یہاں صرف صحافیوں کو رکنے کی اجازت ہے ۔ میں نے اپنے آپ کو ایک یاد گارکے پیچھے چھپا رکھاہے۔ ماں مجھے یہاں شدید سردی لگ رہی ہے اور میرا جسم بُری طرح کانپ رہاہے جبکہ احتجاج کرنے والا ہجوم بہت بڑا اورمکمل چاک و چوبند ہے ۔ماں ہمارے لیے دعاکرو ۔ ماں جواب دیتی ہے کہ بیٹی اللہ تمہیں مزید پختگی ایمان اورقوت عطا کرے ۔ میں تمہیں اپنے رب کے سپرد کرتی ہوں اس کے بعد یہاں پرماں بیٹی کی گفتگو اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔ 
مصعب الشامی رسد فوٹو گرافر اور رپورٹر ہے جو RNNنامی نیوز ویب سائٹ کے لیے کام کرتاتھا۔ اہرام آن لائن اس کے بارے میں لکھتاہے کہ RNNنے لکھا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ان کے سپرد کردیا جنہوں نے اسے رابعہ العدویہ میں پر امن احتجاج کرنے والوں کی کوریج کی اجازت دی اور اس دوران میں وہ انہی کی بے وفائی کے سبب ان کے ہاتھوں مرتبہ شہادت پر فائز ہوا۔ یہ الفاظ RNNنے اپنے فیس بک کے صفحات پر درج کیے ، مصری صحافی احمد عبدالجواد ،حکومتی اخبار ’’الخبر ‘‘ کے ساتھ وابستہ تھا۔ جو رابعہ العدویہ کے محاصرے کے دوران شہید ہوا۔
برطانوی براڈ کاسٹر ’’سکائی نیوز ‘‘ نے تصدیق کی کہ ان کا ٹیلی ویژن کیمرہ مین 61سالہ مائیک دانے بھی اس کوریج کے دوران شدید زخمی ہوا۔ اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں کی بازی ہار گیاہے۔ 
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کے صدر جم بومیلا (Jim Boumelha)نے 16اگست کو مصرمیں ہلاک ہونے والے ان چار صحافیوں کی یاد میں جاری کردہ تعزیتی پیغام میں کہاکہ ہم اپنے ان چار صحافی ساتھیوں کی المناک اور افسوسناک وفات سے ہونے والے نقصان کو ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔ جو جرنلزم کے مشن اور مقصد پر مر مٹے ، ہم ان کی نیک خواہشات اور امنگوں کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم ان کے نام کے ساتھ صحافت کے اس سفر کو مزید محفوظ بنائیں گے۔ہمارے یہ نہایت گہرے تعزیتی جذبات ان کے خاندانوں اور دوستوں کے لیے بھی ہیں ۔ اس طرح کی مختلف دیگر رپورٹس کے مطابق APکافوٹو گرافر ۔ الجزیرہ کاکیمرہ مین محمود الزکی اپنے بازو سے محروم ہوا ، طارق عباس ایک مقامی اخبار ’الوطن ‘ کا رپورٹر ، طارق عباس فوٹوگرافر اور احمد نجار بھی اس دوران شدید رخمی ہوئے۔ اسی طرح ان کے علاوہ قلم و قرطاس سے منسلک افراد کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی گئی ، ہراساں کیاگیا ، گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔ان سے ان کے پیشہ وارانہ فرائض میں مدد دینے والے آلات چھینے اور توڑ دیئے گئے ، نیوز ایجنسی رائٹرز کے ٹام فن (Tom Finn) نے اپنی گرفتاری بارے ٹویٹ کرکے بتایا ۔۔۔اسی طرح ڈیلی بیسٹ (Daily Beast)کے رپورٹر مائیک گگلیو(Mike giglio)نے ٹویٹ کیا کہ وہ اپنے دو فوٹو گرافرا ساتھیوں محمود ابو زیداور لوئز جیمزسمیت گرفتار کرلیے گئے ہیں، چیختی چلاتی تصویریں اور ویڈیوز جو مختلف ٹی وی چینلز پر چلیں اور اخبارات میں طبع ہوئیں وہ صرف اس لیے ممکن ہو پائیں کہ ان جرنلسٹوں نے اپنی جان پر کھیل کر اس کو ممکن بنایا،زخمی ہونے سے گھبرائے ،اپنی جان کی پرواہ کی اورنہ دھمکیوں سے مرعوب ہوئے ،ان کامقصد صرف یہ تھاکہ کسی طرح سچ دنیا تک پہنچ جائے ۔سچ کی آبیاری کرتے کرتے انہوں نے جان دے دی ۔یہ 18ویں یا 19ویں صدی کی دنیا نہیں 21ویں صدی کی دنیا ہے جو مکمل طو رپر ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔۔۔انسان سچ بولے نہ بولے لیکن یہ ٹیکنالوجی سچ بولتی ہے اور یہی اس ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ اس نے 21ویں صدی کے فرعون جنرل عبدالفتاح السیسی کے چہرے سے نقاب ہٹا دیا ہے ۔ وہ نقاب جو امریکہ اور اسرائیل کا مرہون منت ہے اور جس میں مسلمان ممالک سعودی عرب ،کویت اور عرب امارات کا چہرہ بھی صاف پہچانا جا رہاہے ۔۔۔یہی وہ انقلاب ہے جس سے اہل عرب و عجم خائف ہیں ، جمہور کی بیداری نے ان کی نیندیں حرام کررکھی ہیں۔وہ وقت قریب ہے جب تخت بچھائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے، آمریتوں کے بت پاش پاش ہوں گے، استعمار اپنے انجام کو پہنچے گااور اب عوام کی بیداری کے راستہ میں کوئی بند نہیں باندھ پائے گا ۔

3 comments:

Every dictator uses the same tactics. The Islamic movements need to adopt a strong rather aggressive media policy.

Anonymous said... Tuesday, June 10, 2014

Hey there! I could have sworn I've been to this website before but after checking through some of the post I realized it's new to me.
Nonetheless, I'm definitely happy I found it and I'll be book-marking and checking back frequently!


Here is my web-site Florida motorcycle accident lawyers

The cirсle of superstars was birthed on a blue canton. The most primitive emotional basis of
our history is the "Fight or Flight" response.

WҺen Walter Cronkite's produceгs or tҺe New ϒoгk Times would cаll, we were trained as little
kids to say 'No, I'm sorry, sir, my dad's not here.


Visit my weblog ... american flag for sale

Post a Comment