Thursday 12 December 2013

افتخار وقت روشن ضمیر تھا

| |
جسٹس افتخار محمد چوہدری کا ساڑھے آٹھ سالہ دور اپنے اختتام کو پہنچا ، عدالت عظمیٰ کا یہ دورتاریخ میں مستقل اور تابندہ نقوش چھوڑکر رخصت ہوا۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عدلیہ کو ایک نیا آہنگ اور بانکپن دیا۔عدلیہ اس سے پہلے بھی عدلیہ تھی ۔۔۔ اور ان کے بعد بھی ، لیکن اس زمانے میں عدلیہ نے عام آدمی کو اُمید ، روشنی اور حوصلہ دیا۔
جسٹس افتخار محمد چوہدری کے از خود نوٹسز نے عام آدمی کا اعتماد عدالت عظمیٰ پر بحال کیا ۔۔۔انہوں نے پے درپے 114از خود نوٹس لیے ، کرپشن ، جعلی ڈگری ،انسانی حقوق ، لاپتہ افراد ، حج سیکنڈل ،بالادست طبقے ، این آر او ، رینٹل پاور ، NICLسیکنڈل ، BOP،سٹیل مل نجکاری اور مارشل لاء کا راستہ روکنے کے خلاف ان کی جدوجہد تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جائے گی۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنا دور مکمل کرکے رخصت ہوگئے ، ابھی رخصت ہوئے انہیں چند گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ چینلز میں ان کے خلاف بولنے والے میدان میں آگئے۔ اس طرح اخبارات میں لکھنے والے بھی ، لیکن یہ دنیا کادستور رہاہے کہ وہ ہمیشہ چڑھتے سورج کی پوجا کرتی ہے ۔ سورج غروب ہوتے ،سورج مکھی کی طرح آنکھیں پھیر لیتی ہے ، جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اچھا وقت گزارا ،آج بعض وکلاء میں سے جو مفادات نہیں پاسکے ۔۔۔پی پی پی نے این آ ر او کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد بابر اعوان اور فیصل رضا عابدی کے ذریعے، اسی طرح عمران خان 2012ء تک ساتھ رہے لیکن 2013ء کے انتخابات کے بعد ناراض ہوگئے کہ انتخابی دھاندلی کے خلاف کاروائی نہ کی گئی ۔۔۔اور اسی طرح مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف وزیراعظم بننے کے بعد نالاں نظر آئے اور پرویز مشرف کے دور کو وزیر قانون کو اپنا وزیر قانون بنایا ۔۔۔آج یہ سارے لوگ افتخار محمد چوہدری کے خلاف مورچہ زن ہیں ۔ لیکن عوام کی اکثریت انہیں اپنا نجات دہندہ اور امید کا پیغامبر سمجھتی ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ افتخار محمد چوہدری کو جتنا وقت ملا اس میں وہ کچھ نہیں کرسکے۔حقیقت یہ ہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کو جتنا وقت ملا اس میں انہوں نے مثالی کام کیا۔ اتنے عرصے میں یہی کچھ ہوسکتاتھا۔مجھے وہ وقت نہیں بھولتا جب وہ جنرل پرویز مشرف کے سامنے انکار کرکے نکلے تو کیسے ان کے بال نوچے گئے اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا،مگر ان کی جرأت انکار اور جرأت رندانہ نے وہ کام کردکھایا ۔۔۔جس کا تصور نہیں کیاجاسکتا ۔ ان کی اس جرأت راندانہ نے نظریہ ضرورت کو دفن کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے اس حرف انکار نے جنرل مشرف کی حکومت کے تابوت میں وہ کیل ٹھونکی کہ پھر اس کے بعد وہ کمزور ہوتے چلے گئے او ربالآخر انہیں اقتدار چھوڑناپڑا۔
30جون 2005ء کو جب جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حلف لیا تو عدلیہ کاکردار ایسا نہیں تھا جس کی تعریف کی جائے۔ 2006ء میں چیف جسٹس کے خلاف فیصلہ کیاگیا۔ اور 3نومبر 2007ء کو ایمرجنسی نافذکرکے عدلیہ اور میڈیا پر حملہ کیاگیا۔۔۔یہ وہ موقع تھا جب ہرطرف ہوکا عالم تھا،جماعت اسلامی پاکستان کا لاہور کی نواحی بستی (شامکے بھٹیاں)میں اجتماع ارکان منعقد کررہی تھی ، اس موقع پر جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد ؒ نے عدلیہ کا ساتھ دینے کااعلان کیا اور ملتان روڈ پر تاریخی مظاہرہ کیاگیا۔ ان بڑا مظاہرہ تاریخ میں نہ کبھی ہوا نہ ہوسکے گا۔
جماعت اسلامی نے عدلیہ بحالی کی تحریک میں نہایت اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ چیف جسٹس بحالی تحریک کے نہایت اہم مرحلے ’’لانگ مارچ ‘‘ کے موقع پر جی پی او چوک پر جماعت اسلامی کے کارکنان نے لیاقت بلوچ کی قیادت میں سارا دن معرکہ لڑا۔ سارادن پولیس سے لاٹھیاں کھائیں، زخم کھائے ،مگر اپنی جدوجہد جاری رکھی ، اور چیف جسٹس کو بحال کرا کے دم لیا، چیف جسٹس کی بحالی میں جماعت اسلامی کی جدوجہد کو آنے والا مورخ فراموش نہیں کرسکتا، یہ اور بات ہے کہ چیف جسٹس کی بحالی کا سارا کریڈٹ شام کو نکلنے والوں نے میڈیا کے زور پر سمیٹا۔ بلاشبہ اس جدوجہد میں وکلاء کی جدوجہد ناقابل فراموش رہی جنہوں نے چیف جسٹس کی بحالی میں دن رات ایک کیا۔ لیکن اس ساری جدوجہد کے دوران جماعت اسلامی بھی قدم سے قدم ملا کے چلی ۔ بلاشبہ چیف جسٹس کی بحالی سے عدلیہ کو نیا جوش اور ولولہ ملا، اور آنے والے سالوں میں عدلیہ نے اپنا بھرپورکردارادا کیا۔ عدلیہ کو حاصل ہونے والی آزادیاں واپس لینا اب کسی آمر کے بس میں نہیں رہا۔ عدلیہ سے وابستہ عوامی امیدیں اب مر نہیں سکتیں ، عوامی اعتماد بڑھنے کے نتیجے میں Status quoزمین بوس ہوا ، عوام میں بیداری اور جذبے سے ہی معاشرے کے روگ دور ہوسکیں گے۔ اور جذبہ اپنا کام دکھائے گا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے ساڑھے آٹھ سالہ دور میں جتنی تندہی ، محنت اور لگن کے ساتھ کام کیا وہ قابل تحسین ہے ، اللہ انہیں اس کا بہترین اجر عطاکرے ۔۔۔اب آنے والوں کا کام ہے کہ وہ درپیش چیلنجز سے احسن انداز میں عہدہ برآہوسکیں۔ ہماری ان کے لیے بھی دعاہے کہ وہ عدلیہ کے اس کردار کی بنیاد پر معاشرے میں تبدیلی ،کرپشن کے خاتمے ، انصاف کی فراہمی ، عام آدمی کی داد رسی کے ذریعے عوامی اعتماد میں اضافے کا سبب بنتے چلے جائیں ،اُمید اور روشنی کا یہ سفر وطن عزیز کا احاطہ کرلے ۔

1 comments:

justice Iftikhar Muhammad Ch nay superme court aik nai jahut dee

Post a Comment