عمران ظہور غازی
10دسمبر ، انسانی حقوق کا عالمی دن ہے۔ اس دن دنیا بھر میں انسانی حقوق پرسمپوزیم اور سیمینارہوتے ہیں، اخبارات ایڈیش چھاپتے ہیں اور رسائل و جرائد انسانی حقوق پر لکھتے ہیں۔ اینکرز ان پر گفتگو کرتے ہیں اور انسانی حقوق کی نئی جہتیں تلاش کی جاتی ہیں۔
انسان دنیا میں آتا ہے تو چند حقوق لے کر آتا ہے یہ اور بات ہے کہ دنیا نے اس کو یہ حقوق کبھی دیئے اور کبھی غصب کئے ۔یہ حقوق انسان کی عظمت، ترقی ، سربلندی اور رفعت کا ذریعہ ہیں ۔ ان کے بغیر انسانی زندگی ذلت و پستی سے نہیں نکل سکتی۔
اہل مغرب میں انسانی حقوق کا متعین اور منضبط تصورعملاً اٹھارویں صدی کے آخر میں امریکہ اور فرانس کے دساتیر اور اعلانات سے ہی ملتاہے ۔اس سے پہلے مغرب میں انسانی حقوق کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اس کے بعد مختلف ممالک کے دساتیر میں اس کا ذکر کیا گیا ۔ پھر یہ کہ ان حقوق کا غلغلہ توبہت ہوامگر اصل حقیقت یہ ہے کاغذ پر تو یہ حقوق دیئے گئے مگر زمین پر نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان حقوق کے پیچھے نہ تو کوئی سند ہے اور نہ کوئی قوت نافذہ، صرف خوشنما دعوے اور خواہشات ہیں۔ جبکہ اسلام نے جو انسانی حقوق کا منشور قرآن میں دیا اور جسے حضوراکرم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا۔ وہ اس سے بھی قدیم تر ہے اور امت مسلمہ کے لیے اعتقاد ، اخلاق اور مذہب کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ مسلمان اپنے اعمال کی سند اور قبولیت کے لیے قرآن اور تعلیمات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پابند ہیں۔
انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور واضح، نمایاں اور دو ٹوک ہے۔ اسلام نے فردا ور گروہ کے حقوق کا الگ الگ تعین کیا ہے۔ جن کے حقوق غصب کئے گئے اسلام نے ان کا ساتھ دیا اور جنہوں نے یہ حقوق دبائے ان پر تنقید بھی کی اور انہیں اخروی ناکامی بار ے میں بھی بتایا۔ معاشرہ کو انسانی ہمدردی، غمگساری، اور بہتر سلوک کی تلقین کی۔ قرآن و سنت، انسانی حقوق کو بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ قرآن بنیاد بنتا ہے تو حدیث تشریح و توضیح کا ذریعہ۔ اخلاق اور قانون کا رشتہ بہت مضبوط اور گہرا ہوتا ہے۔ اگر کسی فرد یا معاشرہ میں اخلاقی حس پوری طرح بیدار ہوجائے تو و ہ قانون سے زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ اسلام اس حس کو متحرک اور بیدار کرتا ہے ۔ جب یہ حس متحرک اور بیدار ہوتی ہے ، انسان خود بخود قانون پر عملدر آمد کرتا چلا جاتا ہے۔یہ ایک خواہ مخواہ کا پروپیگنڈا ہے کہ اسلام کے نافذ ہونے سے انسانی حقوق مجروح اور پامال ہوں گے اور اسلام انسان کو حقوق فراہم نہیں کرتا۔ حالانکہ مغرب کے اس تصور سے قبل اسلام نے انسان کو وہ حقوق عطا کیے جن سے مغرب کے نام نہاد اور مہذب ممالک شاید آگاہ بھی نہیں تھے۔ لیکن اہل مغرب کا تعصب اور کم ظرفی ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں اس طرح کا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔
منشورانسانی حقوق کو ۱۷۹۱ء میں فرانس کے آئین میں شامل ہونے سے معلوم ہوا کہ وہ صرف فرانسیسی عوام کا منشور حقوق ہے۔ یہی کیفیت برطانیہ کی ہے۔برطانیہ کے غیر تحریری دستور میں جو حقوق برطانوی شہریوں کو حاصل ہیں وہ اس کی نو آبادیات میں رہنے والوں کو کبھی حاصل نہیں ہوسکے۔ امریکہ کا حال برطانیہ اور فرانس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ امریکہ کے سفید فام نو آباد کاروں نے امریکہ کے اصل باشندوں ریڈ انڈینز(Red Indians)کی نسل ہی صفحہ ہستی سے مٹاڈالی اور بر اعظم افریقہ سے سیاہ فام باشندوں کو جانوروں کی طرح پکڑ پکڑ کر لایا گیا اور آج تک انہیں مساوی حقوق نہیں دیے۔ اہل مغرب پوری دنیا میں انسانی حقوق کے علمبردار نظر آتے ہیں لیکن ان کا عمل اس کا غماز نہیں ۔ ان کا تصور بنیاد ی حقوق ان کے نظریہ قومیت اور نسلی امتیاز تک محدود ہے۔ وہ اپنی قوم یا سفید فام نسل کے لیے جن بنیادی حقوق کو چاہتے ہیں دوسری قوموں یا نسلوں کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔علاوہ ازیں ہیرو شیما ، ناگاساکی، ویت نام ، کمبوڈیا ، مشرق وسطیٰ ،عراق اور افغانستان میں جا بجا امریکہ کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ اسی طرح کی کیفیت روس کی بھی رہی ہے۔ جہاں پونے دو کروڑ انسان سرخ سویرے کے جلوہ گر ہونے پر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔اس کے بعد کتنے ہی ملک خون میں نہلائے دیئے گئے۔ وہ بھی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔
۱۰ دسمبر ۱۹۲۸ کو اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا عالمی منشور کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ کا چارٹر تو شاندارہے مگر ان پر عملدر آمد ندارد ہے۔ چارٹر بنانے والے اپنے مفادات کے تابع ہیں۔ طاقتور اس کی پاسداری نہیں کرتا۔ امریکہ ، برطانیہ ، روس، بھارت اور اسرائیلی مفادات کے سامنے کوئی چارٹرکام نہیں آتا۔ اقوام متحدہ حقوق انسانی کا محض اعلان کرتا ہے ۔اس کے منشور تلے انسانی حقوق کا قتل عام جاری ہے۔ ترقی یافتہ اور مہذب کہلانے والے ممالک اس کا پا س کرنے کو تیار نہیں۔ اقوام متحدہ ضابطے اور قانون تو بناتی ہے مگر ان پر عملدر آمد کا اختیار نہیں رکھتی۔ اس کے ان تمام فیصلوں کے باوجود انسانی حقوق دنیا بھر میں پامال ہوتے ہیں اور یہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر نظر آتی ہے۔ اقوام متحدہ کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ دنیا بھر میں انسانی نسل کشی ہورہی ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے مختلف حصوں بالخصوص کشمیر، آسام ، گجرات میں گزشتہ ساٹھ سالوں سے وسیع پیمانے پر انسانی نسل کشی جاری ہے۔ مگر اقوام متحدہ کاروائی کی استطاعت نہیں رکھتی ۔ اقوام متحدہ کے دلفریب نعرے کہ، سب کو حقوق ، آزادی اظہار کا حق اور حق خود ارادی ملنا چاہیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جبر و تشدد کے خلاف آواز اٹھانے سے اس کی زبان لڑکھڑاتی ہے جمہوریت کے علمبردار اور آزادی کا اعلان کرنے والے خود ان کے خلاف کاروائی کرتے ہیں۔
اسی طرح اہل یورپ اور امریکہ کا یہ نعرہ کہ اکثریت جو بات کہہ دے وہ حرف آخر ہے اس کو قبول کرو لیکن اگر وہی اکثریت الجزائر اور فلسطین میں برسر اقتدار آجائے تو ناقابل قبول اور ناپسندیدہ بن جاتی ہے۔ یہ ہے مغرب کا دوغلہ پن ہے، جو اس نے دنیاکے ساتھ روا رکھا ہواہے۔
دور حاضر میں اہل مغرب اور مغربی حکومتوں نے جب جب چاہا انسانی حقوق کو نظر انداز اور پامال کیا اور اپنی ظالمانہ کاروائیاں جاری رکھیں۔ دور حاضر میں امریکہ نے بنیادی انسانی حقوق کو کمزور قوتوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا۔ انہیں مسلسل دباؤ میں رکھ کر سیاسی و معاشی فوائد حاصل کئے اور جب چاہا اپنے آپ کو بالاتر سمجھ کر ان حقوق کی بے دریغ پامالی کی۔عراق اور افغانستان میں جارحیت کی گئی۔ ابو غریب جیل، بگرام ایئر بیس اور گوانتانامو میں انسانی حقوق کی پامالی کے نئے اور دلخراش پہلو سامنے آئے۔ اسی طرح بھارت نے کشمیر میں اور اسرائیل نے فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی کی وہ داستانیں رقم کی ہیں ،جن کے سامنے چنگیز و ہلاکو بھی شرماجائیں۔ سیکولر ازم اور جمہوریت کا دعویدار گزشتہ 60سال سے کشمیر ی ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ گزشتہ 20سال سے کشمیری جدوجہد کے نئے میدان میں اترے ہیں او انہو ں نے کشمیر کی آزادی کے لیے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اسی طرح اہل فلسطین نے اسرائیلی مظالم کے خلاف جس صبر و استقامت ، حوصلے اور جذبے کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی تاریخ کا انمٹ باب ہے۔ فلسطینیوں کے گھر جلائے گئے۔ ، کھیت اور کھلیان برباد کئے گئے۔ اشیاء خوردونوش پر پابندی لگائی گئی۔ کاروبار اور معیشت تبا ہ کی گئی۔ لاکھوں بچے ، بوڑھے اور جوان قتل کئے گئے۔ مگر انسانی حقوق کی ان پامالیوں کے خلاف ان کا جذبہ مات نہیں ہوا۔ اسرائیل جدید اسلحہ اور امریکی اشیر باد کے باوجود وہ نتائج حاصل نہیں کرپایا جس کے لیے اس نے اتنے جتن کئے۔ اہل مغرب نے بھی اس ضمن میں دوہرے معیار کے ساتھ اسرائیل کی پشت پناہی جاری رکھی ۔
انسانی حقوق پر بلا امتیاز عملدر آمد ہو تو اس سے انسانیت کا بھلا ہوسکتا ہے مگر تعصب ، ہٹ دھرمی اور بے جاحمایت اور اپنے مفادات کے تابع ہو کر انسانیت کو تباہ و برباد تو کیا جاسکتا ہے مگر فائدہ نہیں پہنچایا جاسکتا۔
1 comments:
بہت اچھا آرٹیکل ہے۔ اللہ آپ کو جزا دے
Post a Comment