غبار رہ حجاز، سر زمین حجاز کے ان اسفار کے مشاہدات و احساسات کی روداد جاں فزا ہے جو مصنف اپنے حج و عمرہ کے اسفار کے دوران جن مشاہدات وکیفیات سے گزرے۔ یہ روداد دلچسپ بھی ہے اور دلگداز بھی۔ دانش یار کے قلم سے نکلنے والے یہ الفاظ دراصل ان کی قلبی کیفیت کے آئینہ دار ہیں جس میں انھوں نے دوسروں کو شریک کرنا بھی مناسب سمجھا اور اسے کتابی صورت میں ترتیب دے دیا۔ اس سے قبل یہ سفر نامہ حرمین شریفین کے عنوان سے دستیاب تھا۔ اب مصنف نے چند اضافوں کے ساتھ اس کا نام ’’غباررہ حجاز‘‘ کر دیا ہے۔
دانش یار، قلم کی طاقت سے پوری طرح آشنا و بہرہ مند ہیں اور دل بیدار کے ساتھ ہمہ پہلو جدوجہد میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان کا یہ سفر نامہ ایمان کی حلاوت میں اضافے اور جذبوں کو صیقل کرنے میں اپنی مثال آپ ہے، حج و عمرہ کے سفر نامے ایک خاص جذب و کیفیت کے غماز ہوتے ہیں۔ یہ دیار حرم کے ساتھ وابستگی، عقیدت اور محبت کے اظہار کا عمدہ ذریعہ ہیں۔ یہ صرف حج و عمرہ کے اسفار اور گزرے ہوئے لمحات کے مشاہدات کی واردات نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہے (قرآن، سیرت، تاریخ کی جھلک کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات سے مکمل آگہی ہوتی ہے) حجاز و عرب کی تاریخ کا دلچسپ مرقع ہے جس میں تصورات کی دنیا، ماضی و حال اور مستقبل کی جھلک نظر آتی ہے۔ سفرنامے کے تین حصے ہیں، پہلا حصہ سو صفحات پر مشتمل تین ماہ کے اسفار کا احوال ہے جس میں انھوں نے ملنے کی خوشی، مدینے، بدر اور طائف کے سفر، بدر اور احد کے غزوات اور کچھ دوسرے واقعات کے ساتھ پہلی مرتبہ حرمین و شریفین کو دیکھنے کے جذبات و کیفیات کی بے تابی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ دوسرا حصہ سعودی عرب کی تاریخ کے مختلف عنوانات سجائے ہوئے ہے مگر اس کو پڑھتے ہوئے دلچسپی کم نہیں ہوتی۔ آل سعود، محمد بن عبدالوہاب، انتظام و انصرام و استحکام سلطنت، تیل کی دریافت اور اقتصادی ترقی، OIC، عرب لیگ اور رابطہ عالم اسلامی کا ذکر قدرے تفصیل سے کیا گیا ہے۔ تیسرا حصہ جدہ کے ساحل، ایئرلائنز اور دورِجدید کے بدوؤں کے تذکرے اور ذاتی مشاہدات، گفتگوؤں، ملاقاتوں کا رنگ نمایاں اور غالب ہے۔
سفر نامے کے مطالعے کے دوران کہیں دلچسپی کم نہیں ہونے پاتی۔ تین حصے ہونے کے باوجود باہم مربوط اور متنوع ہیں، سفر نامے میں شہروں کا تعارف بھی ہے۔ جدہ اور مکہ کے سفر میں تو قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سفر نگار کے ساتھ محو سفر ہے، جا بجا سعودی عرب کی بلند و بالا عمارات، ٹاورز کے ساتھ زراعت کی ترویج و ترقی کے لیے کیے گئے اقدامات، ڈیم سازی، بھیڑوں اور اونٹوں کے گلے، دیہاتی زندگی اور اس کا وہی سادہ پن اور شہری زندگی میں مغرب اور مغربی تہذیب اور معاشرت کا چلن کا تذکرہ عام نظر آتا ہے۔ غباررہ حجاز مصنف کے اعلیٰ ذوق کی آئینہ دار ہے۔ نہایت محنت، توجہ اور دلچسپی کے ساتھ مشاہدات کے نوٹس لینا اور دلچسپ اسلوب اور عمدہ شعری ذوق کا پرتو جا بجا نظر آتا ہے۔ جناب دانش یار کا یہ سفر محبت کی زندگی اور دلی جذبات و کیفیات کو جلا دینے کا سفر ہے۔
بعض مقامات پر تو مسافر رہ حجاز پر ایک تاریخ دان کا گمان ہونے لگتا ہے۔ گہرے دلی جذبات و کیفیات مشاہدات، تاریخ اور سفر نامے کا لطف اٹھانے کے لیے غباررہ حجاز کا مطالعہ شرط ہے، اور مسافرانِ حرم کے لیے مکمل رہنمائی اور گائیڈ بک!
مصنف کا انداز و اسلوب دلچسپ، خوبصورت اور تاریخی امثال سے مزین ہے۔ انھوں نے جو دیکھا، گہرے مشاہدات کے ساتھ اس کی نقشہ گری کر دی۔
دانش یار، قلم کی طاقت سے پوری طرح آشنا و بہرہ مند ہیں اور دل بیدار کے ساتھ ہمہ پہلو جدوجہد میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان کا یہ سفر نامہ ایمان کی حلاوت میں اضافے اور جذبوں کو صیقل کرنے میں اپنی مثال آپ ہے، حج و عمرہ کے سفر نامے ایک خاص جذب و کیفیت کے غماز ہوتے ہیں۔ یہ دیار حرم کے ساتھ وابستگی، عقیدت اور محبت کے اظہار کا عمدہ ذریعہ ہیں۔ یہ صرف حج و عمرہ کے اسفار اور گزرے ہوئے لمحات کے مشاہدات کی واردات نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہے (قرآن، سیرت، تاریخ کی جھلک کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات سے مکمل آگہی ہوتی ہے) حجاز و عرب کی تاریخ کا دلچسپ مرقع ہے جس میں تصورات کی دنیا، ماضی و حال اور مستقبل کی جھلک نظر آتی ہے۔ سفرنامے کے تین حصے ہیں، پہلا حصہ سو صفحات پر مشتمل تین ماہ کے اسفار کا احوال ہے جس میں انھوں نے ملنے کی خوشی، مدینے، بدر اور طائف کے سفر، بدر اور احد کے غزوات اور کچھ دوسرے واقعات کے ساتھ پہلی مرتبہ حرمین و شریفین کو دیکھنے کے جذبات و کیفیات کی بے تابی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ دوسرا حصہ سعودی عرب کی تاریخ کے مختلف عنوانات سجائے ہوئے ہے مگر اس کو پڑھتے ہوئے دلچسپی کم نہیں ہوتی۔ آل سعود، محمد بن عبدالوہاب، انتظام و انصرام و استحکام سلطنت، تیل کی دریافت اور اقتصادی ترقی، OIC، عرب لیگ اور رابطہ عالم اسلامی کا ذکر قدرے تفصیل سے کیا گیا ہے۔ تیسرا حصہ جدہ کے ساحل، ایئرلائنز اور دورِجدید کے بدوؤں کے تذکرے اور ذاتی مشاہدات، گفتگوؤں، ملاقاتوں کا رنگ نمایاں اور غالب ہے۔
سفر نامے کے مطالعے کے دوران کہیں دلچسپی کم نہیں ہونے پاتی۔ تین حصے ہونے کے باوجود باہم مربوط اور متنوع ہیں، سفر نامے میں شہروں کا تعارف بھی ہے۔ جدہ اور مکہ کے سفر میں تو قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سفر نگار کے ساتھ محو سفر ہے، جا بجا سعودی عرب کی بلند و بالا عمارات، ٹاورز کے ساتھ زراعت کی ترویج و ترقی کے لیے کیے گئے اقدامات، ڈیم سازی، بھیڑوں اور اونٹوں کے گلے، دیہاتی زندگی اور اس کا وہی سادہ پن اور شہری زندگی میں مغرب اور مغربی تہذیب اور معاشرت کا چلن کا تذکرہ عام نظر آتا ہے۔ غباررہ حجاز مصنف کے اعلیٰ ذوق کی آئینہ دار ہے۔ نہایت محنت، توجہ اور دلچسپی کے ساتھ مشاہدات کے نوٹس لینا اور دلچسپ اسلوب اور عمدہ شعری ذوق کا پرتو جا بجا نظر آتا ہے۔ جناب دانش یار کا یہ سفر محبت کی زندگی اور دلی جذبات و کیفیات کو جلا دینے کا سفر ہے۔
بعض مقامات پر تو مسافر رہ حجاز پر ایک تاریخ دان کا گمان ہونے لگتا ہے۔ گہرے دلی جذبات و کیفیات مشاہدات، تاریخ اور سفر نامے کا لطف اٹھانے کے لیے غباررہ حجاز کا مطالعہ شرط ہے، اور مسافرانِ حرم کے لیے مکمل رہنمائی اور گائیڈ بک!
مصنف کا انداز و اسلوب دلچسپ، خوبصورت اور تاریخی امثال سے مزین ہے۔ انھوں نے جو دیکھا، گہرے مشاہدات کے ساتھ اس کی نقشہ گری کر دی۔
مصنف: محمد رفیق دانش یار، صفحات: 416، قیمت: 385 روپے
ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ ، ملتان روڈ لاہور 54790۔ فون:042-35432419
0 comments:
Post a Comment