Monday 28 July 2014

عید الفطر (احکام و مسائل)

| |
عید الفطر کا تہوار مسلمانوں کیلئے تفریح مسرت اور خوشی کا ذریعہ ہے. یہ صرف ایک تہوار نہیں اور نہ ہی کھیل تماشے کا ذریعہ ہے بلکہ یہ امت کی قوت و شوکت اور عظمت و قوت کا ذریعہ ہے۔اسلام دین فطرت ہے اور دین فطرت ہونے حیثیت سے اس نے انسان کے جذبہ مسرت اور تفریح کا انتظام کیا اور سال میں مسلمانوں کو دو تہوار عطا فرمائے ۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ مدینہ کے لوگوں نے سال کے دو دن تفریح اور کھیل کود کے لیے مقرر و مختص کر رکھے ہیں آپ نے پوچھا کہ یہ دو دن کیسے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ زمانہ جاہلیت میں ان دنوں میں ہم خوشیاں مناتے اور کھیلتے تھے۔رسول اللہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کو دو بہتر دنوں سے بدل دیا ہے ایک عید الفطر کا دن اور دوسرا عید الضحی کا دن ۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں عید کے روز حبشی لوگ نبی ﷺکے پاس کھیل رہے تھے ۔میں حضور ﷺکے مونڈھے کے اوپر سے جھانک کر یہ کھیل کود دیکھنے لگی تو آپ نے اپنے مونڈھے کو نیچے کر لیا۔میں کافی دیر تک آپ کے مونڈھے کے اوپر سے یہ کھیل دیکھتی رہی یہاں تک کہ میرا جی بھر گیا اورمیں پلٹ گئی ( متفق علیہ) عید کے دن جائز حدود کے اندر رہ کر کھیلنا کودنا ، خوشیاں منانا اور کھانا پینا پسندیدہ عمل ہے ۔
نبی ﷺہر عید کے دن اپنی یمن کی عمدہ چادر پہنتے تھے ۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ عیدکے روز عید گاہ جانے سے پہلے غسل کرتے ، عید الفطر کے روز حضور ﷺاس وقت تک گھر سے نہ نکلتے جب تک چند کھجوریں تناول نہ فرما لیتے ( آپؐ طاق تعداد میں کھجوریں کھاتے) نماز عید شہر سے باہر نکل کر کھلی جگہ پڑھنا مسنون ہے ،نبی ﷺمدینہ سے باہر نکل کر نماز عید ادا فرماتے ۔اگر بارش وغیرہ ہو جاتی تو مسجد میں ہی پڑھ لیتے ۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ عید کے روز بارش ہو گئی تو حضور ﷺنے مسجد میں ہی نماز پڑھائی ۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور عید گاہ کی طرف پیدل چل کر جاتے ( ابن ماجہ) حضرت علیؓ عید گاہ کی طرف پیدل جایا کرتے اور گھر سے نکلنے سے پہلے کوئی چیز کھائی جائے ۔ حضرت ابن عمرؓ کے بارے میں ہے کہ جب وہ عید گاہ کی طرف جاتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے ۔اس طرح ایک دوسری روایت میں ہے کہ عید الفطر کے روز جب سورج نکل آتا تو آپﷺ عید گاہ کی طرف نکلتے اور تکبیر کہتے ،یہاں تک کہ آپ ﷺعید گاہ پہنچ جاتے اور تکبیر کہنابند کر دیتے ، حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ عید کے روز نبیﷺ عید گاہ جاتے اور واپسی پر راستہ تبدیل فرماتے ( بخاری) حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ عید گاہ تشریف لے جاتے تو راستہ تبدیل کر کے دوسرے راستہ سے واپس تشریف لاتے ( مسلم ،ترمذی) 

عید گاہ کو ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا مستحب ہے ۔حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں عید الفطر اور عید الضحی کے روز نبیﷺ کے ساتھ گیا ۔آپ ﷺنے نماز پڑھائی خطبہ دیا ۔اس کے بعد آپ عورتوں کی طرف تشریف لائے ۔وعظ و نصیحت فرمائی اور صدقہ کا حکم دیا ( بخاری) حضرت ام عطیہؓ فرماتی ہیں نبی ﷺنے ہمیں حکم دیا کہ عید الفطر اور عید الضحی کے روز ہم چھوٹی بچیوں ، گھونگٹ والی جوان بچیوں اور حائضہ عورتوں کو بھی عید گاہ لے جائیں۔ البتہ حائضہ عورتیں نماز سے الگ رہیں گی اور مسلمانوں کی دعا میں شرکت کریں گی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ بعض عورتوں کے پاس چادر نہیں ہوتی آپ نے فرمایا جس کے پاس چادر نہ ہو اس کو اس کی بہن اپنی چادرمیں لے لے ( متفق علیہ) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں عید کے روز نبیﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو عید گاہ لے جاتے ( ابن ماجہ) 
مردوں کے علاوہ عورتوں کا بھی عید گاہ جا کر نماز عید ادا کرنا مسنون اور مستحب ہے ۔نماز عید کا وقت سورج کے دو گز بلند ہو جانے سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت جندبؓ فرماتے ہیں عید الفطر کی نماز نبیﷺ ہمیں اس وقت پڑھاتے جب سورج دو نیزوں کے برابر بلند ہو جاتا اور عید الضحی کی نماز اس وقت پڑھاتے جب سورج ایک نیزہ بلند ہو جاتا ۔عید الفطر میں نماز کا دیرسے جبکہ عید الضحی میں جلدی پڑھنا مستحب ہے ۔عید کی نماز کا وقت سورج کے زوال کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے اس بارے میں سب کا اتفاق ہے ۔ 

حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کئی بار حضور ؐ کے پیچھے نماز عید بغیر کسی اذان یا اقامت کے پڑھی (مسلم و ترمذی) حضرت ابن عباسؓ اور جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کے دور میں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن عید کی نماز کے لیے کوئی اذان نہیں کہی جاتی تھی۔ ( متفق علیہ)نماز عید سے پہلے نہ نبی ﷺ نے کوئی نماز پڑھی اور نہ صحابہ کرامؓ نے ، حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک عید کے روز نبی ﷺ عیدگاہ تشریف لے گئے ۔ آپ ؐ نے دو رکعت نماز عید پڑھی آپ ﷺ نے اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی نہ بعد میں۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ نماز عید سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہیں البتہ نوافل کی ممانعت میں کوئی حدیث نہیں۔ حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ عید سے پہلے کوئی نماز نہ پڑھتے تھے لیکن جب آپﷺ گھر تشریف لاتے تو دو رکعت نماز پڑھتے( ابن ماجہ)
نماز عیدکی دو رکعتیں ہیں جن میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ قرآن مجید ہر حصہ سے پڑھا جاسکتا ہے۔ لیکن سنت یہ ہے کہ وہ سورتیں پڑھی جائیں جو حضور ؐ پڑھا کرتے تھے ۔ حضرت سمرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور ؐ عیدین کی نماز میں سورۃ سبح اسم ربک الاعلیٰ اور ھل اتٰک حدیث الغاشیہ تلاوت فرماتے۔ اسی طرح ایک روایت میں ابو واقد یشیؓ نے حضرت عمرؓ سے بیان فرمایا کہ آپ ﷺعید الفطر اور عید الاضحی کی نماز میں سورہ ق اور اقتربت الساعۃ پڑھا کرتے تھے۔( مسلم ، ترمذی) عیدین کی نمازوں میں جہری آواز میں تلاوت سنت ہے اوراس میں اختلاف نہیں ہے۔ 
نماز عید کے بعد امام کا لوگوں کا خطبہ دینا مسنون ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سائب فرماتے ہیں کہ ایک عید کے روز میں نبی ؐساتھ عید گاہ میں رہا جب آپ ؐ نے نماز ختم کی تو فرمایا ’’ اب ہم خطبہ دیں گے ، لہٰذا جو شخص بیٹھنا چاہے وہ بیٹھ کر خطبہ سنے اور جو شخص جانا چاہے و ہ چلا جائے ( ابن ماجہ، نسائی)
حضرت ابو سعیدؓ فرماتے ہیں کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے روز نبی ؐ عید گاہ تشریف لے جاتے ، سب سے پہلے چیز جس پر آپ ابتدا فرماتے ۔ وہ نماز ہوتی تھی۔ پھر آپ ﷺ پلٹتے اور لوگوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے اور لو گ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے تھے۔ آپ ﷺ انہیں وعظ و نصیحت فرماتے اور احکام دیتے اور اگر کبھی آپ ﷺنے لشکر روانہ کرنا ہوتا، لوگوں کو کسی اور چیز کا حکم دینا ہوتا تو آپﷺ اس کا حکم دیتے اورپھر آپﷺ گھر تشریف لاتے۔ ( بخاری و مسلم) حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک عید کے دن میں نبی ؐ کے ساتھ عید گاہ میں رہا خطبہ سے پہلے آپ ؐ نے بغیر اذان یا اقامت کے نماز پڑھائی پھر نماز کے بعد بلا لؓ کا سہارا لے کر آپﷺ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو اللہ ڈرتے رہنے کا حکم دیا ، اس کی اطاعت پر ابھارا اور وعظ و نصیحت فرمائی۔پھر آپ عورتوں کی طرف تشریف لے گئے اور انہیں وعظ و نصیحت فرمائی ( مسلم ) عید کے بعد خطبہ سننا مسنون اور سنت ہے۔ خطبہ پوری توجہ اور خاموشی کے ساتھ سننا چاہیے۔ 
عید کے دن چند مسنون اعمال : شریعت کے بتائے ہوئے حدود میں رہ کر اپنی آرائش کرنا ، غسل کرنا، مسواک کرنا، حسب استطاعت کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، صبح جلدی پہنچنا، عید گاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا ( کھجور یا چھوارے طاق تعداد میں کھانا سنت ہے) نماز عید سے قبل صدقۃ الفطر ادا کرنا، نماز عید عید گاہ میں پڑھنا ( عذر شرعی کی صورت میں شہر کی مسجد میں پڑھنا ، ایک راستے سے عید گاہ جانا اور دوسرے سے واپس آنا ، عید گاہ جاتے ہوئے اللہ اکبر لاالہ الاللہ و اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد پڑھتے ہوئے جانا۔ عید گاہ پیدل جانا۔ 
طریقہ نماز: دورکعت نماز عید واجب مع چھ تکبیرات زائد کی نیت کرکے امام کے ساتھ پہلی تکبر پر ہاتھ باندھ کر سبحانک اللھم آخر تک پڑھیں پھر دوسری اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دیں ، اور چوتھی تکبیر پر ہاتھ باندھ لیں، اب امام سورۃ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت کے ساتھ رکعت مکمل کرے گا۔ دوسری رکعت میں امام جب فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھ لے تو اس کے ساتھ تین تکبیرات میں ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دیں اور چوتھی تکبیر پر ہاتھ اٹھانے بغیر رکوع کرلیں پھر باقی نماز مکمل کرلیں۔ 

1 comments:

۔اسلام دین فطرت ہے اور دین فطرت ہونے حیثیت سے اس نے انسان کے جذبہ مسرت اور تفریح کا انتظام کیا اور سال میں مسلمانوں کو دو تہوار عطا فرمائے ۔

Post a Comment