Friday 3 October 2014

ماہ ذوالحجہ کے فضائل اور عید قربان

| |
ذوالحجہ کا مہینہ حج ادا کرنے اور جانوروں کی قربانی کا مہینہ ہے جبکہ اس ماہ مبارک میں حج کرنے والے ہوں یا حج سے محروم ، قربانی کرنے والے ہوں یا قربانی سے محروم ، سب کے لیے اجر و ثواب سمیٹنے کے ان گنت اور بے شمار مواقع موجود ہیں۔ ان مواقع کو کھونے یا ضائع کرنے کا تصور کوئی مسلمان تو نہیں کرسکتا۔ اسلامی عبادات کا شعور ان عبادات کی ادائیگی میں یکسوئی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ثواب کے حصول کے لیے لازمی ہے کہ اسے شریعت کے مطابق انجام دیا جائے ۔ 
عشرہ ذوالحجہ 
سور الفجر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ قسم ہے فجر کی راتوں کی ۔ سورۃ الحج میں مزید فرمایا ’’ اور معلوم دنوں میں اللہ تعالیٰ کا نام یاد کریں۔ ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ ان معلوم دنوں سے مراد عشرہ ذوالحجہ کے دس دن ہیں۔ ( بخاری )
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی بھی دن کیا ہوا عمل اللہ تعالیٰ کو ان دس دنوں میں کئے ہوئے عمل سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ہاں مگر وہ شخص جو اپنی جان ومال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔ 
عبد اللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی دن اللہ تعالیٰ کے ہان ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل اللہ تعالیٰ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے تہلیل ( لَااِلٰہَ اِلَّا اﷲ )تکبیر( اَﷲُ اَکْبَر) اور تحمید ( الْحَمْدُ اَﷲُ ) کہو۔
امام بخاری ؒ کا بیان ہے کہ ان دس دنوں میں ابن عمرؓ اور ابوہریرہؓ بلند آواز میں تکبیر پکارتے ہوئے بازار میں نکلتے تو لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیرات کہنا شروع کردیتے۔ 
تکبیرات یہ ہیں اَﷲُ اَکْبَرُ اَﷲُ اَکْبَرُاَﷲُ اَکْبَرُ۔ لَااِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ اَﷲُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔ 
اَﷲُ اَکْبَرکَبِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَ سُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃَواَّصِیْلَا۔ (مسلم)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہو۔ 
نبی ﷺ سے عرفہ کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیاتو آپ ﷺفرمایا :کہ یوم عرفہ کا روزہ گذشتہ سال اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ سعودی عرب کے رہنے والے میں چاند کے اختلاف کے پیش نظر دو دن کا روزہ رکھتے ہیں تاکہ گناہوں کی بخشش کا موقع ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ 
عید الاضحیٰ
نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے فرمایا تم سال میں دو دن خوشیاں منایا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں۔ عید الفطر اور عید الاضحی
عید کی نماز کے بعد باہم ملاقات کی دعا تقبل اللہ منا و منکم، اللہ تعالیٰ میری اور آپ کی عبادت قبول فرمائے ۔ 
نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت والا دن یوم النحر ( قربانی کا دن ) اور یوم القر( 11ذوالحجہ کو قیام منیٰ کا دن) ہیں۔ 
سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، ہم نے ہر امت میں ایک طریق عباد ت مقرر کررکھا ہے ۔ ہر امت میں قربانی کا طریقہ کار مختلف رہا ہے۔ ہابیل اور قابیل کی قربانی کے بارے میں سورہ بقرہ میں مذکور ہے ۔ اس طرح قرآن میں بہت خوبصورت انداز میں حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۃ الصٰفٰت میں ارشادربانی ہے۔ 
وَقَالَ اِِنِّیْ ذَاہِبٌ اِِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِo رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ oفَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ o فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ o فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِo وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰ�آِبْرٰھِیْمُo قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا اِِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ o اِِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلآؤُا الْمُبِیْنُ o وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمo وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنo سَلاَمٌ عَلآی اِِبْرٰہِیْمَ o کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَo اِِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْن(الصٰفٰت:۹۹ تا ۱۱۱)
ترجمہ : اور ابراہیم ؑ نے کہا ، میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں عنقریب وہ ہماری رہنمائی فرمائے گا۔ اے میرے رب مجھے صالحیں میں سے ( اولاد ) عطا کر تو ہم نے اس کو ایک حلیم ( بردبار ) بیٹے کی بشارت دی۔ وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا بیٹا ! میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں۔ تیرا کیا خیال؟ اس نے کہا اے میرے ابا جان ! جوحکم آپ کو دیا گیا ہے۔ کر ڈالیے، آپ انشا ء اللہ مجھے صابروں میں پائیں گے، تو جب ان دونوں نے اطاعت کی اور اسے ( اسماعیل ؑ ) کو ماتھے کے بل گرادیا۔ اور ہم ایک ندا دی اے ابراہیم ؑ ! تو نے خواب سچ کر دکھایا ۔ بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ بے شک البتہ یہ ایک بہت واضح امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑی قربانی کے ذریعے اس کا فدیہ دیا اور ہم نے بعد والوں کے لیے اس کا ذکر قائم کردیا۔ 
سورہ کوثر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ فصل لربک والنحر۔ اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کر۔ حضرت مختفؓ روایت کرتے ہیں کہ جب ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ عرفات کے میدان میں تھے تو آپ ﷺ نے اس موقع پر فرمایا کہ اے لوگو ہر سال ہر گھر والوں پر قربانی لازم ہے۔ قربانی کرنے والا ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے۔ 
ابو امامہ بن سہل فرماتے ہیں ہم مدینہ میں اپنے قربانی کے جانوروں کی خوب پرورش کرتے انہیں موٹاکرتے دوسرے مسلمان بھی انہیں اچھی طرح پال کر موٹا کرتے ۔
استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا جو وسعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔
قربانی کا مقصد اللہ کا قرب اوراسکی رضاکا حصول ہے سورۃ انعام میں اللہ تعالی نے فرمایا ۔ کہہ دیجیے بے شک میر ی نمازمیری قربانی ، میر ا جینا اورمیر امرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے ۔
قربانی سے تقوی کا حصول ہوتا ہے سورۃ الحج میں اللہ تعالی نے فرمایا اللہ کو نہ جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اورنہ ان کا خون ، اسے صرف تمہار اتقوی پہنچاتا ہے ۔
قربانی کرنے کے وقت کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا ؛بے شک اس دن ہم پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ نماز (عید ) اداکرتے ہیں ،پھر واپس پلٹتے ہیں اورقربانی کرتے ہیں جس شخص نے ایسا ہی کیا تو اس نے ہماری سنت کو پایا (متفق علیہ) 
بنی مہربان ﷺ نے فرمایا کہ جس نے نماز عیدسے پہلے ذبح کیا تو اس نے اپنے لیے ذبح کیا اورجس نے نماز کے بعد ذبح کیا توا س کی قربانی مکمل ہوگئی اوراس نے مسلمانوں کی سنت کو پا لیا ۔
قربانی کے جانوروں میں انکے حصہ کے حوالے سے حضور ﷺ کی رہنمائی یہ ہے ۔بکرہ ، دنبہ ، بھیڑ ، وغیر ہ کی قربانی ایک ہی شخص کرسکتا ہے لیکن گائے کی قربانی میں سات افراد اوراونٹ کی قربانی میں دس افرادشامل ہوسکتے ہیں (ترمذی )
حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے حج پر قربانی کے سو اونٹ ذبح کیے اور اس کے بعد عید الاضحیٰ کی قربانی کی۔ آپ ﷺ نے اپنی طرف سے ایک بکری اور ازواج مطہرات کی طرف سے ایک گائے ( بخاری) سب گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کی جاسکتی ہے۔( موطا امام مالک ) کسی رشتہ دار ، دوست یا تمام مسلمانوں کی طرف سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔( مسلم ) مرحومین کی طرف سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ ( مسند احمد ) مسافر بھی قربانی کرسکتا ہے ( بخاری ) 
قربانی کے جانور کے بارے میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا قربانی میں ذبح نہ کرو مگر مسنہ ( جو ایک برس کا ہوکر دوسرے برس میں لگا ہو) البتہ جب تم کوایسا جانور نہ ملے تو ( صرف ) دنبہ کا جذعہ ( دنبہ کا بچہ جو ایک سال کا ہو) ذبح کرو۔ ( مسلم )
حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے ایک دوسری روایت ہے کہ نبی مہربان ﷺ کے پاس دو سینگوں والے چتکبرے بڑے بڑے خصی مینڈھے لائے گئے۔ آپ ؐ نے دونوں میں سے ایک کو پچھاڑ ا اور فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نام سے اور اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے ،محمد ﷺ اور امت کی طرف سے، جنہوں نے تیری توحید کی گواہی دی اور میرے پیغام کو پہنچانے کی شہادت دی۔ 
ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ نبی مہربان ﷺ سینگوں والے غیر خصی مینڈھے کی قربانی کرتے تھے۔ ان کی آنکھیں ، منہ اور زبان اور ہاتھ پاؤں سیاہ ہوتے۔ اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں قربانی کے جانور کے خصائل بیان فرمائے ہیں۔ 
یک چشم، بیمار لنگڑا ( جس کی لنگڑاہٹ نمایا ں ہو) بغیر ہڈیوں کے گودے والا ، کانوں کا آگے پیچھے ہونا، لمبائی یا چوڑائی سے کٹ کر لٹک جانا، یا ان سے بھی بڑے عیب جس میں موجود ہوں، اس جانور کی قربانی جائز نہیں۔ 
قربانی کرتے وقت یہ دعا پڑھے:بسم اللہ واللہ اکبر ( اللہ کے نام کے ساتھ ( ذبح کرتا ہوں ) اللہ بہت بڑا ہے۔ ( متفق )
ذبح کے احکامات 
قربانی کے جانور کو عمدہ اور اچھے طریقے سے ذبح کیا جائے، ذبح کرتے وقت جانور کو قبلہ رخ کرلینا مستحب ہے۔ ذبح کرتے وقت چھری کی دھار تیز ہونی چاہیے۔ جانور کو خود ذبح کرنا افضل ہے۔ لیکن کسی دوسرے سے ذبح کروانے میں بھی کوئی حرج نہیں، مسلمان عورت بھی قربانی کا جانور ذبح کرسکتی ہے۔ قصائی کی اجرت کی ادائیگی کے حوالے سے نبی ﷺ نے رہنمائی فرمائی کہ ’’ ذبح کرنے والے قصاب کو قربانی کے جانور میں سے کوئی چیز بطور مزدوری دینا جائز نہیں۔ ( متفق علیہ)
قربانی کے جانور کے بارے میں سورۃ الحج میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ پس اس میں سے خود بھی کھاؤ اور ان کو بھی کھلادو جو قناعت کیے بیٹھے ہیں۔ اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔ نبی مہربان ﷺ نے فرمایا ، کھاؤ ، ذخیرہ کرو اور خیرات کرو۔ ‘‘

0 comments:

Post a Comment