فلسطین میں حماس کامیاب ہوئی ہے اور اسے فلسطینیوں کی نمائندگی کا حق ملا ہے تو مغرب کے دوہرے معیار ، جمہوری رویے اور اقدارکھل کر سامنے آگئے ہیں، مغرب کی مرضی و منشا کے خلاف جمہور رائے دیں تو وہ ان کو قبول نہیں چاہے الجزائر ہو یا فلسطین ،عوامی پسند کے بجائے انکی پسند کے لوگ آئیں تو پسندیدہ ، کتنا تضاد ہے مغرب کے جمہوری رویوں میں۔ آج حماس فلسطین میں عوام کی نمائندہ بن کر سامنے آتی ہے تو ا س پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے اور دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ حماس حکومت تسلیم کریں گے جب حماس یتھیار ڈال دے گی اور اسرائیل کو تسلیم کرلے گی۔ کتنا ظالمانہ دباؤ ہے جو حماس پر ڈالا جارہا ہے۔ حماس تو منتخب ہی اس لیے ہوئی کہ انہوں نے جہاد جاری رکھا ہوا ہے اور اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ حماس نے واضح کہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا اور جہاد ترک کرنا اور ہتھیار رکھنا ہماری حکمت عملی نہیں ہے۔
آج حماس کے اقتدار میں آتے ہی ان کی مدد بند کردی گئی ہے، ان کی اپنی جمع کردہ رقوم بھی ان تک نہیں پہنچنے دی جارہی ہیں۔ فلسطین میں لوگ ضروریات زندگی سے محروم ہیں ۔ملازمین کے لیے تنخواہیں، ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے ادویات اور غذا کی کمی جیسے مسائل عام ہیں،دردناک مناطر ہیں اور اموات جاری ہیں۔ جماعت اسلامی نے کڑے وقت میں 3کروڑ کی ابتدائی رقم سے اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے فنڈ قائم کیا ہے ۔ آج ضرورت ہے کہ اس مشکل وقت میں پاکستانی عوام اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ مسلمان حکومتین فلسطینیوں کا ساتھ دیں ۔ امت کے لیے کثھ مشکل نہیں کہ ڈیڑھ ارب مسلمان اپنے 60لاکھ فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے آئیں اور اپنا نوالہ انکے ساتھ تقسیم کریں۔ فلسطینی ہماری جنگ لڑرہے ہیں ۔ہمارے مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہیں، امت پر ان کا حق ہے۔
قاضی حسین احمد نے کہا کہ علامہ یوسف القضاوی کی دعوت پردنیا کی اسلامی تحریکوں کے نمائندے قطر میں جمع ہوئے جہاں پاکستان کی نمائندگی میں نے اور عبد الغفار عزیز نے کی فلسطینی عوام کے رہنما خالد مشعل اور دیگر فلسطینی رہنما بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔ اسماعیل ہنیہ وزیرا عظم فلسطین نے کانفرنس سے ٹیلیفونک خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کی مددامت کا فرض ہے۔ فلسطینی عوام کوان کے جمہوری فیصلے کی سزاد ی جارہی ہے۔ لیکن ہمارا نعرہ ہے۔۔۔
’’ بھوک قبول ہے جھکنا قبول نہیں ہے۔ ‘‘
مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مسجد اقصیٰ پر سودے بازی سے انکار کے نتیجہ میں حماس حکومت کی عوامی تائیداضافہ ہوا
ہے، انہوں نے اپنے موقف کا اعادہ کیا ہے کہ اور کہا کہ جہاد فلسطینی قوم کا حق ہے، جہاد ترک کرنا سر زمین فلسطین سے پیچھے ہٹنا یا دستبردار ہونا حرام ہے۔ فلسطینیوں کا اتحاد سیسی مفادات سے بالاتر رہے گا جو فلسطینی حکومت کے خلاف آواز اٹھائے گا وہ الفتح ہو یا حماس، فلسطینی کا فلسطینی کے ہاتھوں خون ہے، دراصل یہ اسکی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔ مسلمانوں حکومتوں اور حمایتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ صہیونی سازشوں سے خبردار بھی رہیں اور خبردار بھی کریں۔ ، اگر مسلم عوام کو اپنے فیصلے خود نہ کرنے دیے گئے تو پورا خطہ بد امنی کی شدید لپیٹ میں آجائے گا۔ مسلم حکمران صہیونی غاصبوں کا ساتھ دینے کی بجائے ۔مسلم عوام کا ساتھ دیں۔
اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ امت مسلمہ اور انصاف پسند عوام پرامن مظاہروں سے فلسطینیوں کی سیاسی و عوامی تائید کریں اور صہیونی غاصبوں کے خلاف اظہار نفرت کریں، مجھے خالد مشعل کا فون آیاکہ فلسطینی عوام کو امت سے توقع ہے کہ امت ان کا اخلاقی طور پر ساتھ دے، تنہائی کا احساس نہ ہونے دے، فلسطینیوں کو تنہا کرنا عالمی سازش ہے۔ انڈونیشیا، ترکی ، پاکستان، ایران سے ملنے والی تائید سے ہمیں قوت ملی ہے۔ میں نے ان کو یقین دلایا کہ پاکستان عوام فلسطینی بھائیوں کو بھوکا نہیں رہنے دیں گے۔ آپ جب بھی پکاریں گے ہم آپ کے شانہ بشانہ ہوں گے۔
آج حماس کے اقتدار میں آتے ہی ان کی مدد بند کردی گئی ہے، ان کی اپنی جمع کردہ رقوم بھی ان تک نہیں پہنچنے دی جارہی ہیں۔ فلسطین میں لوگ ضروریات زندگی سے محروم ہیں ۔ملازمین کے لیے تنخواہیں، ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے ادویات اور غذا کی کمی جیسے مسائل عام ہیں،دردناک مناطر ہیں اور اموات جاری ہیں۔ جماعت اسلامی نے کڑے وقت میں 3کروڑ کی ابتدائی رقم سے اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے فنڈ قائم کیا ہے ۔ آج ضرورت ہے کہ اس مشکل وقت میں پاکستانی عوام اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ مسلمان حکومتین فلسطینیوں کا ساتھ دیں ۔ امت کے لیے کثھ مشکل نہیں کہ ڈیڑھ ارب مسلمان اپنے 60لاکھ فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے آئیں اور اپنا نوالہ انکے ساتھ تقسیم کریں۔ فلسطینی ہماری جنگ لڑرہے ہیں ۔ہمارے مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہیں، امت پر ان کا حق ہے۔
قاضی حسین احمد نے کہا کہ علامہ یوسف القضاوی کی دعوت پردنیا کی اسلامی تحریکوں کے نمائندے قطر میں جمع ہوئے جہاں پاکستان کی نمائندگی میں نے اور عبد الغفار عزیز نے کی فلسطینی عوام کے رہنما خالد مشعل اور دیگر فلسطینی رہنما بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔ اسماعیل ہنیہ وزیرا عظم فلسطین نے کانفرنس سے ٹیلیفونک خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کی مددامت کا فرض ہے۔ فلسطینی عوام کوان کے جمہوری فیصلے کی سزاد ی جارہی ہے۔ لیکن ہمارا نعرہ ہے۔۔۔
’’ بھوک قبول ہے جھکنا قبول نہیں ہے۔ ‘‘
مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مسجد اقصیٰ پر سودے بازی سے انکار کے نتیجہ میں حماس حکومت کی عوامی تائیداضافہ ہوا
ہے، انہوں نے اپنے موقف کا اعادہ کیا ہے کہ اور کہا کہ جہاد فلسطینی قوم کا حق ہے، جہاد ترک کرنا سر زمین فلسطین سے پیچھے ہٹنا یا دستبردار ہونا حرام ہے۔ فلسطینیوں کا اتحاد سیسی مفادات سے بالاتر رہے گا جو فلسطینی حکومت کے خلاف آواز اٹھائے گا وہ الفتح ہو یا حماس، فلسطینی کا فلسطینی کے ہاتھوں خون ہے، دراصل یہ اسکی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔ مسلمانوں حکومتوں اور حمایتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ صہیونی سازشوں سے خبردار بھی رہیں اور خبردار بھی کریں۔ ، اگر مسلم عوام کو اپنے فیصلے خود نہ کرنے دیے گئے تو پورا خطہ بد امنی کی شدید لپیٹ میں آجائے گا۔ مسلم حکمران صہیونی غاصبوں کا ساتھ دینے کی بجائے ۔مسلم عوام کا ساتھ دیں۔
اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ امت مسلمہ اور انصاف پسند عوام پرامن مظاہروں سے فلسطینیوں کی سیاسی و عوامی تائید کریں اور صہیونی غاصبوں کے خلاف اظہار نفرت کریں، مجھے خالد مشعل کا فون آیاکہ فلسطینی عوام کو امت سے توقع ہے کہ امت ان کا اخلاقی طور پر ساتھ دے، تنہائی کا احساس نہ ہونے دے، فلسطینیوں کو تنہا کرنا عالمی سازش ہے۔ انڈونیشیا، ترکی ، پاکستان، ایران سے ملنے والی تائید سے ہمیں قوت ملی ہے۔ میں نے ان کو یقین دلایا کہ پاکستان عوام فلسطینی بھائیوں کو بھوکا نہیں رہنے دیں گے۔ آپ جب بھی پکاریں گے ہم آپ کے شانہ بشانہ ہوں گے۔