Monday, 7 October 2013

کیا شاہ زیب کا خون رائیگاں جائے گا؟

| |
اپنی بہن کی عزت کا رکھوالا ، غیرت مند نوجوان شاہ زیب ، جان دے کر تو نہیں ہاراتھا۔ مگر اب دولت کی ریل پیل کے سامنے شاید ہارگیاہو۔ خبر یہ آئی کہ اس کے والدین نے ملزموں کو بغیر لالچ کے اللہ کی رضا کہتے ہوئے معاف کردیا ۔معافی اچھی بات ہے ، اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتاہے مگر یہ کیسی معافی ہے کہ جس نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے اور اس کے ساتھ ہی دوسری خبر یہ آئی کہ 35کروڑ میں سمجھوتہ ہواہے۔ بااثر تالپوراور جتوئی خاندان کے نوجوانوں کے ہاتھوں شاہ زیب کا قتل دل دہلادینے والاتھا۔۔۔اور یہ واقعہ پی پی کے حمایت یافتہ با اثر سیاستدانوں کے ہراساں کرنے کے باوجود نمایاں ہوا۔سوشل میڈیا نے اس پر واویلا کیا ۔ میڈیا بھی ادھر متوجہ ہوا اور سپریم کورٹ نے اس کانوٹس لے لیا ۔ شاہ رخ جتوئی اور دیگر مجرمان کو 5۔5لاکھ روپے جرمانہ اور سزائے موت اور عمر قید کی سزا ہوگئی ۔
شاہ زیب شہادت کی ایک غیرت مند نوجوان کی شہادت تھی جس نے غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان دے دی ۔۔۔اور بے حس معاشرے کو گویا زندگی بخش دی ، اس نے اپنی جان تو دے دی مگر معاشرے کو یہ پیغا م دیا کہ اصل چیز اخلاقی اقدار ہوتی ہیں ۔ دھن ،دولت ثروت اور اختیار نہیں ، اور اس کے لیے اس نے جان کی بازی لگادی ۔ اب اس کے والدین نے 35کروڑ میں سمجھوتہ کیا ۔۔۔وہ سمجھوتہ نہ کرتے تو کیا کرتے ، بیٹا ان کا چلا گیا ۔۔۔معاشرے میں بدنامی الگ ہوئی ،وڈیروں ، جاگیرداروں اور سیاستدانوں کا دباؤ کون برداشت کرے ۔ اس کے والدین کے پاس تو آپشن یہی ہے اب معاشرہ اس کو مطعون کررہاہے کہ دیکھو آ پ نے اپنے بیٹے کا خون بیچ دیا وہ یہ سب نہ کرتے تو کیا کرتے۔ معاشرے نے ان کا کتنا ساتھ دیا۔ معاشرہ اور اہل معاشرہ بھی تو سوچیں ۔انہوں نے عافیت اسی میں جانی ہوگی کہ صلح کا راستہ اختیار کرلیا ۔ لہٰذا صلح ہوگئی ۔۔۔مگر معاشرے کو کیا پیغام گیا ۔۔۔کہ دھن دولت کی بنیاد پر ، امیر اور دولت مند طبقہ جسے چاہے قتل کرسکتاہے ، اور قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتاہے۔ نہیں مگر اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ اس طرح کے ایک مقدمے میں اسی طرح کی صلح کو غیر اہم قرار دے چکی ہے۔۔۔اورایسے واقعات جن سے فساد فی الارض رونما ہونے کا خدشہ ہو عدالت اپنی صوابدید کے مطابق سزا دے سکتی ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ورثاء قاتلوں اور دہشت گردوں کو معاف نہیں کرسکتے ۔ طاقت ، دولت اور اختیار کے سامنے ایک غریب ملازمت پیشہ خاندان کیا کرتا؟ اس ضمن میں ریاست اورمعاشرے کا کردار کم اہمیت کا حامل نہیں ، معاشرے کا کردار خاموش تماشائی اور بے حسی پر مبنی ہے ۔
غریب عوام کو معاشرے میں تحفظ حاصل نہیں ، طاقتور ،دولت مند اور با اختیار کی پذیرائی ہوتی ہے ، اور غریب کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ تم چھوٹے بن کر رہو ، ایسے معاشرے خدا کے غضب کو دعوت دیتے ہیں اور ہمارا معاشرہ اس کیفیت سے دوچار ہے، یہ دراصل انحطاط ، زوال اور پستی کی انتہائی حدیں ہیں ۔ یہ زندہ نہیں مردہ معاشرے ہوتے ہیں۔ یہ ساری علامتیں ان کے مردہ اور زوال پذیر ہونے کی ہیں ، جب معاشرے میں دولت ، اقتدار اور اختیار کی بنیاد فیصلے ہونے لگیں ، انصاف کا حصول ممکن نہ رہے تو ایسے معاشرے دراصل اپنی طبعی عمر پوری کرچکے ہوتے ہیں ، معاشروں کی زندگی اسی میں ہوتی ہے کہ ان میں انصاف ناپید نہ ہونے پائے ۔۔۔انصاف زندگی کی علامت ہے ۔ جن معاشروں میں انصاف ہوتاہے وہ معاشرے نہیں مرتے ، زندگی ان کا مقدر ہوتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارا معاشرہ انحطاط کی آخری حدوں کو چھو رہاہے لیکن کہیں کہیں کوئی روشنی بھی نظر آتی ہے اور قوم اور معاشرے کو حوصلہ اور جذبہ عطا کرتی ہے۔ یہ آج کے دور میں سپریم کورٹ آف پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری روشنی کا ذریعہ ہیں ، ایک دوسرے مقدمے میں انہوں نے اس پر جو تبصرہ کیا وہ حالات کا صحیح عکاس ہے ۔ان کابیان نہ صرف عوام کے غم و غصے کو کم کرنے اور حوصلہ دینے والا تھا ۔۔۔جس میں انہوں نے کہاکہ قتل کے مقدمات میں اللہ کے نام پر معافی دھوکہ ہے ۔ اسلامی تعلیمات کا غلط استعمال ہو تو اللہ کا عذاب نازل ہوتاہے ۔ قتل پر فی سبیل اللہ معافی فساد فی الارض ہے شاہ زیب ، اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرکے اللہ کے حضور پہنچ گیا۔ اس کے والدین نے جو فیصلہ کیا وہ دباؤ ، دولت و قوت اور اختیار و اقتدار کے سامنے سرنڈر کرکے دراصل قوم اور معاشرے کی بے حسی پر دلالت کرنے والاہے۔ قوم اور معاشرے نے اس مظلوم خاندان کا کیا ساتھ دیا ۔۔۔جن کا جواں سال اکلوتا بیٹا جان سے گزر گیا ۔۔۔کیسا بے حس معاشرہ ہے ۔البتہ کورٹ سے ایک اچھی اُمید اور توقع ہے کہ وہ عدل و انصاف کا بول بالا کرنے والا فیصلہ دے گی ، لیکن سوال پھر یہی ہے کہ کتنے شاہ زیب روز قتل ہوجاتے ہیں ۔۔۔مگر انصاف سے محروم رہتے ہیں ، کیا شاہ زیب کو انصاف مل پائے گا ؟ یا اس کا خون رائیگاں جائے گا؟

0 comments:

Post a Comment