Wednesday, 9 October 2013

قربانی کے احکام و مسائل

| |
۱۰؍ذی الحجہ کو مسلمان عید قرباں مناتے ہیں، عید قرباں حضرت ابرہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یادگار کے طور پر منائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس باپ بیٹے کا جذبہ اخلاص اتنا پسند آیا کہ اس کو یادگار بنا دیا۔ اب اہل ایمان اس کی یاد میں ہر سال قربانی کرتے ہیں اور اس جذبتے کو زندہ و تابندہ کرنے کا عہد کرتے ہیں، 
قربانی مسلمان کو مسلمان بنانے اور اپنا سب کچھ اللہ کے راستے میں قربانی کرنے کے جذبے کا نام ہے۔ یہ گویا اس بات کا اعلان ہے کہ میرا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ میری نماز، میرا جینا مرنا اور عبادات سب کچھ اللہ کے لئے ہے۔ 
ذوالحجہ کا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہو چکا ہے۔ عید قرباں کی آمد آمد ہے گھر گھر اس کی تیاریاں جاری ہیں ۔کیا بڑے کیا چھوٹے سب عید قرباں کے منتظر ہیں۔ قربانی کیا ہے اور اس کے مسائل کیا ہیں چند ضروری اور اہم اُمور درج ذیل ہیں: ۔
۱۔ ہر مسلمان جو صاحب نصاب ہو ،خوشحال ہو، اس پر قربانی واجب ہے، حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص قربانی کی استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے‘‘ (سنن ابن ماجہ) 
کسی بھی عمل کی قدر و قیمت بڑھانے کے لئے اصل جذبہ، جذبہء اخلاص اور اخلاصِ نیت ہے، اگر کوئی نام و نمود اور دکھاوے کے لئے قربانی کرتا ہے تو اللہ کی بارگاہ میں اس کی قربانی قبول نہ ہوگی۔اقبال کے الفاظ میں : 
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے 
حوروخیام سے گزر ، بادہ و جام سے گزر
۲۔ جس شخص کا قربانی کا ارادہ ہو اس کے لئے سنت طریقہ یہ ہے کہ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے سے لے کر قربانی کا جانور ذبح کرنے تک نہ تو اپنے بال کٹوائے اور نہ ناخن ترشوائے ، حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں رسول اللہ نے فرمایا جس کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ ذی الحجہ کا چاند نکلنے کے بعد اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے یہاں تک کہ قربانی کر لے‘‘(صحیح مسلم) جن کا ارادہ قربانی کا نہ بھی ہو ان کے لئے بھی یہ ا عمال مستحب ہیں۔
۳۔ قربانی کے ایام بارے سلف کی دو آراء ہیں ایک رائے یہ ہے کہ ۱۲ ؍ذی الحجہ تک اور دوسری رائے کے مطابق ۱۳؍ذی الحجہ تک قربانی کی جا سکتی ہے۔دوسری رائے کو قوی قراردیا جاتا ہے کہ اس کی تائید حدیث نبوی سے ہوتی ہے۔ایام تشریق کے تمام دن ذبح کے لئے ہیں۔(مسند امام احمد) قربانی کی اجازت تمام دن ہے مگر ۱۰ ذی الحجہ کو قربانی کرناافضل ہے۔
۴۔ قربانی کا وقت نماز عید کے بعد شروع ہو جاتا ہے اگر کسی نے نماز عید سے قبل قربانی کا جانور ذبح کر دیا تو اس کو نماز عید کے بعد دوسرا جانور قربان کرنا پڑے گا۔کیونکہ اس کی قربانی نہیں ہوئی، حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں حضورؐ نے فرمایا جس نے نماز سے قبل ذبح کیا تو اس نے اپنے لئے ذبح کیا، جس نے نماز عید کے بعد ذبح کیا تو اس نے اپنی قربانی پوری کر لی اور مسلمانوں کی سنت پا لی‘‘۔
۵۔ قربانی کا جانور کیسا ہو، اس بارے میں حضورؐ کا فرمان ہے کہ قربانی صرف دو دانت والے (مسنہ)کی کرو ،اگر دو دانت والا نہ ملے تو بھیڑ کا جَذْعَۃً(ایک سالہ) قربان کرو‘‘(صحیح مسلم) 
قربانی کا جانور ہر طرح سے بے عیب ہونا چاہیے ،عیب دار یعنی لنگڑا،اندھا اورکمزور نہیں ہونا چاہیے ۔نبی ؐ کا ارشاد ہے ’’ چارقسم کے جانور کی قربانی جائز نہیں ۔ایسا کانا جانور جس کا کانا پن واضح محسوس ہو۔ایسا بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو۔ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح نظر آئے اور انتہائی لاغر اور کمزور جانور‘‘
۶۔ قربانی کے جانور میں حصہ دار بنا جا سکتا ہے۔ ایک اونٹ یا گائے میں سات لوگ شامل ہو سکتے ہیں حضرت جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں ’’ہم نے رسول اللہ کے ساتھ صلح حدیبیہ کے سال ایک اونٹ اور ایک گائے سات سات افراد کی طرف سے قربان کی‘‘ (صحیح مسلم) اس طرح ایک دوسری روایت میں عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ہم نبی ؐ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ عید الاضحی آ گئی تو ایک گائے میں سات اور اونٹ میں دس لوگ شریک ہو گئے۔‘‘(سنن ترمذی ، نسائی وابن ماجہ) البتہ بکری کی قربانی صرف ایک شخص اور اسکے گھرانے کی طرف سے ہوگی۔اس میں کسی دوسرے فرد کو شریک نہیں کیا جا سکتا۔حضرت ابوایوبؓ انصاری فرماتے ہیں ’’عہد نبوی میں ایک شخص ایک بکری کو اپنے گھرانے کی جانب سے قربان کرتا تھا‘‘(ترمذی و ابن ماجہ) 
۷۔ قربانی کے گوشت اور کھال کا فروخت کرنا یا قصاب کو اجرت کے طور پر پیش کرنا جائز نہیں ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ: ’’نبی ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ مَیں آپؐ کے اونٹ کے قریب کھڑا رہوں اور قربانی کے بعد اس کا گوشت ،کھال اور اوجھڑی صدقہ کردوں اور قصاب کو اس میں سے کچھ نہ دوں۔‘‘(متفق علیہ) 
۸۔ قربانی کرنے سے قبل آلات ذبح تیز کر لینے چاہئیں۔قربانی کے جانور کو قبلہ رُخ بائیں پہلو لٹا کر یہ دعا پڑھی جائے۔ اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(الانعام:۷۹)،قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ(الانعام:۱۶۲۔۱۶۳)، بسم اللہ اللہ اکبر۔
اس دعا کے بعدچھری پھیر دی جائے اور ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے۔
اَللّٰہُمَّ ہٰذَا مِنْکَ وَلَک اَللّٰھُمَّ تقبل منی کما تقبلت منْ حبیبک مُحمَّدٍ وَ خلیلک ابراہیم علیہما الصلاۃ والسّلام۔
اپنی قربانی کا جانور خود ذبح کرنا افضل اور بہتر ہے۔ اگر کسی وجہ سے خود ذبح نہ کر سکتا ہو تو کم از کم جانور کے پاس کھڑا ہو۔
۹۔ مردوں کی طرح خواتین بھی قربانی کر سکتی ہیں۔حجۃ الوداع کے موقع پر حضورؐ نے امہات المومنین کی جانب سے ایک گائے قربانی کی۔ (صحیح بخاری) خواتین اپنے ہاتھ سے بھی ذبح کر سکتی ہیں ۔حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے اپنی بیٹیوں کو اپنے ہاتھ سے قربانی کرنے کا کہا تھا۔(صحیح بخاری) 
۱۰۔ میت کی طرف سے بھی قربانی کرنا جائز ہے ۔ لیکن خود اپنی طرف سے قربانی ترک نہیں کر دینی چاہیے۔حضورؐ نے ایک مینڈھے کی قربانی کی اور یہ دعاپڑھی ۔
بسم اللہ واللہ اکبر، اللہم انی ہذا عنی و عمن لم یضح من اُمّتی (مسند امام احمد)۔
اس حدیث سے علماء نے یہ جواز نکالا کہ چونکہ آپ کی امت کے بہت سے لوگ وفات پا چکے تھے اس لئے آپؐ نے ان کی طرف سے قربانی کی۔

4 comments:

Very informative, clear and focused

guzeshta juma tul mubarak py khateeb jamia masjid farma rahy thy ki agr ek gaye ki qurbani ma 7 participants hon or un ma sa kisi ek hissa daar ki b niyyat qurbani ki nahe to baki 6 hissa daro ki b qurbani nahe ho sakti, kia waqi ma aisa he hai? agr waqi aisa hai to hairat is bat ki hai ki aj tk is maslay ka kahe sa ku sunnay ko nahe mila...

This comment has been removed by the author.

میرے نزدیک، اللہ کےہاں ہر شخص کا اجر اس کی نیت کے مطابق ملتا ہے۔ جس کی نیت قربانی کی ہوگی اس کو اس کا اجر ضرور ملے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب

Post a Comment