Wednesday 18 December 2013

منظوم اداریہ نویسی کے بانی ; مولانا ظفر علی خاں

| |
خدا سے بے پایاں محبت، عشق رسولؐ سے سرشار،اسلام اور مسلمانوں کی محبت سے معمور، امت مسلمہ کے حقیقی غمخوار و بہی خواہ ،مصلح قوم، یورپ کی اندھی تقلید سے بے زار ،قلم کے دھنی، فی البدیہہ شعر کہنے کے بادشاہ، منظوم اداریہ نویسی کے بانی اور خاتم ، ’’زمیندار‘‘ کے مدیر، دانشور صحافی اور ادیب,رنگت سانولی،قدمیانہ، مزاج تیز اور اپنے مؤقف پر ڈٹ جانے والی شخصیت  ،یہ تھے ظفر علی خاں جو بعد میں مولانا ظفر علی خاں کہلائے۔
مولانا ظفر علی خاں نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کرم آباد ،وزیر آباد میں جبکہ ایف اے اور بی اے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کیا۔جہاں انہیں نامی اساتذہ کرام کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملااورعلامہ شبلی نعمانی،پروفیسر آرنلڈاور سرسید کی سرپرستی میسر آئی۔اور ان کے ذوق علم کو خوب جلا ملی۔اسی زمانے میں وہ انگریزی علم و ادب ،عربی کا زور بیان اور فارسی کی نزاکتوں کے ساتھ ساتھہ اردوئے معلی سے روشناس ہوئے ادبی انجمن ’’اخوان الصفا‘‘ اور ’’لجنۃ الادب" کے رکن رہے اور تقریر و تحریر کی خوب مشق بہم پہنچائی ، کسی کے لئے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا کہ ان کی تقریر اچھی ہے یا تحریر ، وہ روایتی شاعر نہیں تھے۔اور نہ انہوں نے روایتی مضامین باندھے۔ان کی شاعری اور مضامین میں تنوع اور برجستگی نمایاں تھی۔
علیگڑھ کے بعد وہ بمبئی تشریف لے گئے جہاں نواب محسن الملک کے پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر کام کرتے رہے ۔کچھ عرصہ بعد ریاست حیدر آباد کی فوج میں ملازم ہو گئے ۔ورزش اور سیر و شکار کے تو پہلے سے رسیا اور شوقین تھے لیکن جلد ہی فنون حرب، شہسواری اور نیزہ بازی میں بھی طاق ہو گئے۔ہوم سیکرٹری کی نظر انتخاب نے ہوم آفس کے دارالترجمہ سے منسلک کر دیا۔کچھ عرصہ میر عثمان علی خاں کے اتالیق بھی رہے۔
اس زمانے میں اردو نظم و نثر میں بڑا نام کمایا ۔اردو رسائل و جرائد ’’پیسہ‘‘،’’ مخزن‘‘ اور’’ وطن‘‘ میں باقاعدگی سے لکھتے جس سے ان کا تعارف دور دور تک وسیع پیمانے پر ہو گیا۔اسی طرح انگریزی مضامین لکھنے کے سبب ’’بمبئی گزٹ‘‘ اور ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں ان کی نگارشات جگہ پانے لگیں۔
مولانا نے اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو نثری وشعری تراجم بھی کیے، جن میں انگریزی سے کیے گئے تراجم کا پلہ بھاری رہا۔ لارڈکرزن کی مشہور کتاب ’’Gardens of persia‘‘ کا ترجمہ’’ خیابانِ فارس‘‘ کے نام سے کیاجو ان کی علمی و ادبی زندگی میں پہلا بڑا سنگ میل قرار پایا ۔ترجمہ ایسا خوبصورت کیا کہ اہل علم عش عش کر اٹھے ،کتاب کے آغاز میں دیے گئے انگریزی اشعار کو بھی منظوم اردو میں ڈھال دیا۔جس پر داغ دہلوی نے انہیں مبارک باد دی۔اور پنجاب یونیورسٹی نے 500روپے انعام سے نوازا۔جبکہ نظام دکن نے 3000روپے دیے ۔لارڈ کرزن جب حیدر آباد دکن کی سیاحت پر آئے تو مترجم سے خاص طور پر ملے اور طلائی دستے سے مرصع ایک چھڑی پیش کی۔
یہ تو انگریزی سے ترجمہ ہے اس زمانے میں مولاناظفرعلی خاں نے علامہ شبلی نعمانی کی ’’الفاروق‘‘ جیسی تحقیقی و علمی کتاب کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔جس نے صاحبان علم و فکر کو دنگ کر دیا۔ انگریزی سے کیے گئے دیگر تراجم میں رینلڈز Reynold کے مشہور ناولMistries of the court of London ‘‘لارڈ کپلنگLord Kiplingکی کتاب The jungle bookکا’’ جنگل میں منگل ‘‘ کے نام سے رواں ،شستہ اور سلیس ترجمہ کیا۔ جس میں جانوروں کے دل چسپ قصے کہانیاں بیان ہوئے ہیں۔رائیڈر ہیگرڈ Rider Heggards کا ناول ’’ The people The mist ‘‘ کا ترجمہ ’’سیر ظلمات‘‘ کے نام سے کیا۔شعری تراجم میں ٹینی سن Tennysonکی نظم ’’ The Book‘‘ اور بائرن کا خطاب بابحر کے ترجمہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جبکہ رڈ یارڈ کپلنگ کی بعض نظموں نے تو اردو میں نیا جنم لیا۔ 1910میں جان ولیم ڈر یپر John William Draperکی کتاب ’’A History Conflict Between Religion and Science‘‘کا بامحاورہ اردو ترجمہ ’’معرکہ مذہب و سائنس ‘‘ کے نام سے کیا۔
مولانا ظفر علی خاں نے 1902میں’’ افسانہ‘‘ کے نام سے ایک جریدہ جاری کیا ۔اور 1903میں دکن سے’’ دکن ریویو‘‘ کے نام اردو کا ایک معیاری رسالہ نکالا، جس میں مشرق و مغرب کی فکر کا امتزاج پیش کیا جاتا اور اردو ادبیات کو مغرب کے تنقیدی اصولوں پر جانچا جاتا۔ جس نے عوام میں بہت پذیرائی پائی یہ رسالہ بعد میں بمبئی سے بھی نکلا لیکن اسے دکن والی پذیرائی نہ حاصل ہو سکی۔اس کے بعد حالات ایسے ہوئے کہ مولانا ظفر علی خاں کو اپنے آبائی علاقے کرم آباد آنا پڑ اجہاں ان کے والد گرامی مولوی سراج الدین احمد خاں وفات پا گئے تھے اور مولانا پر گھر کی ذمہ داری آن پڑی۔مولوی سراج الدین احمد سرکاری ملازم تھے ،ملازمت سے فراغت کے بعد جہاں انہوں نے زمینداروں میں دین و ملت بارے بیداری پیدا کرنے، ان کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے ،ان کے مسائل پر آواز بلند ک رنے اور مطالعہ کا ذوق پیدا کرنے کے لئے جدو جہد کا آغاز کیاتھا۔والد کی وفات کے بعد مولانا نے ’’زمیندار ‘‘ کے تسلسل میں فرق نہ آنے دیا اور اسے اسی تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جس تسلسل سے انکے والدنکالتے تھے اور اس کی اشاعت 600سے بڑھ کر اتنی ہو گئی کہ پرچہ ملتا ہی نہ تھا۔اس کے ساتھ ہی ’’دکن ریویو‘‘ کی طرز پر ’’پنجاب ریویو‘‘ کا اجرا کیا۔’’پنجاب ریویو‘‘ کا پہلا پرچہ جس اہتمام، خوبی اور عمدگی سے شائع ہوا وہ بیان سے باہر ہے۔ کچھ ہی عرصہ بعد مولانا ’’زمیندار‘‘ کو کرم آباد سے لاہور لے آئے ،اورزمیندار کو کسان کے ترجمان سے پوری امت کا ترجمان بنا دیا اور ایسا بنایا کہ ہر کوئی زمیندار کا دلدادہ اور شیداء نظر آتا۔
1912میں جنگ طرابلس اور بلقان ہوئی۔ہندوستان کے مسلمانوں کو خلافت عثمانیہ سے ایک جذباتی تعلق اور لگاؤ تھا جمعہ کے خطبہ میں خلیفہ کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا۔ مسلمانوں کے لئے یہ مسئلہ خصوصی دلچسپی کا حامل تھا ۔مولانا ظفر علی خاں کا اخبار ’’زمیندار‘‘ ان خبروں کو ایسے انداز میں پیش کرتا تھا جو عوام کے دل کی آواز تھا۔اس ضمن میں مولانا کسی لیت و لعل یا مصلحت پسندی کے قائل نہ تھے۔جبکہ پریس ایکٹ کے قوانین ہاتھ پیر باندھ دینے والے تھے، مولانا کی یہ روش پنجاب کے نئے گورنر جنرل مائیکل ایڈوائرMichael Advair کی لئے سخت ناپسندیدہ تھی، اس سے قبل حیدر آباد سے بھی مولانا ظفر علی خاں اس کے بغض کے سبب ہی نکالے گئے تھے، اب یہ صاحب پنجاب میں وارد ہوئے تھے ، اسی زمانے میں مولانا ظفر علی خاں لندن پہنچے جہاں انہوں نے پریس ایکٹ کے خلاف 100 صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ شائع کیا اور نہایت عمدہ انداز میں پریس ایکٹ کا محاکمہ کیا اور اس سے جمہوریت کشی اور آزادئ تحریر پر لگنے والی قدغنوں پر روشنی ڈالی۔جس سے اراکین پارلیمنٹ اور لبرل اخبارات نے اچھا خاصہ اثر قبول کیا ۔مولانا ظفر علی خاں اور ’’زمیندار‘‘ انگریز کے خلاف شمشیر برہنہ کا روپ دھار چکے تھے اور یہ صورت حال مائیکل اڈوائر کیلئے سخت پریشانی اور اذیت کا باعث تھی ۔لہذا مارچ 1912میں ’’زمیندار‘‘ سے ایک ایک ہزار کی دو ضمانتیں مانگی گئیں۔قوم نے زمیندار کی جھولی میں دو ہزار ڈال دیے اور زمیندار جاری رہا ۔حادثہ کا نپور میں یو پی کے گورنر سر جیمس میٹن James Martenپر شدید ترین نکتہ چینی کے جرم میں دو ہزار کی ضمانت ضبط کر لی گئی۔اور مزید دس ہزار کی ضمانت طلب کر لی گئی۔حکومت کی خواہش تھی زمیندار بند ہو جائے گا۔مگر زمیندار کی اپیل پر قوم نے دس ہزار فراہم کر دیے اور زمیندار پھر جا ری رہا۔مولانا ظفر علی خاں نے لندن سے ایک مقالہ بعنوان چارچیزاست تحفہء لندن
خمر و خنریر و روزنامہ و زن 
یہ مولانا ظفر علی خاں کا اپنا ہی شعر تھا ۔اس مضمون پر کارروائی ہوئی۔10ہزارزر ضمانت اور چھاپہ خانہ ضبط ہو گیا۔اور مزید 10ہزار بطور زر ضمانت طلب کر لیے گئے۔قوم نے زمیندار کے جذبہ حریت کی لاج رکھی اور 10ہزار مہیا کر دیے۔
مولانا ظفر علی خاں نے ترکوں کی امداد و اعانت کیلئے مہم چلائی 6لاکھ جمع ہوئے جسے خود مولانا نے ترکی پہنچایا ۔ترکی سے واپس آئے تو اہل وطن نے دیدہ و دل فرش راہ کیے ۔بمبئی سے دہلی پہنچے عقیدت مندوں نے گاڑی کے گھوڑ ے کھول دیے اور خود گاڑی میں جُت گئے اس ہجوم بے کراں میں ایک بوڑھی عورت کا اکلوتا نوجوان بیٹاجان کی بازی لگا گیا۔بڑھیا کو خبر ملی تو اس کا اعلان تھا کہ ’’اگر میرے دس بیٹے بھی ہوتے اور اس طرح ظفر علی خاں پر قربان ہو جاتے تو مجھے کوئی ملال نہ ہوتا۔
مولانا ظفر علی خاں اپنی ذاتی زندگی میں نبی مہربان کی محبت اللہ کی قربت اور دین سے محبت کا عملی نمونہ تھے۔نمازوں کے سخت پابند تھے جبکہ ہمیشہ وضو سے رہتے ۔بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ کشمیر جاتے تو برف توڑ کر وضو کرتے اور نماز کا اہتمام کرتے۔
مولانا ظفر علی خاں کی شاعری عوامی شاعری ہے ۔ان کی شاعری میں نظم اول نمبر پر ہے، بے شمار خوبیوں سے مرصع ان کی نظمیں ان کی قدرت الکلامی پر دلالت کرتی ہیں وہ الفاظ اور بحور پر مکمل قدرت رکھتے تھے۔انہوں نے ایسے ایسے قافیے تخلیق کیے جن کے بارے میں پہلے کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔ان کی نظموں کا انداز بھی خطیبانہ ہے ۔انہوں نے ہر موضوع پر شاعری کی، مشکل سے مشکل الفاظ بھی نہایت احسن انداز اور خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیے ،مولانا نے شاعری کو عوامی آہنگ دیا۔ زمیندار گھرانے سے ہونے کے باوجود انہوں نے عوامی سطح کی شاعری کی۔ یہ عوامی شاعر نقادوں سے اپنے فن کی وہ داد نہ پا سکا جس کا وہ حقدار تھا۔کہ اس کا تعلق کسی گروہ سے نہیں اسلام سے تھا ۔ اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی اور نشاۃ ثانیہ سے تھا جس کے تمام عمر وہ گیت گاتے رہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ قادر الکلام شاعر گمنامی کا شکار رہے۔ان کی شاعری کا مرکز و محور مسلمان اور اسلام ہے۔ جس کا تعارف وہ یوں کراتے ہیں:۔ 
خدا کی حمد ،پیغمبر کی مدح، اسلام کے قصے
مرے مضموں ہیں جب سے شعر کہنے کا شعور آیا

خدا سے بے پایاں محبت اور نبیؐ سے والہانہ لگاؤ ان کی زندگی کا طرہ امتیاز رہا ہے ۔مولانا کی نعتیں حضورؐ سے ان کی محبت اور والہانہ پن کو ظاہر کرتی ہیں۔ان کی نعت کے چندا شعار:

۱۔    وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں       اک روز چمکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
گر ارض و سما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو            یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں ،یہ نور نہ ہو سیاروں میں 
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا جو نکتہ وروں سے حل نہ ہوا           وہ راز اک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں 
بوبکرؓ و عمرؓعثمانؓ و علیؓ ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی            ہم مرتبہ ہیں یارانِ نبیﷺ کچھ فرق نہیں ان چاروں میں 
وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکان فلسفہ سے            ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں 

۲۔       دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو           ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا             سب غایتوں کی غایت اولی تمہی تو ہو

ان کے بعض اشعار ضرب المثل کی کیفیت اختیار کر چکے ہیں۔ مولانا کے چند خوبصورت اشعار:

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن             پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی            نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا 
تہذیب نو کے منہ پر وہ تھپڑ رسید کر               جو اس حرامزادی کا حلیہ بگاڑ دے
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیر ی نصرت کو               اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
سلیقہ مے کشی کا ہو تو کر سکتی ہے محفل میں           نگاہ لطف ساقی, مفلسی کا اعتبار اب بھی 
نکل جاتی ہے سچی بات جس کے منہ سے مستی میں             فقیہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا 
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر             خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول               تڑپی ہے تجھ پہ نعشِ جگر گوشہ بتولؐ 
جھکا لیں فرط ادب سے نظریں کج کلاہوں نے               زباں پر جب عرب کے سارباں زادوں کا نام آیا

مولانا ظفر علی خاں کی زندگی ’’ادھر ڈوبے ادھر نکلے‘‘ اور ’’لڑا دے کسی بلا سے مجھے‘‘ کے مصداق تھی۔جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا ساری زندگی ان کا شعار رہا۔وہ سمجھوتوں کے قائل نہیں تھے۔دوٹوک اور بے با کانہ انداز رکھتے تھے ، پاکستان کی منزل پا لینے کے بعد 27نومبر 1956کو راہئ ملک عدم ہوئے اور اپنے گاؤں وزیرآباد کے باہر بر لب سڑک سپرد خاک ہوئے۔ 

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

(پیدائش 16جنوری 1874۔۔۔۔۔۔ وفات 27نومبر6 195)

1 comments:

یہ عوامی شاعر نقادوں سے اپنے فن کی وہ داد نہ پا سکا جس کا وہ حقدار تھا۔کہ اس کا تعلق کسی گروہ سے نہیں اسلام سے تھا ۔ اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی اور نشاۃ ثانیہ سے تھا جس کے تمام عمر وہ گیت گاتے رہے۔

Post a Comment