Thursday, 5 December 2013

نیلسن منڈیلا ۔۔۔ کامیابیاں اورناکامیاں

| |
27سال تک دہشت گردی کے نام پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور گوروں کی قید میں رہنے کے بعد نیلسن منڈیلا بالآخر’’ حریت پسند ‘‘ قرار پائے ،جنوبی افریقہ کے صدر بنے نوبل انعام کے حق دار ٹھرے اور آج 95سال کی طویل عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 
95سال زندگی کی بہاروں سے مستفید ہونے والے نیلسن منڈیلا نے اپنے بدترین مخالفین کو معاف کردیا ۔۔۔حالانکہ وہ چاہتے تو ان کو سخت سے سخت سزا دلاسکتے تھے ۔ جن لوگوں نے ان پر ظلم ڈھائے ، سیاہ فاموں کو ظلم وجبر کی چکی میں پیسا۔ لیکن انہوں نے عفوو درگزر کاراستہ اپنایا ، اسی طرح اس نے اپنی زندگی بھر کی جدوجہد سے یہ درس دیاکہ جدوجہد اور کوشش کے راستے سے ظلم کو شکست فاش سے دوچارکیاجاسکتاہے اور یہ انہوں نے کرکے دکھایا ۔ ان کی زندگی جدوجہد سے عبارت تھی۔ وہ ایک الٰہی کرشماتی اور طلسماتی شخصیت کے مال تھے جس نے لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے جگہ بنائی ، اور ایک بڑی تعداد کو اپنے سحر میں لے لیا ۔ انہوں نے اپنی جدوجہد سے یہ بتایاکہ فرد سے زیادہ جدوجہد اور تحریک اہم ہوتی ہے۔ فرد آتے جاتے رہتے ہیں۔ جدوجہد کو ماند نہیں پڑناچاہیے ، جدوجہد جاری رہنی چاہیے کہ جدوجہد سے ہی زندگی کا سفر عروج پاتاہے۔
ایک غریب خاندان میں آنکھ کھولنے والا نیلسن منڈیلا اپنی ذاتی محنت اور لیاقت کے بل بوتے پر اتنی کامیابیاں سمیٹ سکا۔ اس نے تمام عمر محنت اور جدوجہد کاراستہ اپنائے رکھا۔۔۔اور اسی محنت نے اُسے کامیابیوں اور عروج سے ہمکنار کیا۔ اس کابچپن کا زمانہ نہایت عسرت اور تنگدستی کا زمانہ تھا۔ نیلسن کی تین سگی بہنیں تھیں جبکہ ان کے کل تیرہ بہن بھائی تھے۔ ان کے والد بچپن میں ہی فوت ہوگئے ، سکول میں داخل ہونے کے بعد ان کی ایک ٹیچر نے ان کو نیلسن کانام دیا ۔ اس سے قبل ’’رولہلاہلا‘‘کے نام سے جانے جاتے تھے جو ان کا پیدائشی نام تھا۔ انہوں نے گریجویشن کے بعد وکالت کی تعلیم حاصل اور 1952ء میں اپنا لاء آفس کھولا۔ اس دوران وہ نسلی امتیاز کے تلخ تجربات سے بھی گزرے ۔ جس نے ان میں تلخی اور باغیانہ پن میں شدت پیدا کی ۔ نیلسن منڈیلا جدوجہد آزادی کے دوران کبھی نرم حکمت عملی کے قائل نہیں رہے۔ وہ اپنے دوستوں کو سجھاتے کہ نرم اور ٹھنڈی جدوجہد کا دور گزر گیا۔ اب عدم تشدد بے کارہے ، جس سے گوری اقلیت کو اختیارات سے محروم نہیں کیاجاسکتا۔ جو کسی طور اپنااختیار چھوڑنے پر تیار نہیں ۔ وہ کہتے کہ اگر پرامن احتجاج کا جواب تشدد سے ملے تو اس کی اثرپذیری ختم ہوجاتی ہے۔ عدم تشدد ایک حکمت عملی تھا اخلاقی اصول نہیں تھا۔ وہ کہتے کسی غیر مؤثر ہتھیار کو استعمال کرنے میں کوئی اچھائی نہیں ہوتی ۔11فروری 1990 ء کو حکومت کے ساتھ معاملات طے پا جانے کے بعد وہ رہاہوئے اور اگلے سال افریقن نیشنل کونسل ( ANC)کے صدر منتخب ہوئے۔ 1993ء میں نوبل انعام سے نوازے گئے۔ 1994ء میں پہلی بار سیاہ فاموں کو برابری کادرجہ دیاگیا۔ ملک میں انتخابات ہوئے جس میں وہ ملک کے پہلے سیاہ فام صدر بن گئے۔ اور اگلے 5سال صدارت پر فائز رہے۔ اس وقت ان کی عمر 76برس تھی ۔ 81برس تک منصب صدارت پر فائز رہے اور ملک کو ترقی ، تعمیر کی کئی نئی جہتیں عطا کیں ۔
ان کی وفات پروہ رطب اللسان پائے گئے۔ جو زندگی بھر ان کو دہشت گرد قرار دیتے رہے، برطانوی ریڈیو اور بی بی سی خاص طور پر پیش پیش رہے ۔ ان کی وفات پرانہیں اتنی کوریج ملی کہ اس کے خلاف شکایات پر مبنی بے شمار خطوط موصول ہوئے۔حالانکہ ڈیوڈ کیمرون اوران کی ٹوری پارٹی افریقن نیشنل کونسل(ANC)اورنیلسن کو دہشت گرد قرار دیتی رہی۔1989ء میں انہوں نے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا۔ افریقہ کے خلاف اقتصادی پابندیو ں کی مخالف مہم کے خرچ پرکیاتھاجبکہ اب وہ انہیں قدآور شخصیت اور زندگی اور موت میں لیجنڈ (Legend) شخصیت قرار دیتے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما اور سابقین صدور بش اور کلنٹن ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جنوبی افریقہ گئے لیکن جب وہ جزیرہ روبن میں قید کاٹ رہے تھے۔ اس وقت امریکہ ان کو دہشت گرد قرار دیتاتھا اور سفیدفام نسل پرست حکومت کی حمایت کرتاتھا۔ جبکہ امریکی صدر ریگن جنوبی افریقہ کی نسل پرست سفید فام حکومت کو کمیونزم کے خلاف ایک زبردست حصار قراردیتاتھا۔اب جبکہ وہ فوت ہوگئے ہیں تو یہ سب ان کی موت پر سرجھکائے ہوئے کھڑے ہیں۔
بلا شک ان کا بڑا کارنامہ جنوبی افریقہ کے عوام کو نسلی تفریق سے نجات دلانا۔ ملک کو مفاہمت کی راہ پر ڈالنااور 5سال بعد ہی اقتدار سے علیحدگی اختیار کرناقرار دیاجاسکتاہے۔ نیلسن منڈیلا کی مفاہمت کی پالیسی کو جنوبی افریقہ کے نوجوان فراڈ اور افریقی عوام سے غداری کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ جس کے بل پر سفید فاموں نے افریقی زمینوں اور املاک پر قبضہ کیااور افریقیوں کو ان کے جائز حق سے محروم کیا۔ مفاہمت کی پالیسی نے غریب افریقیوں کو کچھ نہیں دیاجبکہ سفید فام نسل پرستوں کی معیشت پر گرفت مزیدمضبوط ہوگئی اور اصلاحات بھی نہ ہوپائیں۔ نیلسن منڈیلا ملک کو نسلی تفریق سے آزادنہ کراسکے اور بڑی بڑی کمپنیوں کے دباؤ میں ملک میں نجکاری شروع کردی۔ یہ نجکاری نسل پرست نظام کو تحفظ دینے کا ذریعہ تھی ۔ اس کانتیجہ یہ نکلا کہ معیشت پر نسل پرستوں اور بین الاقوامی سرمایہ داروں کا تسلط اور زیادہ مضبوط ہوگیا۔
27سال کی طویل مدت کی قید و بندکے بعد دنیا پر یہ راز کھلا کہ نیلسن منڈیلا دہشت گرد نہیں حریت پسند اور آزادی کاپروانہ ہے۔ شاید یہی دنیا کا دستوراور ہمیشہ ایسا ہی ہوتاآیا ہے۔ اس شخص نے طویل سیاسی جدوجہد کی ، اس کی جدوجہد تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ تابندہ رہے گی اور حریت پسند وں کے لیے روشنی کا چراغ۔
صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی صدارتی گفتگو میں اس مجاہد آزادی نے کہاتھا ۔۔۔’’ہم نے آخر کار سیاسی آزادی حاصل کرلی ہے اور ہم اپنے آپ سے عہد کرتے ہیں کہ اپنے سارے عوام کو غربت ، محرومی ،ابتلا اور جنسی دیگر امتیازات کی جکڑ بندیوں سے آزاد کرائیں گے۔ یہ آئندہ کبھی نہیں ، کبھی نہیں اور کبھی نہیں ہوگا کہ یہ خوبصورت سرزمین دوبارہ کسی طرح کے ظلم وستم سے دوچارہوسکے ۔۔۔اس قدر شاندار کامیابی پر سورج کبھی بھی غروب نہیں ہوگا۔ ‘‘
۔ 30اپریل 1964ء میں عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا ۔۔۔
’’میں اس سے انکار ی نہیں کہ میں نے تخریبی پلان ترتیب دیا لیکن میں نے ایسا کسی غفلت کے باعث یا اس بنا پر نہیں کیا کہ میں تشدد پسند ہوں ۔ یہ تخریبی تصور سفید فام آبادی کی جانب سے برسوں روا رکھے جانے والے جبر ، استحصال اور مستبدانہ حکومت کے سیاسی تسلسل کااطمینان اور سنجیدہ جائزہ لینے کاشاخسانہ ہے۔‘‘
۔ 11فروری 1990ء میں رہا ہونے کے بعد جمع ہونے والے ہجوم سے پہلا خطاب کرتے ہوئے کہا
’’میں آپ لوگوں کے سامنے ایک نبی کے طور پر نہیں آیا بلکہ آپ کے ایک منکسرالمزاج خادم کے طور پر کھڑاہوں، آپ لوگوں کی انتھک کوششوں اور بہادرانہ قربانیوں کانتیجہ ہے کہ میں یہاں موجود ہوں اور اپنی زندگی کے بقیہ سال آپ کے سپرد کررہاہوں۔ ‘‘
۔ 10دسمبر 1993ء میں نوبل انعام وصول کیا۔ انعام وصول کرتے وقت اپنے جذبات کااظہار کرتے ہوئے کہا
’’آئیں ایسے عمل کریں کہ مستقبل کی نسلیں کبھی بھی مردم بیزاری ،لاتعلقی ، خود غرضی اور بے حسی کاشکار ہو کر انسانیت کے اصولوں کو ترک کرکے ہمیں ناکام قرار نہ دے دیں۔‘‘
۔ 10مئی 1994ء کو اپنی حکومت کے قیام کے بعد خطاب کرتے ہوئے:
’’زخموں کے مندمل ہونے کا وقت آگیاہے ۔ تقسیم کرنے والے غارپر جوڑنے اور ملانے والے پل کی تعمیر ہوگئی ہے ۔ اب ہمیں آگے بڑھنا ہے ۔ ایک ایسے معاشرتی بندھن میں داخل ہو کر تمام جنوبی افریقی کے ایشیائی باشندوں ، سیاہ فام و سفید فام کو اپنے معاشرے کو تعمیرکرناہے تاکہ انسانیت سے ناقابل جدا ہونے والے حقوق کے حصول کی جانب کھلے دلوں کے ساتھ آگے بڑھیں تو ہمارے سرفخر سے سربلند ہوں۔ ‘‘ 
نیلسن منڈیلا دنیا سے رخصت ہوگئے مگر جنوبی افریقہ کاترقی اور عروج کا سفر جاری ہے۔ اور ان کی قوم یہ سفرجاری رکھنے میں سرگرم اور پرجوش دکھاتی دیتی ہے ، زندہ قوموں کا یہی دستور اور شیوہ ہوتاہے۔

1 comments:

ان کی وفات پروہ رطب اللسان پائے گئے۔ جو زندگی بھر ان کو دہشت گرد قرار دیتے رہے، برطانوی ریڈیو اور بی بی سی خاص طور پر پیش پیش رہے ۔ ان کی وفات پرانہیں اتنی کوریج ملی کہ اس کے خلاف شکایات پر مبنی بے شمار خطوط موصول ہوئے۔حالانکہ ڈیوڈ کیمرون اوران کی ٹوری پارٹی افریقن نیشنل کونسل(ANC)اورنیلسن کو دہشت گرد قرار دیتی رہی۔1989ء میں انہوں نے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا۔ افریقہ کے خلاف اقتصادی پابندیو ں کی مخالف مہم کے خرچ پرکیاتھاجبکہ اب وہ انہیں قدآور شخصیت اور زندگی اور موت میں لیجنڈ (Legend) شخصیت قرار دیتے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما اور سابقین صدور بش اور کلنٹن ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جنوبی افریقہ گئے لیکن جب وہ جزیرہ روبن میں قید کاٹ رہے تھے۔ اس وقت امریکہ ان کو دہشت گرد قرار دیتاتھا اور سفیدفام نسل پرست حکومت کی حمایت کرتاتھا۔ جبکہ امریکی صدر ریگن جنوبی افریقہ کی نسل پرست سفید فام حکومت کو کمیونزم کے خلاف ایک زبردست حصار قراردیتاتھا۔اب جبکہ وہ فوت ہوگئے ہیں تو یہ سب ان کی موت پر سرجھکائے ہوئے کھڑے ہیں۔
This paragraph should have been elaborated more and highlighted so that the black faces of civilized Hippocrates of US and UK could have been more visible.

Post a Comment