Tuesday, 15 October 2013

"NUST" انتظامیہ کا ضابطہ لباس اور سیکولر طبقے کی بے چینی

| |
NUST (نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی )انتظامیہ کا جرم اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے یونیورسٹی میں طلباء کو جینز کی بجائے ڈریس پینٹ اور طالبات کو مغربی لباس/یعنی چست جینز (Tight Jeans)پہن کر آنے سے منع کیاکیونکہ یہ ہماری معاشرت، تہذیب وثقافت سے میل نہیں کھاتا۔ اسی طرح طالبات کو میک اپ سے روکااورپابندکیا کہ یونیورسٹی آئیں تو سکارف کا ضرور استعمال کریں ۔ سیکولر طبقے، الیکٹرانک میڈیا اور انگلش اخبارات کو یہ پسند نہیں آیا، انہوں نے NUSTکی انتظامیہ کو طالبائزیشن کرنے کا طعنہ دیا۔ اسلام ، اسلامی لباس اور اسلامی تعلیمات کا خوب مضحکہ اڑایا ۔ مضامین اور کارٹون چھاپے ، اور کہا کہ یونیورسٹی کو صحرا میں بدلا جارہا ہے۔NUSTانتظامیہ کا یہ فیصلہ ہر لحاظ سے ایک تعلیمی ادارے کے ماحول اور فضا کو بہتر بنانے کا ذریعہ اور مدد گارومعاون ہوگا۔ اس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے ۔ سیکولر طبقے نے اس کو مذاق میں اڑانے کی کوشش کی ہے جو کسی طرح مناسب نہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ NUSTانتظامیہ کے اس فیصلے کی حوصلہ افزائی کی جاتی مگر اُلٹ ہوا ، اور یونیورسٹی کے حق میں کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی ، نہ حکومت کے ایوانوں سے اور نہ سیاسی و مذہبی قیادت ہی کی جانب سے اور نہ معاشرہ کی طرف سے ۔ 
ہمارا معاشرہ اب ایسی کیفیت سے دوچار ہے کہ وہ اچھے کو اچھااور بُرے کو بُرا کہنے کو تیار نہیں ۔۔۔اور یہ کسی معاشرے کے زوال کی انتہا ہوتی ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں اسلام ، اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کیاجاتاہے ، قائد اعظم اور علامہ اقبال کا یہ پاکستان آج حقیقی سمت سے محروم ہے ۔ ریاست کا کردار جاندار نہیں رہا، ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے طبقات مضبوط اور توانا ہیں جو مسلسل ملک کی بنیادوں کو کمزور کررہے ہیں ۔ اسلام دوقومی نظریہ ،اسلامی نظریہ حیات اور نظام شریعت کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جاتاہے۔ مغرب کی نازبرداری اٹھانے والایہ طبقہ رہتا تو پاکستان میں ہے مگر گن مغرب کے گاتاہے ۔ مغرب سے مرعوبیت اس کی گھٹی میں ہے۔ یہ سیکولر طبقہ بے حیائی اور فحش کی کی اشاعت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اس دین بیزار طبقے کو ایک زمانے میں روس کی سرپرستی حاصل تھی اور یہ اس کے گن گاتے نہیں تھکتا تھا ۔۔۔اور آج اسے امریکہ اور مغرب کی سرپرستی حاصل ہے اور اب اس نے ان کے گیت گانے سیکھ لیے ہیں۔
سیکولرطبقہ جس آزادی کا حامی ہے وہ مادر پدر آزادی ہے ، اس آزادی کے نتیجے میں تعلیمی اداروں کا ماحول تعلیمی رہتاہے اور نہ تحقیقی ،اور نہ وہ مقاصد پورے ہوپاتے ہیں جس کے لیے یہ تعلیم گاہیں معرض وجود میں آتی ہیں۔ آزادی کے یہ متوالے دراصل پاکستان کو مادر پدر آزاد معاشرہ میں تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں اور مادر پدر آزادی مغرب کی غلامی کا دوسرا نام ہے۔
چست لباس(Skin tight) کو کیسے مہذب کہاجاسکتاہے۔ تعلیمی اداروں کو صحرا میں بدلنے کا کہنے والے یہ طبقات غیرت کے نام سے ناآشنا ہیں اور معاشرے کو الحاد ،بے دینی ، مادر پدر آزادی اور مغرب کی غلامی میں دینے کے خواہاں ہیں ، ان کی تمام اُمیدیں مغرب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ خودامریکہ اور مغرب کی بہت سی یونیورسٹیز ، کالجوں اور دیگر اداروں میں لباس کا ضابطہ (Dress Code)مقرر ہے ، جس کی پابندی کی جاتی ہے ، ایک اچھے ادارے کی کامیابی میں اس کے ماحول ، نظم وضبط کابڑا عمل دخل ہوتاہے۔ وہاں آزادیاں بھی ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ پابندیاں بھی ۔حکیم الامت اقبال کے الفاظ میں:
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گلِ بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تُو کرلے
تعلیمی ادارے دراصل کسی بھی معاشرے میں علم وعمل ،تہذیب وتمدن کے مراکز ہوتے ہیں جہاں نئی نسلیں پروان چڑھتی ہیں اور جن سے قوموں کامستقبل سنورتاہے اور تاریخ کے دھارے بدلتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستانی معاشرہ مکمل اسلامی معاشرہ نہیں لیکن یہ مکمل مادر پدرآزاد معاشرہ بھی نہیں ، اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی اس ریاست کی سمت کا تعین قرار داد مقاصد نے کردیا ۔ ریاست کی سمت اور قبلے کاتعین ہونے سے سیکولر طبقہ پریشانی کا شکار رہتاہے اور اس سمت کو تبدیل کرنے کی سازشوں میں لگارہتاہے ۔اور اس ضمن میں اُسے مغرب کی مکمل پشت پناہی حاصل رہتی ہے۔ 
مغرب کا پروردہ یہ سیکولر اور لبرل طبقہ آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں ، لیکن مغرب کی آشیر باد ، پالیسی سازی ،میڈیا اور دیگر ایسے اہم مقامات میں موجودگی کی وجہ سے نت نئے حربے آزماتا رہتاہے۔ اور معاشرے کو سیکولربنانے میں اپنا زور صرف کرتا رہتاہے۔۔۔ لیکن اسلامیان پاکستان اس طبقے کی چالوں اور ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف ہیں ۔۔۔
ضرورت ہے کہ دینی طبقات ، اسلام پسند بیدار اورہوشیار رہیں ، اپنے حصے کے کام سے کبھی غافل نہ ہوں کہ غفلت قوموں کو منزل سے دور کردیتی ہے۔ بیداری ،ہوشیاری کے ساتھ ہی آگے بڑھا جاسکتاہے ۔۔۔یہ بازی مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ۔ ایک مرتبہ پھر NUST انتظامیہ کو مبارکباد، اللہ انہیں اس فیصلے پر استقامت سے نوازے ۔درست سمت میں لیا گیا ایک قدم قوموں اور اداروں کی زندگی میں بہت اہم ہوتاہے ، جس سے نسلوں کا مستقبل وابستہ ہوتاہے۔۔۔اور کسی قوم کی نسلیں سنور جائیں تو اس کا مقدر سنور جاتاہے۔

1 comments:

Obaidullah Abid said... Tuesday, October 29, 2013

بہت خوب

Post a Comment