Tuesday, 19 February 2013

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں ۔ زلزلہ 2005

| |
۔ 8 اکتوبر کادن اور رمضان المبارک کی مبارک ساعتیں تھیں، ابھی صبح کے لمحات تھے ،بچے بوڑھے اور جوان اپنے اپنے کام کاج کے لئے منزل مقصود کی طرف رواں دواں تھے ،بعض دفاتر لگ چکے تھے، سکولز و کالجز میں تعلیم و تدریس کا آغاز ہوگیا تھا اور بازار و دوکانات سج رہے تھے کہ ایسے میں زمین اس شدت سے ہلنے لگی جیسے کوئی پکڑ کر جھنجھوڑ رہا ہے۔ جھٹکے اتنے شدید تھے کہ راہ چلتے لوگ بھی اس شدت کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے۔ چند لمحوں میںآزاد کشمیر اور سرحد کے رہنے والے قیامت سے گذر گئے ۔ آناً فاناً بڑی بڑی عمارات زمین بوس ہوگئیں۔ اسلام آباد جیسے ماڈل سٹی میں مارگلہ ٹاور ز منہدم ہوا، دوکانات و بازار ،سرکاری عمارات اور گھر سب کچھ اس زلزلے کی نذر ہوگیا۔آج جب کشمیر و سرحد میں اس زلزلے نے انسان کے ہوش و حواس کو شل کردیا ہے ، اس کو عذابِ الہٰی کے علاوہ کچھ اور سمجھنا کتنی سادہ لوحی اور حقائق سے منہ موڑنے کے مترادف ہے ۔ اﷲ کی اس نشانی اور تنبیہہ کے بعد غفلت سے بیداری کا سفر شروع ہوجانا چایئے۔انفرادی اور اجتماعی سطح پر رجوع الیٰ اﷲ اور توبہ و استغفار کی جانب متوجہ ہونا ہی دراصل آفاتِ سماوی سے نجات کا ذریعہ ہوگا۔
گزشتہ دنوں چنداحباب کے ہمراہ زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں جانے کا موقعہ ملا۔ یہ مختصر سا قافلہ مظفر آباد کے لئے براستہ ٹیکسلا ، حویلیاں اور ایبٹ آباد روانہ ہوا۔ حالیہ زلزلوں سے ایبٹ آباد بھی متاثر ہوا ہے جہاں منہدم عمارتیں اور عمارتوں میں دراڑیں اس کا پتہ دے رہی ہیں۔عام لوگ جس جذبے کے ساتھ ریلیف کے کام میں مصروف ہیں اس کی جھلک بھی راستے میں دیکھنے کو ملی۔بالا کوٹ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے ۔ شہر میں نسبتاً بچت رہی ہے جبکہ بالاکوٹ مکمل طور پر صفحہ ہستی سے نابود ہوگیا ہے ۔راستے میں تباہ شدہ بستیوں کے لوگوں کے غول کے غول سڑک کے دائیں باےءں دیکھنے کو ملے۔ حکومت کی جانب سے جتنے دعوے ٹی وی اور اخبارات میں کیے جارہے ہیں یہاں اس کی تصدیق کرنا کافی مشکل ہورہا تھا۔
مانسہرہ سے گڑھی حبیب اﷲ کی جانب بڑھے تو مختلف جگہوں پر الخدمت اور جماعت اسلامی ،اقوامِ متحدہ ،ایرانی حکومت اور کچھ دیگر این جی اوز کے کیمپ نظر آئے جو امداد کے کام میں لگے ہوئے تھے۔ ایک تھکا دینے والے سفر اور جگہ جگہ گری ہوئی عمارات کے ڈھانچے دیکھتے ہوئے ظہر کے لگ بھگ مظفر آبادپہنچے۔ جہاں شیخ عقیل الرحمن ، شیخ ابراہیم رضا اورسلیم شاہ سینکڑوں کارکنان کے ہمراہ کام میں مصروف تھے۔ اس زلزلہ میں شیخ عقیل الرحمن کے جواں سال صاحبزادے سمیت 25کے لگ بھگ خاندان کے لوگ شہادت پاگئے، شیخ عقیل الرحمن نے بتایا کہ مظفر آباد 8لاکھ آبادی کا شہر تھا۔۔۔95فیصد مکانات منہدم ہوگئے ہیں۔جبکہ دیہات میں کوئی مکان نہیں بچا۔یہاں کسی کا کوئی اثاثہ نہیں بچا۔ لاشوں کے انبار ہیں جن کو دفن کرنے والا کوئی نہیں ۔ زخمی ہیں جن کے علاج کی کوئی صورت نہیں۔ایک محتاظ اندازے کے مطابق ایک لاکھ لوگ زلزلے کی نذر ہوگئے ہیں۔ ابھی لاشیں عمارات کے ملبے میں دفن ہیں، کوئی ان کو نکالنے والا نہیں اور جن کو نکالا گیا ہے ان کے لئے کفن کا بندوبست نہیں ہے ۔ حکومت آزاد کشمیر ختم ہوگئی ہے ۔ پولیس ، فوج اور دیگر ادارے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور عوام اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہے ہیں۔حکومتی امداد ابھی تک نہیں پہنچ سکی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے ریلیف سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لئے مظفر آباد شہر کو 8حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔اب تک سامانِ خوردو نوش اور دیگر اشیاء کے سینکڑوں ٹرک پہنچے ہیں لیکن یہاں سب سے زیادہ خیموں کی ضرورت ہے کیونکہ لوگوں کا بسیرا گھروں کی بجائے کھلے آسمان تلے ہے اور آنے والے دنوں میں موسم کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ خواتین بہت زیادہ خوفزدہ ہیں کیونکہ زلزلے کے جھٹکے وقفے وقفے سے آرہے ہیں۔
شیخ صاحب بتا رہے تھے کہ لوگ امداد وصول کرنے آرہے ہیں مگر بعض ایسے سفید پوش ہیں جو ہاتھ نہیں پھیلا سکتے ۔اس میں سول بیوروکریسی ،ججز اور دیگر لوگ شامل ہیں۔ایک سول جج ملے جو اپنے گھر کے ملبے کے پاس خیمہ لگاکر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے پاس کھانے پینے کیلئے کچھ نہیں تھا۔اس طرح گل خنداں سابق وزیر ہیں ان کے پاس سامان خوردو نوش نہیں تھا، کہنے لگے میرے اور میرے بچوں کے پاس کچھ نہیں ہے ۔شیخ ابراہیم ضیاء کی جواں سال صاحبزادی یونیورسٹی میں MScکی طالبہ تھی جو ملبے تلے دب گئی۔سلیم شاہ کے خاندان کے کتنے ہی لوگ اﷲ کو پیارے ہو گئے۔۔۔۔یہ سب لوگ زخمی دلوں کے ساتھ ریلیف کے کام میں مصروف ہیں۔
اﷲ اپنے بندوں کو آزمائش میں ڈال کر کھرے کھوٹے کی پہچان کرتا ہے ۔زلزلہ بھی اﷲ کی آزمائش میں سے ایک آزمائش ہے ،اﷲ نے انسان کو آزمائش کے لئے دنیا میں بھیجا ہے جو اس آزمائش میں صبر اور حوصلے سے کام لیتا ہے وہ قربِ خداوندی حاصل کرلیتا ہے ۔
PIMA کے تحت قائم عارضی خیمہ ہسپتال کا دورہ کیا جہاں ڈاکٹر سعید ربانی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ زخمیوں کی طبی امداد میں مصروف تھے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ جس محنت ، لگن اور حوصلے کے ساتھ مسیحائی کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے وہ بہت خوش آئند اور حوصلہ بخش ہے۔ہسپتال کے بالکل ساتھ ہی وسیع پیمانے پر طعام کی تیاری کاکام جاری تھا۔ایک طرف متاثرین میں کھانا تقسیم کیا جا رہا تھا اور دوسری طرف کچھ لوگ اپنے گھروں کے لئے راشن حاصل کررہے تھے۔ یہاں سے چلے تو سامنے اجڑا ہوا مظفر آباد تھا جس کی عمارات نوحہ کناں تھیں اور مکین فریاد و فغاں کرکے خاموش ہوچکے تھے۔پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا۔ ہم ایک طر ف سے شہر میں داخل ہو ئے۔دریائے نیلم کے کنارے موجود نیلم ویو ہوٹل کی عمارت مکمل طور پر منہدم ہوگئی ہے اور اس کی مالکہ شیریں وحیداور اس کا پورا خاندان اس کے ملبے میں دفن ہوگیا ہے ، یاد رہے کہ شیریں وحید آزاد کشمیر حکومت میں وزیر تھیں۔
اب ہم شہر میں داخل ہوچکے تھے ۔راستے میں آنے والی عمارات بے بسی و بے چارگی کی منہ بولتی تصویریں تھیں۔۔۔یہ آزاد کشمیر یونیورسٹی ہے جہاں زندگی باقی نہیں بچی، کتنے ہی طلبہ اور اساتذہ اس میں دفن ہوگئے۔یہ گرلز کالج ہے جہاں تعلیم و تعلم کاسلسلہ جاری تھا،150طالبات ملبے تلے دب گئیں جن میں 35زندہ جبکہ 15لاشیں نکالی جاسکی ہیں۔یہ ایک سکول ہے جہاں سے بچوں کی آوازیں آنا ختم ہوگئی ہیں ، مدد مدد پکارتے بچے مکمل خاموش ہوچکے ہیں۔یہ مظفر آباد ہسپتال ہے جہا ں اب کوئی موجود نہیں ہے ،نہ ڈاکٹر نہ مریض،نہ جانے سب کہاں چلے گئے ہیں۔یہ سول سیکرٹریٹ کی عمارت ہے جو ملبے کا ڈھیر بن گئی ہے ،گاڑیاں تک ملبے کے نیچے دب گئی ہیں اور اپنے رعب کا جھوٹا سکہ چلانے والے کہیں نظر نہیںآرہے ۔
یہ ملٹری کمبائنڈ ہسپتال ہے جومکمل منہدم ہوگیا ہے ۔ سپریم کورٹ ،بنک سکوائر،جی پی او ، جیل سب ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں۔۔۔جہاں کل رونق ، خوشی تھی آج صفِ ماتم ہے ،کتنی دلدوز تصویریں ہیں جو جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ’آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں‘والی کیفیت ہے ۔ پورا شہر سنسان ہے ،چہار سو ویرانے کا منظر ہے ،تعفن کی کیفیت ہے مگر حاکمانِ شہر کہیں نظر نہیں آتے ۔وزریر اعظم آزاد کشمیر نے درست ہی کہا تھاکہ میں اب قبرستان کا وزیر اعظم ہوں۔
مظفر آباد کے بازاروں میں نکلے تو معلوم ہوا کہ پورے پورے بازار ملیامیٹ ہوگئے ہیں۔ یہ مدینۃ بازار ہے جہاں نہ دوکانات محفوظ ہیں اور نہ دوکاندار۔۔۔یہ عید گاہ روڈ ہے ،اب وہاں کچھ نہیں۔۔۔اپر اڈہ،اولڈ سیکرٹریٹ،چھتر پولیس لائن اور گوجرہ سب کسمپرسی ،بے بسی اور بے چارگی کا عنوان ہیں۔جہاں کل زندگی تھی آج موت کے سائے ہیں۔ یہ قدرت خداوندی ہے اسے کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔
اور شام کو یہ قافلہ عازمِ دھیر کوٹ ہوا۔ راستے میں جابجا سڑک ٹوٹی ہوی ہے اور ریلیف کاسامان لے کر آنے والے ٹرک اور مزدے مظفر آبادکی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔جابجا کھڑ ے لوگ کسمپرسی کی تصویر معلوم ہوتے ہیں۔سڑک پر آکر ہاتھ پھیلانے والوں میں اکثریت پیشہ ور لوگوں کی ہے ۔ مستحقین اپنے گھروں کے آس پاس ہی ہیں۔انفرادی طور پر ریلیف کا سامان لے کر جانے والے مختلف احباب سے بھی ملاقات ہوئی جن کا کہنا تھایہاں انفرادی طور پر سامان لانا آسان نہیں جبکہ مستحقین تک پہنچاناتو اور زیادہ مشکل ہے ۔
دھیر کوٹ شہر کافی حد تک محفوظ رہا ہے مگر اس کے اردگرد کی آبادیاں کافی متاثر ہیں۔ رات کا قیام راجہ منظور حسین کے ہاں کوٹلی دھیر کوٹ میں تھا۔ جہاں راجہ منظورحسین اور ڈاکٹر غلام قادر ہمارے منتظر تھے۔ راجہ صاحب کی اپنی فیملی اس زلزلے سے متاثر ہوئی ہے مگر ا س کے باوجودوہ ہمت ،حوصلے اور جذبے کے ساتھ مصروفِ کار تھے۔ رات کو جب ہم سونے لگے تو میزبان نے کہا کہ دروازہ کھلا رکھیں تاکہ اگر رات کسی وقت زلزلہ آئے تو باہر نکلنے میں آسانی رہے۔ صبح سحری کے لئے اٹھے تو ٹھنڈے یخ پانی سے وضو کرنے سے متاثرین کی مشکلات کا اندازہ ہوا۔دھیر کوٹ میں سردی کی شدت مظفر آباد اور باغ سے کہیں زیادہ تھی۔ جو لوگ زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں وہ بے سروسامانی کے عالم میں خیموں میں قیام پذیر سخت سردی سے نبرد آزما ہیں۔اس دوران مقامی لوگوں کے ایک وفد سے ملاقات ہوئی ۔ یہ سارے لوگ زلزلہ سے متاثر تھے ۔ ان کاکہنا تھا کہ ریلیف کاسامان حقیقی متاثرین تک نہیں پہنچ رہا۔اس کو حقیقی متاثرین تک پہنچانے کی ضررت ہے ۔ راستوں پر کھڑے لوگ حقیقی متاثرین ہیں ہیں۔ اور ان میں پیشہ ور لوگ بھی شامل ہوچکے ہیں۔ جو امدادی سامان کو راستے سے اچک لیتے ہیں۔
یہ قافلہ باغ کے لئے روانہ ہوا تو دھیر کوٹ سے غازی آباد تک کا راستہ کافی خراب ملا،بارش نے اسے مزید خراب کردیا تھا۔ جگہ جگہ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ بعض جگہ درخت گرے ہوئے تھے جن کو کاٹ کر ٹریفک کے گذرنے کااہتمام کیا گیا تھا۔ اس جانب امدادی سامان لے جانے والے ٹرکوں کا بے حد رش تھا۔،اکا دکا ٹرک انفرادی طور پر مدد کے لئے جانے والوں کے بھی نظڑ آرہے تھے۔ راستے میں بڑے دلگداز مناظر دیکھنے میں آئے۔ بستیوں کی بستیاں تباہی و بربادی کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ سڑک کے دائیں بائیں شائد ہی کوئی عمارت ہو گی جو محفوظ رہی ہو۔
باغ شہر مظفر آباد کی طرح مکمل طور پر تباہ ہوگیاہے۔ یہ عثمان انورہیں، والدہ محترمہ اور بیٹے کو دفن کر کے یہاں خدمت میں مصروف ہیں اور خودبھی بڑی مشکل سے زندہ بچے ہیں،کتنی دیر ملبے کے نیچے دبے رہے گویا اﷲ نے نئی زندگی دی ہے ۔ تنویر خان کا بھی یہی معاملہ ہے ۔
ہر کارکن غم اندوہ کی کیفیت سے گذرا ہے مگر اﷲ کی رضا اور خوشنودی نے صبر کا درس دیا ہے اور اب سب حوصلے ،جذبے اور ہمت کے ساتھ ریلیف کے کام میں مصروف ہیں۔یہاں ایک سکول دیکھاجہاں دو سو کے لگ بھگ بچے ملبے تلے دفن ہیں، کتابیں اور بستے بکھرے ہوئے پڑے ہیں، آہوں اور کراہوں کی آوازیں آنا اب بند ہوئی ہیں،چند ایک لاشیں نکالی جاسکی ہیں،لاشیں نکالنے کے لئے بھاری بھرکم مشینری کی ضرورت ہے جو یہاں دستیاب نہیں، کتنی لاشیں اب بھی ملبے کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔
انسان کی بے بسی و بے چارگی کا اس سے بڑھ کر کیا عالم ہوگاکہ اپنے پیاروں کی چیخیں سنتا ہے مگر ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا؟اور حکومتی امداد کے دعوے ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتے!
4لاکھ35ہزار آبادی کا شہر ہے ۔ 20سے 25ہزار لوگ اﷲ کو پیارے ہوگئے اور تقریباً30سے 40ہزار شدید زخمی ہیں۔اور کتنے یہ ایسے ہیں جو اب بھی نزع کے عالم میں ہیں۔دن تک لوگ اپنے گھروں سے نہیں نکل پائے۔راولپنڈی سے PiMAکے ڈاکٹر محمد اعظم نے اپنے رفقاء کے ہمراہ عارضی ہسپتال قائم کیا اور مسلسل آپریشنز میں مصروف ہیں۔ تنویر خان ریلیف انچارج ہں۔ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ختم ہونے کے بعدنہ کوئی ہسپتال ہے اور نہ ڈاکٹر ۔۔۔پیما کے تحت قائم کردہ عارضی ہسپتال ہی سب سے بڑا ہسپتال ہے جہاں سینکڑوں آپریشن کیے گئے ہیں۔خوش کن بات یہ ہے کہ یہاں کسی کی موت نہیں ہوئی۔بجلی کا نظام درہم برہم ہونے کی وجہ سے جنریٹر کے ذریعے کام چلایا جا رہا ہے ۔اب تک 1500کے لگ بھگ ریلیف کے سامان کی گاڑیاں ہم تک پہنچی ہیں جنہیں تقسیم کیا گیا ہے ۔500خیمے تقسیم کیے گئے ہیں۔5دن سے 100دیگیں پک رہی ہیں جو مستحقین میں تقسیم ہو تی ہیں۔ اس وقت زیادہ سے زیادہ خیموں کی ضرورت ہے کیونکہ لوگوں کے گھر مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ اور انہین سر چھپانے کے لئے جگہ بھی میسر نہیں ہے ۔علاوہ ازیں ضرورت ہے کہ تمام سامان پیک ہوکر آئے تاکہ تقسیم میں دقت نہ ہو۔
یہاں سے فارغ ہوئے تو خیموں میں قائم ہسپتا ل دیکھا جہاں سرجیکل وارڈ میں مختلف مریض آپریشن کے بعد موجود تھے جبکہ ساتھ ہی آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹرز کی ٹیمیں آپریشن میں مصروف تھیں۔یہاں ڈاکٹر محمد اعظم نے تفصیلی بریفنگ دی ۔ یہیں پر ملک محمد رمضان وہاڑی اور ارشاد چیمہ رفقاء کے ساتھ مصروف کار نظر آئے۔یہاں فارغ ہونے کے بعد شہر دیکھنے نکلے ۔ باغ شہر میں داخل ہونے کا ذریعہ ایک پل ہے جو مکمل طور پر محفوظ رہا۔ تمام ٹریفک اسی پل کے ذریعے آجا رہی ہے اور بے حد رش ہونے کے باعث گھنٹوں رکی رہتی ہے ۔ ضرورت ہے کہ اس پل کے نیچے سے عارضی راستہ بنادیا جائے ،نالے میں پانی کم ہونے کے باعث یہاں سے ٹریفک بآسانی گزر سکتی ہے ۔
باغ شہر میں بھی ہر طرف تباہی کا سماں ہے۔ یہ تھانہ باغ کی عمارت ہے جس کا نام و نشان مٹ گیا ہے اور اب مکمل ملبے کا ڈھیر ہے ۔یہ گورنمنٹ کالج باغ ہے جہاں کبھی تعلیم وتدریس کا عمل ہوتا تھا اب یہاں کوئی طالب علم نہیں ہے ،ڈیسک اور بنچ الٹے پڑے ہیں اور اب یہاں آرمی کے ہیلی کاپٹر اترتے نظر آتے ہیں۔یہ باغ کی جامع مسجد ہے ۔ اس کی عمارت اور مینار کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔آدھا مینار موجو د ہے جبکہ آدھا مینار گر چکا ہے ۔باغ شہر کے ساتھ ساتھ دیہاتی علاقہ زیادہ متاثر ہے۔ جہاں سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں،لوگ اپنا سامان اٹھائے سڑک پر پیدل چلتے نظر آتے ہیں۔ٹریفک نہ ہونے کے برابر یہ ۔ اڈہ پر شدید رش ہے مگر کوئی گاڑی نظر نہیں آتی۔یہ باغ کا بازار ہے جہاں کچھ دوکانیں موجو د ہیں بکھرا ہوا سامان ہے مگر بیچنے اور خریدنے والاکوئی نہیں ہے ۔یہیں بازار میں پی پی کے سابق وزیر قمر الزمان چوہدری ، چوہدری یٰسین ، چوہدری پرویز اور سابق سپیکر چوہدری مجید بھی نظر آئے۔یہیں جامعہ الخیریۃ اہلحدیث کی عمارت نظر آئی لیکن جگہ جگہ سے دراڑیں پڑی ہوئی ہیں۔باغ شہر میں کوئی عمارت سلامت نظر نہیں آتی۔باغ شہر دیکھنے کے بعد اب راؤلاکوٹ کا قصد ہے راستے میں کتنے ہی گھر منہدم نظر آئے۔ گھر کے لوگ باہر خیمہ نصب کر کے بیٹھے ہیں اور امداد کے منتظر نظر آتے ہیں۔ غنی آباد گاؤں میں بہت تباہی ہوئی ہے ۔ لب سڑک مسجد خورشید میں جمع بین الصلاتین اختیار کرتے ہوئے نمازِ ظہرو عصر ادااکٹھی ادا کی گئیں۔
مسجد کے پاس ہی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل آزاد کشمیر کا گھر تھا۔ جو مکمل طور پر منہدم ہو چکا تھااورپاس ہی مکان کے مکین خیمہ لگائے ہوئے تھے۔راؤلا کوٹ میں داخل ہوئے تو محسوس ہوا کہ یہ شہر کافی حد تک محفوظ رہا ہے ۔ چند سرکاری عمارتیں منہدم ہوئی ہیں جن میں بوائز و گرلز ڈگری کالج،سی ایم ایچ اور جی پی او کی عمارتیں مکمل زمین بوس ہوگئی ہیں۔
راؤلاکوٹ میں سی ایم پلازہ دیکھاجس کی تین منزلہ عمارت مکمل طور پر منہدم ہوگئی ہے ۔ ایسے لگتا ہے کہ کسی نے خود گرایا ہو۔ ویسے بحثیت مجموعی شہر محفوظ رہا ہے ۔ البتہ مکانات اور دوکانات میں دراڑیں پڑ گئی ہیں، دیہاتی علاقے میں نقصان زیادہ ہوا ہے ۔حلیم خان نے بتایا کہ 2000کے لگ بھگ لوگوں کی ہلاکتوں کی اطلاع ملی ہے ۔ جب کہ تقریباً 30سے 40ہزار لوگ زخمی ہوئے ہیں۔متاثرین تک سامان پہنچانے کے لئے سروے ٹیمیں بنائی گئی ہیں جو گھر گھر پہنچ کر معلومات حاصل کر رہی ہیں۔یہاں کپڑوں کے بجائے خیموں ، بستروں اور خوراک کی زیادہ ضرورت ہے ۔ حکومت آزاد کشمیر نے ابھی تک امداد کے ضمن میں کچھ نہیں کیا ۔ چند خیمے فوج نے دیے ہیں وہ بھی ریٹائرڈ فوجیوں کے ذریعے سے ۔ Pima کے تعاون سے ایک ہسپتال قائم کیا گیا ہے ۔جہاں مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے ۔یہاں سے سیدھے سردار اعجاز افضل کی رہائش پر پہنچے جہاں کھانے کا اہتمام تھا۔ تمام احباب نے نمازِ مغرب ادا کی اور یہ قافلہ عازمِ اسلام آباد ہوا اور رات اسلام آباد پہنچا۔
یہ دو دن کا ایک سفر تھا مگرا یسا سفر جس نے دل و دماغ کو نہ صرف جھنجھوڑ کر رکھ دیابلکہ غور و فکر کا در وا کیا کہ انسان کی زندگی اور اسکو حاصل ہونے والی نعمتوں کی حیثیت ایک پرکاہ کے برابر بھی نہیں۔۔۔اور کوئی بھی اﷲ کی گرفت اور پکڑ سے دور نہیں۔چاہے وہ اپنے آپ کو کتنا محفوظ تصور کرے اور کتنا ہی بندو بست کرتا پھرے۔وقت کی پکار یہی ہے کہ پوری قوم رجوع الی اﷲ کرے،اپنے گناہوں کی اﷲ سے گِڑگڑا کر معافی مانگے اور استغفار کرے،اور یہ عمل انفرادی بھی ہو اور اجتماعی بھی
پس اے دیدہ بینا رکھنے والو عبرت پکڑو!