Sunday 9 November 2014

اقبال اور تصوف (حصہ اول)

| |
اپنے دور زوال میں غیر مسلموں کے ساتھ میل جول کے نتیجے میں مسلمانوں کے اعمال اور تصوارت و نظریات میں بے شمار تبدلیاں ہوئیں۔ان تبدیلوں کے اثرات ہر شعبہ زندگی پر پڑے۔ تصور دین بدلا جس کے نتیجے میں اہم، غیر اہم اور غیر اہم، اہم ہو گیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ تربیت و تزکیہ کے مقاصد، تصورات اور مزاج بدلا اور تزکیہ کے اسلامی طریقوں میں بے شمار اضافے اور ترمیم ہوئیں جس سے بدھ مت ہندو مت اور عیسائی راہبانیت نے رواج پایا۔

ہمارے قومی شاعرعلامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے امت میں بیداری کا صور پھونکا ۔ ان کی شاعری دین کی تعلیمات کا خلاصہ ہے ۔ انھوں نے اپنی اصلاحی اور تجدیدی کاوشوں کے ذریعے تربیت و تزکیےمیں ہونے والی آمیزش کاگہرائی سے جائزہ لیا اور اسلامی تصورات  کو غیر اسلامی تصوارت سے الگ کرکے پیش کیا ۔ بالخصوص غیر اسلامی تصوف اور اس کےطور طریقوں کی سختی سے تردید کی ۔ اسلام کے تزکیہ کے اصول و مقاصد کو عالمانہ استدلال اور نہایت جامع انداز میں پیش کیا ۔
اقبال نے اپنی شاعری میں مختلف مقامات پر منفرد اسلوب اور پیرائے میں اسلام اور رہبانیت کے تضادات پر خوب لکھا ۔ وہ لکھتے ہیں اسلام کا طریقہ تزکیہ انسان کو نیابت الہی کے لیے  تیار کرتا ہے جبکہ رہبانیت مایوسی اور مسکینی کا ذریعہ بنتی ہے
اقبال  لکھتے ہیں :

اک فقر سکھاتا ہے صیّاد کو نخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہاں گیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری
اک فقر ہے شبیری ، اس فقر میں ہے میری
میراث مسلمانی ، سرمایۂ شبیری!
ایک دوسری جگہ پر لکھتے ہیں
یہ پیرانَ کلیسا  و حرم!  اے وائے مجبوری
صلہ ان کی کدوکاش کا ہےسینوں کی  بے نوری
راہبانیت کا  یہ اثر ہوا کہ عارف اور ان کے پیر وکار سب خودی سے محروم ہو گئے  جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسجد و میخانہ میں فرق باقی نہیں رہا
تما م عارف و عامی خودی سے بےگانہ
کوئی بتائے یہ مسجد ہے یا کہ میخانہ
اقبال تصوف کے تصورِ رہبائنت اور علملیات کو شیطانی وسوسوں کو خطرناک ذریعہ  قرار دیتے ہیں  اپنی معرکہ آراء نظم ''ابلیس کی مجلس شوری میں لکھتے ہیں کہ :
کیامسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ الہیات کے ترشے ہوئے لات و منات؟
تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے
تا بساط زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
وہ تصوف پر تنقید کرتے لکھتے ہیں

یہ حکمت ملکوتی، یہ علم لاہوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ عقل، جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار
شریک شورش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
خرد نے کہہ بھی دیا 'لا الہ' تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری
فروغ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

تصوف انسان کو زندگی کی کشمکش سے دور اور گریزپا کر دیتا ہے جبکہ اسلام کا تصور تزکیہ انسان کو کشمکش کا خوگر بناتا ہے۔وہ لکھتے ہیں :

مجاہدانہ حرارت رہی نہ صوفی میں
بہانہ بے عملی کا بنی شراب الست
فقیہ شہر بھی رہبانیت پہ ہے مجبور
کہ معرکے ہیں شریعت کے جنگ دست بدست
گریز کشمکش زندگی سے، مردوں کی
اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست!
ایک اور جگہ فقر و راہبی کے عنوان سے لکھتے ہیں :

کچھ اور چیز ہے شاید تری مسلمانی
تری نگاہ میں ہے ایک ، فقر و رہبانی
سکوں پرستی راہب سے فقر ہے بیزار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی
پسند روح و بدن کی ہے وا نمود اس کو
کہ ہے نہایت مومن خودی کی عریانی
وجود صیرفی کائنات ہے اس کا
اسے خبر ہے، یہ باقی ہے اور وہ فانی
اسی سے پوچھ کہ پیش نگاہ ہے جو کچھ
جہاں ہے یا کہ فقط رنگ و بو کی طغیانی
یہ فقر مرد مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولت سلمانی  و سلیمانی


0 comments:

Post a Comment