Sunday 20 July 2014

لیلۃ القدر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قدر و منزلت والی رات

| |
رمضان المبارک انتہائی عزو شرف اور عظمت و بزرگی اور خیر و برکت والا مہینہ ہے۔ جس میں اللہ کی رحمتیں اور برکتیں پورے جوش پر ہوتی ہیں۔ رمضان کی فضیلتیں بے حد وحساب ہیں ، جن کا شمار ممکن نہیں۔ رمضان کے دن ہوں یا راتیں تمام تر فضیلت سے معمور ہیں۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ اور آخری عشرے کی راتیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ جن میں خاص طور پر طاق راتوں کی فضیلت قابل ذکر ہے۔ ان طاق راتوں میں اہل اسلام لیلۃ القدر تلاش کرتے ہیں اور خاص طور پر عبادت کا اہتمام کرتے ہیں اور اپنے رب کے قرب اور مغفر ت و نجات کی دعائیں کرتے ہیں۔ 
حضرت سلمانؓ فرماتے ہیں کہ شعبا ن المعظم کی آخری تاریخ کو نبی ؐ نے منبر پر تشریف فرما ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا ’’ اے لوگو ! تم پر ایک عظیم اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس ماہ مبارک میں ایک ایسی رات ( لیلۃ القدر ) ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ ‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایا ’’ جس نے لیلۃ القدر میں حالت ایمان اور نیک نیتی سے قیام کیا تو اس کے گذشتہ گنا ہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ ‘‘ تفسیر ابن کثیر میں ہے امام مجاہد فرماتے ہیں ’’ لیلۃ القدر میں عمل، اس میں پڑھی گئی نماز اور اس کا روزہ ہزار مہینوں کے روزوں سے افضل ہے۔ ‘‘
بعض مفسرین نے قدر کے معنی تقدیر کے کئے ہیں۔ یعنی وہ رات جس میں اللہ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لیے فرشتوں کے سپرد کرتا ہے۔ اس کی تائید سورۃ دخان کی آیت 5سے ہوتی ہے۔’’ اس رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر فرمایا جاتا ہے۔ ‘‘ امام زہری کے نزدیک قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں۔ یعنی وہ بڑی عظمت والی رات ہے۔ شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی رات ہے۔ نبی ؐ نے فرمایا ’’ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب آخری سات راتوں پر متفق ہوگئے ہیں۔ اس لیے جو شخص اس رات کو پانا چاہے وہ آخری طاق راتوں میں تلاش کرے۔‘‘ 
ابو سعید خدریؓ سے حضور ؐ کے اعتکاف کے بارے میں سوال کیا گیاتو انہوں نے جواب دیا ’’ ہم نبیؐ کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف بیٹھے، پھر 30تاریخ کی صبح کو آپؐ اعتکاف سے نکلے اور خطبہ ارشاد فرمایا’’ مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی۔ لیکن بھلا دی گئی۔ یا آپ ؐ نے فرمایا میں خو د بھول گیا۔ اس لیے اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ ( بخاری)
اسی طرح بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں حضرت عبادہؓ بن صامت سے روایت ہے حضور ؐ شب قدر کی اطلاع دینے گھر سے نکلے تو دو مسلمان آپس میں جھگڑنے لگے۔ اس پر آپ ؐ نے فرمایا’’ میں تمہارے پاس آیا کہ تمہیں شب قدر کے بارے میں بتاؤں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کیا پس اس کا علم اٹھالیا گیا اور امید ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہوگا۔ سو تم اس کی تلاش آخری عشرے کی 9یا7یا5راتوں میں کیا کرو۔‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لیلۃ القدر کے بارے میں فرمایا کہ وہ 27یا 29ویں رت ہے۔ ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ وہ آخری رات ہے۔ حضرت ابی بن کعبؓ زربن حبیش نے شب قدر کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے حلفاً کہا اور استثنا نہ کیا کہ وہ 27ویں رات ہے۔ حضرت ابو ذر سے اس کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا کہ حضرت عمرؓ ، حضرت حذیفہؓ اور دوسرے اصحاب رسول میں سے بہت سوں کو اس میں شک نہ تھا کہ وہ رمضان کی 27ویں رات ہے۔ 
عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی مہربان نے فرمایا شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق رات ہے۔ 21ویں یا 23ویںیا25ویں یا 27ویں یا 29ویں یا آخری رات ( مسند احمد )
حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں نبی مہربان ﷺنے فرمایا اسے رمضان کی آخری 10طاق راتوں میں تلاش کرو جب مہینہ ختم ہونے میں 9دن باقی ہوں یا 7دن یا 5دن یا 3دن یا آخری رات ۔ مراد آخری طاق راتوں میں لیلۃ القدر تلاش کرو۔ ( ترمذی و نسائی) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے حضور ؐ نے فرمایا شب قدر کو رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرو( بخاری و مسلم) حضرت عائشہؓ نے حضور ؐ سے دریافت کیا کہ اگر میں لیلۃ القدر پالوں تو کیا کروں؟ حضور ؐ نے فرمایا ’’ یہ دعا پڑھو’’ اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ( سنن ترمذی) اے میرے پروردگار ! بلاشبہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے ، مجھے بھی معاف فرمادے۔ ‘‘ جو شخص شب قدر پالے وہ کثرت سے توبہ استغفار کرے ۔


احادیث میں لیلتہ القدر کی جو نشانیاں بتائی گئی ہیں اس کے مطابق لیلتہ القدر بالکل صاف اور اتنی روشن ہوتی ہے گویا چاند نکلا ہوا ہے۔ اس میں سکون اور دل جمعی ہوتی ہے ۔نہ زیادہ گرم اور نہ زیادہ سرد اور ٹھنڈی بلکہ موسم خوشگوار ہوتا ہے ،صبح تک ستارے نہیں جھٹرتے۔ مزید فرمایا ۔اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے اس صبح کو سورج کی شعاعیں تیز نہیں ہوتیں ،بلکہ چودہویں کے چاند کی طرح صاف ہوتا ہے ( مسند احمد ) علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ اس رات کو صبح روشن ہونے تک شیطان نہیں نکلتا اور نہ اسے کسی کے ساتھ فتنہ و فساد کرنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ اس رات کسی جادو گر کا جادو چلتا ہے۔ نیز اس رات سمندر کا پانی میٹھا ہو جاتا ہے ۔شب قدرمیں ہر چیز سجدہ کرتی ہے،حتیٰ کہ درخت زمین پر گر جاتے ہیں ،پھر اپنی جگہ کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ضرروی نہیں کہ یہ علامات ہر فرد کو نظر آئیں ،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمام علامتیں پائی جائیں اور ایسابھی ہو سکتا ہے کہ کچھ علامات۔
لیلتہ القدر کو پانے کیلئے حضور نبی کریم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عام دنوں سے زیادہ متحرک ہو جاتے ،حضرت عائشہ فرماتی ہیں ’’جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی مکرمﷺ عبادت کیلئے کمر بستہ ہو جاتے ،ان راتوں میں خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے \" 
حضرت انس فرماتے ہیں حضور نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے لیلتہ القدر میری امت کو عطا کی ۔اس سے پہلے کسی امت کو یہ نہیں عطا کی گئی ۔امت مسلمہ کو لیلتہ القدر کیوں عطا کی گئی بعض مفسرین نے کچھ واقعات درج کئے ہیں ۔
حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو اگلے زمانے کے لوگوں کی عمریں بتائی گئیں جیسا اللہ کو منظور تھا ۔تو آپ نے اپنی امت کے لوگوں کی عمروں کو کم سمجھا اور یہ خیال دل میں گذرا کہ میری امت کے لوگ اتنی عمر میں پہلی امتوں کے لوگوں کے برابر عمل نہ کر سکیں گے تو اللہ نے آپ ﷺکو لیلتہ القدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے ۔
اسی طرح حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک عبادت گزار شخص کا یہ حال تھا کہ وہ ساری رات عبادت کرتا ،دن بھر عبادت میں مشغول رہتا ،اس طرح ایک ہزار مہینے اس نے عبادت میں گزار دیئے اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرُٗ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍٍ ط
’’یعنی اس ایک رات میں عبادت کر لینا اس بنی اسرائیل کے شخص کی ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ۔‘‘
حضرت علیؓ ، اور حضرت عروہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور نے بنی اسرائیل کے چار افراد حضرت ایوب ،حضرت زکریاؑ ،حضرت حزقیل ؑ اور حضرت یوشع بن نونؑ کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے 80,80سال اللہ کی عبادت کی اور پلک جھپکنے کے برابر بھی نافرمانی نہیں کی ۔اس پر صحابہ کرام کو تعجب ہوا ،اس موقع پر فوراً ہی آپ کے پاس حضرت جبرئیل تشریف لائے اور فرمایا آپ کی امت کو ان حضرات کی 80,80سال کی عبادت پر تعجب ہو رہا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کو اس سے بہتر چیز عطا فرمائی ہے ۔چنانچہ سورۃ القدر سنائی اور فرمایا یہ اس سے بہتر ہے جس پر آپ ﷺاور آپ ﷺکی امت کو تعجب ہو رہا ہے ۔یہ سن کر حضورﷺ اور صحابہ کرامؓ خوش ہو گئے ۔
لیلتہ القدر کی رات کا تعین نہ کرنے کی حکمت بارے میں سید مودودی’’ تفہیم القرآن‘‘ میں رقمطراز ہیں ،’’شب قدر کی فضلیت سے فیض اْٹھانے کے شوق میں لوگ زیادہ سے زیادہ راتیں عبادت میں گزر ایں اور کسی ایک رات پر اکتفا نہ کریں ،مزید لکھتے ہیں کہ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت مکہ معظمہ میں رات ہوتی ہے اس وقت دنیا کے بڑے حصے میں دن ہوتا ہے اس لئے ان علاقوں کے لوگ تو شب قدر کو پا ہی نہیں سکتے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ عربی زبان میں اکثر رات کا لفظ دن اور رات کے مجموعے کیلئے بولا جاتا ہے اسلئے رمضان کی تاریخوں میں سے جو تاریخ بھی دنیا کے کسی حصہ میں ہو اس کے دن سے پہلے والی رات وہاں کیلئے شب قدر ہو سکتی ہے ۔لیلتہ القدر ہر رمضان کو آخری عشرے میں تلاش کی جاتی ہے ۔چونکہ رات متعین نہیں اسلئے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا جاتا ہے ۔‘‘
رمضان کے آخری عشرے کا آغاز ہو چکا ہے اور امت کا ایک حصہ اعتکاف کے ذریعے نبی کی سنت کو زندہ کر رہا ہے۔ اپنی تو انائیوں کو بھر پور انداز میں صرف کر کے اللہ کی عبادت میں مصروف ہے اور نجات کی دعائیں مانگ رہا ہے دنیا و آخرت کی بھلائیاں سمیٹ رہا ہے ۔
ضرورت یہ ہے کہ امت دوسروں کے دکھ درد میں شرکت کرے اور ان کا دکھ درد بھی محسوس کرے بالخصوص فلسطین کے نہتے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کریں ،کشمیر ،میانمار ،افغانستان ،شام ، عراق کے مسلمان اور پاکستان جس نادیدہ جنگ اور دہشت گردی کا شکار ہیں ،ان حالات سے چھٹکارے کے لیے اخلاص اور سچے دل سے مانگی ہوئی دعائیں ضرور کار گر ہو کررہیں گی۔اللہ تعالیٰ ہمیں لیلۃ القدر کی برکات عطا فرمائے۔ 

0 comments:

Post a Comment