Wednesday, 27 November 2013

دانشوروں کی دانش اور سید منور حسن

| |
ڈرون حملے، اے پی سی اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بابت جماعت اسلامی کے درویش منش اور پاکیزہ کیش امیر سید منور حسن کے ایک بیان کو بنیاد بنا کر ٹی وی چینلز اور اخبارات میں براجمان سیکولر اینکرزاورکالم نگاروں نے وہ طوفان اٹھایا کہ الامان والحفیظ۔بات کیا تھی کہ سید منور حسن نے ایک ایسا سوال اٹھایا جس سے امریکہ اور اس کے حواریوں (سیکولر، لبرل یعنی شتر بے مہار طبقات )کو اپنی نبض ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی۔سید صاحب نے جن خیالات کا اظہارکیا اس سے قبل بھی وہ مختلف پیرایوں اور اسلوب میں یہ گفتگو کرتے رہے ہیں۔لگتا ہے کہ اس سے پہلے کی جانے والی سید محترم کی یہ گفتگو ئیں ان طبقات کے اوپر سے گزر جاتی رہی ہیں اس لئے یہ نوٹس نہ لے پائے۔یا وہ گفتگوئیں امریکہ تک نہ پہنچی ہوں گی اس لئے اس کے حواریوں کو یہ شور مچانے کا حکم نہ ملا۔

ایک ایسے وقت میں جب آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے حکومت نے طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈال رکھا تھا اور طالبان بھی مذاکرات کے لئے آمادہ نظر آتے تھے، امریکہ اور سیکولر طبقے کو سخت پریشانی لاحق تھی کہ یہ مذاکرات شروع ہو گئے تو نتیجہ خیز ہوں گے اس لئے کسی طرح ان مذاکرات کو سبوتاژ کیا جائے ۔ ایک ڈرون حملے کے نتیجے میں حکیم اللہ محسود جان سے گزر گئے، سید صاحب نے ان کو شہید کہہ دیا ۔ان کا شہید کہنا تھا کہ اس پر یہ طبقات سیخ پا ہو گئے۔جماعت اور سید محترم کے بارے پورا محاذ کھڑا کردیا۔گڑے مردے اکھاڑے گئے سید صاحب کو سخت گیر امیر کہا،کسی نے کہا جماعت تو بہت اچھی ہے مگر امیر اچھا نہیں۔جماعت کو چاہیے کہ اپنے امیر کو تبدیل کرے۔اس پر حکومت نے تو نہیں آئی ایس پی آر نے ایک بیان جاری کر دیا جس پر جماعت اسلامی کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد جماعت کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں ۔اس دوران ٹی وی ٹاک شوز اور اینکرز اور اخبارات میں کالم نگاروں نے گڑے مردے اکھاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی:۔ دانشوروں کی دانش وہم و گماں کی ماری
سیکولر دانشوروں کالم نگاروں اور اینکرزکی مہم تب ختم ہوئی جب نیا ایشو ان کے ہاتھ آیا۔
ایسی ایسی باتیں جماعت اور اس کے امیر کے ساتھ منسوب کیں جن کا دور دور کہیں نام و نشان نہیں تھا مگر ٹی وی چینلز اور اخبارات میں خوب ہاہا کار مچی ،میڈیا نے اس کاروبار میں خوب خوب حصہ ڈالا ،لیکن اس کے نتیجہ میں قوم میں اتحاد و یکجہتی کی بجائے نظریاتی و فکری انتشار ہی پیدا ہوا۔ہمیشہ سے فوج کے خلاف مورچہ زن رہنے والی اے این پی ،ایم کیو ایم اور پی پی پی نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ دھوئے بلکہ غسل کیا۔اور قوم کو گمراہ کرنے کی پوری کوشش کی۔
25سال سے ایم کیو ایم نے کراچی کا جوحشر کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور اے این پی کے بانی عبدالغفار خاں عرف باچا خاں نے تو پاکستان میں دفن ہونا بھی گوارا نہیں کیا۔کوئی ان سے پوچھے کہ کیا یہ سب پاکستان کی محبت میں ہو رہا ہے ،کیا پی پی پی اور اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کا کردار کوئی نظر انداز کر سکتا ہے۔مملکت خداداد پاکستان دولخت ان کے دورنامسعود میں ہوا۔الذوالفقار کے کارنامے کسی سے پوشیدہ ہیں؟اور ابھی زرداری دور حکومت کی برکات سے تو قوم تازہ تازہ فیضیاب ہوئی ہے ۔ کیاحب الوطنی کا یہی تقاضا ہے۔
گزشتہ 66سالوں میں فوج نے اگر ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی ہے تو جماعت اسلامی نے ہمیشہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی ہے ۔بنگلہ دیش میں انڈین فوج اور مکتی باہنی کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے والی جماعت اسلامی اور اس کے قائدین آج بھی حسینہ حکومت کے ظالمانہ اقدامات کا سامنا کر رہے ہیں۔مگر ان کے پائے استقامت میں ذرا لغزش نہیں آتی۔کشمیر ہو یا افغانستان، پاکستانی شہداء کے جذبے ،کردار اور اخلاص نے لمبی قطاریں لگا رکھی ہیں ۔ بقول شاعر:۔

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے 
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

سید ابوالاعلیٰ مودودی امیر جماعت تھے تو ان کے خلاف مورچہ لگایا گیا۔ان کو مارشل لا کی عدالت نے پھانسی کی سزا سنا ئی 1963کے کل پاکستان اجتماع میں ان پر براہ راست فائرنگ کرائی گئی جس پر آپ نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ ’’اگر مَیں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا۔‘‘ میاں طفیل محمد نے امارت کا حلف لے لیا تو تب بھٹو وزیر اعظم تھے، یہ ان کے کروفر اور جبر و استبداد کا زمانہ تھا ۔سید کے جانشین نے اپنے ساتھ ہونے والی تما م زیادتیاں اللہ کی رضا کے حصول کے لئے برداشت کیں جو تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہے، قاضی حسین احمد امیر جماعت بنے تو ان کے بارے میں بھی طرح طرح کی باتیں کی گئیں۔مگر وہ مردِ حُر تحریک کی جد و جہد آگے بڑھاتا رہاتا آنکہ سید منور حسن جماعت کے قافلہ سالار اور ہدی خواں بنے ،یہ قافلہ اور اس کا ہدی خواں اللہ اور اسکے رسولؐ کی دعوت لیے مصروف تگ و دو رہے۔روشنیوں کا پیغامبر قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں اور گامزن ہے۔ اس کی منزل کھوٹی کی جا سکتی ہے اور نہ راستہ ۔یہ جد و جہد جاری رہے گی۔
جنرل پرویز مشرف نے کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطن عزیز کو جس آگ میں دھکیلا یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ آگ اور خون کا کھیل آج بھی جاری ہے۔غیروں کی جنگ کا ساتھ دینے کا یہی نتیجہ ہو سکتا تھا جو نکلا ہے۔

قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند 

ملک معاشی طور پر مستحکم ہے اور نہ سیاسی طور پر، حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں 5سال زرداری اپنی حکومت کی دکان لگا کر اپنی قوم کو بیچ گئے اور اب نواز شریف سنگھاسن اقتدار پر براجمان ہیں مگر ملک کے حالات جوں کے توں بلکہ پہلے سے بھی بدتر ہو رہے ہیں۔ضرورت یہ ہے کہ اس پرائی جنگ سے جتنی جلدی ممکن ہو جان چھڑائی جائے۔امریکہ نے 2014میں خطے کو چھوڑنا ہے لیکن اس کی کوشش ہے کہ یہاں پر ایسا نظام مسلط کرکے جائے جس کا فیض اسے پہنچتا رہے۔ بھارت کو علاقے کا تھانیدار بنا کر امریکہ اس پورے خطے کو کنٹرول کرنا چاہے نیز چین کے بڑھتے ہوئے سیاسی ومعاشی اثرات اور عسکری قوت کو کنٹرول کرنا مقصود ہے۔ اس کھیل میں ہم کیا کرتے ہیں وہ بہت اہم ہے۔ یہ ہمارے پالیسی سازوں پر منحصر ہے کہ وہ پرانی پالیسی جاری رکھتے ہیں یا حالات کا ادراک کرتے ہوئے نئی حکمت عملی طے کرتے ہیں ۔نئی حکمت عملی کے نتیجہ میں حالات بہتر ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔قوم کے اتحاد و یکجہتی ،امریکی جنگ سے چھٹکارے اور معاشی خوشحالی اور سیاسی استحکام کے بغیر یہ معرکہ سر نہیں کیا جا سکتا۔

2 comments:

https://www.facebook.com/photo.php?fbid=763560713660927&set=a.640672275949772.1073741827.640346572649009&type=1&theater

Wao.. very close... :)

Islamabad, The number of victims in political violence incidents rose for the second week in a row,

Post a Comment