Saturday 7 March 2015

حضرت خدیجہؓ ۔ خواتین کے لئے رول ماڈل (آخری حصہ)

| |
حضرت خدیجہؓ سب سے پہلی خاتون ہیں جنھوں نے حضورﷺ کی رسالت کی تصدیق کی اور ایمان لائیں اور حضور ﷺکی زبانِ مبارک سے قرآن سنا۔ یہ خدیجہؓ کا ہی گھر تھا جہاں حضورؐ نے طویل عرصہ قیام کیا۔ اپنی زندگی کے بہترین ایام یہاں گزارے اور یہیں سے عازمِ ہجرت ہوئے۔ نبی مہربان کفار کے سلوک اور دل شکنی پر افسردہ ہوتے تو یہ حضرت خدیجہؓ ہی تھیں جو آپؐ کا حوصلہ اور ہمت بڑھاتیں اور فرماتیں کہ آپؐ ان کی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں۔ کیا آج تک کوئی ایسا رسول بھی آیا ہے جس کا لوگوں نے مذاق نہ اڑایا ہو۔ حضورﷺ کو مشرکین سے جو صدمہ پہنچتا، حضرت خدیجہؓ کے پاس آ کر دور ہو جاتا۔ حضرت خدیجہؓ آپؐ کی باتوں کی تصدیق کرتیں اور مشرکین کی باتوں کو ہلکا کر کے پیش کرتیں۔ 

حضرت خدیجہؓ کے انھی اوصاف اور اخلاق کا نتیجہ تھا کہ حضرت جبریلؑ بطور خاص آسمان سے اللہ کا سلام لائے۔ حضورﷺفرماتے ہیں کہ میرے پاس جبریل ؑ تشریف لائے اور بتایا کہ خدیجہؓ برتن اٹھا ئے کھانے کے لیے کچھ لا رہی ہیں۔۔۔ جب وہ آپؐ کے پاس پہنچیں تو اللہ کا اور میرا سلام کہیں اور جنت میں ایک ایسے گھر کی بشارت دیں جو ہیرے جواہرات سے مرصع ہے اور جس میں یاقوت کا کام کیا گیا۔ اس میں نہ کوئی شور ہو گا اور نہ مشقت۔

قریش مکہ کے ظلم و ستم بڑھتے جاتے۔ 7 ہجری میں جب قریش نے حضورﷺاور آپؐ کے خاندان کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیا تو حضرت خدیجہؓ بھی اِس مشکل گھڑی میں آپؐ کے ساتھ تھیں۔ انھوں نے نہایت استقامت اور پامردی کے ساتھ یہ تین سال گزارے اور مشقت اٹھائی۔

یہ دور بہت سخت تھا، پتے کھا کر گزارا کرنا پڑتا۔ حضرت خدیجہ کے اثرو رسوخ سے کبھی کبھار کھانا بھی پہنچ جاتا۔ حکیم بن خرام حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے تھے۔ انھوں نے کچھ گیہوں اپنے غلام کے ہاتھ اپنی پھوپھی کے لیے بھیجے۔ ابوجہل نے دیکھ لیا اور چھیننا چاہا اور کہا کہ تم بنوہاشم کے لیے غلہ لے جاتے ہو۔ میں تمھیں رسوا کروں گا۔ اس دوران ابوالبختری سامنے آ گیا اور کہا کہ اگر ایک شخص اپنی پھوپھی کے لیے کھانے کو کچھ بھیجتا ہے تو، تم کیوں روکاٹ ڈالتے ہو۔

نبیﷺاور دوسرے مسلمان شعب ابی طالب سے حج کے زمانے میں باہر نکلتے، لوگوں سے ملتے ملاتے، اور ان تک اسلام کا پیغام پہنچاتے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس دور کی سختیاں، مشکلیں، مشقتیں، فاقے، بھوک اور پیاس نہایت خندہ پیشانی اور حوصلے سے برداشت کیں، مشقت کی اس تین سالہ زندگی نے آپ کو خستہ حال اور کمزور کر دیا تھا، لیکن ثابت قدمی اور استقلال آپ کا طرہ امتیاز رہا۔ آپؓ مسلسل حضورﷺکی ہمت بندھاتیں اور حوصلہ دیتیں۔
شعب ابی طالب کی مشقت بھری زندگی نے مسلمانوں کو کندن بنادیا، شعب ابی طالب سے نکلے ابھی چھے ماہ کا ہی عرصہ ہوا تھا کہ آپﷺ کے مکرم و عزیز اور ہر مشکل میں کام آنے والے چچا ابو طالب کا انتقال ہو گیا، اور اس کے چند دن بعد ہی آپﷺکی ہمدرد و غمخوار اور غمگسار بیوی حضرت خدیجہؓ اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال سے چند لمحے پہلے حضورﷺ نے انھیں نزع کے عالم میں دیکھا تو فرمایا: ’’آپ جس چیز کو ناپسند کررہی ہیں (حضورﷺسے جدائی)، اللہ نے اس میں آپ کے لیے خیر و برکت کے خزانے رکھے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ ان کی آنکھوں میں مسرت و شادمانی کی کہکشاں کھل اٹھی، جب انھوں نے جان، جان آفریں کے سپرد کی تو ان کی نگاہیں حضورﷺ کے چہرہ اقدس پر جمی ہوئی تھیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی تو اس وقت تک نماز جنازہ نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی۔ البتہ اس وقت کے طریقہ کے مطابق تدفین کی گئی۔ حضورﷺخود قبر میں اترے اور ان کے جسد مبارک کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں رکھا۔ آپ مکہ معظمہ کے قریبی قبرستان میں مدفون ہوئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے باعث اسے غم کا سال (عام الحزن) قرار دیا۔ یہ دونوں شخصیتیں حضورؐ کی محسن تھیں۔ حضرت ابو طالب نے اپنے اثر و رسوخ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنی خدمت، وفا اور مال سے حضورﷺ کے لیے تسلی، سکون اور راحت کا باعث بنیں۔
حضرت خدیجہؓ کی وفات کو بنیﷺ نے شدت سے محسوس کیا اور اس صدمے کا آپ کی طبیعت پر بھی گہرا اثر ہوا۔ خولہ بنت حکیم نے آپﷺسے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ حضرت خدیجہؓ کے رخصت ہو جانے سے آپﷺ نہایت غمگین دکھائی دیتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: وہ میرے بچوں کی شفیق ماں، میری غمگسار اور رازداں تھی، اس نے مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا، میری رفاقت میں وہ دنیا کے ہرغم کو بھول گئی، محبت، وفاداری اور سلیقہ شعاری کی انتہا کر دی، وہ مجھے کیوں یاد نہ آئے، میں اسے کیسے بھلا سکتا ہوں

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب حضرت خدیجہؓ کا تذکرہ فرماتے تو مجھے عجیب سا لگتا حالانکہ میں نے انھیں دیکھا نہیں ہوا تھا۔ نبیﷺ جب کوئی بکری ذبح کرتے تو فرماتے کہ اس کا گوشت خدیجہ طاہرہ کی سہیلیوں کو پہنچا دو۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن میں نے آپؐ کو ناراض کر دیا اور حضورﷺ سے کہا کہ آپؐ کیا ہر وقت حضرت خدیجہؓ کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ حضورﷺنے فرمایا: ’’میرے دل میں خدیجہ کی محبت بسا دی گئی ہے۔‘‘
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں: ایک بار حضرت خدیجہؓ کی ہمشیرہ حضرت ہالہؓنے گھر میں آنے کے لیے اجازت طلب کی۔ رسول اللہﷺ اس کا نام سنتے ہی خوشی سے جھوم اٹھے، اور فرمایا: ’’سبحان اللہ! خدیجہ کی بہن ہالہ آئی ہیں۔‘‘ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں، اس پر مجھے بہت غیرت آئی، میں نے کہا آپﷺہر وقت قریش کی ایک سرخ چوڑے گالوں والی بڑھیا کا تذکرہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں، وہ کب کی مر کھپ گئی ہیں، اُسے آپﷺ چھوڑیں۔ اللہ نے اس سے بہتر رفیقہ حیات آپ کو عطا کی ہے۔ آپؐ نے یہ سن کر فرمایا: ’’کیا کہا،اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بہتر بیوی عطا کر دی ہے؟‘‘
سنیے، وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگوں نے انکار کر دیا تھا، اُس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگوں نے جھٹلایا تھا، اس نے اپنے مال سے اس وقت میری ڈھارس بندھائی جب لوگوں نے مجھے محروم کر دیا تھا۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے مجھے اولاد عطا کی۔‘‘
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ایک دن خدیجہؓ کی ایک سہیلی آئی، وہ عمر رسیدہ تھی۔ رسول اللہﷺ نے اس کو بڑی عزت دی۔ اپنی چادر بچھائی اور اس پر بٹھایا، اس کے حالات پوچھے اور آؤ بھگت کی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں جب وہ چلی گئی تو میں نے کہا، یا رسول اللہﷺ! اس بوڑھی کالی عورت کی اتنی عزت افزائی؟ آپؐ نے فرمایا، یہ عورت خدیجہ طاہرہؓ سے ملنے کے لیے آیا کرتی تھی، کسی ہمدرد ساتھی کا خیال رکھنا بھی ایمان کا حصہ ہے۔ 
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ’’نبیﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی موجودگی میں کسی دوسری عورت سے شادی نہیں کی، یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئیں۔‘‘
حضرت علیؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: دنیا کی بہترین خاتون مریمؑ اور خدیجہؓ ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے زمین پر چار لکیریں کھینچیں اور فرمایا، کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا، اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔‘‘ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’اہل جنت کی تمام عورتوں سے افضل خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنتِ محمدؐ، فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اور عمران کی بیٹی مریم ہیں۔‘‘
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ساری دنیا کی عورتوں میں چار کے نام بس کافی ہیں۔ مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمدؐ اور فرعون کی بیوی آسیہ۔‘‘
حضورﷺ حضرت خدیجہؓ کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں ’’مردوں میں بہت سے کامل ہوئے اور عورتوں میں صرف فرعون کی بیوی آسیہ، عمران کی بیٹی مریم اور خدیجہ بنت خویلد ہوئیں اور بلاشبہ عائشہؓ کی عورتوں پر فضیلت ایسی ہی ہے جیسے تمام کھانوں میں ثرید کی فضیلت ہے۔‘‘
حضرت خدیجہؓ زمانۂ جاہلیت میں ہی بت پرستی سے تائب ہو چکی تھیں، یہ ان کی زندگی کا کُل 28 سال کا عرصہ ہے۔ اس کے بعد حضور ﷺکے ساتھ 25 سال ان کی رفاقت رہی۔ حضورﷺنے ایک مرتبہ حضرت خدیجہؓ سے فرمایا: خدا کی قسم! میں کبھی لات و عزیٰ کی پرستش نہ کروں گا۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا، لات اور عزیٰ کو جانے دیجیے یعنی ان کا ذکر بھی نہ فرمایئے۔
اس کا نتیجہ تھا کہ جب حضورﷺ نے نبوت کا اعلان فرمایا اور پکارا تو حضرت خدیجہؓنے بلاتامل لبیک کہا اور دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے متعلق حضور ﷺکی سچی اور مخلص مشیر تھیں۔
حضرت خدیجہؓ سب سے پہلے حضورﷺ پر ایمان لائیں، سب سے پہلے آپؐ کے ساتھ نماز ادا کی۔ اس وقت چونکہ ابھی نماز فرض نہیں ہوئی تھی، اس لیے وہ حضورﷺ کے ساتھ دو رکعت نماز صبح اور دو رکعت نماز شام ادا فرماتی تھیں۔ سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ سے آپؐ کو اولاد کی نعمت ملی، آپؐ نے انھیں دوسری تمام بیویوں سے پہلے جنت کی بشارت دی۔ سب سے پہلے اللہ نے انھیں سلام کہلوایا۔ آپؐ نے طویل عرصہ حضرت خدیجہؓ کے گھر قیام فرمایا۔ اس گھر میں حضورﷺ پر وحی نازل ہوتی، اسی گھر میں حضرت علی اور حضرت زیدؓ جوان ہوئے، اسی گھر میں فاطمہ الزھراؓ اور ان کی دوسری تینوں بہنوں نے جنم لیا۔ اسی گھر میں ہجرت تک حضورﷺ رہائش پذیر رہے۔ یہ مکہ معظمہ کے بابرکت گھروں میں سے سب سے زیادہ بابرکت گھر تھا۔اس گھر کو حضرت امیرمعاویہؓ نے اپنے دورِ حکومت میں خرید کر مسجد بنوا دیا تاکہ لوگ نماز پڑھیں اور اس طرح یہ گھر تا قیامت مسجد بن گیا۔ 
حضرت خدیجہؓ کا مقام بہت بلند ہے، حضورﷺکے دل میں ان کی بڑی قدر تھی جس کا اظہار مندرجہ بالا احادیث سے ہوتا ہے۔ 
سچی بات تو یہ ہے کہ حضرت خدیجہؓ نے اپنا سب مال و اسباب دین کی اقامت کے لیے حضورﷺکے قدموں میں رکھ دیا۔ حضور ﷺکو دعوت کے کام کے لیے اپنے گھر سے سب سے زیادہ حمایت ملی اور اس میں حضرت خدیجہؓ کا بنیادی کردار رہا۔ آپ نے دامے درمے قدمے سخنے اللہ کے دین کی سربلندی میں اپنا کردار ادا کیا، اور آخر دم تک اس عہد کو نبھایا اور وفا کی۔ یہ رتبہ بلندملا جس کو مل گیا۔

0 comments:

Post a Comment