Wednesday, 20 February 2013

روشنی کا نقیب

| |
رنگ گندمی ،جسم گٹھا ہوا، قد میانہ ،سرپرسفید رنگ کی کلاہ ،ہاتھ میں عصا ،سفید شلوار قمیص میں ملبوس ،چک نمبر 18/11-Lکے رہائشی،خالص دیہاتی و سادہ انداز کے ساتھ جماعت کے کام میں سرگرداں و مگن ،علاقے میں جماعت کی پہچان و شناخت،عہد کے پابند،خُوکی دلنوازی سے آراستہ پُر کشش شخصیت کے مالک ،للٰہیت ،تقویٰ اور اﷲ پر کامل بھروسہ رکھنے والے یہ ہیں چوہدری بشیر احمد ،جن کو لوگ مولوی بشیر احمد کے نام سے جانتے ہیں ۔اقبال کے کتنے ہی اشعار کا چلتا پھرتا نمونہ تھے،
؂ اسکی امیدیں قلیل اسکے مقاصد جلیل
اسکی ادا دل فریب اسکی نگہ دلنواز
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم پاک دل و پاکباز
15سال تک امارتِ ضلع کی ذمہ داری نبھائی ، طویل عرصہ کسان بورڈ کے مرکزی صدر رہے ۔اس دوران مرکزی و صوبائی شوریٰ کے رکن بھی رہے ۔ گفتگو اتنی سادہ و پُرکشش ہوتی جی چاہتا کہ یہ بولتے جائیں اور ہم سنتے جائیں۔ چوہدری صاحب مرنجاں و مرنج شخصیت کے مالک انسان تھے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک اسلامی کا سرمایہ تھے جن کا خلا مدتوں پور انہ ہو سکے گا۔ مگر وہ اپنی مراد پاگئے۔ اور اپنا وقت بہت اچھے انداز میں گذار کر جان جانِ آفرین کے سپرد کر گئے۔
مجھے ان کے ساتھ باقاعدہ تعارف تو 1996ء میں ہوا انہیں دیکھا تو کتنی ہی مرتبہ تھا ۔ وہ ایک مثالی تحریکی کارکن ،اور قائد تھے۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ چلتی پھرتی جماعت اسلامی تھے تو بے جانہ ہوگا۔1996ء میں جب مجھے ساہیوال ڈویژن میں جمعیت کے کام کا ذمہ دار بنایا گیا تو چوہدری صاحب کے گاؤں 18/11-Lمیں حلقہ کارکنان کے پروگرامات میں شرکت کے لئے جانا ہوتا جہاں چوہدری صاحب کے نواسے برادرم نعمان عتیق اور پوتے برادرم مصعب توقیر سرگرمی کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ۔چوہدری صاحب ہمیشہ جمعیت کے کام کو سراہتے ، ہمارا حوصلہ بڑھاتے اور کہتے کہ جوانی میں اﷲ کے دین کے لئے نکلنا جہاں بہت بڑے اجرو ثواب کا باعث ہے وہیں یہ عمل اﷲ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نوجوانوں کوزندگی کے مقصد سے آشنا کرتی ہے اور راہِ راست کی جانب متوجہ کرتی ہے ۔ یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ کون کتنا کچھ حاصل کرتا ہے گویا ساقی کی عنایت توجاری ہے دامن اپنا اپنا ہے کون کتنا دامن بھر پاتا ہے ۔ اپنے دورہ کے موقع پرچوہدری صاحب کے ساتھ تفصیل کے ساتھ حالات حاضرہ پر گفتگو ہوئی اور ماضی کے جھرونکوں میں جھانکنے کی کوشش کرتے اور اس طرح ان سے بہت کچھ سیکھنے کا عمل جاری رہتا ۔جماعت میں شامل ہونے کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ 1932-33میں ترجمان القرآن کے مطالعہ کے ذریعے سید مودودیؒ سے متعارف ہوئے جنہوں نے اپنے لٹریچر میں ایک صالح جماعت کے قیام پر زور دیا تھا ۔ بس اسی سوچ نے ہم چند دوستوں کو اس جانب متوجہ کیا کہ ایک ایسی تنظیم بنائیں جو صالح ،نمازی،پرہیز گار اور اسلام کے اصولوں کے مطابق چلنے والے طلبہ پر مشتمل ہو۔ اس تنظیم میں ہم نے خود احتسابی کا نظام قائم کیا ۔ ہم روزانہ اپنا جائزہ لیتے ۔ ہمارے ساتھ شامل طلبہ کے سینما جانے پر پابندی تھی جبکہ دوسرے لوگ سینما دیکھنے جاتے تھے۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ بھی پیش آیا۔ ہوا یوں کہ زراعتی کالج کے پرنسپل پی لینڈر(P.Lander)تھے وہ ہمیں کمسٹری پڑھاتے تھے۔ اور اُن کی کلاس ظہر سے مغرب تک ہوتی اوراس دوران ہماری دونمازیں رہ جاتیں، وہ اگلے دن کلاس لے رہے تھے میں نے سوچا کہ آج ہی تو ہم نے نماز با جماعت اداکرنے کے بارے فیصلہ کیا ہے ۔ اگر میں کلاس میں رہا تو نماز رہ جائے گی۔ یہ سوچ کر میں نے تہیہ کر لیا کہ چاہے جو بھی ہوجائے نماز جماعت سے ادا کرونگا۔جونہی ان کا منہ بلیک بورڈ کی طرف ہوا میں خاموشی سے کلاس روم سے نکلا مگر انہوں نے دیکھ لیا اور انگریزی میں دریافت کیا کہ What is the Problem with you?میں نے جواب دیا کہ Sir,This is my prayer Timeمیر ی اس بات پر وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے تمام طلبہ کے لئے نمازِ عصر کا وقفہ کرادیا۔یہ دورِطالبعلمی کا واقعہ ایک واقعہ ہے اگر اسے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نوجاون کس نداز میں سوچتا ہے ، نیکی اور بھلائی کے کام جوانیہ سے ہی گویا ان کی گھٹی میں پڑے تھے زندگی کے آخری لمحات تک چوہدری صاحب اپنی نمازوں کے معاملے میں متحرک رہے وہ نوجوانوں اور بوڑھوں کے لئے قابلِ رشک ہے۔
وہ زراعتی کالج سے1960ء میں بی ایس سی آنرز کرنے کے بعد 1945ء میں باقاعدہ اور باضابطہ طور پر جماعت میں شامل 
ہوگئے ۔ ایک سال ملازمت بھی کی مگر سید مودودی سے مشورہ کیا ۔تو اس بارے میں انہوں نے کہا کہ انگریز کی نوکری حرام ہے ۔ چوہدری صاحب نے نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کیا ،اور جب انکے والد مرحوم کو پتہ چلا تو بہت ناراض ہوئے۔ عاق کردینے کی دھمکی بھی ملی۔کہتے ہیں میں نے اپنی اہلیہ سے مشورہ کیا اُ س نیک بخت نے کہا کہ میں ہر حال میں آپ کے ساتھ ہوں۔ اہلیہ کے اس جملے نے مجھے بڑا سہارا دیا گویا اچھی رفیقہ حیات ، نعمت خداوندی سے کم نہیں۔ اس دور میں میں نے پکوڑے بیچنے کا کام کیا۔نوکری چھوڑں کے جرم میں والدِ مرحوم نے گھر سے نکال دیا۔یہ دن بڑی مشکلات اور پریشانی میں بسر ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد ہم گھر واپس آگئے والدِ صاحب برداشت کر گئے، اسکے علاوہ وہ اور کیا کرسکتے تھے۔ اڑھائی مربع زمین ہماری تھی جبکہ اتنی ہی تایا کی! اس زمانے میں میں نے اپنے ایک دوست چوہدری محمد حسین کی وساطت سے تین مربع زمین ’’بھاڑے ‘‘پر حاصل کر لی۔کہ اگرمیں اس کو قابلِ کاشت بنادوں توآدھی زمین میری ہوگی اور آدھی آپ کی! اس ضمن میں والدمرحوم نے بہت تعاون کیا،اپنے نوکر بھی دیئے۔ میں دن کے گیارہ بجے تک کھیتوں میں کام کرتا اس کے بعد جماعت کا لٹریچر لے کر شہر میں چلاجاتا تاکہ لوگوں تک جماعت کا پیغام پہنچا ؤں۔ ایک مرتبہ کہیں والدِ محترم زمینوں پر دیکھنے گئے تو پتہ چلا کہ میں جماعت کے کام سے شہر گیا ہواہوں۔ بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ جماعت اسلامی کو چھوڑ دوورنہ تمہارا خرچہ پانی بند کردوں گا۔ اور ہوا بھی ایسے کہ والد صاحب نے واقعتا ہمارا خرچہ پانی بند کردیااور پھر ہماری حالت ایسی تھی کہ سالن میں ڈالنے کے لئے نمک تک خریدنے کی استطاعت نہ ہوتی۔ انہی دنوں میرے ایک دوست ہماری حالت دیکھ کر گندم کی چند بوریاں اور ایک بھینس دے گیا۔ میں نے اہلیہ کے ساتھ پروگرام بنایا کہ گھی بیچا کریں۔جب تھوڑا گھی جمع ہوجاتاتو کوئی نہ کوئی مہمان آجاتا جس سے ہمارا یہ پلان کامیاب نہ ہوسکا ۔ پھر خیال آیا کہ گھی کی بجائے دودھ بیچنے کاکام کیوں نہ کیا جائے پہلے دن میں نے پانچ سیر دودھ ایک گوالے کو فروخت کیا۔ اگلے دن گوالے نے دودھ لینے سے انکار کردیا تو میں خود دودھ لے کر شہر پہنچ گیا۔ مگر کوئی دودھ لینے والا نہ تھا۔ میرے ایک دوست عبدالرحمن نے کہا چوہدری صاحب کہاں پھِر رہے ہو؟میں نے سارا واقعہ سنایا تو کہنے لگے دودھ مجھے بیچ دیں ہم اس کو اپنے استعمال میں لے آئیں گے۔ اور اگر ہوسکے تو روزانہ دودھ ہمیں دے دیا کریں میں نے اﷲ کا شکر ادا کیا۔اور ان سے درخواست کی کہ اور گاہک بھی بنائیں میں دودھ لے آیا کروں گا۔ اس طرح کچھ عرصہ بعد ہی ڈھائی من دودھ کی کھپت ہونے لگی ۔اس زمانے میں دودھ 5آنہ سیر ہوتا تھا۔ اس طرح روزانہ 20-25روپے آمدن شروع ہوگئی۔میں آدھا دن دودھ بیچنے میں صرف کرتا اور باقی آدھا دن جماعت کے کام میں صرف کرتا۔
چوہدری صاحب جماعتی کام اور پروگرام کو کتنی ترجیح دیتے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ کسی ذاتی کام سے مانسہرہ گئے ہوئے تھے۔ وہاں زیادہ دن لگ گئے ، اس دوران ماہانہ اجتماع کا دن آگیا۔ لہٰذا چوہدری صاحب اپنا کام ادھورا چھوڑ کر صرف اجتماع میں شرکت کے لئے چیچہ وطنی پہنچے۔ اور اجتماع میں شرکت کر کے واپس مانسہرہ تشریف لے گئے۔ چوہدری صاحب نے جس سرگرمی ،لگن اور دلچسپی کے ساتھ جماعت کاکام کیا وہ ہم سب کے لئے روشن مثال ہے ۔ وہ جماعتی کام کو خالص دینی کام سمجھ کر انجام دیتے اور ذاتی کام پر جماعتی کام کو ترجیح دینے میں ان کا ثانی نہیں۔
چوہدری صاحب سے ایک مرتبہ میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ 15سال تک ضلع کے امیر رہے ہیں۔ضلع بھر میں مخیر و مؤثر افراد کے ساتھ رابطے بھی ہیں۔ اگر مناسب سمجھیں تو ایک دن ہمیں دیں تاکہ جمعیت کے لئے اعانت اکٹھی کرسکوں۔ چوہدری صاحب کی عمر اس وقت 80سال سے اوپر تھی مگر انہوں نے بخوشی وقت دے دیا۔ یہ سخت گرمی کے دن تھے مگر انہوں نے چیچا وطنی سے لے کر ہڑپہ اور پھر ساہیوال تک جس انداز میں میرا ساتھ دیا وہ ان کا ہی جگرا تھا۔ رات ہم نے دفتر ضلع میں قیام کیا اس موقع پر چوہدری صاحب نے اپنی زندگی کے کتنے ہی واقعات سنائے۔
مجھے چوہدری صاحب کی نمازِ جنازہ میں شرکت کابھی موقع ملا،وہ منظر بھی بڑا عجیب و غریب تھا ۔ جنازہ میں کتنے ہی لوگ تھے جن کی آنکھیں نم تھیں۔ بعض خاموش تھے مگران کا چہرہ ان کے حالِ دل کا آئینہ دار تھا۔ کہ وہ انکی جدائی کو کیسے برداشت کر رہے ہیں۔
چوہدری صاحب مرحوم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اُن کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے لئے قائدِ تحریک قاضی حسین احمد ان کے گاؤں تشریف لے گئے۔ اتنا بڑاجنازہ ، اتنے لوگ اور قائد تحریک کی امامت زبانِ خلق پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ جانے والا چلا گیا ہے مگر اپنے پیچھے وہ نقوشِ پا چھوڑ کر جا رہا ہے ۔ جس سے روشنی کا سفر جاری و ساری رہے گا۔اور جانے والے کی یاد تازہ ہوتی رہے گی۔