Tuesday, 19 February 2013

ڈاکٹر عبد الحق کے ساتھ ایک شام

| |
اہل علم کے ساتھ گزرے ہوئے چند لمحات بھی بہت قیمتی ہوتے ہیں ، اس لئے کہ ان لمحات میں سیکھنے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں، خود حضورؐ نے اس طرح کی مجالس کو پسند فرمایا اور رغبت بھی دلائی ہے گویا اس اعتبار سے اس طرح کی مجالس بہت معتبر و موقر ٹھہرتی ہیں اس طرح کی مجالس میں شرکت کرکے انسان علم وعمل کے اعتبار سے اپنے آپ کو بہت آگے بڑھا سکتا ہے، اس طرح کے موقع ان مجالس کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ 
گزشتہ دنوں ڈاکٹر عبد الحق معروف ماہر اقبالیات و صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی پاکستان تشریف لائے۔ تواسلامی نظامت تعلیم کے پروفیسر نصیر الدین ہمایوں نے ڈاکٹر عبد الحق کے ساتھ ایک شام گزارنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ بارش اور موسم کی خرابی کے باوجودبہت سے لوگ ڈاکٹر عبد الحق کو سننے کے لیے موجود تھے، نماز عصر کے بعد مجلس سجی ، اور نماز مغرب کے وقفے کے بعد عشاء تک جاری رہی۔ اس نشست میں جناب حافظ محمدادریس ، ملک محمد اشرف، پروفیسر نصیر الدین ہمایوں، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، پروفیسر مسلم سجاد، ، پروفیسر ایوب منیر،عرفان منور گیلانی، محمد وقار ، عبد الخالق محمود اور عبد الوہاب نیازی بھی موجود تھے۔ 
ڈاکٹر عبد الحق نے بتایا کہ مختلف اعدادو شمار کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 20سے 25کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر مسلمان اپنی سادگی اور طبعی سستی کے باعث تعلیمی میدان ہو یا کاروباری میدان میں بہت پیچھے ہیں ۔سقوط ڈھاکہ کے بعد اب آہستہ آہستہ مسلمانوں میں اپنی حالت کے بدلنے کاحساس تیزی سے پیدا ہورہا ہے اور وہ اس کیفیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد پر آمادہ ہورہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ وہ تاریخی کشمکش ہے جو ہندو اور مسلمان کے درمیان پائی جاتی ہے۔ 
بقول اقبال ؂ مسلمان کو مسلمان کردیا طوفان مغرب نے تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
ہندوستان میں غربت کا ذکر چھڑا تو فرمانے لگے کہ وہاں بھی غربت بالکل ایسی ہے جیسی غربت یہاں پاکستان میں ہے، یہاں بھی لوگ فٹ پاتھ پر سوتے ہیں اور وہاں بھی بڑے شہروں میں لوگ فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے مل جاتے ہیں۔ فٹ پاتھ پر سونے والوں میں رکشا چلانے والے ، بھکاری اور مزدور طبقہ لوگ زیادہ ہوتے ہیں جو موسم گرما میں خاص طور پر موسم کی حدت کے باعث فٹ پاتھ پر زیادہ نظر آتے ہیں۔ ویسے بحیثیت مجموعی بھارت میں مسلمان بھکاری کم نظر آتے ہیں جو خوش آئند بات ہے۔ بھارت میں کچی آبادیاں بھی بکثرت موجود ہیں۔ دہلی کے اندر چار JJکالونیز ہیں، یہ ’’ جھگی جھونپڑی ‘‘ کا مخفف ہے۔ حافظ محمد ادریس نے یہاں لقمہ دیا کہ اس کا نام ’’ جان جہاں ‘‘ کالونی رکھ لینا چاہیے۔ 
بھارت اور پاکستان میں اشیائے صرف کی قیمتوں کی بات چلی تو فرمانے لگے کہ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت کی نسبت پاکستان میں چیزیں زیادہ مہنگی ہیں ، مثال کے طور پر یہاں چھوٹا گوشت 200روپے کلو ہے جبکہ بھارت میں 120/-روپے میں مل جاتا ہے۔ مونگ پھلی کا یہاں میں نے ریٹ پوچھا تو 160 روپے کلو بتایا گیا جبکہ ہمارے ہاں 30-20روپے کلو میں اچھی مونگ پھلی مل جاتی ہے۔ گوشت کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے خصوصی طور پر یہ کہا کہ دوسرے مذہب کے لوگوں میں بھی گوشت کھانے کا رواج بڑھ رہا ہے۔
ایک صاحب نے بابری مسجد کے بارے میں سوال کیا تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ بحیثیت مجموعی بھارت میں مقفل مساجد بھی کھل رہی ہیں اور یہ اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم اور احسان ہے کہ اور اس ضمن میں اہل بہا رکا بہت زیادہ رول ہے۔ تبلیغی جماعت کے بارے میں کیے گئے سوا ل کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تبلیغی جماعت کے باعث بھی لوگوں کا مساجد کی طرف رجحان بڑھا ہے علاوہ ازیں انکی سرگرمیاں دین سکھانے کا باعث بھی ہیں مگر عملاً یہ غیر موثر جماعت شمار ہوتی ہے۔ غیر مسلموں میں کام کے بارے میں کسی نے پوچھا تو کہنے لگے کہ اس ضمن میں جماعت اسلامی کا کردار شاندار ہے۔ جماعت کی نصف صدی کی پالیسی اس بات پر شاہد ہے اور جماعت کا تما م لٹریچر بھارت کی تمام تر زبانوں میں ترجمہ ہو کر پھیل چکا ہے۔ ڈاکٹر عبد الحق صاحب کی معلومات اور تجربات اس قدر گوناگوں اور زبان اتنی شیریں تھی کہ جی چاہتا تھا کہ وہ بولتے جائیں اور ہم سنتے ر ہیں مگر وقت کی تنگ دامنی آڑے آرہی تھی، نصیر الدین ہمایوں اٹھے اور انہوں نے رسمی و روایتی الفاظ ادا کرنے کی بجائے تہہ دل سے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا۔حافظ محمد ادریس سے اختتامی کلمات کے لیے درخواست کی۔ 
حافظ محمد ادریس نے ڈاکٹر عبد الحق کی گفتگو کو سراہتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے جس انداز میں بھارت کے معاشرے اور مسلمانوں کی حالت کا تذکرہ کیا ہے، وہ انکی وسیع معلومات، گہرے مطالعہ و مشاہدہ اور وسیع تجربات کا غماز ہے۔ ان کی گفتگو سے بھارتی مسلمانوں کا جو احوال سامنے آتا ہے وہ بہت حوصلہ افزا ہے۔ ڈاکٹر عبد الحق نے فیض احمد فیض کی شاعری کا بھی ذکر کیا تھا، اس حوالے سے حافظ محمد ادریس نے بتایا کہ فیض احمد فیض کے بھتیجے امان اﷲ کے ساتھ میرا رابطہ ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ اپنی عمر کے آخری برسوں میں فیض مرحوم شعوری طورپر دین کی طرف مائل ہوگئے تھے انہوں نے اپنے گاؤں میں مسجد بھی تعمیر کی اور ایک مرتبہ امام مسجد سے درخواست کی کہ وہ خود نماز کی امامت کرانا چاہتے ہیں۔چنانچہ امام صاحب نے بخوشی ان کو اسکی اجازت دی۔چونکہ فیض کا بچپن دینی ماحول میں گزرا تھادین سے محبت ایک فطری بات تھی مگر بعد میں انگریز خاتون ایلس سے شادی اور اپنی اولاد کے سبب وہ دینی راستہ نہ اپنا سکے۔ یہ فیض کے اپنے گھر کے فرد کی شہادت ہے، جو قابل قبول ہے۔ دعا اس پروگرام کا آخری آئیٹم تھا۔