(دنیا بھر میں اقوامِ متحدہ کے پرچم تلے 8 مارچ کو عالمی یومِ خواتین منایا جاتا ہے۔ جدید تحریک نسواں اس دن کو صرف عورت کی مظلومیت، استحصال، تشدد اور حقوق اجاگر کرنے کے لیے مناتی ہے۔ جماعت اسلامی حلقہ خواتین نے اپنے 2014ء کے منصوبہ عمل میں عالمی یومِ خواتین کو حضرت خدیجۃ الکبریٰ بطور رول ماڈل منانے کا اعلان کیا ہے۔ حضرت خدیجہؓ وہ مثالی خاتون ہیں جو آج کی عورت کے لیے ’رول ماڈل‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس اعتبار سے حلقہ خواتین کا یہ اقدام نہایت صائب ہے۔ حضرت خدیجہؓ پر یہ مضمون شائع کرنے کا مقصد بھی ان کی سیرت کو اجاگر کرنا ہے۔)
حضرت خدیجہؓ، خواتین میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی جلیل القدر اور عالی مرتبت خاتون جو ام المومنین کے بلند مقام پر فائز ہوئیں، اپنے ایمان، عالی نسبی و پاک دامنی، شرافت و نجابت، عزت و عظمت، سخاوت و وفاداری، رفعت و وقار اور فضل و شرف میں بے مثال تھیں۔ اپنے بلند اخلاق کے سبب طیبہ و طاہرہ کے لقب سے ملقب ہونے والی یہ عظیم المرتبت خاتون نبی کریمؐ کے لیے امید، حوصلہ اور روشنی کا باعث بنیں۔ جنت کی بشارت اور اللہ تعالیٰ اور جبرائیل ؑ سے سلام پانے والی اس خاتون سے حضورﷺ اولاد کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔
رسول اللہﷺ حضرت خدیجہؓ کے گھر ہجرت تک قیام پذیر رہے۔ اس بابرکت گھر میں قرآن اترتا رہا۔ حضورؐ کی بیویوں میں سب سے پہلے آپ دنیا سے رخصت ہوئیں۔ جب تک زندہ رہیں حضورﷺکے لیے سراپا امن و سکون، راحت و سکھ، وفا و خدمت بنی رہیں۔
حضرت خدیجہؓ قریش کے معزز قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ عام الفیل سے پندرہ سال قبل مکہ معظمہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد خویلد بن اسد مکہ کے بڑے تاجر اور معززین میں شمار ہوتے تھے۔ جو مشہور جنگ، جنگ فجارمیں کام آئے۔ والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ ہے۔ والدہ اور چچا نے آپ کی پرورش کی۔ حضرت خدیجہ کا سلسلہ نسب قصی بن کلاب پر جا کر حضورﷺسے ملتا ہے۔
حضرت خدیجہؓ کی پہلی شادی ابوھالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوئی، جن سے دو بچے ھالہ اور ہند پیدا ہوئے، لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ جلد اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد عتیق بن عائذ بن عبداللہ مخزدی کے ساتھ نکاح ہوا۔ ان سے ایک بیٹی ہندہ تولد ہوئیں لیکن ان کے ساتھ نباہ نہ ہو سکا اور علیحدگی ہوگئی۔ علیحدگی کے بعد آپ کی زیادہ تر توجہ اپنی اولاد کی پرورش اور کاروبارِ تجارت کے فروغ کی طرف رہی۔ اپنے والد اور خاوند کی وفات کے بعد آپ نے ان کا کاروبار سنبھالا اور نہایت سمجھ داری سے چلایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کاروبار میں اتنی ترقی ہوئی کہ آپ قریش کی سب سے مال دار خاتون بن گئیں۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ وہ مختلف قابل اعتماد، محنتی اور دیانت دار لوگوں کے ذریعے سامانِ تجارت میں ان کا حصہ مقرر کر کے روانہ کرتیں، جس میں ان کے ملازم بھی ہوتے اور عزیز و اقارب بھی۔
حضور ﷺاس زمانے میں بھیڑ بکریاں چراتے، ایک بار جب سامان تجارت روانگی کا وقت آیا تو حضرت ابوطالب نے آپﷺ کو حضرت خدیجہؓ سے ملنے کے لیے کہا اور ان کا مالِ تجارت شام جائے گا۔ بہتر ہوتا کہ تم بھی ساتھ جاتے۔ میرے پاس سرمایہ نہیں ورنہ میں تمھیں رقم مہیا کرتا۔ حضرت خدیجہؓ کو ابوطالب کی اس گفتگو کا علم ہوا۔ وہ حضورﷺ کے بلند اخلاق سے واقف تھیں، انھوں نے خود حضورﷺ کو پیغام بھیجا کہ آپ میرا سامانِ تجارت لے کر شام جا ئیں۔ میں جو معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں، آپ کو اس سے دوگنا دوں گی۔ حضورﷺ نے اپنے چچا کے مشورے سے اسے قبول فرمایا اور حضرت خدیجہؓ کا سامانِ تجارت لے کر شام کا سفر کیا۔
آپؐ کے ہمراہ حضرت خدیجہؓ کا غلام میسرہ بھی تھا۔ میسرہ آپ کے حسن اخلاق، طرزِ گفتگو، نرم لہجے، شیریں گفتاری اور سنجیدگی سے متاثر ہوا۔ شام کے سفر میں بصریٰ کے مقام پر آپؐ کچھ دیر آرام کے لیے ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھے، جہاں بحیرا نامی راہب نے آپ کو دیکھا۔ اس نے میسرہ کو بلایا اور کہا کہ وہ درخت کے نیچے بیٹھنے والا کون ہے؟ میسرہ نے اسے آپ کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ یہ قریش کے مقبول اور سب سے معزز قریشی خاندان کے چشم چراغ ہیں۔ راہب نے کہا کہ اس درخت کے نیچے بیٹھنے والا نبی کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ میسرہ نے شام سے مکہ کے سفر کے دوران یہ منظر بھی دیکھا کہ دھوپ کی حدت میں دو فرشتے آپؐ پر سایہ کیے ہوئے ہیں۔ میسرہ نے مکہ آ کر یہ تمام واقعات و مشاہدات حضرت خدیجہؓ کو سنائے۔ یہ تمام واقعات سن کر وہ بہت متاثر ہوئیں اور سنجیدگی سے حضور ﷺکے بارے میں متوجہ ہوئیں اور حضورؐ سے نکاح بارے دل میں خیال جاگزیں ہوا۔ پھر اس تجارتی سفر سے حضرت خدیجہؓ کو اتنا منافع ہوا جتنا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ انھوں نے سفر کے یہ مشاہدات اپنے چچا زاد ورقہ بن نوفل کو بتائے۔ انھوں نے کہا: ’’اگر یہ واقعات درست اور سچے ہیں تو یقیناًمحمدؐ اس امت کے نبی ہوں گے۔ میں جانتا ہوں اس امت میں ایک نبی آنے والے ہیں اور ان کا زمانہ قریب ہے۔‘‘
انھی خیالات میں گم حضرت خدیجہؓ کے روز و شب گزرنے لگے۔ انھوں نے ایک رات خواب دیکھا کہ آسمان سے سورج ان کے گھر میں اتر آیا ہے، جس نے ان کے گھر کو روشن روشن کر دیا ہے۔ انھوں نے ورقہ بن نوفل سے اس خواب کی تعبیر دریافت کی۔ خواب سن کر وہ خود بھی بے انتہا خوش ہوئے اور کہا۔۔۔ خوش ہو جا، اگر اللہ نے تیرا خواب سچا کر دیا تو تیرے گھر میں نورِ نبوت اترے گا اور اس کا نور ہر سو پھیل جائے گا۔ خواب کی تعبیر پانے کے بعد آپ کے دل و دماغ اور رگ وریشے میں حضورﷺکا خیال مزید جاگزیں ہو گیا۔ جسے ان کی راز دار اور سہیلی نفیسہ بنت منیہ نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ (جاری ہے)
0 comments:
Post a Comment