اجتماعات کسی بھی جماعت کی جدوجہد، تحرک، زندگی اور حرارت کا باعث ہوتے ہیں، اجتماعات جتنے جاندار اور مؤثر ہوتے ہیں اتنی ہی جماعتوں کی جدوجہد کو، اثرانگیزی، نتیجہ خیزی، پیش رفت، کارکردگی اور وسعت فراہم کرتے ہیں۔
اگست 1941ء میں 75 افراد اور 74روپے 12 آنے کے قلیل سرمائے مگر جذبہ اخلاص سے قائم ہونے والی جماعت اسلامی آج لاکھوں نفوس قدسیہ کی جدوجہد کی امانت دار ہے۔ جماعت اسلامی کی جدوجہد کو مربوط اور مضبوط کرنے میں جہاں اس کے دستور، قواعد و ضوابط، قیادت اور نظام کا بڑا عمل دخل ہے وہیں پر اس کے اجتماعات عام اس کے لیے حیات نو کا درجہ رکھتے ہیں۔
1941ء میں تاسیس جماعت کے بعد سید مودودیؒ نے ارکان جماعت کو ہدایات دیتے ہوئے جمعۃ المبارک کو ایک جگہ جمع ہونے،اس اجتماع میں ہفتہ بھر کے کام کا جائزہ لینے، آیندہ کام کے لیے تجاویز سوچنے، بیت المال کے حسابات دیکھنے اور نئے لٹریچر کے مطالعے کی تاکید کی۔(روداد اول)
اسی طرح اکتوبر 1943ء میں دربھنگہ (بہار) میں جماعت کا پہلا بڑا اجتماع (اجتماع عام) منعقد ہوا، اس موقع پر سید مودودیؒ نے دوبارہ ہفتہ وار اجتماع پر زور دیتے ہوئے کہا ’’یہ ہفتہ وار اجتماع معمولی چیز نہیں‘‘ مزید کہا کہ ’’اس سے تغافل برتنے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ جماعت یخ بستہ ہو جائے گی اور ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ رہے گا کہ کون لوگ جماعت سے واقعی دلچسپی رکھتے ہیں اور کون نہیں۔‘‘ مزید فرمایا ’’کہ جو لوگ بلاعذر معقول جمعہ کے اجتماع میں نہ آئیں، ان کے متعلق یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ جماعت میں دلچسپی نہیں رکھتے۔‘‘(روداد حصہ اول)
1944ء میں شمالی ہند کے اجتماع ارکان، منعقدہ دارالاسلام پٹھانکوٹ میں خطاب فرمایا تو بجا طور پر ہفتہ وار اجتماع کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’مختلف مقامات پر جماعتی نظم کے مر جانے کی وجہ یہی تھی کہ افراد کو مجتمع رکھنے اور جماعت کے ساتھ ان کی عملی دلچسپی کو زندہ رکھنے والے اس رشتے کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا گیا۔‘‘(روداد حصہ دوم)
ہفتہ وار اجتماع کی اہمیت و افادیت کے ساتھ ساتھ جماعت نے ابتدا ہی سے یہ بھی طے کر دیا کہ ’’جماعت کے ارکان کا اجتماع عام ہر سال کیا جائے۔‘‘(رداد حصہ اول)
سیدمودودی کے نزدیک یہ اجتماع بہت اہمیت کا حامل تھا اور اس پر وہ اپنی اضطراب اور بے چینی کا وقتاً فوقتاً مسلسل اظہار بھی کرتے رہے۔ حالات ایسے رہے کہ جماعت یہ اجتماع تسلسل سے منعقد نہ کر سکی۔
پہلے کل ہندستان اجتماع عام کا انعقاد اپریل 1945ء میں دارالاسلام پٹھان کوٹ میں ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد اجتماعاتِ ارکان تو مختلف اوقات میں منعقد ہوتے رہے لیکن 1943ء میں لاہور میں ٹکسالی گیٹ کے باہر اجتماعِ عام، ایوبی آمریت اور نواب آف کالا باغ کی گورنری کے زمانے میں منعقد ہوا، اس اجتماع عام میں سید مودودیؒ خود شریک تھے۔ جس میں ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔۔۔ براہِ راست فائرنگ کی گئی۔ اس موقع پر سید مودودیؒ کو بیٹھ جانے کے لیے کہا گیا تو سید نے فرمایا تھا ’’اگر اس موقع پر میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا۔‘‘ اس موقع پر جماعت کے قیمتی کارکن اللہ بخش شہید ہو گئے۔۔۔ اور اس کے بعد اس اجتماع عام کے شرکا مختلف وفود کی شکل میں شہر لاہور میں پھیل گئے اور اپنی بات لوگوں تک پہنچائی۔۔۔ ایک کارکن کی شہادت اور دعوتی عمل نے اس اجتماع عام کی اثر آفرینی اور اثر انگیزی میں بے پناہ اضافہ کیا۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ دعوت کی فضا ہو یا مخالفین کی مخالفت، جماعت اسلامی نے اپنے طے کردہ پروگرام اللہ کے بھروسے اور کارکنان کے عزم و حوصلے کے سبب منعقد کیے، ملتوی نہیں۔
1963ء کے اجتماع عام کے بعد حالات ایسے رہے کہ 1974ء اورپھر 1983ء میں اجتماعات ارکان ہی منعقد ہو سکے۔ 1963ء کے بعد 1989ء میں، 26 سال بعد ہی اجتماع عام کا انعقاد ہو سکا۔ اس دوران جماعت کے معمول کے اجتماعات اور کام ہوتا رہا۔ یہ قاضی حسین احمد کے دور امارت کا پہلا ولولہ انگیز اجتماع تھا، جس نے نہ صرف کارکنان جماعت کو حوصلہ اور تحرک بخشا بلکہ بحیثیت مجموعی جماعت کے لیے حوصلے اور قوت و شوکت کے اظہار کا ذریعہ بنا۔
قاضی حسین احمد کے دور امارت میں کل چھ اجتماعات عام منعقد ہوئے۔ 1989ء اور 1995ء کو مینارِپاکستان لاہور، 1998ء فیصل مسجد اسلام آباد، 2000ء میں قرطبہ، اسلام آباد، 2004ء اضاخیل پارک، نوشہرہ اور 2008ء کو مینارِ پاکستان لاہور میں یہ عظیم اجتماعات انعقاد پذیر ہوئے۔ یہ اجتماعات عام جماعت کے لیے قوت و حرارت اور توانائی اور ولولے کا ذریعہ، جماعت کے پیغام کو عام کرنے، وسعت دینے اور کارکنان جماعت کو جماعت، نظم جماعت اور سمع و طاعت پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ بنے ہیں۔ان اجتماعات میں لاکھوں مرد و خواتین، بچے بوڑھے شرکت کر کے اپنے جذبوں کو جلا بخشنے اور توانا کرتے رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے یہ اجتماعات اللہ کی یاد اجاگر کرنے، قرآن مجید کے ساتھ مضبوط تعلق، نبی مہربانؐ کے ساتھ گہری محبت اور دین کی وابستگی، صحبت صالح، جذبہ اخلاص کو دو آتشہ، میدانِ عمل میں قوت و عمل فراہم کرنے اور ولولہ تازہ کا عمدہ ذریعہ ہیں۔ یہ اجتماعات اپنے رب سے باندھے ہوئے عہد کو تازہ کرنے ، دعوت دین کے ابلاغ، فریضہ اقامت دین کی ادایگی اور اللہ کے دین کی سربلندی میں سرگرمی سے حصہ لینے پر آمادہ وپیکار کرتے ہیں۔
جماعت اپنی عمر کے 73 ویں اور قیام پاکستان کے 67 ویں سال بعد قیامِ پاکستان کے مقاصد اور اس جدوجہد کو زندہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ جماعت یہ سمجھتی ہے کہ قیامِ پاکستان کے فراموش کردہ مقاصد کو اجاگر کرکے ہی پاکستان کو اسلامی پاکستان اور خوشحال پاکستان بنایا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے نئے امیر محترم سراج الحق قیام پاکستان اور تحریک پاکستان کے مقاصد کے حصول کے لیے برسرجدوجہد ہیں۔ اور ایک بار پھر نئے جوش جذبے کے ساتھ تحریک پاکستان کا آغاز کر رہے ہیں۔ وہ امیر جماعت کا حلف لینے کے بعد ایک نئے عزم، ولولے اور حوصلے کے ساتھ میدانِ عمل میں ہیں۔ کارکنان کے تحرک اور عوامی بیداری کے ذریعے وہ اس جدوجہد کو نتیجہ خیز اور بارآور بنانے کے لیے قریہ قریہ، گوشہ گوشہ، گلی گلی، گوٹھ گوٹھ اور گاؤں گاؤں جا کر اجتماعِ عام میں شرکت کی دعوت دے رہے ہیں۔
2014ء کا اجتماعِ عام جماعت اسلامی کا ساتواں اجتماعِ عام ہو گا ان شاء اللہ۔ اس اجتماع عام میں کراچی سے لے کر چترال تک لاکھوں مرد و خواتین، جوان، بچے، بوڑھے، مزدور، کسان شرکت کر کے نئے جذبے اور ولولے سے سرشار ہوں گے۔
جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نئے عزم اور جذبے کے ساتھ مینارِ پاکستان لاہور سے قیام پاکستان کے فراموش کردہ مقاصد کو اجاگر کرتے ہوئے عوامی ایجنڈا بھی پیش کریں گے اور تحریک پاکستان کا آغاز بھی۔ یہ اجتماعِ عام ایک اسلامی پاکستان اور خوش حال پاکستان کے قیام کی جدوجہد کا ذریعہ بنے گا۔
اقبال کے الفاظ میں:
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
0 comments:
Post a Comment