Sunday 21 December 2014

اجتماع عام ۔۔۔ ولولہ تازہ ، تحرک اور حوصلوں کا ذریعہ بنا

| |
۲۱،۲۲،۲۳نومبر۲۰۱۴ء کی تاریخیں اس اعتبار سے پاکستان کی تاریخ میں بہت اہمیت کی حامل اور منفرد رہیں کہ ان تین دنوں میں پاکستان کے چپے چپے بالخصوص کراچی سے خیبر تک ، گلگت سے گوادر تک اللہ کے شیروں ، محمد کے غلاموں کا جم غفیر مینار پاکستان امڈآیا۔ اجتماع عام میں آنے والے خود آئے تھے، لائے نہیں گئے تھے، ان میں جوان بھی تھے اور بوڑھے بھی، مائیں بہنیں بھی تھیں اور بچے بھی۔ یہ ایک عقیدے ، ایک نظریے میں بندھے ہوئے آئے تھے۔ یہ اسلامی پاکستان ۔۔۔ خوشحال پاکستان بنانے کا جذبہ تھا، جواِن کو کشاں کشاں مینار پاکستان، لاہور کھینچ لایا تھا۔ وہی مینار پاکستان جو قیام پاکستان کی یادگار ہے۔ اس کے ایک طرف منٹو پارک ہے جہاں قرار داد پاکستان منظور کی گئی تھی۔ دوسری طرف اورنگزیب عالمگیر کی تعمیر کردہ بادشاہی مسجد اور اس کے مینار ہیں۔ ان تین دنوں میں نہ مینار پاکستان کے سبزازاروں میں ،نہ منٹو پارک میں، نہ بادشاہی مسجد کے سائے تلے تل دھرنے کو جگہ مل رہی تھی اور یہ تحریک تکمیل پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کو جماعت اسلامی کے نئے قافلہ سالار جناب سراج الحق کی قیادت میں مکمل کرنے کا عزم باندھا جارہاتھا۔ 
لاہور جس میں سید علی ہجویریؒ نے توحید کا ترانہ گایا اور اقبال ؒ نے اپنے خوبصورت اشعار سے ملت کے جذبوں کو حرارت بخشی اور لاہور جس میں سید ابوالاعلیٰ مودودری ؒ نے ۷۵ ۔ افراد اور ۷۴ روپے ۱۲ آنے کے قلیل سرمائے کے ساتھ اسلامیہ پارک لاہور میں جماعت اسلامی کی تاسیس کی ۔ جماعت اسلامی نے اپنے قیام سے لے کر آج تک پاکستان کو اسلامی پاکستان بنانے اور نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ 
آج سید ابو الاعلیٰ مودودری ؒ کتنے مسرور و شاداں ہوں گے کہ جس جماعت کی انہوں نے بنیاد رکھی ۔ آج وہ بے پناہ جذبوں ، ولولوں سے سرشار ہے اور اس کی قوت و طاقت اور افرادی قوت میں کتنا اضافہ ہوچکا ہے ۔ ان کے ساتھ جناب میا ں طفیل محمد ؒ ، قاضی حسین احمد ؒ ، مولانا مسعود عالم ندوی،چوہدری غلام محمد، مولانا خلیل احمد حامدی، مولانا گوہر رحمن، مولانا عبد الرحیم چترالی، مولانا جان محمد عباسی، مولانا عبد العزیز، مولانا عبد الحق بلوچ، سید اسعد گیلانی، مولانا گلزار مظاہری،جسٹس ملک غلام علی، نعیم صدیقی، پروفیسر غفور احمد، خرام مراد، محمود اعظم فاروقی، ڈاکٹر نذیر شہید بھی اس قافلہ اسلام کے جذبوں کی حرارت محسوس کررہے ہوں گے۔ اللہ رب العالمین ان سب کی مغفرت فرمائے۔ 
یہ اجتماع عام ایک ایسے وقت میں ہوا تھا، جب پاکستان آگ و خون کا مسکن بناہوا تھا۔ لیکن اجتماع عام منعقد کرنے والوں کے عزم و حوصلے بلند تھے۔ خو ف و دہشت کی فضاکے باوجود اجتماع عام منعقد کرنے والوں کی نظر اپنے مقاصد اور اللہ رب العالمین کے فضل و کرم پر رہی۔ خوف و دہشت کا شائبہ بھی ان کے قریب نہ پھٹکا ۔ بستی بسانے والے اپنے عزم اور جذبے میں سچے تھے، بستی بسانے کے لیے میاں مقصود احمد کی قیادت میں ۳۵ کمیٹیوں نے دن رات کام کرکے اس کو ممکن بنایا اور مینار پاکستان اور اس کے قرب و جوار تین اسلامیان پاکستان کے جذبوں کی حدت محسوس کرتا رہا۔ 
مرکزی انتظامی کیمپ میں اظہر اقبال حسن ، عدنان نذیر، مولانا غیاث الدین، صلاح الدین حنیف، عبدا لرحمن اور نوید احمد زبیری نے دن رات ایک کیا۔ چوہدری محمود الحسن، نذیر احمد جنجوعہ بھی اس منظر پر چھائے رہے اور اپنے حصے کا کام کرنے میں مگن رہے۔ سٹیج کیآرائش اور آئیڈیا سید وقاص جعفری کے تخلیقی ذہن کا آئینہ دار تھا۔ سٹیج قد آدم اور منفرد انداز میں بنایا گیا تھا۔ جس کی دو منزلیں تھیں۔ بالائی منزل اور زیریں منزل ، دونوں پر مہمانان گرامی صف در صف اور قطاراندر قطار موجود تھے۔ مینار پاکستان کے ساتھ پنڈال تھا جس میں پروگرامات کے دوران سروں کا ہجوم نظر آتا اور اس کے بعد خالی کرسیاں!اتنے بڑے پنڈال کو بھرنا جماعت اسلامی کا ہی کام تھا۔ اور تین دنوں میں یہ پنڈال بار بار بھرا گیا۔ اس سے پہلے ہونے والے مختلف جلسے مینار پاکستان کے ایک حصے میں منعقدکئے جاتے رہے، یہ اللہ کا خاص فضل و کرم تھا کہ جماعت اسلامی کے اجتما ع میں اس بار لوگوں کا رجوع اورجوش و جذبہ دیدنی تھا۔ یہ شاید نئے امیر جناب سراج الحق کی کرشماتی شخصیت اور اخلاص کا اثر تھا۔
سٹیج سیکرٹری کے فرائض قیم جماعت لیاقت بلوچ ادا کررہے تھے۔ اور اپنے بر جستہ جملوں اور حاضر جوابی سے تبصرہ کرتے اور مہمانوں کا تعارف خوبصورت انداز میں پیش کرتے اور وقتاً فوقتاً ماحول کو اپنے نعروں سے گرماتے رہے۔ 
خواص کیمپ جس میں بیرون ملک سے آئے ہوئے مہمانان بھی تھے اور پاکستان بھی۔ عبد الحفیظ احمدان کی میزبانی کرتے رہے۔ صوفی محمد اکرم فراہمی سامان اوراحمد سلمان بلوچ، عابد میر اور حافظ انعام الحق صفائی و نظافت اور محمد امین پارکنگ کے لئے متحرک رہے۔ 
اجتماع عام کے تین دنوں میں سوشل میڈیا کیمپ خاص توجہ کا مرکز بنا رہا، جہاں پاکستان ہی نہیں دنیا بھرسے آئے ہوئے مہمان خدمات سر انجام دیتے رہے، اور اجتماع عام کی آواز کو دور تک پہنچانے اور یہاں سے اٹھنے والی آواز کو بلند و بالا کرکے پیش کرتے ۔ شمس الدین امجد اورمیاں محمد زمان ان کی خدمت میں لگے رہے۔ میڈیا کیمپ میں بھی ان تین دنوں میں خوب آنا جانااور رونق لگی رہی۔۔ امیر العظیم ، انور نیازی اور قیصر شریف نے میڈیا کیمپ میں آنے والوں اورقلم کے منفرد محاذ پر کام کرنے والوں کی خوب خبر گیری کی اور محبت نبھائی۔ 
خواتین کی رہائش گاہوں اور پنڈال نے پہلے ہی روز حاضری کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنے دامن کی تنگ دامانی کا اقرار کیا۔ ہنگامی طور پر مردوں کے بہت سے کیمپ خالی کرواکر خواتین کے سپرد کئے گئے ۔ فیض الباری ، وسیم اسلم قریشی ، عبد الحمید اعوان کی سربراہی میں کمیٹی خواتین کے انتظامات میں مصروف رہی۔ جبکہ خواتین کا اپنا نظم محترم کلثوم رانجھا، حمیرا طارق، سمیحہ راحیل قاضی اور ڈاکٹر رخسانہ جبیں کی قیادت میں سرگرم عمل رہا۔ 
مردوں کے لیے شاہی قلعہ کے ساتھ ساتھ خالی جگہ پرمزید کیمپ لگائے گئے اوراس میں پنجاب کو جگہ دی گئی۔ فاٹا، KP، سندھ اور بلوچستان سے آنے والون نے حاضری کے پرانے سارے ریکارڈ مات کردیئے۔جس سے انتظامات کرنے والے مشکلات سے دوچار ہوئے لیکن اپنے کام میں جتے رہے اور شرکاء اجتماع کو سہولت بہم پہنچانے کے لیے کوشاں رہے۔ 
مطبخ کا انتظام عتیق اسٹیڈیم میں شاہی مسجد کے میناروں کے پہلو میں کیا گیا تھا۔ جہاں عبد العزیز عابد اپنی ٹیم کے ساتھ 100تنوروں اور 300باورچیوں کے ساتھ مصروف عمل رہے۔ تقسیم طعام کے لیے خالد احمد بٹ سرگرم عمل رہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے اجتماع عام میں ایجوکیشن ایکسپو کا اہتمام کیا۔ جمعیت طلبہ عربیہ اپنے قائد محمود بشیر کی قیادت میں اجتماع عام کی تزئین وآرائش کا انتظام کیا۔ اجتماع عام کو جہاں ۲۹بیرون ملک سے آئے ہوئے مندوبین نے رونق بخشی ، خطبہ جمعہ اخوان المسلموں شام کی مجلس شوریٰ کے سربراہ صدر الدین البیونی نے بادشاہی مسجد میں ارشاد فرمایا اور رواں اور شستہ ترجمہ جناب عبد الغفار عزیز نے پیش کیا۔ 
اس بار اجتماع عام میں اقلیتوں نے بھی بھر پور انداز میں شرکت کی اور جناب اسد اللہ بھٹو نے ان کی مہمانداری میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔ استقبالیہ والے ذکر اللہ مجاہد کی قیادت میں شہر کے باہر مہمانوں کا استقبال کرتے ،رجسٹریشن کرتے اور اجتماع عام کی طرف روانہ کردیتے ۔ سیکورٹی کے فرائض 5000سے زائد کارکنان جماعت نے مولانا جاوید قصوری، عبدالواسع اور محمد اصغر بھٹی کی قیادت میں سر انجام دیئے ۔
اجتماع عام کے مرکزی پروگرامات کے ساتھ ساتھ خواتین اور نوجوانوں کے الگ الگ پروگرام منعقد ہوئے۔ خواتین کانفرنس نے جہاں خواتین کے جذبوں کو دو آتشہ کیا ، وہیں یوتھ کنونشن نوجوانوں کے لیے مہمیز کا باعث بنا۔ 
اجتماع عام نے جہاں شرکا اجتماع کے قلب و روح کو تازگی ، تحرک اور حوصلہ بخشا وہیں پر قیادت کو بے پناہ ہمت و حوصلے اور جذبے سے نوازا ۔ محترم امیر جماعت جناب سراج الحق کے خطابات نہ صرف دلوں کو گرماتے رہے بلکہ جذبات اور حوصلوں کو بھی ولولہ عطا کرتے رہے۔ محترم امیر جماعت اجتماع عام کی پہلی تمام رات جاگے ۔ مردو خواتین کے کیمپوں کا موٹر سائیکل پر دورہ کیا۔ امیر جماعت جس جس کیمپ میں پہنچے ، دیکھنے اور ملنے والوں کے لیے سخت حیرت کا باعث بنا۔اپنے قائد کواپنے اتنا قریب دیکھ کر لوگوں کو عجیب اورحیرت انگیز لگا۔ 
یہ اجتماع عام اپنے نظم و ضبط کے اعتبار سے مثالی ، قربانی ، ایثار کے عظیم الشان مظاہروں کا مرقع تھا۔اتنا بڑا اجتماع سید مودودی ؒ کی تربیت کا منہ بولتا شاہکار تھا، جہاں نہ کسی نے مینار پاکستان کو نقصان پہنچایا اور نہ اس کے پھولوں کو دانستہ توڑا، اس اجتماع کے شرکا بھی عجیب لوگ تھے۔ تین دن مینار پاکستان تلے گزار کر واپس جارہے تھے۔ ان کے امیر نے ان سے ۸ باتوں پر حلف لیا ، جس پر وہ آمنا و صدقنا کہہ رہے تھے اور تحریک تکمیل پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کو مکمل کرتے ہوئے اسلامی پاکستان ۔۔۔ خوشحال پاکستان بنانے کا عزم کررہے تھے۔ ان کا عزم ، جوش ،و جذبہ اور ولولہ اس کا آئینہ دار تھا کہ وہ اس دیس کو اسلامی نظام کی برکات سے زیادہ دیر محروم نہیں ہونے دیں گے۔ ان شاء اللہ

0 comments:

Post a Comment