سنجیدگی، دردمندی،دلسوزی اور اخلاص کے ساتھ کیے گئے اقدامات آخرکار رنگ لا کر رہتے ہیں اور حالات کا دھارا بدل کر رہتا ہے ۔لیکن یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب کوئی حالات کا دھارا بدلنے کا خواہاں ہو، پُر عزم ہو ،سستی شہرت کے لئے عاجلانہ اقدامات کو سنجیدہ اور دور رس نتائج کا حامل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ایسے اقدامات بے ثمر اور رائیگاں جاتے ہیں ۔
10محرم الحرام کو راولپنڈی کے راجہ بازار کے ایک مدرسے تعلیم القرآن میں رونما ہونے والا واقعہ دلخراش بھی ہے اور دلدوز بھی ، جس نے عوام الناس کو افسردہ اور غمزدہ کر دیا جس کی ٹیس عوام نے اپنے دل و دماغ میں محسوس کی ،مولانا غلام اللہ خاں مرحوم کا یہ مدرسہ دینی تحریکوں کا مرکز اور بین الممالک ہم آہنگی کے فروغ کے لئے کوشاں رہا، یہ واقعہ اور سانحہ رونما نہ ہوتا اگر ضلعی انتظامیہ نے دیانتداری کے ساتھ حکمت عملی طے کی ہوتی ۔ایسے لگتا ہے انتظامیہ بالخصوص پولیس سے سخت غفلت ہوئی جس کا نتیجہ اس دلخراش واقعہ کی صورت میں برآمد ہوا۔11گھروں میں صف ماتم بچھ گئی، سو سے زائد لوگ شدید زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پہنچ گئے اور سو سے زائد دکانیں اور دوسری املا ک کو سخت نقصان پہنچاجو مسجد کا اثاثہ تھیں ۔
10محرم کو جمعہ تھا جس دن عزاداروں کا یہ جلوس وہاں سے گزرنا تھا ۔انتظامیہ کو حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے جلوس کو مدرسے کے سامنے سے یا تو جمعہ سے پہلے گزارنا چاہیے تھا یا پھر بعد از نماز۔مسجد کے خطیب کا کہنا ہے کہ پچھلے سالوں میں ہمیشہ یہ روایت رہی کہ جلوس فوارہ چوک میں نماز ظہر ین کی ادائیگی کے بعد آتا تھا لیکن اس مرتبہ عین اس وقت پہنچا جب مسجد میں خطبہ جمعہ ہو رہا تھا ۔انتظامیہ نے مناسب حکمت عملی ترتیب دی ہوتی تو اس نقصان سے بچا جا سکتا تھا اور اتنا بڑا حادثہ رونما نہ ہوتا۔بہرحال جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ، اس حادثے سے لگنے والے زخم مندمل ہوتے ہوتے ہوں گے اس میں کچھ وقت لگے گا اس دوران میں حکومتی کردار اور اقدامات بہت اہم ہیں۔اس میں جو لوگ غفلت اور کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ حکومت کو بلا امتیاز ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔انصاف کے تقاضے مدنظر رکھتے ہوئے جس کی جتنی سزا ہے وہ اس کو ملے۔معاشرے میں یہ تصور فروغ پذیر ہے کہ قانون صرف غریب کے لئے ہے ،صاحب ثروت اور اثر و رسوخ رکھنے والے شاید قانون کے شکنجے سے بالا تر ہیں ۔کسی بھی معاشرے میں یہ تصور راسخ ہو جائے تو پھر اس کا اللہ ہی حافظ ہو تا ہے۔انصاف سے محروم معاشرے کبھی نہیں پنپتے ۔ترقی پا سکتے ہیں اور نہ علاج ،غلامی ،زوا ل اور انحطاط ان کا مقدر بن جاتا ہے۔
اس سانحہ سے حکومت کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ راولپنڈی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کا اپنا شہر ہے، وہ اگر انتظامات کا جائزہ لے لیتے تو شاید حالات اتنے خراب نہ ہوتے اس پورے واقعے میں میڈیا نے بہرحال بالغ نظری، سنجیدگی اور شائستگی کا مظاہرہ کیا اور راولپنڈی میں لگنے والی اس آگ کو آگے پھیلنے اور حالات کو مزید خراب ہونے سے روکا،جو قابل تحسین ہے۔اس ضمن میں میڈیا کو دور رس نتائج کی حامل پالیسی ترتیب دینے اور معاشرے میں رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دینے میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہنا چاہیے۔
یکجہتی ، اتحاد بین المسالک اور ہم آہنگی کے فروغ کے ملی یکجہتی کونسل اور علماء کا کردار بہت اہم ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے اس پلیٹ فارم سے ملک میں اتحاد و یکجہتی کی فضا پیدا کرنے اور آگے بڑھانے میں اچھا کردارادا کیا۔ان کی وفات کے بعد عملاً یہ پلیٹ فارم ’کومے‘ میں چلا گیا تھا۔اب اس کی تنظیم نو ہوئی ہے ۔مولانا شاہ احمد نورانی کے جانشین صاحبزادہ ابوالخیر زبیر صدر جبکہ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ اس کے سیکرٹری جنرل منتخب کیے گئے ہیں ان دونوں حضرات سے ملک و ملت کو اچھی توقعات اور امیدیں وابستہ ہیں۔قوی امید ہے کہ ملی یکجہتی کونسل ملک میں اتحاد اور یکجہتی کی فضا کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریگی۔ ملی یکجہتی کونسل کا ضابطہ اخلاق اور 31علماء کے 22نکات بہت اہم رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان سے فائدہ اٹھا تے ہوئے حالات کی بہتری کے لئے بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔
اس وقت سب سے اہم کام یہ ہے کہ مدرسہ کی دکانوں کی فی الفور تعمیر ہو۔ان دکانوں سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ تھاجو بے روزگار ہو گئے ہیں۔ان کی دوبارہ تعمیر اور بحالی اور مدرسہ تعلیم القرآن کے نقصان کے ازالے کے لئے حکومت فوری اقدامات کرے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک وسیع تر پلیٹ فارم تشکیل دے جو دینی مدارس کے نصاب کا از سر نو جائزہ لے اور اس میں موجود ایسے مواد کو خارج کرنے کا بند و بست کرے جو نفرت اور عدم برداشت کا ذریعہ بنتا ہے ۔نیزحکومت عدالتی کمیشن کی سفارشات اور اقدامات پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرے،سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ کیے گئے اقدامات ہی حالات درست کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔
1 comments:
Yup.. Sir i personally feels that Milli Yukhjehti was posted on the back burner. it should be used with the same spirit as it was in Qazi sb's tenure
Post a Comment