Wednesday 4 March 2015

حضرت خدیجہؓ - خواتین کے لئے رول ماڈل (حصہ دوم)

| |
نفیسہ بنتِ منیہ حضور ﷺ کے پاس پہنچی اور کہا کہ آپؐ شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ حضورﷺ نے فرمایا: شادی کے لیے میرے پاس وسائل نہیں ہیں، اس نے کہا کہ اگر کوئی معزز اور حسن و جمال سے آراستہ خاندانی اور مال دار عورت شادی کی پیش کش کرے اور آپ کو کچھ خرچ نہ کرنا پڑے تو؟ آپ نے دریافت فرمایا وہ کون ہے؟ اس نے کہا خدیجہ بنت خویلد، آپؐ نے فرمایا اگر وہ چاہتی ہیں تو مجھے بھی قبول ہے۔ آپؐ کی زبانِ مبارک سے رضا مندی کا سن کر نفیسہ خوشی سے جھوم اٹھی اور جا کر خدیجہؓ کو یہ پیغامِ مسرت سنایا۔ 
رسول اللہﷺ کی عمر اس وقت 25 سال اور حضرت خدیجہؓ کی 40 سال تھی۔ حضورﷺنے اپنے چچاؤں کو بتایا کہ میں خدیجہ بنت خویلا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ابوطالب اور حمزہ حضرت خدیجہ کے چچا عمروبن اسد کے پاس گئے اور ان سے ان کی بھتیجی کا رشتہ مانگا۔ شادی کی تاریخ طے پا گئی۔ عزیز و اقارب جمع ہوئے، حضرت حلیمہ سعدیہ خاص طور پر شرکت کے لیے آئیں۔ 
ابوطالب نے خطبہ پڑھا اور حضورﷺ کی شان میں کلمات ادا کیے۔ خدیجہؓ کے چچا نے بھی ان کے لیے تعریفی کلمات کہے۔ اس طرح یہ مبارک تقریب انجام پذیر ہوئی۔ شادی کی یہ تقریب خدیجہؓ کے گھر پر منعقد ہوئی تھی جہاں ان کی سہیلیوں نے دَف بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔
ساڑھے دس اوقیہ سونا (500 طلائی درہم) حق مہر مقرر ہوا۔ جب نکاح ہو گیا تو جانور ذبح کیے گئے اور گوشت تقسیم کر دیا گیا۔ ولیمہ کی تقریب ابوطالب کے گھر منعقد ہوئی جس میں دو اونٹ ذبح کیے گئے۔
جب یہ مبارک شادی انجام پائی، اس وقت حضورﷺ کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہؓ کی عمر 40 سال تھی۔ شادی کے بعد حضرت خدیجہؓ رسول اللہﷺ کے لیے ہر لحاظ سے بہترین وفادار اور غم گسار ساتھی ثابت ہوئیں اور پوری یک سوئی، دل جمعی اور محبت کے جذبے سے آپ کی خدمت کرتیں۔
حضرت خدیجہؓ نہایت سمجھ دار اور فہم و فراست رکھنے والی خاتون تھیں اور حضورﷺ کا ہر طرح سے خیال رکھتیں۔ وہ حضورﷺ کے مقام اور مرتبے کے پیش نظر آپؐکی پیروی سعادت سمجھ کر کرتیں۔ ہر معاملے میں آپؐ کی خوشنودی پیش نظر رکھتیں۔ 
شادی کے بعد آپ کافی حد تک فکر معاش سے آزاد ہو گئے۔آپؐ غارِ حرا تشریف لے جاتے جہاں آپؐ کا زیادہ تر وقت عبادت و ریاضت میں گزرتا۔ آپؐکئی دن کا سامان خوردونوش ساتھ لے جاتے اور وہیں قیام کرتے۔ حضرت خدیجہؓ بعض اوقات آپؐ کے ساتھ جاتیں اور کبھی بعد میں کھانا پہنچاتیں۔ اس وقت تک ابھی نماز فرض نہیں ہوئی تھی۔ حضورﷺصرف نوافل ادا فرماتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ بھی آپؐ کے ساتھ نوافل ادا فرماتیں اور عبادت میں شامل ہو جاتیں۔ 
کافی عرصہ تک یہ عمل آپؐ خفیہ کرتے رہے۔ عبادت و ریاضت کے اس سلسلے کو پندرہ سال گزر گئے۔ جوں جوں نزولِ وحی کا وقت قریب آتا جا رہا تھا، آپؐ کو سچے خواب نظر آنے لگے۔ جو خواب میں دیکھتے وہی دن میں ظاہر ہو جاتا۔ ایک دن آپؐ غارِ حرا میں تھے، جبریل ؑ پہلی وحی (سورۂ علق کی پہلی پانچ آیات) کے ساتھ تشریف لائے۔ آپؐ کو کئی بار دبایا، بھینچا اور کہا کہ اے محمدؐ! پڑھو، آپؐ نے فرمایا، میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ بھلا کیسے پڑھوں؟ جبریل ؑ سورۂ علق کی پہلی پانچ آیات پڑھا کر چلے گئے۔ 
حضورﷺ سخت گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں گھر تشریف لائے۔ جسم پر کپکپی طاری تھی۔ حضرت خدیجہؓ سے فرمایا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو، کمبل اوڑھایا گیا تو کچھ سکون ہوا۔ آپؐ نے حضرت خدیجہؓکو سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ اس موقع پر حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کی ڈھارس بندھائی۔ سچے غم خوار کا کردار ادا کیا اور کہا کہ آپؐ گھبرایئے نہیں، اللہ آپ کی حفاظت فرمائے گا۔ آپؐ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ کیونکہ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں (اپنے عزیزو اقارب کا خیال رکھتے ہیں)، سچ بولتے ہیں،غریبوں اور کمزوروں کے کام آتے ہیں۔ مہمانوں کی تواضع فرماتے ہیں اور مصیبت زدوں کی دست گیری فرماتے ہیں۔ اللہ آپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔‘‘
حضرت خدیجہؓ کے یہ الفاظ حضورﷺکے لیے ہمت اور حوصلے کا باعث بنے۔ جب آپؐ کی طبیعت بہتر ہوئی تو حضرت خدیجہؓ آپؐ کو ساتھ لے کر اپنے چچازاد ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچیں۔ انھوں نے نہایت توجہ سے سارا واقعہ سنا اور تمام کیفیت سن کر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’یہ وہی مقدس پیغام رساں ہے، جو وحی لے کر موسیٰؑ کے پاس آتا تھا، کاش اس وقت میری زندگی ہو جب قوم آپؐکو وطن سے نکالے گی۔‘‘ آپؐ نے حیرت سے پوچھا کہ کیا میری قوم مجھے اپنے وطن سے نکال دے گی؟ انھوں نے کہا کہ ہاں، تاریخ گواہ ہے، آپؐ جیسی ذمہ داری جس کے سپرد کی گئی اس کی قوم نے اس کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپؐ کی بھرپور مدد کروں گا۔ انھوں نے حضرت خدیجہؓ سے کہا کہ یہ اس امت کے نبی ہیں، انھیں ثابت قدمی کی تلقین کریں۔(جاری ہے)

0 comments:

Post a Comment