Tuesday, 8 October 2013

بچوں کے خلاف جرائم ۔۔۔ایک معاشرتی المیہ

| |
یہ دہلی تھا اور نہ ممبئی یہ لاہور تھا جہاں یہ واقعہ رونما ہوا گو اس طرح کے واقعات دہلی اور بمبئی میں روز وقوع پذیر ہوتے ہیں ، کچھ رجسٹرڈ ہوتے ہیں اور کچھ نہیں۔ لیکن بھارت کے سیکولر معاشرے میں اس طرح کے واقعات انہونی شمار نہیں ہوتے ،جس دھرم میں ناچ گانا عبادت کا درجہ پاتا ہو ۔ ڈرامے اور فلم کے ذریعے اپنی سوچ فکر کو درآمد کیا جاتاہو اور خواتین معاشرے میں کم تر درجہ پاتی ہوں وہاں یہ سب متوقع تھا۔ لیکن لاہور میں جو پاکستان کے دارالحکومت میں 5سالہ بچی سنبل ،کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا واقعہ ، ایک ایسامعاشرتی المیہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایسے واقعہ کا رونما ہونا ایک انوکھا اور انہونا واقعہ ہے۔ اس واقعے کو درندگی ،سفاکی ، بہیمیت جیسے الفاظ بھی کفایت نہیں کرتے ، اس کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے کم ازکم مجھے تو کوئی لفظ لغت میں نہیں ملا۔ یہ کیسا معاشرہ ہے اور اس معاشرہ میں اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا کس چیزکا غماز ہے۔ 
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ، معاشرے کو ہلا دینے والا واقعہ ہے جس نے معاشرے کی بے حسی ، روحانی ، اخلاقی اقدار کے زوال معاشی بدحالی، اقتصادی ناہمواری ،عدل وانصاف کی عدم فراہمی ،مایوسی کے عفریت ،مادیت پرستی ، دولت کی ریل پیل اور بے لگام میڈیا کے مادر پدر آزاد پروگرامات ،فحاشی و عریانی کاپردہ چاک کردیاہے۔ یہ اسی کھوکھلے پن کا نتیجہ ہے کہ عورت جو ماں ،بہن اور بیٹی کے درجے میں احترام اور تقدس کا درجہ پاتی تھی آج وحشیانہ پن اور درندگی و سفاکی کا شکار نظر آتی ہے ، اور اس کے خلاف جرائم کی ایک سیریز ہے۔ 
معاشرے تبھی زندہ رہتے ہیں جب وہ اپنی اخلاقی اقدار کی حفاظت کرتے ہیں اور قومیں وہی حیات جاوداں پاتی ہیں جو اپنی تہذیب ، اخلاق اور اصل کے ساتھ وابستہ رہتی ہیں۔ جب قومیں اپنی اصل سے روگردانی اور انحراف کاراستہ اختیار کرتی ہیں تب در اصل وہ خود انحطاط اور زوال کو دعوت دے رہی ہوتی ہیں ۔ انحطاط و زوال کا راستہ روکنے کے لیے قوموں کا اجتماعی شعور بروئے کار آکر اس کا راستہ روکتاہے ۔ لیکن جب قوم کا دانشوراپنی اصل کو چھوڑ کر غیروں کا غلام بن جاتاہے۔ اور قوم کو بھی اس ذہنی غلامی میں مبتلا کرنے لگتاہے تو قومیں اور معاشرے اسی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں جس سے آج پاکستانی معاشرہ دوچار ہے۔ اور دن بدن یہ کیفیت بڑھتی چلی جاتی ہے کم ہونے ہی نہیں آتی ۔
حکمرانوں اور قومی اداروں نے بھی اس حوالے سے شاید آنکھیں بند کررکھی ہیں۔جب اداروں کی سمت کوئی اور ہواور حکمرانوں کا کوئی قبلہ کوئی اور تو قومیں بھی اپنی منزل اور نشان منزل گم کردیتی ہیں۔ آج پاکستانی معاشرہ اسی کیفیت سے دوچارہے۔حکمرانوں، پالیسی ساز وں ، میڈیا مالکان ، کالم نگار، اینکرز ،دانشور ، ماہرین تعلیم او رعلمائے کرام کو اپنا اپنا کردار ادا کرناہے ۔ مگر ان کا کردار اصلاح ،درستگی اور سدھار کے لیے جو ہونا چاہیے وہ نظر نہیں آتا ، دینی و اخلاقی اقدار کی پامالی ،بے حیائی اور فحش کی اشاعت ،سیکولرازم کے نام پر اسلام اور اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانا ، عام ہوتا جارہاہے اور معاشرہ ایک ایسی کیفیت سے میں ہے جو مسلسل اُسے ذلت و نکیت اور زوال میں دھکیلتی جارہی ہے۔ضرورت ہے کہ معاشرہ اپنے انحطاط سے آگاہ ہو،غفلت چھوڑ دے اور یہ جان لے کہ یہ دنیا کی زندگی ہے۔
یہ چندروزہ اور مختصر زندگی ، دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے بعد موت ہے اور موت کا لمبا سفر ،ہم اس سفر میں کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام ، دنیاوی زندگی کے اعمال کی بنیاد پر ہی آخرت میں فیصلہ ہوگا ۔۔۔اور ہم اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام اس کا فیصلہ ہمیں آج کرناہے ۔۔۔جو بوئیں گے کل وہی کاٹیں گے۔اس لیے چند روزہ دنیاکی چکاچوند پر فریفتہ ہو کر اپنی آسائشوں کی خاطر معاشرے کے انحطاط کو روکنے کی بجائے بڑھنے دینا، درست رویہ قرار دیا جاسکتا اور نہ درست حکمت عملی ،اس لیے مسلمان معاشرے بڑوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔۔۔ میڈیا اور میڈیا مالکان پالیسی سازاداروں کو بھی دولت کے حصول کے لیے یہودی دماغ کی ڈکٹیشن کو سامنے رکھ کرہی پالیسیاں نہیں بنانا چاہیے ۔۔۔بلکہ اپنی اخلاقیات اور اقدار کو سامنے رکھ کر ہی آگے بڑھنا چاہیے اورپالیسی ساز ی کرنا چاہے ایک اچھے صحت مند اور مثبت معاشرے کے قیام کے لیے ہم سب کو مل کر اپنا کردار ادا کرناہے ۔۔۔اور اپنے حصہ کا کام بھی ، یہ معاشرہ اور یہ ملک ہمارا ہے ، ہمیں نے اس کو بنانا اور سنوارناہے۔

1 comments:

Child sexual abuse is since ever in every society. Unfortunately we do not have any child protection policy at government level. The system is being run on ad-hawk basis. Systematic cultural appropriate efforts are required to address the issue. Very ethical good angle you have presented in you blog Ghazi Sahib. Keep on writing.

Post a Comment