Saturday 24 May 2014

حجة اللہ البالغہ : ایک تعارف

| |
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی    ( 1704 تا 1766) کی تصنیف حجة اللہ البالغہ اسرار دین سے روشناس کرانے والا ایک عظیم، شاہکار اور معرکے کی چیز ہے

شاہ ولی اللہ اپنے زمانے کے عظیم انسان تھے وہ امت کے درد سے معمور تھے۔وہ قرآن مجید کے پہلے مترجم اور مفسر ہیں۔محدّث ،مجتہد ، فقیہ، فلسفی اور صوفی ہیں۔وہ اپنے دور کے مجدّد تھے حجة اللہ البالغہ میں ان کی علم و حکمت ،روحانیت ، تدبرّ اور بصیرت اپنے پورے عروج پر نظر آتی ہے۔دین میں اسرار دین کا علم ان کے نزدیک دین کی چوٹی ہے جس میں اللہ کے احکام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت و دانائی کا میدان ہے ۔یہ احکام و اعمال کیا ہیں؟ ان پر عمل کرنے کی اہمیت اور افادیت کیا ہے اور ترک کرنے کے نتیجہ میں کیا نقصان ہے؟ اعمال کے اسرار و رموز اور نکات کے فہم و شعور کاحصول ،گہری بصیرت اور معرفت حاصل کرتا ہے اور اعمال ثمرات و فوائد سے بہرہ ور ہوتا ہے۔

شاہ صاحب کے خیال میں ابتدائی زمانے میں اسرار دین کی طرف اس طرح توجہ نہ دی گئی جس طرح دی جانی چاہیے ۔چونکہ صحابہ کرام و تابعین ،تبع تابعین کو نبی مہربان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی براہ راست کسب فیض کا موقع ملا تھا، ان کا دین بالکل صاف اور شک و ریب سے بالا تر تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کمی آئی ،فلسفیانہ علوم کی یلغار سے ہر منقول شک کی نگاہ سے دیکھی جانے لگی۔ ایسے ہر منقول کو معقول ثابت کرنا وقت کا تقاضا تھا۔ ابتدائی زمانے میں حضرت زیدؓ بن ثابت ، حضرت عبداللہؓ بن عمراور ان کے بعد امام غزالیؒ ،علامہ خطابیؒ ،امام عزالدین بن عبد السلام جیسے بزرگوں نے اپنے زمانے میں اس کام کو سرانجام دیا اور دین کی مصلحتوں کو نہایت احسن انداز اور طریق پر بیان کیا۔
شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں کہ اللہ کے احکام کی اطاعت، مصلحت سے مشروط نہیں، احکام کی اطاعت کا تعلق ان کی حکمت سمجھ میں آنے سے نہیں ہے۔البتہ اگر احکام کی حکمت و مصلحت سمجھ میں آ جائے تو اطمینان کی کیفیت اور عمل میں خلوص فزوں تر ہو جاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ سے وہ سوال ہے کہ اے اللہ: مَیں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے۔ وضاحت یہ کی کہ مَیں دل کا اطمینان چاہتا ہوں۔
 حجة اللہ البالغہ دو حصوں پر مشتمل ہے ۔حصہ اول میں نیکی کے قواعد کا بیان ہے، جن پر شرعی احکام کی مصلحتیں اور اغراض کا مدار ہے ۔ شاہ ولی اللہ کے مطابق شرعی احکام کی انتہا دو طرح سے ہے :
                ۱- مذہبی سیاست کی بحث           
                ۲- نیکی اور گناہ کی بحث       
                      
نیکی،گناہ اور جزائے اعمال کی تفصیلی بحث میں وہ لکھتے ہیں کہ انسانی شخصیت میں ان کا کہاں کہاں اور کتنا اثر ہوتا ہے ،عادتیں کیسے بنتی ہیں ،اعمال کا دنیا میں کیا بدلہ ہے اور آخرت میں یہ اعمال کیا بدلہ دیںگے ۔ان امور کا بیان شاہ ولی اللہ نے ایک عالم دین کے طور پر نہیں بلکہ ماہر نفسیات اور فلسفی کے طور پر کیا ہے ۔اس زمانے میں اعمال انسانی کی وجوہ، کیفیات اور نتائج پر بحث کے دوران جدید دور کی نفسیات سے بہت آگے کے نکات بیان کر دیے ہیں۔


نیکی اور گناہ کی بحث میں انسان کی سعادت و فلاح اور بدبختی و خسران پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور دنیا و آخرت میں ان کے نتائج پر بات کی ہے۔نیکی اور گناہ کے اصول بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ”جو اصول تمام مذاہب میں ہمیشہ سے رائج رہے ہیں وہی انسانی فطرت کا تقاضا ہیں۔

 یہ ساری بحث بہت دلچسپ، عمدہ اور فکر انگیز علمی نکات اور پُر مغز دلائل پر مشتمل ہے۔ یہ بحث انسان کو عمل پر ابھارتی ہے اور اندر سے تبدیل کرتی چلی جاتی ہے۔ نیکی اسے فطرت کا اشارہ اور گناہ اسے فطرت کے خلاف محسوس ہوتا ہے۔

 سیاسیات و مذہب کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ مذہبی حکمرانی میں حدود و شرائط کا تصور کیونکر ہوتا ہے، اسلامی قانون کا نفاذ کیسے ہوتا ہے ،غیر مسلموں کی حیثیت اور حقوق کیا ہیں اور سنت رسول اللہ سے احکام شرعی کیسے مستنبط ہوتے ہیں۔

 کتاب کا حصہ دوم ان اسرار کی تفصیل پر مبنی ہے جو درج ذیل ابواب پر مشتمل ہے:
i۔باب ایمان ۔ii۔باب طہارت۔iii۔باب نماز۔iv۔باب زکوٰۃ۔v۔باب روزہ۔vi۔باب حج۔vii۔باب احسان۔ viii۔باب معاملات۔ix۔ باب تربیت منزل۔x۔باب سیاست مدن ۔vi۔باب معیشت۔xii۔چند ابواب مختلفہ

حجة اللہ البالغہ زندگی کے تمام دائروں کا احاطہ کرتی ہے۔ زندگی کا کم ہی کوئی پہلو ہوگا جو اس میں نہ ہو۔ اعمال و عبادت کے ساتھ ساتھ معاملات ،تربیت ،غرض سیاست مدن اور معیشت کے متعلق جتنے مباحث ہیں وہ ہرکس و ناکس کے بس کا روگ نہیں۔یہ کسی مجدد کا ہی کام ہے ۔گھر کے دائرے سے لے کر بین الاقوامی دائرے تک کے اصل کا بیان موجود ہے اجتماعی عدل ( social justice) پر بحث کے دوران انہوں نے تقسیم دولت کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے معاشرے کو تین طبقات میں تقسیم کیا ہے۔طبقہء امرائ، طبقہءمتوسط اور طبقہءغربائ۔ درمیانے و متوسط طبقے کو خوشحالی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ طبقہ امراءو غربا کو متوسط طبقے میں شامل کر دینا چاہیے اس طرح وہ متوسط طبقے کو معاشرے کی جان اور ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہیں ۔
محنت کش، مزدور اور کسان کے حق میں بھی آواز بلند کرتے ہوئے استحصال ، ظلم و ناانصافی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دنیا کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر محنت کش، مزدور اور کسان کو اس کا حق سیدھے ہاتھوں سے نہ ملا تو وہ اپنا حق چھین لے گا ۔ اور حق چھیننے کا یہ عمل انتہائی تکلیف دہ اور خطرناک ہوگا۔وہ وقت آنے سے پہلے اجتماعی عدل وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے۔ پاک و ہند میں جہاں کہیں نیکی، بھلائی اور دینداری ہے اس میں حکمت اور مصلحت کا اہم کردار دیکھا۔

مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ ان کی کوئی تحریر بھی آیات قرآنی، حدیث نبوی اور اجماع امت کے خلاف نہیں ہوگی اور یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے دین میں کسی نئی چیز کو آنے دیااور نہ ایجاد کیا۔ علمی و عملی دونوں پہلوں سے وہ خود دین کے متبع اور مجدد ہیں۔

3 comments:

Anonymous said... Sunday, May 25, 2014

حجة اللہ البالغہ اسرار دین سے روشناس کرانے والا ایک عظیم شاہکار اور معرکے کی چیز ہے

Anonymous said... Friday, May 30, 2014

شاہ صاحب کے خیال میں ابتدائی زمانے میں اسرار دین کی طرف اس طرح توجہ نہ دی گئی جس طرح دی جانی چاہیے.اس ابتدئی زمانے سے کیامراد ہے ؟اس کی وضاحت ہونی چاہیےتھی۔
حمیداللہ خٹک

Anonymous said... Friday, May 30, 2014

ماشااللہ بڑی اچھی کاوش ہے۔جاری رکھیں۔کچھ مثالیں،واقعات اور امتیازی خصوصیات بھی اگر تبصرے میں آجائے تو افادیت دوچند ہوجائے گی۔
حمیداللہ خٹک

Post a Comment