ایک تجویز میں گورنمنٹ سے بہاولپور کی صوبائی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جسے ایک نیا سرائیکی صوبہ بنانے سے آسان سمجھا جاتا ہے۔ مجوزہ منصوبے کے تحت نام نہاد سرائیکی بیلٹ کے اضلاع رحیم یار خان، بہاولپور، بہاولنگر کو بہاولپور کے انتظامی کنٹرول میں دے دیا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ لاہور اور اسلام آباد میں باخبر حلقوں کو ناقابل عمل اور احمقانہ محسوس ہو مگر یہ تجویز اس نقطہ نظر کی اندرونی سوچ کا ضرور پتہ دیتی ہے جو اتنی توجہ حاصل نہ کرسکا جس کا یہ مستحق تھا۔ کیونکہ زیادہ طاقتورحلقے جن ’’ بڑی وجوہات ‘‘ کی وکالت کرتے رہے ہیں ، وہی میڈیا پر حاوی ہیں۔
اس موضوع پر بحث کرنے کیلئے اس وقت تک کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ جب تک مایوسی اور گھبراہٹ میں کوئی کام کرنے کے عمل کی مزاحمت کی جائے اور نقطہ ہائے نظر کی ٹھوس بنیادیں ہوں۔ ہم نے ون یونٹ کا تجربہ مکمل گھبراہٹ کی حالت میں کیا تھا اور یوسی کی سطح تک غیر مرکزیت کا عمل بھی بہت گھبراہٹ میں اور ان بنیادی باتوں کو حل کیے بغیر جن کا ہمیں سامنا ہے کررہے ہیں۔ یہ چیز ہمارے آئندہ لائحہ عمل کو درست سمت دینے کیلئے کافی ہونی چاہئے۔
وہ بالکل صحیح کہتے ہیں کہ میڈیا یقیناً بہاولپور( سابقہ ریاست) کے لوگوں کی آواز کو نظر انداز کررہا ہے۔ یہاں کچھ حقائق ہیں جن پر میڈیا ، سول سوسائٹی، دانشوروں اور سیاسی قائدین کو توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بہاولپور کے لئے انصاف کے حصول میں مدد مل سکے۔
1۔ بہاولپور سب سے بڑی (480کلو میٹر لمبی اور 20000مربع کلومیٹر پر محیط) اور امیر ترین مسلم ریاست تھی۔ جس نے پاکستان کے ساتھ اپنے غیر مشروط الحاق کا اعلان کیا۔
2۔ آج بہاولپور کا علاقہO UNکے بہت سے ممالک کے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بڑا ہے۔
3۔ قائد اعظم اور سر صاد ق پنجم ذاتی دوست تھے۔ قائد اعظم اور فاطمہ جناح کراچی میں امیر آف بہاولپور کے القمر محل میں 1947ء سے پہلے کچھ عرصہ ٹھہرے تھے۔
4۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی حکومت نے نواب آف بہاولپور کو 52000پاؤنڈ (520000لاکھ روپے) کا چیک دیا۔ سر صادق نے یہ رقم قائد اعظم کوقیام پاکستان کی جدوجہد کے لیے ہدیہ کردی۔
5۔ 1946ء میں امیر آف بہاولپور کی کوششوں سے کراچی میں عباسی خاندان کے محل’’ القمر واقع ملیر کراچی‘‘ میں بلوچستان کے سرداروں ، شاہی جرگہ کے ارکان اور میونسپل کمیٹی کوئٹہ کے ممبران نے قائد اعظم کے ساتھ ایک ملاقات کی ، جس میں انہوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔
6۔ قائد اعظم 7۔اگست کو دہلی سے کراچی پہنچے۔ فاطمہ جناح ان کے ساتھ تھیں۔ قائد اعظم نے 12اگست کوالقمر محل کا دورہ کیا اور بہاولپور کی فورسز نے فرسٹ انفنٹری کے قیام سے پہلے قائد اعظم کو گارڈ آف آنر اور شاہی سیلوٹ پیش کی۔
7۔ بر صغیر کی تقسیم کے بعد 3۔اکتوبر 1947ء تک بہاولپور ایک آزاد ریاست رہی۔
8۔ امیر آف بہاولپور علی گڑھ یونیورسٹی کی میٹنگ اٹینڈ کرتے تھے۔ اور برصغیر کے مسلمانوں کی تعلیم اور فلاح و بہبود کے لیے فراخ دلی سے رقم دیتے تھے۔
9۔ قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کو ریاست آف بہاولپور سے وظیفہ ملتا تھا۔
10۔ علامہ اقبال کو ریاست کی طرف سے مالی امداد دی گئی۔ علامہ اقبال نے نواب صاحب کی توجہ لاہور کے تعلیمی اداروں کی طرف دلوائی ، جس کو ریاست نے قبول کرلیا۔
11۔ جب گوشت صرف چا رآنے کلو تھا۔ ( ایک روپے میں 16آنے ہوتے تھے) نواب آف بہاولپور درج ذیل تنظیموں کو معقول رقم دیتے تھے۔
۱۔ کنگ ایڈورڈ ایجوکیشن فنڈ 150000روپے
۲۔ اسلامیہ کالج لاہور 30000روپے
۳۔ انجمن حمایت اسلام 107000روپے
۴۔ ایچ ای سن کالج اور پنجاب یونیورسٹی 14000روپے
۵۔ انجمن ہلال احمر 14000روپے
۶۔ پنجاب مینٹل ہسپتال 500 روپے
12۔ نواب آف بہاولپور نے اپنی ذاتی جائیداد پنجاب یونیورسٹی کو تحفے میں دے دی جہاں آجکل سینٹ ہال ہے۔
13۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (بہاولپور بلاک) کا آدھا حصہ نواب آف بہاولپور صادق عباسی نے دیا اور ایچ ای سن کالج کی مسجد بھی انہوں نے بنائی۔
14۔ پاکستان 14۔اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا۔ نواب آف بہالپور کی کار رولز رائس (BWP-72)قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے گورنرجنرل کی حیثیت سے حلف اٹھانے اور گارڈ آف آنر کا معائنہ کرنے کے لیے ،لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ استعمال کی۔
15۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پاکستان کے خزانے میں 10کروڑ روپے نواب آف بہاولپور نے دیئے ۔ ابتدائی سالوں میں ریاست بہاولپور نے پورے پاکستان کے گورنمنٹ ملازمین کو پہلے ماہ کی تنخواہیں دیں۔
16۔ صادق عباسی نے سلیمانکی ، اسلام ، پنجندکے ہیڈورکس ، ستلج ویلی پراجیکٹ کے تحت بنوائے اور پورے بر صغیر سے لوگوں کو وہاں آباد ہونے کی دعوت دی۔
17۔ ۱۸ اگست ۱۹۴۷ء کو عیدالفطر کے موقع پر نواب مشتاق احمد گورمانی وزیر اعظم بہاولپور نے اپنے عوامی خطاب میں کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے برصغیر کے مسلمانوں کو اپنا علیحدہ گھر دیا۔ مزید کہا کہ ریاست بہاولپور پاکستان کا دل ہے۔
18۔ بہاولپور نے 3۔اکتوبر کو سرکاری طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ اور ایک لاکھ سے زیادہ مہاجرین اپنی ریاست میں آباد کیے اور وزیر اعظم کے ریلیف فنڈ میں 500000روپے دیے۔
19۔ انڈیا نے بہاولپور کو سزادینے کے لیے فیروز پورہیڈ ورکس کے ذریعے دریائے ستلج کا پانی روک لیا۔
20۔ جون1948میں سٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں قائداعظم نے نواب صاحب کی شاہی بگھی استعمال کی۔
21۔ 1945ء میں بہاولپور کی افواج کو افواج پاکستان میں ضم کر دیا گیا ۔سر صادق نے مزید دوکروڑ روپے پاکستان کے خزانے میں جمع کرائے۔
22۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد امیر آف بہاولپور نے القمر اور الشمس محلات کے درمیان واقع12ایکڑ پر محیط باغ فاطمہ جناح کو تحفے میں دے دیا۔
23۔ جنرل ایوب خان نے ستلج ویلی کا پانی سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیچ دیا۔
24۔ 30اپریل،1951ء کو بہاول پور کو صوبے کا درجہ دے دیا گیا۔یہ معاہدہ سر صادق اور خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل آف پاکستان کے درمیان29اپریل کو کیا گیا۔ڈیرہ نواب میں صادق گڑھ محل میں دستخط ہوئے۔اس معاہدے کی تصدیق ڈاکٹر محمود حسن وزیر ریاستی امور نے کی۔ تمام قومی اخبارات نے صفحہ اول پر بڑی سرخی لگائی۔’’بہاول پور کو صوبے کا درجہ دے دیا گیا۔‘‘ بہاول پور کو یہ حق انڈیا ایکٹ1935ء کے تحت دیا گیا جو کہ دوسرے صوبوں میں بھی لاگو ہوتا تھا۔
25۔ اس وقت آزادانہ غیر جانبدارانہ الیکشن کے نتیجے میں49ممبران صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔1912ء میں اسمبلی بنی اسے عام قانون سازی کی پاورز حاصل تھیں۔اس اسمبلی نے ون یونٹ کے بننے تک کام کیا اور بہاول پور ریاست اور انتظامی امور کو مغربی پاکستان میں ضم کر دیا گیاجو کہ اس وقت ایک صوبے کے طور پر کام کر رہا تھا۔
26۔ مخدوم حسن محمود اس وقت وزیر اعلیٰ تھے۔جو کہ موجودہPMF پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کے والد تھے۔
27۔ چوہدری فرزند علی ایڈووکیٹ سپیکر تھے۔چوہدری بشیر احمد (طارق بشیر چیمہ ،ضلعی ناظم بہاولپور کے والد)ڈپٹی سپیکر تھے۔
28۔ مارچ25،1955کو مسٹر اے بی خان ایڈوائزر ٹو نواب صاحب نے بہاولپور ریاست کا فاضل بجٹ پیش کیا اور یہ بجٹ تمام صو بوں بشمول مشرقی پاکستان سے زیادہ فاضل بجٹ تھا۔
29۔ امیر آف بہاولپور شاہی خاندان اور بہاولپور،بہاولنگر اور رحیم یار خان کے لوگوں کی عام قربانیوں کا کیسا صلہ دیا گیا ہے؟
30۔ احتجاج کے طور پر میاں ناظم الدین صدر اور مخدوم نور محمد قریشی نے1973ء کے آئین پر دستخط نہ کئے اور پارلیمنٹ میں بہاولپور کے صوبے کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
31۔ 1970ء میں بہاول پور کے لوگوں نے متحدہ محاذکے امیدواروں کے حق میں ووٹ دیے اور پیپلز پارٹی کو شکست دی اور مسٹر بھٹو کو کہا کہ انصاف سے کام کریں۔تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز نے صوبہ کو بحال کرنے کے کاغذات پر دستخط کئے۔
32۔ چیف جسٹس آف پاکستان نسیم حسن شاہ نے24مئی1996ء کو بالکل واضح طور پر کہا کہ بہاولپور کے پاکستان میں ضم ہوتے وقت کئے گئے معاہدوں کے مطابق بہاولپور کو علیحدہ صوبہ بنانا چاہئے۔
33۔ جہاں تک اس معاملے میں سیاسی پارٹیوں کے نقطہ نظر کا تعلق ہے توجماعت اسلامی کے مولانا مودودیؒ نے1969 میں مطالبہ کیا کہ بہاول پور کو علیحدہ صوبہ بنانا چاہئے۔تحریک استقلال نے اس کی مکمل حمایت کی۔پیپلز پارٹی نے اس کی بحالی کی1970ء میں حمایت نہ کی۔مسلم لیگ (ن) اور ق نے کسی واضح موقف کا اظہار نہیں کیا۔ تحریک انصاف نے بھی واضح پالیسی کا اظہار نہیں کیا۔
34۔ سرائیکی، پنجابی، مہاجر اور اردو بولنے والے جہاں مکمل یک جہتی اور مفاہمت سے رہ رہے ہیں۔بہاول پور کی صوبہ بحالی کا معاملہ اب بھی زندہ ہے جس کی بنیاد ٹھوس وجوہات اور عقلی دلائل پر اور سب سے بڑھ کر پنجاب سے علیحدہ تاریخ پر ہے۔سر محمد صادق عباسی کی خدمات کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا جانا چاہئے اور24مئی کو ان کی برسی کے موقع پر قومی تعطیل کا اعلان کرنا چاہئے۔
35۔ اس لئے اب وقت ہے کہ میڈیا،سول سوسائٹی اور سیاسی لیڈروں کو آگے آنا چاہئے اور اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے حقائق اور انصاف کو پروان چڑھانا چاہئے۔
نوٹ:۔ یہ مضمون، روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے اشعر رحمان کے مضمون ’’ ملتان ایک اور ملک ہے‘‘کے ترجمہ پر مشتمل ہے۔
اس موضوع پر بحث کرنے کیلئے اس وقت تک کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ جب تک مایوسی اور گھبراہٹ میں کوئی کام کرنے کے عمل کی مزاحمت کی جائے اور نقطہ ہائے نظر کی ٹھوس بنیادیں ہوں۔ ہم نے ون یونٹ کا تجربہ مکمل گھبراہٹ کی حالت میں کیا تھا اور یوسی کی سطح تک غیر مرکزیت کا عمل بھی بہت گھبراہٹ میں اور ان بنیادی باتوں کو حل کیے بغیر جن کا ہمیں سامنا ہے کررہے ہیں۔ یہ چیز ہمارے آئندہ لائحہ عمل کو درست سمت دینے کیلئے کافی ہونی چاہئے۔
وہ بالکل صحیح کہتے ہیں کہ میڈیا یقیناً بہاولپور( سابقہ ریاست) کے لوگوں کی آواز کو نظر انداز کررہا ہے۔ یہاں کچھ حقائق ہیں جن پر میڈیا ، سول سوسائٹی، دانشوروں اور سیاسی قائدین کو توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بہاولپور کے لئے انصاف کے حصول میں مدد مل سکے۔
1۔ بہاولپور سب سے بڑی (480کلو میٹر لمبی اور 20000مربع کلومیٹر پر محیط) اور امیر ترین مسلم ریاست تھی۔ جس نے پاکستان کے ساتھ اپنے غیر مشروط الحاق کا اعلان کیا۔
2۔ آج بہاولپور کا علاقہO UNکے بہت سے ممالک کے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بڑا ہے۔
3۔ قائد اعظم اور سر صاد ق پنجم ذاتی دوست تھے۔ قائد اعظم اور فاطمہ جناح کراچی میں امیر آف بہاولپور کے القمر محل میں 1947ء سے پہلے کچھ عرصہ ٹھہرے تھے۔
4۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی حکومت نے نواب آف بہاولپور کو 52000پاؤنڈ (520000لاکھ روپے) کا چیک دیا۔ سر صادق نے یہ رقم قائد اعظم کوقیام پاکستان کی جدوجہد کے لیے ہدیہ کردی۔
5۔ 1946ء میں امیر آف بہاولپور کی کوششوں سے کراچی میں عباسی خاندان کے محل’’ القمر واقع ملیر کراچی‘‘ میں بلوچستان کے سرداروں ، شاہی جرگہ کے ارکان اور میونسپل کمیٹی کوئٹہ کے ممبران نے قائد اعظم کے ساتھ ایک ملاقات کی ، جس میں انہوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔
6۔ قائد اعظم 7۔اگست کو دہلی سے کراچی پہنچے۔ فاطمہ جناح ان کے ساتھ تھیں۔ قائد اعظم نے 12اگست کوالقمر محل کا دورہ کیا اور بہاولپور کی فورسز نے فرسٹ انفنٹری کے قیام سے پہلے قائد اعظم کو گارڈ آف آنر اور شاہی سیلوٹ پیش کی۔
7۔ بر صغیر کی تقسیم کے بعد 3۔اکتوبر 1947ء تک بہاولپور ایک آزاد ریاست رہی۔
8۔ امیر آف بہاولپور علی گڑھ یونیورسٹی کی میٹنگ اٹینڈ کرتے تھے۔ اور برصغیر کے مسلمانوں کی تعلیم اور فلاح و بہبود کے لیے فراخ دلی سے رقم دیتے تھے۔
9۔ قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کو ریاست آف بہاولپور سے وظیفہ ملتا تھا۔
10۔ علامہ اقبال کو ریاست کی طرف سے مالی امداد دی گئی۔ علامہ اقبال نے نواب صاحب کی توجہ لاہور کے تعلیمی اداروں کی طرف دلوائی ، جس کو ریاست نے قبول کرلیا۔
11۔ جب گوشت صرف چا رآنے کلو تھا۔ ( ایک روپے میں 16آنے ہوتے تھے) نواب آف بہاولپور درج ذیل تنظیموں کو معقول رقم دیتے تھے۔
۱۔ کنگ ایڈورڈ ایجوکیشن فنڈ 150000روپے
۲۔ اسلامیہ کالج لاہور 30000روپے
۳۔ انجمن حمایت اسلام 107000روپے
۴۔ ایچ ای سن کالج اور پنجاب یونیورسٹی 14000روپے
۵۔ انجمن ہلال احمر 14000روپے
۶۔ پنجاب مینٹل ہسپتال 500 روپے
12۔ نواب آف بہاولپور نے اپنی ذاتی جائیداد پنجاب یونیورسٹی کو تحفے میں دے دی جہاں آجکل سینٹ ہال ہے۔
13۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (بہاولپور بلاک) کا آدھا حصہ نواب آف بہاولپور صادق عباسی نے دیا اور ایچ ای سن کالج کی مسجد بھی انہوں نے بنائی۔
14۔ پاکستان 14۔اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا۔ نواب آف بہالپور کی کار رولز رائس (BWP-72)قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے گورنرجنرل کی حیثیت سے حلف اٹھانے اور گارڈ آف آنر کا معائنہ کرنے کے لیے ،لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ استعمال کی۔
15۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پاکستان کے خزانے میں 10کروڑ روپے نواب آف بہاولپور نے دیئے ۔ ابتدائی سالوں میں ریاست بہاولپور نے پورے پاکستان کے گورنمنٹ ملازمین کو پہلے ماہ کی تنخواہیں دیں۔
16۔ صادق عباسی نے سلیمانکی ، اسلام ، پنجندکے ہیڈورکس ، ستلج ویلی پراجیکٹ کے تحت بنوائے اور پورے بر صغیر سے لوگوں کو وہاں آباد ہونے کی دعوت دی۔
17۔ ۱۸ اگست ۱۹۴۷ء کو عیدالفطر کے موقع پر نواب مشتاق احمد گورمانی وزیر اعظم بہاولپور نے اپنے عوامی خطاب میں کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے برصغیر کے مسلمانوں کو اپنا علیحدہ گھر دیا۔ مزید کہا کہ ریاست بہاولپور پاکستان کا دل ہے۔
18۔ بہاولپور نے 3۔اکتوبر کو سرکاری طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ اور ایک لاکھ سے زیادہ مہاجرین اپنی ریاست میں آباد کیے اور وزیر اعظم کے ریلیف فنڈ میں 500000روپے دیے۔
19۔ انڈیا نے بہاولپور کو سزادینے کے لیے فیروز پورہیڈ ورکس کے ذریعے دریائے ستلج کا پانی روک لیا۔
20۔ جون1948میں سٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں قائداعظم نے نواب صاحب کی شاہی بگھی استعمال کی۔
21۔ 1945ء میں بہاولپور کی افواج کو افواج پاکستان میں ضم کر دیا گیا ۔سر صادق نے مزید دوکروڑ روپے پاکستان کے خزانے میں جمع کرائے۔
22۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد امیر آف بہاولپور نے القمر اور الشمس محلات کے درمیان واقع12ایکڑ پر محیط باغ فاطمہ جناح کو تحفے میں دے دیا۔
23۔ جنرل ایوب خان نے ستلج ویلی کا پانی سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیچ دیا۔
24۔ 30اپریل،1951ء کو بہاول پور کو صوبے کا درجہ دے دیا گیا۔یہ معاہدہ سر صادق اور خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل آف پاکستان کے درمیان29اپریل کو کیا گیا۔ڈیرہ نواب میں صادق گڑھ محل میں دستخط ہوئے۔اس معاہدے کی تصدیق ڈاکٹر محمود حسن وزیر ریاستی امور نے کی۔ تمام قومی اخبارات نے صفحہ اول پر بڑی سرخی لگائی۔’’بہاول پور کو صوبے کا درجہ دے دیا گیا۔‘‘ بہاول پور کو یہ حق انڈیا ایکٹ1935ء کے تحت دیا گیا جو کہ دوسرے صوبوں میں بھی لاگو ہوتا تھا۔
25۔ اس وقت آزادانہ غیر جانبدارانہ الیکشن کے نتیجے میں49ممبران صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔1912ء میں اسمبلی بنی اسے عام قانون سازی کی پاورز حاصل تھیں۔اس اسمبلی نے ون یونٹ کے بننے تک کام کیا اور بہاول پور ریاست اور انتظامی امور کو مغربی پاکستان میں ضم کر دیا گیاجو کہ اس وقت ایک صوبے کے طور پر کام کر رہا تھا۔
26۔ مخدوم حسن محمود اس وقت وزیر اعلیٰ تھے۔جو کہ موجودہPMF پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کے والد تھے۔
27۔ چوہدری فرزند علی ایڈووکیٹ سپیکر تھے۔چوہدری بشیر احمد (طارق بشیر چیمہ ،ضلعی ناظم بہاولپور کے والد)ڈپٹی سپیکر تھے۔
28۔ مارچ25،1955کو مسٹر اے بی خان ایڈوائزر ٹو نواب صاحب نے بہاولپور ریاست کا فاضل بجٹ پیش کیا اور یہ بجٹ تمام صو بوں بشمول مشرقی پاکستان سے زیادہ فاضل بجٹ تھا۔
29۔ امیر آف بہاولپور شاہی خاندان اور بہاولپور،بہاولنگر اور رحیم یار خان کے لوگوں کی عام قربانیوں کا کیسا صلہ دیا گیا ہے؟
30۔ احتجاج کے طور پر میاں ناظم الدین صدر اور مخدوم نور محمد قریشی نے1973ء کے آئین پر دستخط نہ کئے اور پارلیمنٹ میں بہاولپور کے صوبے کی بحالی کا مطالبہ کیا۔
31۔ 1970ء میں بہاول پور کے لوگوں نے متحدہ محاذکے امیدواروں کے حق میں ووٹ دیے اور پیپلز پارٹی کو شکست دی اور مسٹر بھٹو کو کہا کہ انصاف سے کام کریں۔تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز نے صوبہ کو بحال کرنے کے کاغذات پر دستخط کئے۔
32۔ چیف جسٹس آف پاکستان نسیم حسن شاہ نے24مئی1996ء کو بالکل واضح طور پر کہا کہ بہاولپور کے پاکستان میں ضم ہوتے وقت کئے گئے معاہدوں کے مطابق بہاولپور کو علیحدہ صوبہ بنانا چاہئے۔
33۔ جہاں تک اس معاملے میں سیاسی پارٹیوں کے نقطہ نظر کا تعلق ہے توجماعت اسلامی کے مولانا مودودیؒ نے1969 میں مطالبہ کیا کہ بہاول پور کو علیحدہ صوبہ بنانا چاہئے۔تحریک استقلال نے اس کی مکمل حمایت کی۔پیپلز پارٹی نے اس کی بحالی کی1970ء میں حمایت نہ کی۔مسلم لیگ (ن) اور ق نے کسی واضح موقف کا اظہار نہیں کیا۔ تحریک انصاف نے بھی واضح پالیسی کا اظہار نہیں کیا۔
34۔ سرائیکی، پنجابی، مہاجر اور اردو بولنے والے جہاں مکمل یک جہتی اور مفاہمت سے رہ رہے ہیں۔بہاول پور کی صوبہ بحالی کا معاملہ اب بھی زندہ ہے جس کی بنیاد ٹھوس وجوہات اور عقلی دلائل پر اور سب سے بڑھ کر پنجاب سے علیحدہ تاریخ پر ہے۔سر محمد صادق عباسی کی خدمات کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا جانا چاہئے اور24مئی کو ان کی برسی کے موقع پر قومی تعطیل کا اعلان کرنا چاہئے۔
35۔ اس لئے اب وقت ہے کہ میڈیا،سول سوسائٹی اور سیاسی لیڈروں کو آگے آنا چاہئے اور اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے حقائق اور انصاف کو پروان چڑھانا چاہئے۔
نوٹ:۔ یہ مضمون، روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے اشعر رحمان کے مضمون ’’ ملتان ایک اور ملک ہے‘‘کے ترجمہ پر مشتمل ہے۔